مُدَاہَنَت

(12)…مُدَاہَنَت

مُدَاہَنَت کی تعریف:

مُدَاہَنَتْکے لغوی معنی نرمی کے ہیں۔ناجائزاورگناہ والے کام ملاحظہ کرنے کے بعد(اسےروکنے پر قادر ہونے کےباوجود) اسے نہ روکنا اور دینی معاملے کی مدد ونصرت میں کمزوری و کم ہمتی کا مظاہرہ کرنا مداہنت کہلاتا ہے یا کسی بھی دنیوی مفاد کی خاطردینی معاملے میں نرمی یا خاموشی اختیار کرنامُدَاہَنَت ہے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۰۷)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ(۹)) (پ۲۹، القلم: ۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑ جائیں۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹))(پ۶، المائدۃ: ۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :’’آیت سے ثابت ہوا کہ نہی منکَر یعنی بُرائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور بدی کو منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے عُلَماء نے اوّل تو انہیں منع کیا جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ عُلَماء بھی ان سے مل گئے اور کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ، ان کے اس عِصیَان و تَعَدّی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت داؤد و حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۰۷،۱۰۸)

حدیث مبارکہ، مُدَاہَنَت کرنے والے کی مثال:

حضرت سیِّدُنا نُعْمَان بِن بَشِیرْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ حُدُوْدُﷲ میں مُدَاہَنَت کرنے والا (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھے اور باوجود قدرت منع نہ کرے اس کی) اور اُن میں مبتَلا ہونے والے کی مِثال اُن لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کَشتی میں قُرعہ اندازی کی،تو بعض کے حصّے میں نیچے والا حصّہ آیااور بعض کے حصّے میں اُوپر والا۔پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا،تو اُنہوں نے اِ سے زحمت شمار کرتے ہوئے ایک کُلہاڑ ی لی اورکشتی کے نِچلے حصّے میں ایک شخص سوراخ کرنے لگا،تو اوپر والے اُس کے پاس آئے اورکہاکہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟کہا کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بِغیر گزارہ نہیں۔اب اگر اُنہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو بچا لیا او ر خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اُسے چھوڑے رکھا تو اُسے ہلاک کریں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کریں گے۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۰۸،۱۰۹)

مُدَاہَنَت کا حکم:

مُدَاہَنَت (یعنی برائی کو دیکھ کر قدرت کے باوجود نہ روکنا یا کسی دنیوی فائدے کی خاطر دین میں نرمی یا خاموشی اختیار کرنا)حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہے۔[3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۰۹)

مُدَاہَنَت کے تین اسباب وعلاج:

(1)…مُدَاہَنَت کا پہلا سبب جہالت ہے کہ بندہ جب اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف یعنی نیکی کی دعوت دینا اور نَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَر یعنی برائی سے منع کرنے کی مختلف صورتوں کے بارے میں علم حاصل نہیں کرتا تو مُدَاہَنَت یعنی برائی دیکھ کر اُسے منع کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود منع نہ کرنے جیسے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ بندہ اُن تمام صورتوں کا علم حاصل کرے جن میں برائی دیکھ کر اس کو روکنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مایہ ناز تصنیف ’’نیکی کی دعوت‘‘ حصہ اَوّل کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

(2)…مُدَاہَنَت کا دوسرا سبب قرابت (رشتے داری) ہے کہ بندہ جس شخص میں برائی دیکھ رہا ہے وہ اُس کا قریبی رشتہ دار ہے ۔لہٰذا یہ روکنے پر قادر ہونے کے باوجود اُسے منع نہیں کرتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا مدنی ذہن بنائے کہ شریعت نے مجھے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ میں اپنی ذات سمیت تمام قریبی رشتہ داروں کو بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی سے بچاؤں ، کیونکہ ان رشتہ داروں کے جو مجھ پر حقوق ہیں ان میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ میں جب اُنہیں کسی برائی میں مبتلا دیکھوں اور مجھے معلوم ہو کہ میرے منع کرنے سے یہ منع ہوجائیں گے تو ان کو ضرور منع کروں ، بصورت دیگر ہوسکتا ہے کہ ان کے اس گناہ میں مجھے شریک سمجھا جائے اور کل بروز قیامت میری بھی پکڑ ہوجائے، نیز یہ بھی مدنی ذہن بنائے کہ اگر میں نے ان کو اس برائی سے نہ روکا اور کل بروزِ قیامت انہی رشتہ داروں نے میرا گریبان پکڑ لیا اور میری شکایت بارگاہ رب العزت میں کی تو میرا کیا بنے گا؟ میرا رب عَزَّ وَجَلَّ مجھ سے ناراض ہوگیا تو میں کہیں کا نہ رہوں گا۔

(3)…مُدَاہَنَت کا تیسرا سبب دنیوی غرض ہے کہ بندہ کسی دنیوی غرض کی وجہ سے برائی سے منع نہیں کرتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دنیوی اغراض ومقاصد کو اُخروی اغراض ومقاصد پر ترجیح دینے کے وبال پر غور کرے کہ جو لوگ آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ و رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ و رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی جہنم میں داخلے کا سبب ہے۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا برے خاتمے کا بھی ایک سبب ہے، دنیا فانی ہے اور آخرت ابدی ہے، یقیناً فانی کو ابدی پر ترجیح دینا کسی بھی طرح عقلمندی کا کام نہیں ہے، یقینا سمجھداری اسی میں ہے کہ بندہ دنیا میں فقط اتنی مشغولیت رکھے جتنا اس دنیا میں رہنا ہے ، آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا شیطان کا ایک خطرناک وار اور بہت بڑا دھوکہ ہے اس موذی مرض سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں ہمیشہ پناہ مانگتے رہیے۔کسی دنیوی غرض کی وجہ سے مداہنت اختیار کرنے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ بندہ یہ مدنی ذہن بنائے کہ میں ایک فانی چیز (یعنی دنیوی غرض ) کی وجہ سے برائی سے منع نہیں کررہا، حالانکہ برائی سے منع کرنے پر جو مجھے صلہ (اجر وثواب) ملے گا وہ دنیا وآخرت دونوں میں مجھے فائدہ دے گا ۔تو ایک ایسی چیز جو دنیا وآخرت دونوں میں فائدہ دے گی، اس پر ایک ایسی چیز کو ترجیح دینا جو فقط دنیا میں ہی عارضی فائدہ دے گی یہ کسی طرح بھی دانش مندی کا کام نہیں ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۰تا۱۱۲)


[1] ۔۔۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ، الخلق التاسع والاربعون ۔۔۔ الخ، ج۲، ص۱۵۴۔

حاشیۃ الصاوی علی الجلالین، پ۱۲، ھود، تحت الایۃ: ۱۱۳، ج۳، ص۹۳۶

[2] ۔۔۔۔ بخاری،کتاب الشھادات،باب القرعۃ في المشکلات ۔۔۔ الخ،ج۲، ص۲۰۸، حدیث:۲۶۸۶۔

[3] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق التاسع و الاربعون۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۵۵۔

Share