رَجَا

(28)رَجَا(رَحمتِ اِلٰہی سے اُمید)

رجا کی تعریف:

آئندہ کے لئے بھلائی اور بہتری کی اُمید رکھنا’’ رَجَا‘‘ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص اچھا بیج حاصل کرکے نرم زمین میں بودے اور اس زمین کو گھاس پھوس وغیرہ سے صاف کردے اور وقت پر پانی اور کھاد دیتا رہے پھر اس بات کا امیدوار ہوکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کھیتی کو آسمانی آفات سے محفوظ رکھے گا تو میں خوب غلہ حاصل کروں گا تو ایسی آس اور امید کو ’’رَجَا‘‘ کہتے ہیں۔[1] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۹)

حقیقی امید:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں:’’جب بندہ ایمان کا بیج بوتا ہے اور اس کو عبادات کے پانی سے سیراب کرتاہے اور دل کو بُری عادات کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے تو پھر وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل یعنی ان چیزوں پر مرتے دم تک قائم رہنے اور مغفرت کا سبب بننے والے حُسنِ خاتمہ کا منتظر رہتا ہے تو اس کا یہ انتظار حقیقی اُمید ہے جو فی نفسہٖ قابلِ تعریف ہے۔‘‘[2] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۹،۲۴۰)

رِجا کی اقسام اور اُن کے احکام:

حضرت سیدنا ابنِ خُبَیق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:رَجا تین طرح کی ہے: (۱)کوئی شخص اچھا کام کرے اس کی قبولیت کی اُمید رکھے۔ (۲)کوئی شخص بُرا کام کرے پھر توبہ کرے اور وہ مغفرت کی اُمید رکھتا ہو۔ (۳)جھوٹا شخص جو گناہ کرتا چلا جائے اور کہے میں مغفرت کی اُمید رکھتا ہوں۔[3]

پہلی دوقسم کی رَجا محمود جبکہ آخری قسم کی رجا مذموم ہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ’’اَلْاَ حْمَقُ مَنْ اَ تْبَعَ نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللہِ الْجَنَّةَ یعنی احمق وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرے پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے جنت کی تمنّا رکھے۔‘‘[4](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ،۲۴۰)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا)(پ۲۴، الزمر:۵۳)ترجمۂ کنزالایمان:’’تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ۔‘‘اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:’’مشرکین میں سے چند آدمی سیّد عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ آپ کا دِین توبے شک حق اور سچاہے لیکن ہم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں بہت سی معصیتوں میں مبتلا رہے ہیں کیا کسی طرح ہمارے وہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘[5] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۴۰، ۲۴۱)

(حدیث مبارکہ) اچھا گمان رکھتے ہوئےمرنا:

حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولُ ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو آپ کی وفات سےتین دن پہلے یہ فرماتے سناکہ:’’تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس طرح کہ سے اچھی اُمید رکھتا ہو۔‘‘[6]

مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث پاک کے تحت صوفیاء کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’نیک بختی کی نشانی یہ ہے کہ بندے پر زندگی میں خوفِ خدا غالب ہو اورمرتے وقت امید،نیک کار نیکیاں قبول ہونے کی امید رکھیں اور بدکارمعافی کی۔ امید کی حقیقت یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے اور اس کے فضل کا امیدوار رہے، بدکاری کے ساتھ امید رکھنا دھوکا ہے امید نہیں، اس حدیث کی بنا پربعض بزرگوں نے کہا کہ خوف کی عبادت سے امیدکی عبادت بہتر ہے۔‘‘[7](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۴۱)

رجا کا حکم: اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اچھا گمان رکھنا واجب ہے۔[8] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۴۱)

رجا (یعنی اچھی اُمید)کا ذہن بنانے اور اس کے حصول کے پانچ(5)طریقے:

(1)رجا کے فضائل میں غوروفکر کیجئے:رحمت اِلٰہی کے متعلق تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : (۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اب وہ میرے متعلق جو چاہے گمان ركھے۔‘‘[9] (۲) اللہ عَزَّ وَجَلَّ بروزِ قیامت بندے سے اِستِفسار فرمائے گا : ’’جب تو نے برائی دیکھی توکس وجہ سے اسے نہیں روکا؟‘‘ اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے ذہن میں جواب اِلقا فرمادے گا تو وہ عرض کرے گا:اے میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ! مجھے تیری رحمت کی اُمید تھی اور لوگوں کا خوف تھا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’میں نےتیراگناہ معاف کیا۔‘‘[10] (۳) ’’ایک شخص كوجہنم میں ڈال دیا جائے گا تو وہ وہاں ایک ہزار سال تک ’’یَاحَنَّان یَامَنَّان‘‘ کہہ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو پکارتا رہےگا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جبریل امین سے فرمائے گا: ’’جاؤ! میرے بندے کو لے کر آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ اسے لے کر آئیں گے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کردیں گے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس سے دریافت فرمائے گا: ’’تونے اپنا ٹھکانا کیسا پایا؟‘‘وہ عر ض کرے گا:’’بہت بُرا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’اسے دوبارہ وہیں لےجاؤ۔‘‘وہ جارہا ہوگا تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا: کیا دیکھتا ہے؟ وہ عرض کرے گا:مجھے تجھ سےیہ اُمید تھی کہ ایک مرتبہ جہَنَّم سے نکالنے کے بعد مجھے دوبارہ اس میں نہیں بھیجے گا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائےگا: ’’اسے جنت میں لے جاؤ۔‘‘[11]

(2)رجا سےمتعلق بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ جلدچہارم کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)رجا سےمتعلق روایات اور بزرگانِ دِین کے اَقوال میں غور کیجئے:رجاکے متعلق تین فرامین بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن :(۱) امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےفرمایا: جس نےکوئی گناہ کیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دنیا میں اس کی پردہ پو شی فرمائی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےکرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آخرت میں اس کا پردہ اٹھا دے اور جس شخص کو دنیا میں اس کے گناہ کی سزا دے دی گئی ہوتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عدل و انصاف کا تقاضایہ نہیں ہے کہ آخرت میں اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے۔ (۲) حضرتِ سیِّدُناسُفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:مجھے یہ پسند نہیں کہ میراحساب میرے والدین کے سِپُرد کردیا جا ئے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے والدین سے بڑھ کر مجھ پر رحم کرنے والا ہے ۔(۳) حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار کی حضرتِ سیِّدُنا ابان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان سے ملاقات ہوئی تو ان سے پو چھا: آپ کب تک لوگوں کو اُمید اور رخصت کی احادیث سناتے رہیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا:اے ابویحییٰ!میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ بروزِقیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےعفو وکرم کے ایسےمَناظر دیکھیں گے کہ خوشی کے سبب اپنے کپڑے پھاڑ دیں گے۔[12]

(4)رجا کے سبب بلند درجات اور مغفرت نصیب ہوتی ہے:کسی نے حضرت سیِّدُنا استادابوسہل صَعلوکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کو انتقال کے بعد خواب میں ایسی عمدہ حالت میں دیکھا جسے بیان نہیں کیا جا سکتااور ان سے دریافت کیا کہ کس سبب سے آپ نے یہ مقام پایا؟ ارشاد فرمایا:اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی وجہ سے۔[13] ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا، مالدار کے ساتھ نرمی کرتا اور تنگ دست کو مُعاف کردیتا۔ جب اس کی موت واقع ہوئی تو وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس حال میں ملا کہ (مذکورہ اعمال کے علاوہ)اس نے کوئی بھی نیک عمل نہیں کیا تھا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشادفرمایا:ہم سے زیادہ معاف کرنے کا کون حق دار ہے؟‘‘یوں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُسے عبادت کے مُعاملے میں مُفْلِس ہونے کے باجود حُسْنِ ظن اور اُمید رکھنے کے باعث بخش دیا۔[14]

(5)رجا نیک اَعمال کرنے کا باعث ہے:کہ اچھائی کی اُمید رکھنے والا اُس کے لیےعمل بھی کرتا ہے چنانچہ امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:’’جو شخص اس بات کو جانتا ہے کہ زمین نمکین ہے اور پانی بھی کم ہے ،بیج بھی کھیتی اُگانے کی صلاحیت نہیں رکھتےتو وہ لازمی طور پر زمین کی نگرانی چھوڑدیتا ہے اور اس کی دیکھ بھا ل میں خود کو تھکاتا نہیں ہے ۔ اُمید اس لئے محمود ہے کہ وہ عمل پر اُ کساتی ہے اور مایوسی جو کہ اُمید کی ضد ہے اس لئے مذ موم ہے کہ وہ عمل سے روک دیتی ہے۔جسے اُمید کی حالت میسر ہو تی ہے وہ اَعمال کے ساتھ طویل مجا ہدہ کر لیتا ہے اور اُسےعبادات پر پابندی نصیب ہو جاتی ہے اگرچہ اَحوال میں تبدیلی ہو تی رہے۔‘‘[15](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۴۳تا۲۴۵)


[1] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴ / ۱۷۴، ا۷۵ ملخصاً۔ کیمائے سعادت، اصل سیم در خوف ورجاہ،حقیقت رجا،۲ / ۸۱۰ ملخصاً۔

[2] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴ / ۱۷۵۔

[3] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ،باب الرجا، ص۱۶۸۔

[4] ۔۔۔۔غریب الحدیث لابن سلام، دین، ۱ / ۴۳۸۔

[5] ۔۔۔۔خزائن العرفان،پ۲۴،الزمر،تحت الآیۃ: ۵۳۔

[6] ۔۔۔۔ مسلم، کتاب الجنة، وصفة نعیمھا، باب امر بحسن الظن باللّٰہ تعالٰی عند الموت، ص ۱۵۳۸،حدیث: ۲۸۷۷۔

[7] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح،۲ / ۴۳۹۔

[8] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۶،الحجرات،تحت الآیۃ: ۱۲۔

[9] ۔۔۔۔دارمی ، کتاب الرقاق، باب حسن ظن باللّٰہ، ۲ / ۳۹۵، حدیث: ۲۷۳۱ ۔

[10] ۔۔۔۔ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب قولہ تعالٰی: یا ایھاالذین امنو،۴ / ۳۶۶، حدیث : ۴۰۱۷،دون:قدغفرتہ لک۔ احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء ، ۴ / ۱۷۸۔

[11] ۔۔۔۔موسوعة ابن ابی الدنیا، کتاب حسن الظن باللّٰہ،۱ / ۱۰۵،حدیث: ۱۰۹۔

[12] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان دواء الرجاء والسیل الذی یحصل منہ۔۔۔الخ،۴ / ۱۸۷۔

[13] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان دواء الرجاء والسیل الذی یحصل منہ۔۔۔الخ، ۴ / ۱۸۹۔

[14] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان فضیلۃ الرجاء والترغیب فیہ،۴ / ۱۷۸۔

[15] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴ / ۱۷۶۔

Share

Comments


Security Code