نذر و نیاز

نذر ونیاز

سوال:منّت یا نذر کسے کہتے ہیں ؟

جواب:ہمارے ہاں منّت کے دو طریقے رائج ہیں:(۱)ایک منّتِ شرعی اور(۲) ایک منّتِ عُرفی ۔(۱) منّتِ شرعی یہ ہے کہ اللّٰہ کے لئے کوئی چیز اپنے ذِمّہ لازم کر لینا۔ اس کی کچھ شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پائی جائیں تو منّت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورانہ کرنے سے آدمی گناہگار ہوتا ہے ۔ اس گناہ کی نحوست سے اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کچھ بعید نہیں۔ (۲)دوسری منّتِ عُرفی وہ یہ کہ لوگ نذر مانتے ہیں اگر فلاں کام ہوجائے تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھائیں گے یا حاضری دیں گے یہ نذرِ عُرفی ہے اسے پورا کرنا واجب نہیں بہترہے ۔

سوال:کیا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی مان سکتے ہیں؟

جواب:ازروئے شرع اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے اور امیرغریب اور ساداتِ کرام سبھی کے لئے کھا نا بھی جائز ہے۔ اسی کو نذرِ عُرفی یا نیا ز کہتے ہے۔ البتہ نذرِ شرعی اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی کے لئے ماننا ممنوع ہے۔

سوال: نذر ماننے میں کون سی احتیاطیں ملحوظِ خاطر رکھی جائیں؟

جواب: اس بارے میں صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْهِ فرماتے ہیں:’’مسجد میں چراغ جلانے یا طاق بھرنے یا فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے یا گیارھویں کی نیاز دِلانے یا غوثِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا توشہ یا شاہ عبدُالحق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا توشہ کرنے یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے یا محرّم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے یا میلاد شریف کرنے کی منّت مانی تویہ شرعی منّت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں کرے تو اچھا ہے۔ ہاں البتہ اس کا خیال رہے کہ کوئی بات خلافِ شرع اسکے ساتھ نہ ملائے مثلاً طاق بھرنے میں رَت جَگا ہوتا ہے جس میں کُنبہ اور رشتہ کی عورتیں اکھٹا ہو کر گاتی بجاتی ہیں کہ یہ حرام ہے یا چادر چڑھانے کے لئے لوگ تاشے باجے کے ساتھ جاتے ہیں یہ ناجائز ہے یا مسجد میں چراغ جلانے میں بعض لوگ آٹے کا چراغ جلاتے ہیں یہ خواہ مخواہ مال ضائع کرناہے اورناجائز ہے، مٹی کا چراغ کافی ہے اور گھی کی بھی ضرورت نہیں، مقصود روشنی ہے وہ تیل سے حاصل ہے۔ رہا یہ کہ میلاد شریف میں فرش و روشنی کا اچھا انتظام کرنا اور مٹھائی تقسیم کرنا یا لوگوں کو بُلاوا دینا اور اس کے لئے تاریخ مقرّر کرنا اور پڑھنے والوں کا خوش الحانی سے پڑھنا یہ سب باتیں جائز ہیں البتہ غلط اور جھوٹی روایتوں کا پڑھنا منع ہے ،پڑھنے والے اور سننے والے دونوں گنہگار ہونگے۔‘‘[1] (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۱۰۸، ۱۰۹)


[1] ۔۔۔۔( بہار شریعت، حصہ۹ ،۲ / ۳۱۷)

Share