نجات دِلانے والے اَعمال کی تعریفات

نجات دِلانے والے اَعمال کی تعریفات

(1)نیت کی تعریف:

’’نیت لغوی طورپردل کے پُختہ (پکے) اِرادے کو کہتے ہیں اور شَرعاً عبادت کے اِرادے کو نیت کہا جاتا ہے۔‘‘([1])

(2)اِخلاص کی تعریف:

’’کسی بھی نیک عمل میں محض اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا حاصل کرنے کا ارادہ کرنا اِخلاص کہلاتا ہے۔ ‘‘([2])

(3)شکر کی تعریف:

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے اِحسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کرنا۔‘‘([3])

(4)صبر کی تعریف:

’’صبر‘‘ كےلغوی معنى ركنے،ٹھہرنے یا باز رہنے کے ہیں اور نفس کو اس چیز پر روکنا (یعنی ڈٹ جانا) جس پر رکنے (ڈٹے رہنے کا) کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو صبر کہلاتا ہے۔ بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں: (۱) بدنی صبر جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اوران پر ثابت قدم رہنا۔ (۲) طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا۔ پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہوتو قابل تعریف ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔([4])

(5)حسن اَخلاق کی ایک پہلو کے اعتبار سے تعریف:

’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’رویہ، برتاؤ، عادت‘‘ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔

امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے اَفعال ادا ہوں تو اسے حسن اَخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے اَفعال ادا ہوں تو اسے بداَخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔‘‘([5])

(6)محاسبۂ نفس کی تعریف:

محاسبہ کا لغوی معنی حساب لینا، حساب کرناہے اور مختلف اعمال کرنے سے پہلے یا کرنے کے بعد ان میں نیکی وبدی اور کمی بیشی کے بارے میں اپنی ذات میں غور وفکر کرنا اور پھر بہتری کے لیے تدابیر اختیار کرنا محاسبۂ نفس کہلاتا ہے۔حجۃ الاسلام امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیفرماتے ہیں: ’’اعمال کی کثرت اور مقدار میں زیادتی اور نقصان کی معرفت کے لیے جو غور کیا جاتا ہے اسے محاسبہ کہتے ہیں، لہٰذا اگر بندہ اپنے دن بھر کے اعمال کو سامنے رکھے تاکہ اسے کمی بیشی کا علم ہو (کہ آج میں نے نیک اعمال زیادہ کیے یا کم کیے)تو یہ بھی محاسبہ ہے۔‘‘ ([6])

(7)مراقبہ کی تعریف:

مراقبہ کے لغوی معنی نگرانی کرنا، نظر رکھنا، دیکھ بھال کرنا کے ہیں،اس کا حقیقی معنی اللہ عَزَّ وَجَلَّکا لحاظ کرنا اور اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا ہے۔ اور جب بندے کو اس بات کا علم (معرفت) ہوجائے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّدیکھ رہا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ دل کی باتوں پر مطلع ہے، پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، بندوں کے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ہر جان کے عمل سے واقف ہے، اس پر دل کا راز اس طرح عیاں ہے جیسے مخلوق کے لیے جسم کا ظاہری حصہ عیاں ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ عیاں ہے، جب اس طرح کی معرفت حاصل ہوجائے اور شک یقین میں بدل جائےتو اس سے پیدا ہونے والی کیفیت کو مراقبہ کہتے ہیں۔([7])

(8)مجاہدہ کی تعریف:

مجاہدہ جہد سے نکلاہے جس کا معنی ہے کوشش کرنا، مجاہدے کا لغوی معنی دشمن سے لڑنا، پوری طاقت لگادینا، پوری کوشش کرنااور جہاد کرنا ہے۔ جبکہ نفس کو ان غلط کاموں سے چھڑانا جن کا وہ عادی ہوچکا ہے اورعام طور پر اسے خواہشات کے خلاف کاموں کی ترغیب دینا یا جب محاسبۂ نفس سے یہ معلوم ہوجائے اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اسے اس گناہ پر کوئی سزا دینا مجاہدہ کہلاتا ہے۔([8])

(9)قناعت کی تعریف:

٭قناعت کا لغوی معنی قسمت پر راضی رہنا ہے اور صوفیاء کی اصطلاح میں روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کے نہ ہونے پر بھی راضی رہنا قناعت ہے۔([9]) ٭حضرت محمد بن علی ترمذی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’قناعت یہ ہے کہ انسان کی قسمت میں جو رزق لکھا ہے اس پر اس کا نفس راضی رہے۔‘‘([10]) ٭‏ اگر تنگدستی ہونے اور حاجت سے کم ہونے کے باوجود صبر کیا جائے تو اسے بھی قناعت کہتے ہیں۔([11])

(10)عاجزی وانکساری کی تعریف :

لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے ان کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر وکمتر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی وانکساری کہلاتا ہے۔([12])

(11)تذکرۂ موت کی تعریف :

خوفِ خداپیدا کرنے، سچی توبہ کرنے، ربّ عَزَّ وَجَلَّسے ملاقات کرنے، دُنیا سے جان چھوٹنے، قربِ الٰہی کے مراتب پانے، اپنے محبوب آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت حاصل کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا تذکرۂ موت کہلاتا ہے۔

(12)حسن ظن کی تعریف :

کسی مسلمان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ’’حسن ظن ‘‘کہلاتا ہے۔

(13)توبہ کی تعریف:

جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے محبوب کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد واِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔([13])

(14)صالحین سے محبت کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضاکے لیے اس کے نیک بندوں سے محبت رکھنا،ان کی صحبت اختیار کرنا، ان کا ذکر کرنا اور ان کا ادب کرنا ’’صالحین سے محبت ‘‘کہلاتا ہے کیونکہ محبت کا تقاضا یہی ہے جس سے محبت کی جائے اس کی دوستی وصحبت کو محبوب رکھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، اس کا ادب واحترام کیا جائے۔

(15)اللہ ورسول کی اطاعت کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّاو راس کے رسو ل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرنا اور جن سے منع فرمایا ان کو نہ کرنا ’’اللہ ورسول کی اطاعت‘‘ کہلاتا ہے۔

(16)دل کی نرمی کی تعریف:

دل کا خوفِ خدا کے سبب اِس طرح نرم ہونا کہ بندہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے اور نیکیوں میں مشغول کرلے، نصیحت اُس کے دل پر اَثر کرے، گناہوں سے بے رغبتی ہو، گناہ کرنے پر پشیمانی ہو، بندہ توبہ کی طرف متوجہ ہو، شریعت نے اس پر جو جو حقوق لازم کیے ہیں ان کی اچھے طریقے سے ادائیگی پرآمادہ ہو، اپنے آپ، گھربار، رشتہ داروں وخلق خدا پر شفقت ورحم و نرمی کرے، کلی طور پر اس کیفیت کو ’’دل کی نرمی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

(17)خلوت وگوشہ نشینی کی تعریف :

٭خلوت کے لغوی معنیٰ ’’تنہائی ‘‘ کے ہیں اور بندے کا اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا حاصل کرنے، تقویٰ وپرہیزگاری کے درجات میں ترقی کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اپنے گھر یا کسی مخصوص مقام پر لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اس طرح معتدل انداز میں نفلی عبادت کرنا ’’خلوت وگوشہ نشینی‘‘کہلاتا ہے کہ حقوقُ اللہ (یعنی فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ) اور شریعت کی طرف سے اس پر لازم کیے گئے تمام حقوق کی ادائیگی، والدین، گھروالوں، آل اَولاد ودیگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق)کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ ٭ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے نزدیک لوگوں میں ظاہری طور پر رہتے ہوئے باطنی طور پر ان سے جدا رہنا یعنی خود کوربّ تعالٰی کی طرف متوجہ رکھنا خلوت وگوشہ نشینی ہے۔

(18)توکل کی تعریف:

٭توکل کی اِجمالی تعریف یوں ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہتبارَک وتعالٰی پر اِعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔

(19)خشوع کی تعریف:

بارگاہِ اِلٰہی میں حاضری کے وقت دِل کا لگ جانا یا بارگاہِ اِلٰہی میں دلوں کو جھکا دینا ’’خشوع‘‘ کہلاتا ہے۔([14])

(20)ذِکرُ اللہ کی تعریف :

٭ذِکرکے معنٰی یاد کرنا،یاد رکھنا،چرچا کرنا،خیرخواہی عزت و شرف کے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ذِکر اِن تمام معنوں میں آیا ہوا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکو یادکرنا، اُسے یاد رکھنا، اس کا چرچا کرنا اور اس کا نام لیناذِکرُاللہ کہلاتا ہے۔([15])

(21)راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تعریف :

اللہ عَزَّ وَجَلَّاور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رِضا اور اَجروثواب کے لیے اپنے گھروالوں، رشتہ داروں، شرعی فقیروں، مسکینوں، یتیموں، مسافروں، غریبوںو دیگر مسلمانوں پر اور ہرجائز ونیک کام یا نیک جگہوں میں حلال وجائز مال خرچ کرنا ’’راہِ خدا میں خرچ کرنا‘‘ کہلاتا ہے۔

(22)اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تعریف :

خوشی، غمی، راحت، تکلیف، نعمت ملنے ،نہ ملنے، الغرض ہراچھی بری حالت یا تقدیر پر اس طرح راضی رہنا، خوش ہونا یا صبر کرنا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شکوہ یا واویلا وغیرہ نہ ہو ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا پر راضی رہنا‘‘ کہلاتا ہے۔

(23)خوفِ خدا کی تعریف :

خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔([16])

(24)زُہد کی تعریف :

دنیا کو ترک کرکے آخرت کی طرف مائل ہونے یا غیرُاللہ کو چھوڑ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف متوجہ ہونے کا نام زُہد ہے۔([17])اور ایسا کرنے والے کو زاہد کہتے ہیں۔زُہد کی مکمل اور جامع تعریف حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کا قول ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’زُہد یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز کو ترک کردے جو اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دور کرے۔‘‘([18])

(25)اُمیدوں کی کمی کی تعریف :

نفس کی پسندیدہ چیزوں یعنی لمبی عمر،صحت اور مال میں اضافے وغیرہ کی امید نہ ہونا’’اُمیدوں کی کمی‘‘ کہلاتا ہے۔([19])اگر لمبی عمر کی خواہش مستقبل میں نیکیوں میں اضافے کی نیت کے ساتھ ہوتو اب بھی ’’اُمیدوں کی کمی‘‘ہی کہلائے گی۔([20])

(26)صدق کی تعریف :

حضرت علامہ سید شریف جرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:


’’صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے۔‘‘([21])

(27)ہمدردیٔ مسلم کی تعریف:

کسی مسلمان کی غمخو اری کرنا اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ’’ہمدردیٔ مسلم‘‘ کہلاتاہے۔ہمدردیٔ مسلم کی کئی صورتیں ہیں، بعض یہ ہیں:(۱)بیمار کی عیادت کرنا (۲)انتقال پر لواحقین سے تعزیت کرنا (۳)کاروبار میں نقصان پر یا مصیبت پہنچنے پر اِظہارِ ہمدردی کرنا (۴)کسی غریب مسلمان کی مدد کرنا (۵)بقدرِ استطاعت مسلمانوں سے مصیبتیں دور کرنا اور اُن کی مدد کرنا(۶)علم دِین پھیلانا (۷)نیک اَعمال کی ترغیب دینا (۸) اپنے لیے جو اچھی چیز پسند ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیےبھی پسند کرنا۔ (۹)ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا (۱۰) مقروض کو مہلت دینا یا کسی مقروض کی مدد کرنا(۱۱) دکھ درد میں کسی مسلمان کو تسلی اور دلاسہ دینا۔ وغیرہ

(28)رجا کی تعریف:

آئندہ کے لئے بھلائی اور بہتری کی اُمید رکھنا’’ رَجَا‘‘ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص اچھا بیج حاصل کرکے نرم زمین میں بودے اور اس زمین کو گھاس پھوس وغیرہ سے صاف کردے اور وقت پر پانی اور کھاد دیتا رہے پھر اس بات کا امیدوار ہوکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کھیتی کو آسمانی آفات سے محفوظ رکھے گا تو میں خوب غلہ حاصل کروں گا تو ایسی آس اور امید کو ’’رَجَا‘‘ کہتے ہیں۔([22])

(29)محبت الٰہی کی تعریف:

طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانا محبت کہلاتا ہے۔([23]) اور محبت الٰہی سے مراد اللہ عَزَّ وَجَلَّکا قرب اور اس کی تعظیم ہے۔([24])

(30)رضائے الٰہی کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا چاہنا رضائے الٰہی ہے۔

(31)شوقِ عبادت کی تعریف:

عبادت میں سستی کو ترک کرکے شوق اور چستی کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرنا شوقِ عبادت ہے۔

(32)غنا کی تعریف:

جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اُس سے نااُمید ہونا غنا ہے۔([25])

(33)قبول حق کی تعریف:

باطل پر نہ اَڑنا اور حق بات مان لینا قبولِ حق ہے۔

(34)مال سے بے رغبتی تعریف:

مال سے محبت نہ رکھنا اور اس کی طرف رغبت نہ کرنا مال سے بے رغبتی کہلاتا ہے۔

(35)غبطہ(رَشک) کی تعریف:

کسی شخص میں کوئی خوبی یا اس کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ مجھے بھی یہ خوبی یا نعمت مل جائے اور اس شخص سے اس خوبی یا نعمت کے زوال کی خواہش نہ ہو تو یہ غبطہ یعنی رشک ہے۔([26])

(36)محبت مسلم کی تعریف:

’’کسی بندے سے صرف اس لیے محبت کرے کہ ربّ تعالٰی اس سے راضی ہوجاوے، اس میں دنیاوی غرض ریا نہ ہو اس محبت میں ماں باپ، اولاد اہل قرابت مسلمانوں سے محبت سب ہی داخل ہیں جبکہ رضائے الٰہی کے لیے ہوں۔‘‘([27])

(37)اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پوشیدہ اَفعال سے واقع ہونے والے بعض اَفعال کو اس کی خفیہ تدبیر کہتے ہیں اور اس سے ڈرنا اللہکی خفیہ تدبیر سے ڈرنا کہلاتا ہے۔([28])

(38)اِحترامِ مسلم کی تعریف:

مسلمان کی عزت و حرمت کا پاس رکھنا اور اسے ہر طرح کے نقصان سے بچانے کی کوشش کرنا اِحترامِ مسلم کہلاتا ہے۔

(39)مخالفت شیطان کی تعریف:

اللہ تعالٰی کی عبادت کرکے شیطان سے دشمنی کرنا، اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں شیطان کی پیروی نہ کرنا اور صدقِ دِل سے ہمیشہ اپنے عقائدو اَعمال کی شیطان سے حفاظت کرنا مخالفت شیطان ہے۔([29])


...[1] نزہۃ القاری ، ۱ / ۲۲۴ ملتقطاً۔

...[2] احیاءالعلوم،الباب الثانی فی الاخلاص ۔۔۔الخ،بیان حقیقۃ الاخلاص، ۵ / ۱۰۷۔

...[3] تفسیر صراط الجنان، پ۱، الفاتحہ: تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۴۳۔

...[4] صراط الجنان، پ۲، البقرہ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۲۴۶۔

...[5] احیاء العلوم، ج۳، ص۱۶۵۔

...[6] احیاء العلوم، ج۵، ص۳۱۹۔

...[7] احیاء العلوم، ۵ / ۳۲۸۔

...[8] احیاء العلوم،۵ / ۳۵۹۔

...[9] التعریفات للجرجانی، ص۱۲۶۔

...[10] الرسالۃ القشیریۃ، باب القناعۃ، ص۱۹۷۔

...[11] احیاء العلوم،۴ / ۲۰۰۔

...[12] فیض القدیر، حرف الھمزۃ، ۱ / ۵۹۹، تحت الحدیث: ۹۲۵ماخوذا ۔

...[13] احیاء العلوم، ۴ / ۱۱ ملخصا۔

...[14] الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الثالث و الاربعون،۲ / ۱۱۷ماخوذا۔

...[15] مرآۃ المناجیح، ۳ / ۳۰۴ملخصا۔

...[16] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان حقیقۃ الخوف، ۴ / ۱۹۰ ماخوذا،خوف خدا، ص۱۴۔

...[17] احیاء العلوم، ۴ / ۶۴۷۔

...[18] احیاء العلوم، ۴ / ۶۸۴۔

...[19] فیض القدیر، ۲ / ۷۰۹، تحت الحدیث: ۲۵۵۰ ماخوذا۔

...[20] الحدیقۃ الندیۃ،۲ / ۳۸۳ماخوذا۔

...[21] التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص۹۵۔

...[22] احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجا، ۴ / ۱۷۴، ا۷۵ ملخصاً۔کیمائے سعادت،اصل سیم در خوف ورجاہ، حقیقت رجا،۲ / ۸۱۰ ملخصاً۔

...[23] احیاء العلوم ، ۵ / ۱۶۔

...[24] الرسالۃ القشیریۃ،باب المحبۃ، ص۳۴۸۔

...[25] معجم کبیر، ۱۰ / ۱۳۹، حدیث: ۱۰۲۳۹۔

...[26] بہار شریعت،حصہ شانزدہم،۳ / ۵۴۲ ملخصا۔

...[27] مرآۃ المناجیح، ۶ / ۵۸۴)

...[28] احیاء العلوم، ۴ / ۵۰۴، ۵۰۵ماخوذا۔

...[29] مکاشفۃ القلوب، ص۱۱۰ماخوذا۔

Share

Comments


Security Code