نِسْیَانِ خَالِق

(28)نِسْیَانِ خَالِق(خُدا کو بُھول جانا)

نسیان خالق کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کردینااور حقوق اللہ کو یکسر فراموش کردینا ’’نسیانِ خالق ‘‘ کہلاتا ہے۔[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۲)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹))(پ۲۸، الحشر: ۱۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور ان جیسے نہ ہو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے انہیں بَلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں۔‘‘

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:( فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲))(پ۲، البقرۃ: ۱۵۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔‘‘

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آباد ی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس آیت مبارکہ کے تحت ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ذکر تین طرح کا ہوتا ہے۔ (۱) لسانی (۲) قلبی(۳) بالجوارح۔ ذکر لسانی تسبیح، تقدیس ،ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے خطبہ توبہ استغفار دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکر قلبی اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں کا یاد کرنا اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا علماء کا استنباط مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعتِ الٰہی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لئے سفر کرنا یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے تسبیح و تکبیر ثناء و قراء ت تو ذکر لسانی ہے اور خشوع و خضوع اخلاص ذکر قلبی اور قیام، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے۔ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم طاعت بجالا کر مجھے یاد کرو میں تمہیں اپنی امداد کے ساتھ یاد کروں گا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر بندہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو ایسے ہی یاد فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔قرآن و حدیث میں ذکر کے بہت فضائل وارد ہیں اور یہ ہر طرح کے ذکر کو شامل ہیں ذکر بالجہر کو بھی اور بالاخفاء کو بھی۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۲،۲۰۳)

حدیثِ مبارکہ، خالق کو بھول جانا اس کی ناشکری ہے:

حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایاکہ ربّ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم بے شک تو جب مجھے یاد کرتا ہے تو میرا شکر ادا کرتا ہے اور جب تو مجھے بھول جاتا ہے تو میرا انکار کردیتا ہے۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۳)

حقوق اللہ میں غفلت کرنے والے کی مثال:

حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ کے حقوق میں غفلت برتنے والا، حدوں کو توڑنے والا اور انہیں قائم رکھنے والا ان کی مثال کشتی کے تین مسافروں کی ہے۔ جنہوں نے کشتی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ایک نے سب سے اوپر والا، دوسرے نے درمیا نی اورتیسرے نے سب سے نیچے والا حصہ لے لیا۔سفر کے دوران نچلی منزل والے نے اچانک کلہاڑا چلانا شروع کردیا۔ دوسرے نے پوچھا: ’’یہ کیا کرنے لگے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں اپنے حصہ میں تھوڑا سا سوراخ کرنے لگا ہوں تا کہ پانی تک رسائی ہو اورمیری بچی کھچی چیزیں اورخون بہانا آسان ہو۔‘‘ اس پر تیسرا کہنے لگا: ’’اللہ اسے نابود کرے ،چھوڑو اسے اپنے حصہ میں شگاف کرنے دو۔‘‘ دوسرے نے کہا : ’’نہیں نہیں اس نے سوراخ کردیا تو خود بھی غرق ہوگا اورہمیں بھی غرق کرے گا۔‘‘ اب اگر انہوں نے اس کا ہاتھ روک دیا تو وہ بھی بچ گیا اوریہ خود بھی لیکن اگر انہوں نے اس کا ہاتھ نہ پکڑا تو یہ بھی ہلاک ہوں گے اوروہ خود بھی۔[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۴)

سب سے بڑا سخی اور بخیل:

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’الزھد وقصر الامل‘‘ صفحہ ۷۷پر ہے: ’’اورلوگوں میں سب بڑا سخی وہ ہے جو حقوق اللہ کو عمدہ طریقے پراداکرے اگرچہ اس کے علاوہ دیگرکاموں میں لوگ اسے بخیل ہی کہتے ہوں اورسب سے بڑا بخیل وہ ہے جواللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حقوق کی ادائیگی میں بخل کرے اگرچہ دوسرے کاموں میں لوگ اُسے سخی ہی کہتے ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۴،۲۰۵)

نسیان خالق کے بارے میں تنبیہ:

اپنے خالق عَزَّ وَجَلَّ ہی کو بھول جانا، اس کے ذکر سے غافل ہوجانا ، اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کردینااور حقوق اللہ کو یکسر فراموش کردینا بہت بڑی بدبختی اور ہلاکت کا سبب ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۵)

نسیان خالق کے سات اسباب و علاج:

(1)… نسیانِ خالق کا پہلاسبب خوفِ خدا کی کمی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کرے، اپنا زیادہ وقت خائفین کی صحبت میں گزارے اور خوف خدا کے حوالے سے مختلف کتب کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کرےنیز اس پر عمل کی کوشش کرتا رہے۔ اس ضمن میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’خوفِ خدا‘‘ کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

(2)… نسیانِ خالق کا دوسرا سبب گناہوں کے بارے میں لاعلمی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ گناہِ صغیر ہ اور گناہِ کبیرہ کے حوالے سے معلومات حاصل کرے۔اس ضمن میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب ’’احیاء العلوم، جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

(3)… نسیانِ خالق کا تیسرا سبب دُنیوی اُمور میں حد سے زیادہ غیر ضروری مشغولیت ہے کہ بندہ دُنیوی اُمور میں میں ایسا مشغول ہوتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت و فرمانبرداری کو یکسر فراموش کردیتا ہے۔اِس کا علاج یہ ہےکہ بندہ اپنی دُنیوی مشغولیت کا جائزہ لے اورجو مشغولیت اِطاعت الٰہی میں رُکاوٹ اور عذا بِ آخرت کا سبب بن رہی ہو ،اُسے اپنی ذات سے دور کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے۔

(4)… بعض اوقات بندہ اپنی غفلت کے سبب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔لہٰذانسیانِ خالق کا چوتھا سبب غفلت ہے۔ اِس کا علاج یہ ہے کہ غفلت کے اسباب کو دُور کرے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں تو بہ کرتا رہے۔

(5)… نسیانِ خالق کا پانچواں سبب دنیا کی محبت ہے اور حدیث پاک کے مطابق حب دنیا تمام گناہوں کی جڑ ہے لہٰذا بندے کو چاہیےکہ حب دنیا کا علاج کرےتاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت و فرمانبرداری میں یہ مہلک مرض رُکاوٹ نہ بن سکے۔

(6)…بعض اوقات بندے کے دل میں مخلوق کی محبت خالق کی محبت پراس طرح غالب آجاتی ہے کہ بندہ مخلوق کی اطاعت کو خالق کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہےاور وہ یہ حدیث پاک بھول جاتا ہے کہ ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اِطاعت جائز نہیں۔‘‘اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت پر غور کرے اور یہ بات پیشِ نظر رکھے کہ ہماری اتنی نافرمانیوں کے باوجود اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہم پر کس قدر مہربان ہے۔

(7)…نسیانِ خالق کا ساتواں سبب بُر ی صحبت ہے ۔اِس کا علاج یہ ہے کہ بندہ ہمیشہ نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کرے، بداَخلاق اور بُرے لوگوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ دُور رکھے کہ ’’بُر ی صحبت زہریلے سانپ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔‘‘کہ سانپ تو اپنے ڈنک سے فقط جسمانی نقصان پہنچاتا ہے مگر بُری صحبت بسا اوقت جسمانی نقصان کے ساتھ ساتھ رُوحانی نقصان(جیسے گناہوں میں مبتلا ہونا، ایمان کی بربادی وغیرہ) بھی پہنچاتی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ عَزَّ وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول بھی ایک اچھی صحبت فراہم کرتا ہے، اس مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر لاکھوں لوگ گناہوں بھری زندگی سے تائب ہوکر نیکیوں بھری زندگی گزار رہے ہیں ، نسیانِ خالق جیسے موذی مرض سے نجات پاکر صبح وشام اپنے رب عزوجل کی یاد میں مگن ہونے والے بن گئے ہیں۔ آپ بھی اس مدنی ماحول سے ہردم وابستہ رہیے، اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت فرمائیے، مدنی قافلوں میں سفر کیجئے، مدنی انعامات پر عمل کیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کی زندگی میں ایک مدنی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۶تا۲۰۸)


[1] ۔۔۔۔ تفسیر الطبری، پ۲۸، الحشر،تحت الایۃ: ۱۹، ج۱۲، ص۵۰۔

روح المعانی،پ۲۸، الحشر،تحت الایۃ:۱۹،ج۲۸، ص۳۵۴۔

[2] ۔۔۔۔ معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ج۵، ص۲۶۲، حدیث: ۷۲۶۵۔

[3] ۔۔۔۔ بخاری،کتاب الشرکۃ، ہل یقرع فی القسمۃ، ج۲، ص۱۴۳، حدیث: ۲۴۹۳۔

مسند احمد، ج۳۷، ص۳۱۹، حدیث: ۱۷۶۳۸۔

Share

Comments


Security Code