نیت‏

(1)نیت

نیت کی تعریف:

شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رَضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’نیکی کی ‏دعوت‘‘صفحہ۹۲ پر نیت کی تعریف کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں: ’’نیت لغوی طورپردل کےپُختہ (پکے) اِرادے کوکہتے ہیں اور شَرعاًعبادت کے اِرادے کو نیت کہاجاتاہے۔‘‘[1] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن میں اِرشاد فرماتا ہے:) وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹) ((پ۱۵،بنی اسرائیل: ۱۹) ترجمۂ کنز الایمان:’’اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انھیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔‘‘اس آیت کے تحت صدر الافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں: ایک تو‏طالب آخرت ہونا یعنی نیت نیک ، دوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا،‏تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے ۔‘‘[2](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹)

اَحادیث مبارکہ:

(۱)’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘[3] (۲) ’’مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘[4] (۳) ’’اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کردیتی ہے۔‘‘[5](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹، ۲۰)

نیت کے متفرق احکام:

نیت کے بہت سے اَحکام ہیں:(1)عباداتِ مقصودہ یعنی وہ عبادات جو خود بالذات مقصود ہوںکسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہوں۔[6] ان میں نیت ہونا ضروری ہے کہ بغیر نیت کے وہ عبادت ہی نہ پائی جائے گی جیسا کہ نماز کہ اگر کوئی شخص نماز جیسے افعال کرے مگر مطلق نماز کی نیت نہ ہو تو اسے نماز ہی نہ کہا جائے گا۔ پھر فرض نماز میں فرض کی نیت بھی ضروری ہے۔ مثلاً دل میں یہ نیت ہو کہ آج کی ظہر کی فرض نماز پڑھتا ہوں۔اصح (یعنی درست ترین) یہ ہے کہ نفل، سنت اور تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنت وقت کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت یا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی متابعت (یعنی پیروی) کی نیت کرے، اس لیے کہ بعض مشایخ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اِن میں مطلق نماز کی نیت کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔[7]

(2)عباداتِ غیرمقصودہ یعنی وہ عبادات جوخودبالذات مقصودنہ ہوںبلکہ کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ ہوں۔ان میں نیت کرنا ضروری نہیں کہ بغیر نیت کے بھی وہ عبادت پائی جائے گی البتہ اس کا ثواب نہیں ملے گا۔ مثلاً وضو کہ اس میں نیت کرنا سنت ہے، اگر کوئی شخص بغیر نیت کے اعضائے وضو کو دھولے یا دھل گئے تو اس کا وضو تو ہو جائے گا لیکن نیت نہ ہونے کی وجہ سے اسے ثواب نہیں ملے گا۔[8]

(3)مباح کام اچھی نیت سے مستحب ہوجاتا ہے۔یعنی ہروہ جائز عمل یافعل جس کا کرنا اورنہ کرنایکساں ہو کہ ایسا کام کرنے سے نہ ثواب ملے نہ گناہ۔ مثلاً کھانا پینا، سونا، ٹہلنا، دولت اِکٹھی کرنا،تحفہ دینا،عمدہ یا زائد لباس پہننا وغیرہ۔اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت، مجددِ دین وملّت،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’ہرمباح نیت حسن(یعنی اچھی نیّت) سے مستحب ہو جاتاہے۔‘‘[9]فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں:’’مباحات(یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثوا ب ہو نہ گناہ ان) کاحکم الگ الگ نیتوں کے اِعتبار سے مختلف ہوجاتاہے،اس لئے جب مباح سے عبادات پر قوت حاصل کرنا یاعبادات تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی عبادات ہوں گی۔ مثلاً کھانا پینا،سونا،حُصولِ مال اور وَطی کرنا۔‘‘[10]

(4)مناسب یہی ہے کہ بندہ ہرچیز میں کچھ نہ کچھ نیت کرے حتی کہ کھانے، پینے، پہننے، سونے اور‏نکاح میں بھی نیت کرے کیوں کہ ان تما م کا تعلق ان اعمال سے ہے کہ جن کے بارے میں بروزِ‏قیامت پوچھا جائے گا۔اگر نیت رِضائے الٰہی کی ہو تو یہ ہی عمل نیکیوں کے میزان میں وزنی ہوگا۔[11](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۰تا۲۲)

’’عامل نیت‘‘ بننے کے آٹھ (8)طریقے:

(1)اچھی نیتیں کرنے کی نیت کرلیجیے:‏جس کام کی عادت نہ ہوتو اس کو معمولات ِزندگی میں شامل کرنا اَوّلاًدشوار ضرورہوتاہے لیکن ناممکن نہیں، یہی معاملہ جائز کاموں سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرنے کابھی ہے، لیکن بندہ اگرکسی جائزکام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا پختہ عزم کرلے تو پھر اس کے اِرادوں کو کمزور کرنا بہت مشکل ہے، لہٰذا اپنے جائزاعمال کو اچھی اچھی نیتوں کے ذریعے عبادات بنانے اور اس پر رحمت الٰہی سے اجر وثواب پانے کی یوں نیت کرلیجئےکہ ’’آئندہ ہر جائز کام سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کروں گا۔اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ‘‘

‏(2)نیت کی اہمیت ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیے :کہ کسی بھی چیز کی اہمیت اور فوائد اگر پیش نظر ہوں تو اس پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے، علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام اچھی نیت کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔حضرت سیدنا یحییٰ بن کثیر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیز فرماتے ہیں:’’علم نیت حاصل کرو کیوں کہ نیت کی اہمیت عمل سے کئی گنا زیادہ ہے۔‘‘[12]حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’اچھی نیت کے‏بغیرگفتگو بھی نہ کرو۔‘‘[13] حضرت سیدنا داود طائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میںنے تمام بھلائیوںپر غور کیا، صرف اچھی نیت کو ان کا جامِع پایا۔‘‘[14]

(3)دن کی ابتداء اچھی اچھی نیتوں سے کیجئے: شیخ طریقت، امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’ہرصبح یہ نیت کرلیجئے :آج کا دن آنکھ، کان ، زبان اور ہر عضو کو گناہوں اور فضولیات سے بچاتے ہوئے، نیکیوں میں گزاروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ‘‘

‏(4)عاملین نیت کی صحبت اختیار کیجیے:‏کہ صحبت اثر رکھتی ہے،اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ شیخ طریقت، امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکو دیکھا گیا ہے کہ آپ ہر جائز اور نیک کام سے قبل اچھی اچھی نیتیں کرنے کے نہ صرف خود عامل ہیں بلکہ دیگر اسلامی بھائیوں کو ترغیب بھی دلاتے رہتے ہیں، لہٰذاعامل نیت بننے میں آپ کی صحبت اختیار کرنا بہت معاون ہے۔

‏(5)نیت سے متعلقہ کتب ورسائل کا مطالعہ کیجئے: اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘، علامہ ابن حاج مکی رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی کتاب ’’المدخل‘‘ اور امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتب ورسائل، خصوصاً رسالہ’’ثواب بڑھانے کے نسخے‘‘کا مطالعہ بہت مفید ہے کہ اس میں نیت کی دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ کم وبیش72جائز کاموں کی اچھی اچھی نیتوں کا تفصیلی بیان موجود ہے، اس کے علاوہ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مدنی مذاکروں کو سننا بھی بہت مفید ہے۔

(6)نیتیں لکھنے کی عادت بنالیجیے:‏کئی جائز کام ایسے بھی ہیں جنہیں روزانہ کیا جاتا ہے، بعض کام ایسے بھی ہیں جنہیں کبھی کبھی سرانجام دیاجاتا ہے، اگر دونوں طرح کے کاموں کی کچھ نہ کچھ نیتیں لکھنے کی عادت بنالی جائے تو یہ امر بھی عامِلِ نیت بننے میں بہترین معاون ہوسکتا ہے، شیخ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی جائز کاموں کی اچھی اچھی نیتیں کرنے کے بعد آپ نے انہیں لکھ کر محفوظ فرمالیا ہےاور دوبارہ انہیں پڑھ کر نیتیں فرماتے رہتے ہیں۔

(7)ہر جائز اور نیک کام سے پہلے نیتوں پر غور کرلیجئے:کہ اس کام میں کوئی اچھی نیت ہوسکتی ہے یا نہیں، اگر ہوسکتی ہے تو پہلے نیت کرلیجئے اور پھر اس کام کو کیجئے، یہ عمل بھی عامل نیت بننے میں بہت معاون ہے بلکہ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے بالوں میں کنگھی کرنا چاہتے تھے،اپنی اہلیہ کو آواز دی اور فرمایا: ’’کنگھی لے آؤ۔‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’عالی جاہ! شیشہ بھی لاؤں؟‘‘ اس پر وہ بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ’’ہاں لے آؤ۔‘‘ اس تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ ’’کنگھی کے لئے تو میری نیت موجود تھی لیکن شیشے کے بارے میں اُس وقت کوئی اچھی نیت موجودنہیں تھی، چنانچہ میں شیشہ منگوانے سے باز رہا پھر جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے شیشے کیلئے میری اچھی نیت کو حاضر فرمادیا تو میں نے منگوا لیا۔‘‘[15]

‏ (8)بدنیتی کی ہلاکتوں پر غور کیجیے :‏کہ جس طرح اچھی نیت کا پھل اچھا ہوتا ہے اسی طرح بری نیت کا انجام بھی برا ہوتا ہے ،اچھی نیت دنیاو آخرت میں ذریعۂ نجات ہے تو بر ی نیت سبب ہلاکت و آفات بن سکتی ہے ۔منقول ہے کہ اِبنِ مُقْلَہ نامی ایک خطاط اپنے فن میں مہارت کی وجہ سے کافی مشہور تھا،بادشاہِ وقت بھی اُس کے فن کو دیکھ کر متاثر ہوا تو اسے اپنا وزیر مقرر کرلیا، کچھ عرصے کے بعد تاج وتخت کے معاملے میں اس کی نیت خراب ہونے لگی،جو اسے تاج و تخت کے حصول کے لیے سازشوں پر اُکساتی، کسی طرح ان سازشی منصوبوں کی بھنک بادشاہ کو پڑگئی فوراً اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور قید کروادیا۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ نے رحم دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے قید سے آزاد کرکے منصب پر دوبارہ بحال بھی کردیا لیکن پھر اس کی بدنیتی نے اسے منصب کے حصو ل کے لیے سازشوں پرمجبور کردیا،اس باربھی بادشاہ کو پتہ چل گیا اور اس نے بطورِ سزا اس کا ہاتھ اور زبان کاٹ دی اور ہزاروں دینار کا جرمانہ عائد کر کے دوبارہ جیل میں قید کروادیا ۔ آخر کا ر ایک تاریک جیل میں یہ ماہر خطاط فسادِ نیت کی آفت میں گرفتار ہوکرعبرت ناک موت کا شکار ہوگیا۔[16](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۲تا۲۵)


[1] ۔۔۔۔ نزہۃ القاری، ۱ / ۲۲۴ ملتقطاً۔

[2] ۔۔۔۔ خزائن العرفان، پ۱۵، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۹۔

[3] ۔۔۔۔ بخاری ، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی۔۔۔الخ، ۱ / ۶، حدیث: ۱۔

[4] ۔۔۔۔ معجم کبیر،یحییٰ بن قیس، ۶ / ۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲۔

[5] ۔۔۔۔ مسند الفردوس، باب المیم،۴ / ۳۰۵، حدیث: ۶۸۹۵۔

[6] ۔۔۔۔ بہارشریعت، ۱ / ۱۰۱۵، حصہ پنجم۔

[7] ۔۔۔۔ نماز کے احکام، ص۱۹۹۔

[8] ۔۔۔۔ بہارشریعت، ۱ / ۹۹۲، حصہ دوم، ماخوذا۔

[9] ۔۔۔۔ فتاویٰ رضویہ،۸ / ۴۵۲۔

[10] ۔۔۔۔ فتاوی، رضویہ، ۷ / ۱۸۹۔

[11] ۔۔۔۔ قوت القلوب،الفصل الثامن فی الاخلاص۔۔۔الخ، ۲ / ۲۶۷۔

[12] ۔۔۔۔ حلیۃ الاولیاء، یحی بن کثیر، ۳ / ۸۲، رقم:۳۲۵۷۔

[13] ۔۔۔۔ قوت القلوب،الفصل السابع والثلاثون فی شرح الکبائر۔۔۔الخ، ۲ / ۲۵۶۔

[14] ۔۔۔۔ جامع العلوم و ‏الحکم،الحدیث الاول، ص۲۳۔

[15] ۔۔۔۔ فیضانِ اِحیاء العلوم، ص۳۷ملخصاً۔

[16] ۔۔۔۔ الکامل فی التاریخ، سنۃ۳۲۶، ۷ / ۱۳۷، ۱۳۸۔

Share