روزہ کے مکروہات کا بیان

روزہ کے مکروہات کا بیان

مسئلہ ۱: جھوٹ، چغلی، غیبت، گالی دینا، بیہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں روزہ میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ میں کراہت آتی ہے۔

مسئلہ ۲: روزہ دار کو بلاعذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔ چکھنے کے لیے عذر یہ ہے کہ مثلاً عورت کا شوہر یا باندی غلام کا آقا بدمزاج ہے کہ نمک کم و بیش ہوگا تو اس کی ناراضی کا باعث ہوگا اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں، چبانے کے لیے یہ عذر ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جائے، نہ حیض و نفاس والی یا کوئی اور بے روزہ ایسا ہے جو اُسے چبا کر دیدے، تو بچہ کے کھلانے کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں۔(درمختار وغیرہ)(''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لایفسدہ، ج۳، ص۴۵۳، وغیرہ.)

چکھنے کے وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ ہے یعنی کسی چیز کا مزہ دریافت کرنے کے لیے اُس میں سے تھوڑا کھا لینا کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا، بلکہ کفارہ کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔ بلکہ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پررکھ کر مزہ دریافت کر لیں اور اُسے تھوک دیں اس میں سے حلق میں کچھ نہ جانے پائے۔

مسئلہ ۳: کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے کہ نہ چکھے گا تو نقصان ہوگا، تو چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔ [1] (درمختار)

مسئلہ ۴: بلاعذر چکھنا جو مکروہ بتایا گیا یہ فرض روزہ کا حکم ہے نفل میں کراہت نہیں، جبکہ اس کی حاجت ہو۔ [2] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵: عورت کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن چھونا مکروہ ہے، جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ انزال ہو جائے گا یا جماع میں مبتلا ہوگا اور ہونٹ اورزبان چوسنا روزہ میں مطلقاً [3] مکروہ ہے۔ یوہیں مباشرت فاحشہ۔ [4] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶: گلاب یا مشک وغیرہ سونگھنا داڑھی مونچھ میں تیل لگانا اور سُرمہ لگانامکروہ نہیں، مگر جبکہ زینت کے لیے سُرمہ لگایا یا اس لیے تیل لگایا کہ داڑھی بڑھ جائے، حالانکہ ایک مُشت [5] داڑھی ہے تو یہ دونوں باتیں بغیر روزہ کے بھی مکروہ ہیں اور روزہ میں بدرجہ اَولیٰ۔ [6] (درمختار)

مسئلہ ۷: روزہ میں مسواک کرنا مکروہ نہیں، بلکہ جیسے اور دنوں میں سنّت ہے روزہ میں بھی مسنون ہے۔ مسواک خشک ہو یا تر اگرچہ پانی سے تَر کی ہو، زوال سے پہلے کرے یا بعد کسی وقت مکروہ نہیں۔ [7] (عامہ کتب) اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر بعد روزہ دار کے لیے مسواک کرنا مکروہ ہے، یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے۔

مسئلہ ۸: فصد کھلوانا، پچھنے لگوانا مکروہ نہیں جب کہ ضعف کا اندیشہ نہ ہو اور اندیشہ ہو تو مکروہ ہے، اُسے چاہیے کہ غروب تک مؤخر کرے۔ [8] (عالمگیری)

مسئلہ ۹: روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔ کلی میں مبالغہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بھر مونھ پانی لے اور وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈ پہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈ کے لیے نہانا بلکہ بدن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں۔ ہاں اگر پریشانی ظاہر کرنے کے لیے بھیگا کپڑا لپیٹا تو مکروہ ہے کہ عبادت میں دل تنگ ہونا اچھی بات نہیں۔[9] (عالمگیری، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۱۰: پانی کے اندر[10] ریاح خارج کرنے سے روزہ نہیں جاتا، مگر مکروہ ہے اور روزہ دار کو استنجے میں مبالغہ کرنا بھی مکروہ ہے۔[11] (عالمگیری) یعنی اور دِنوں میں حکم یہ ہے کہ استنجا کرنے میں نیچے کو زور دیا جائے اور روزہ میں یہ مکروہ ہے۔

مسئلہ ۱۱: مونھ میں تھوک اکٹھا کر کے نگل جانا بغیر روزہ کے بھی ناپسند ہے اور روزہ میں مکروہ۔ [12](عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: رمضان کے دنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں، جس سے ایسا ضعف آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نانبائی کو چاہیے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دن میں آرام کرے۔ [13](درمختار) یہی حکم معمار و مزدور اورمشقت کے کام کرنے والوں کا ہے کہ زیادہ ضعف کا اندیشہ ہو تو کام میں کمی کر دیں کہ روزے ادا کرسکیں۔

مسئلہ ۱۳: اگر روزہ رکھے گا تو کمزور ہو جائے گا، کھڑے ہو کر نما ز نہ پڑھ سکے گا تو حکم ہے کہ روزہ رکھے اور بیٹھ کر نماز پڑھے۔ [14] (درمختار) جب کہ کھڑا ہونے سے اتنا ہی عاجز ہو جو باب صلاۃالمریض میں گزرا۔

مسئلہ ۱۴: سحری کھانا اور اس میں تاخیر کرنا مستحب ہے، مگر اتنی تاخیر مکروہ ہے کہ صبح ہوجانے کا شک ہو جائے۔ [15] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: افطار میں جلدی کرنا مستحب ہے، مگر افطار اس وقت کرے کہ غروب کا غالب گمان ہو، جب تک گمان غالب نہ ہو افطار نہ کرے، اگرچہ مؤذن نے اذان کہہ دی ہے اور اَبر کے دنوں میں افطار میں جلدی نہ چاہیے۔(ردالمحتار)(''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم... إلخ، مطلب في حدیث التوسعۃ علی العیال... إلخ، ج۳، ص۴۵۹.)

مسئلہ ۱۶: ایک عادل کے قول پر افطار کرسکتا ہے، جب کہ اس کی بات سچی مانتا ہو اور اگر اس کی تصدیق نہ کرے تو اس کے قول کی بنا پر افطار نہ کرے۔ یوہیں مستور کے کہنے پر بھی افطار نہ کرے اور آج کل اکثر اسلامی مقامات میں افطار کے وقت توپ چلنے کا رواج ہے، اس پر افطار کر سکتا ہے، اگرچہ توپ چلانے والے فاسق ہوں جب کہ کسی عالم محقق توقیت دان محتاط فی الدین کے حکم پر چلتی ہو۔(''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في جواز الإفطار التحری، ج۳، ص۴۳۹، وغیرہ.)

آج کل کے عام علما بھی اس فن سے ناواقف محض ہیں اور جنتریاں کہ شائع ہوتی ہیں اکثر غلط ہوتی ہیں ان پر عمل جائز نہیں۔ یوہیں سحری کے وقت اکثر جگہ نقارہ بجتا ہے، انھیں شرائط کیساتھ اس کا بھی اعتبار ہے اگرچہ بجانے والے کیسے ہی ہوں۔

مسئلہ ۱۷: سحری کے وقت مرغ کی اذان کا اعتبار نہیں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ صبح سے بہت پہلے اذان شروع کر دیتے ہیں، بلکہ جاڑے کے دنوں میں تو بعض مرغ دو بجے سے اذان کہنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ اس وقت صبح ہونے میں بہت وقت باقی رہتا ہے۔ یوہیں بول چال سُن کر اورروشنی دیکھ کر بولنے لگتے ہیں۔ (ردالمحتار مع زیادۃ)

مسئلہ ۱۸: صبح صادق کو رات کامطلقاً چھٹا یا ساتواں حصہ سمجھنا غلط ہے، رہا یہ کہ صبح کس وقت ہوتی ہے اُسے ہم حصہ سوم باب الاوقات میں بیان کر آئے وہاں سے معلوم کریں۔ (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۹۶تا ۹۹۹)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۵۳.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد ما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۵۳.

[3] ۔۔۔۔۔۔ یعنی چاہے انزال و جماع کا ڈر ہو یا نہ ہو۔

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: فیما یکرہ للصائم، ج۳، ص۴۵۴.

[5] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک مٹھی۔

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۵۵.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''البحر الرائق''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۲، ص۴۹۱. مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الَّرحْمٰن فرماتے ہیں کہ اگر مسواک چبانے سے رَیشے چھوٹیں یا مزہ محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے میں نہیں کرنا چاہیے۔ (''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱۰، ص۵۱۱).

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الثالث، فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ، ج۱، ص۱۹۹ ۔ ۲۰۰.

[9] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۹۹، و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في حدیث التوسعۃ علی العیال والاکتعال یوم عاشورائ، ج۳، ص۴۵۹. وغیرہما

[10] ۔۔۔۔۔۔ مثلاً نہر، ندی، تالاب وغیرہ میں نہاتے وقت۔

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الثالث فیمایکرہ للصائم وما لا یکرہ، ج۱، ص۱۹۹.

[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، وغیرہ.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۶۰.

[14] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۴۶۱.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الثالث، فیمایکرہ للصائم وما لا یکرہ، ج۱، ص۲۰۰.

Share