صدقۂ فطر کابیان

صدقہ فطر کا بیان

مسئلہ ۱: صدقہ فطر واجب ہے، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا کر دینا ہے۔ [1] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲: صدقہ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں، لہٰذا مر گیا تو اس کے مال سے ادا نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہوسکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں اور اگر وصیّت کر گیا ہے تو تہائی مال سے ضرور ادا کیا جائے گا اگرچہ ورثہ اجازت نہ دیں۔ [2] (جوہرہ وغیرہ)

مسئلہ ۳: عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہوگیا یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب نہ ہوا اور اگر صبح طلوع ہونے کے بعد مرا یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب ہے۔ [3] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالکِ نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے۔ اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں۔ [4] (درمختار) مال نامی اور حاجت اصلیہ کا بیان گزر چکا، اس کی صورتیں وہیں سے معلوم کریں۔

مسئلہ ۵: نابالغ یا مجنون اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر صدقہ فطر واجب ہے، اُن کا ولی اُن کے مال سے ادا کرے، اگر ولی نے ادا نہ کیا اور نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کر دیں اور اگر خود مالکِ نصاب نہ تھے اور ولی نے ادا نہ کیا تو بالغ ہونے یا ہوش میں آنے پر اُن کے ذمہ ادا کرنا نہیں۔[5] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶: صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے مال کا باقی رہنا بھی شرط نہیں، مال ہلاک ہونے کے بعد بھی صدقہ واجب رہے گا ساقط نہ ہوگا، بخلاف زکاۃ و عشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتے ہیں۔ [6] (درمختار)

مسئلہ ۷: مردمالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے، جبکہ بچہ خود مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ اس کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے اور مجنون اولاد اگرچہ بالغ ہو جبکہ غنی نہ ہو تو اُس کا صدقہ اُس کے باپ پر واجب ہے اور غنی ہو تو خود اس کے مال سے ادا کیا جائے، جنون خواہ اصلی ہو یعنی اسی حالت میں بالغ ہوا یا بعد کو عارض ہوا دونوں کاایک حکم ہے۔[7](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۸: صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے روزہ رکھنا شرط نہیں، اگر کسی عذر، سفر، مرض، بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذ اﷲ بلاعذر روزہ نہ رکھا جب بھی واجب ہے۔ [8] (ردالمحتار)

مسئلہ ۹: نابالغ لڑکی جو اس قابل ہے کہ شوہر کی خدمت کر سکے اس کا نکاح کر دیا اور شوہر کے یہاں اُسے بھیج بھی دیا تو کسی پر اس کی طرف سے صدقہ واجب نہیں، نہ شوہر پر نہ باپ پر اور اگر قابل خدمت نہیں یا شوہر کے یہاں اُسے بھیجا نہیں تو بدستور باپ پر ہے پھر یہ سب اس وقت ہے کہ لڑکی خود مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ بہرحال اُس کا صدقہ فطر اس کے مال سے ادا کیا جائے۔[9](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: باپ نہ ہو تو دادا باپ کی جگہ ہے یعنی اپنے فقیر و یتیم پوتے پوتی کی طرف سے اس پر صدقہ دینا واجب ہے۔[10](درمختار)

مسئلہ ۱۱: ماں پراپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ دینا واجب نہیں۔ [11] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: خدمت کے غلام اور مدبر و ام ولد کی طرف سے ان کے مالک پر صدقہ فطر واجب ہے، اگرچہ غلام مدیُون ہو، اگرچہ دَین میں مستغرق ہو اور اگر غلام گروی ہو اور مالک کے پاس حاجتِ اصلیہ کے سوا اتنا ہوکہ دَین ادا کر دے اور پھر نصاب کا مالک رہے تو مالک پر اُس کی طرف سے بھی صدقہ واجب ہے۔ [12] (درمختار، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۱۳: تجارت کے غلام کا فطرہ مالک پرواجب نہیں اگرچہ اس کی قیمت بقدرِ نصاب نہ ہو۔ [13] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: غلام عاریۃً [14]دے دیا یا کسی کے پاس امانۃً رکھا تو مالک پر فطرہ واجب ہے اور اگر یہ وصیت کر گیا کہ یہ غلام فلاں کا کام کرے اور میرے بعد اس کا مالک فلاں ہے تو فطرہ مالک پر ہے، اُس پر نہیں جس کے قبضہ میں ہے۔ [15] (درمختار)

مسئلہ ۱۵: بھاگا ہوا غلام اور وہ جسے حربیوں نے قید کر لیا ان کی طرف سے صدقہ مالک پر نہیں۔ یوہیں اگر کسی نے غصب کر لیا اور غاصب انکار کرتا ہے اور اس کے پاس گواہ نہیں تو اس کا فطرہ بھی واجب نہیں، مگر جب کہ واپس مل جائیں تو اب ان کی طرف سے سالہائے گزشتہ کا فطرہ دے، مگر حربی اگر غلام کے مالک ہوگئے تو واپسی کے بعد بھی اس کا فطرہ نہیں۔[16] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: مکاتب کا فطرہ نہ مکاتب پر ہے، نہ اس کے مالک پر۔ یوہیں مکاتب اور ماذُون کے غلام کا اور مکاتب اگر بدلِ کتابت ادا کرنے سے عاجز آیا تو مالک پر سالہائے گزشتہ کا فطرہ نہیں۔ [17] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۷: دو یا چند شخصوں میں غلام مشترک ہے تو اُس کا فطرہ کسی پر نہیں۔[18] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۸: غلام بیچ ڈالا اور بائع یا مشتری یا دونوں نے واپسی کا اختیار رکھا عیدالفطر آگئی اور میعاد اختیار ختم نہ ہوئی تو اُس کا فطرہ موقوف ہے، اگر بیع قائم رہی تومشتری دے ورنہ بائع۔ [19] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۹: اگر مشتری نے خیار عیب یا خیار رویت کے سبب واپس کیا تو اگر قبضہ کر لیا تھا تو مشتری پر ہے، ورنہ بائع پر۔[20](عالمگیری)

مسئلہ ۲۰: غلام کو بیچا مگر وہ بیع فاسد ہوئی اور مشتری نے قبضہ کر کے واپس کر دیا یا عید کے بعد قبضہ کر کے آزاد کر دیا تو بائع پر ہے اور اگر عید سے پہلے قبضہ کیا اور بعد عید آزاد کیا تو مشتری پر۔ [21] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۱: مالک نے غلام سے کہا جب عید کا دن آئے تو آزاد ہے۔ عید کے دن غلام آزاد ہو جائے گا اور مالک پر اس کا فطرہ واجب۔ [22] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۲: اپنی عورت اور اولاد عاقل بالغ کا فطرہ اُس کے ذمہ نہیں اگرچہ اپاہج ہو، اگرچہ اس کے نفقات اس کے ذمہ ہوں۔[23](درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲۳: عورت یا بالغ اولاد کا فطرہ ان کے بغیر اِذن ادا کر دیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ اولاد اس کے عیال میں ہو یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اُس کے ذمہ ہو، ورنہ اولاد کی طرف سے بلا اِذن [24]ادا نہ ہوگا اور عورت نے اگر شوہر کا فطرہ بغیر حکم ادا کر دیا ادا نہ ہوا۔[25](عالمگیری، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۲۴: ماں باپ، دادا دادی، نابالغ بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا فطرہ اس کے ذمہ نہیں اور بغیر حکم ادا بھی نہیں کرسکتا۔[26](عالمگیری، جوہرہ)

مسئلہ ۲۵: صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے گیہوں یا اس کا آٹا یا ستّو نصف صاع، کھجور یا منقے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو ایک صاع۔[27](درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۲۶: گیہوں، جَو، کھجوریں، منقے دیے جائیں تو ان کی قیمت کا اعتبار نہیں، مثلاً نصف صاع عمدہ جَو جن کی قیمت ایک صاع جَو کے برابر ہے یا چہارم صاع کھرے گیہوں جو قیمت میں آدھے صاع گیہوں کے برابر ہیں یا نصف صاع کھجوریں دیں جو ایک صاع جَو یا نصف صاع گیہوں کی قیمت کی ہوں یہ سب ناجائز ہے جتنا دیا اُتنا ہی ادا ہوا، باقی اس کے ذمہ باقی ہے ادا کرے۔ [28] (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۲۷: نصف صاع جَو اور چہارم صاع گیہوں دیے یا نصف صاع جَو اور نصف صاع کھجور تو بھی جائز ہے۔ [29] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸: گیہوں اور جَو ملے ہوئے ہوں اور گیہوں زیادہ ہیں تو نصف صاع دے ورنہ ایک صاع۔ [30] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۹: گیہوں اور جَو کے دینے سے اُن کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ کہ قیمت دیدے، خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر گرانی میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے اور اگر خراب گیہوں یا جَو کی قیمت دی تو اچھے کی قیمت سے جو کمی پڑے پوری کرے۔[31] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو۔ [32] (درمختار، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۳۱: اعلیٰ درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے، کہ صاع کا وزن تین سو اکاون ۳۵۱ روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک سو پچھتر ۱۷۵ روپے اٹھنی بھر اوپر۔[33] (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۳۲: فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جب کہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا پھر ہوگیا تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔[34] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۳۳: ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اور چند مساکین کو دے دیا جب بھی جائز ہے۔ یوہیں ایک مسکین کو چند شخصوں کا فطرہ دینا بھی بلاخلاف جائز ہے اگرچہ سب فطرے ملے ہوئے ہوں۔[35] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۴: شوہر نے عورت کو اپنا فطرہ ادا کرنے کا حکم دیا، اُس نے شوہر کے فطرہ کے گیہوں اپنے فطرہ کے گیہووں میں ملا کر فقیر کو دے دیے اور شوہر نے ملانے کا حکم نہ دیا تھا تو عورت کا فطرہ ادا ہوگیا شوہر کا نہیں مگر جب کہ ملا دینے پر عرف جاری ہو تو شوہر کا بھی ادا ہو جائے گا۔ [36] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۵: عورت نے شوہر کو اپنا فطرہ ادا کرنے کا اذن دیا، اس نے عورت کے گیہوں اپنے گیہووں میں ملا کر سب کی نیّت سے فقیر کو دے دیے جائز ہے۔ [37] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۶: صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں، انھیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنھیں زکاۃ نہیں دے سکتے، انھیں فطرہ بھی نہیں سوا عامل کے کہ اس کے لیے زکاۃ ہے فطرہ نہیں۔[38] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۷: اپنے غلام کی عورت کو فطرہ دے سکتے ہیں، اگرچہ اُس کا نفقہ اُسی پر ہو۔[39] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۳۵ تا ۹۴۰)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲، وغیرہ.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ص۱۷۴، وغیرہ.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲ ۔ ۳۶۵.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۵.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۶.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۷.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۷.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۹. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲، وغیرہما.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۹.

[14] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ادھار۔

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۹.

[16] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۷۰.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳.

[18] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳.

[20] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[21] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[22] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۰، وغیرہ.

[24] ۔۔۔۔۔۔ یعنی بغیر اجازت۔

[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳. و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۰، وغیرہما.

[26] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳.

[27] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۹۱، و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۲.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲، وغیرہ.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲.

[30] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۳.

[31] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۷۶، و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۱ ۔ ۱۹۲.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، المرجع السابق، ص۱۹۱، و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۳، وغیرہما.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۰، ص۲۹۵.

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۶. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، مطلب في مقدار الفطرۃ بالمد الشامی، ج۳، ص۳۷۷.

[36] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۷۸.

[37] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''،

[38] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، مطلب في مقدار الفطرۃ بالمد الشامی، ج۳، ص۳۷۹.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۸۰.

Share

Comments


Security Code