قناعت‏

(9)قناعت

قناعت کی تعریف:

قناعت کا لغوی معنی قسمت پر راضی رہنا ہے اور صوفیاء کی اصطلاح میں روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کے نہ ہونے پر بھی راضی رہنا قناعت ہے۔[1] حضرت محمد بن علی ترمذی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’قناعت یہ ہے کہ انسان کی قسمت میں جو رزق لکھا ہے اس پر اس کا نفس راضی رہے۔‘‘[2] ‏ اگر تنگدستی ہونے اور حاجت سے کم ہونے کے باوجود صبر کیا جائے تو اسے بھی قناعت کہتے ہیں۔[3] قناعت کی تفصیلی تعریف یوں ہے: ’’ہر وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اور اسے مال کی ضرورت ہو اوراس کی حالت یہ ہو کہ مال میں رَغبت کی وجہ سے اس کی نزدیک مال کا ہونا نہ ہونے کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو لیکن یہ رغبت اس حد تک نہ پہنچی ہو کہ حصولِ مال کے لیے بھاگ دوڑ کرے بلکہ اگر بآسانی حاصل ہوتو خوشی سے لے لے اور اگر حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑے تو چھوڑ دے اس حالت کو قناعت اور ایسے شخص کو قانع یعنی قناعت کرنے والے کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔[4] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۷۵، ۷۶)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ(۴۸)) (پ۲۷، النجم: ۴۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور یہ کہ اسی نے غنٰی دی اور قناعت دی۔‘‘

مُفَسِّرِشَھِیرحکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: ’’یعنی امیروں کو غنا، فقیروںکو صبر وقناعت بخشی یا اپنے محبوبوں کا دل غنی بنایا اور ظاہری قناعت عطا فرمائی، بعض امیروں کو غنا کے ساتھ قناعت بھی دی، ہوس سے بچایا۔‘‘[5](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۷۶)

(حدیث مبارکہ)قناعت پسند رب کا محبوب ہے:

حضرتِ سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ پرہیزگار، قناعت پسند اور گمنام بندے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘[6](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۷۶)

قناعت کا حکم:

قناعت حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنت، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی مبارک سوغات ہے، ہرمسلمان کو چاہیے کہ اس سوغات کو حاصل کرے، قناعت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا محبوب بننے، اس کی رِضا پانے، قبر وحشر میں آسانی فراہم کرنے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۷۶،۷۷)

قناعت کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کے آٹھ (8)طریقے:

(1)قناعت کے فضائل کا مطالعہ کیجئے:قناعت کے فضائل پر مشتمل چھ روایات ملاحظہ کیجئے: ٭اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے اسلام کی طرف ہدایت حاصل ہوئی اس کی روزی بقدرِ کفایت ہےاور وہ اس پر قناعت کرتا ہے۔٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک پسندیدہ بندہ وہ فقیر ہے جو اپنی روزی پر قناعت اختیار کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہے۔٭قیامت کے دن ہر شخص چاہے امیر ہو یا غریب اس بات کی تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں صرف بقدرِ کفایت روزی دی جاتی۔٭کل بروزِ قیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ منتخب اور چنے ہوئے لوگوں کو طلب فرمائے گا اور وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عطا کردہ رِزق پر قناعت کرنے اور اُس کی تقدیر پر راضی رہنے والے ہوں گے۔٭ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آلِ محمد کے لیے بقدرِ کفایت رِزق (یعنی قناعت) کی دعا فرمائی۔[7] ٭ قناعت ایسا خزانہ ہے جو فنا نہیں ہوتا۔[8]

(2)قناعت سے متعلق اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے: علامہ ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نقل فرماتے ہیں کہ محتاج لوگ مُردہ ہیں سوائے اس شخص کے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ قناعت کی عزت سے زندہ رکھے۔حضرت سیدنا بشر حافی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی فرماتے ہیں کہ قناعت ایک فرشتہ ہے جو صرف مؤمن کے دل میں رہتا ہے۔٭حضرت سیدنا ابوبکر مراغی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ عقل مند وہ ہے جو دُنیوی اُمور کی تدبیر قناعت اور لیت ولعل سے کرے اور آخرت کی تدبیر حرص اور جلدی سے کرے اور دینی معاملات کی تدبیر علم اور کوشش سے کرے۔ ٭حضرت سیدنا ابوعبداللہ بن خفیف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ مفقود چیز کی اُمید کو ترک کرنا اور موجود چیز کے ساتھ مال داری اختیار کرنا قناعت ہے۔ ٭ حضرت سیدنا وہب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ عزت اور مالداری دونوں دوست کی تلاش میں نکلیں تو دونوں کی قناعت سے ملاقات ہوگئی تو وہ ٹھہر گئیں۔ ٭ حضرت سیدنا ذوالنون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے فرمایا کہ جو شخص قناعت اختیار کرتا ہے وہ اہل زمانہ سے آرام پاتا ہے اور تمام لوگوں سے سبقت لے جاتا ہے۔ حضرت سیدنا کتانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا کہ جو شخص حرص کو قناعت کے بدلے میں فروخت کردے وہ عزت اور مروت کے ساتھ کامیابی حاصل کرتا ہے۔[9]

(3)ربّ تَعَالٰی پر کامل یقین رکھیے:دنیا و آخرت میں کامیابی کا بنیادی اُصول ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر کامل یقین ‘‘ہے،کیوں کہ بے یقینی کا ایک لمحہ کامیابی کے حصول کےلیے سالہا سال کی جانے والی محنت پر پانی‏پھیر دیتا ہے جبکہ بسا اوقات ساری زندگی ناکام ہونے والے شخص کو لمحہ بھر کا یقین کامیابی سے ہمکنا ر کروادیتا ہے لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت پر یقین رکھیے کیوں کہ آپ کے یقین کی قوت قناعت کا جذبہ بیدار کرنے میں بے حدمعاوِن ثابت ہوگی ۔

(4)حسابِ قیامت سے خود کو ڈرائیے:اگرچہ ضرورت وحاجت سے زائد مال کمانا مباح ہے لیکن یاد رکھیے جس کا مال جتنا زیادہ ہوگا بروزِ قیامت اس کا حساب کتاب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا، زیادہ مال ودولت والے کو کل بروزِقیامت دشواری کا سامنا ہوگا، جبکہ قلیل مال والے لوگ جلدی جلدی حساب کتاب سے فارغ ہوجائیں گے، لہٰذا حسابِ قیامت سے خود کو ڈرائیے، اس سے بھی قناعت اختیار کرنے میں بھرپور مدد ملےگی۔

(5)قناعت کی دعا کیجئے: کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، دعا عبادت کا مغز ہے، یوں دعا کیجئے: یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ حضور نبی پاک صاحب لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک قناعت کے صدقے مجھے بھی قناعت کی دولت سے مالا مال فرما۔ آمین

(6)قناعت پسند وںکی صحبت اختیار کیجیے:‏کہ صحبت اثر رکھتی ہے، عموماً دیکھا گیا ہے جب بندہ فضول خرچ اور عیاش لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو وہ بھی فضول خرچی جیسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر اپنی عیاشیاں پوری کرنے کے لیے حرام وناجائز طریقے سے مال کمانے لگ جاتا ہے، جس سے قناعت رخصت ہوجاتی ہے، لہٰذا قناعت پسند لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے کہ اس سے آپ کو بھی قناعت کی دولت نصیب ہوگی۔قناعت پسند انسان متقی ہوتا ہے اور متقی کی صحبت نعمت الٰہی ہے جیسا کہ حضرت سیدنا احمد بن رفاعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’صاحب تقویٰ کی ہم نشینی بندے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی‏نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔‘‘[10]

(7)مال ودولت کی حرص کا خاتمہ کیجیے:‏دنیوی مال ودولت کی حرص مؤمن کے لیے نہایت خطرناک ہے، اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو بسا اوقات یہ دنیوی بربادیوں کے ساتھ ساتھ اُخروی ہلاکتوں کی طرف بھی لے جاتی ہے، لہٰذا اسے ختم کرنے کے لیے قناعت اختیار کیجئے۔حضرت سیدنا ابراہیم مارستانی رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فرمان ہے: ’’جس طرح قصاص کے ذریعے اپنے دشمن سے انتقام لیا جاتا ہے اسی طرح قناعت اِختیار کرکےاپنی حرص سے‏انتقام لو۔‘‘[11]

(8) قناعت کے اجزاء کو حاصل کیجئے: جب اس کے اجزاء حاصل ہوجائیں گے تو قناعت بھی خود بخود حاصل ہوجائے گی۔ قناعت تین چیزو ں‏سے مرکب ہے: عمل، صبر، علم۔ (۱)پہلی چیز عمل ہے یعنی معیشت میں اِعتدال او رخرچ میں کفایت اِختِیار کرنا۔ جو شخص قناعت میں بزرگی چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ کم خرچ کرے۔ حدیثِ پاک میں ارشاد ہے: ’’اَلتَّدْبِیْرُ نِصْفُ ‏الْمَعِیْشَۃِ یعنی تد بیر سے کام لینا نصف معیشت ہے۔‘‘[12](۲) دوسری چیز صبر ہے کہ بندہ اپنے نفس پر صبر کرے اور خواہشات کو کم کرے تاکہ وہ کسی دوسرے حال میں بھی حاجت کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔(۳)تیسری چیز علم ہے یہ کہ وہ اِس بات کو جان لے کہ قناعت میں عزّت اور سوال کرنے سے بچت ہے جبکہ طمع میں ذِلّت ہی ذِلّت ہے، پس یوں حرص سے جان چھڑالے اور قناعت کو پالے۔[13](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۷۷تا۸۱)


[1] ۔۔۔۔التعریفات للجرجانی، ص۱۲۶۔

[2] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ، باب القناعۃ، ص۱۹۷۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۲۰۰۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۵۶۳ ماخوذا۔

[5] ۔۔۔۔نورالعرفان، پارہ۲۷، النجم، تحت الآیۃ: ۴۸۔

[6] ۔۔۔۔مسلم ،کتاب الزھدو الرقائق، ص ۱۵۸۵،حدیث:۲۹۶۵۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۵۸۸۔

[8] ۔۔۔۔الزھد الکبیر للبیھقی، فصل فی بیان الزھد وانواعہ، ص۸۸۔

[9] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ، باب القناعۃ، ص۱۹۶ تا ۱۹۸ ملتقطا۔

[10] ۔۔۔۔الانوار القدسیۃ فی آداب الصحبۃ،ص۱۹۹۔

[11] ۔۔۔۔نتائج الافکار القدسیۃ،باب القناعۃ، جزء:۳، ۲ / ۷۷۔

[12] ۔۔۔۔فردوس الاخبار،۱ / ۳۰۷،حدیث:۲۲۴۰۔

[13] ۔۔۔۔لباب الاحیاء، ص۲۳۸ماخوذا۔

Share