کتاب الجنائز

نمازِ جنازہ کا بیان

مسئلہ ۱: نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے کہ ایک نے بھی پڑھ لی تو سب بری الذمہ ہوگئے، ورنہ جس جس کو خبر پہنچی تھی اور نہ پڑھی گنہگار ہوا۔ [1] (عامۂ کتب) اسکی فرضیت کا جو انکار کرے کافر ہے۔

مسئلہ ۲: اس کے ليے جماعت شرط نہیں، ایک شخص بھی پڑھ لے فرض ادا ہوگیا۔[2] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: نمازِ جنازہ واجب ہونے کے ليے وہی شرائط ہیں جو اور نمازوں کے ليے ہیں یعنی

(۱) قادر

(۲) بالغ

(۳) عاقل

(۴) مسلمان ہونا، ایک بات اس میں زیادہ ہے یعنی اس کی موت کی خبر ہونا۔[3] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴: نمازِ جنازہ میں دو طرح کی شرطیں ہیں، ایک مصلّی کے متعلق دوسری میّت کے متعلق، مصلّی کے لحاظ سے تو وہی شرطیں ہیں جو مطلق نماز کی ہیں یعنی

(۱) مصلّی کا نجاست حکمیہ و حقیقیہ سے پاک ہونا، نیز اس کے کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا

(۲) ستر عورت

(۳) قبلہ کو مونھ ہونا

(۴) نیت، اس میں وقت شرط نہیں اور تکبیر تحریمہ رُکن ہے شرط نہیں جیسا پہلے ذکر ہوا۔ [4] (ردالمحتار وغیرہ)

بعض لوگ جوتا پہنے اور بہت لوگ جوتے پر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھتے ہیں، اگر جوتا پہنے پڑھی تو جوتا اور اس کے نیچے کی زمین دونوں کا پاک ہونا ضروری ہے، بقدر مانع نجاست ہوگی تو اس کی نماز نہ ہوگی اور جوتے پر کھڑے ہو کر پڑھی تو جوتے کا پاک ہونا[5]ضروری ہے۔

مسئلہ ۵: جنازہ طیار ہے جانتا ہے کہ وضو یا غسل کریگا تو نماز ہو جائے گی تیمم کر کے پڑھے۔ اس کی تفصیل باب تیمم میں مذکور ہوئی۔

مسئلہ ۶: امام طاہر نہ تھا تو نماز پھر پڑھیں، اگرچہ مقتدی طاہر ہوں کہ جب امام کی نہ ہوئی کسی کی نہ ہوئی اور اگر امام طاہر تھا اور مقتدی بلا طہارت تو اعادہ نہ کی جائے کہ اگرچہ مقتدیوں کی نہ ہوئی مگر امام کی تو ہوگئی۔ يوہيں اگر عورت نے نماز پڑھائی اور مردوں نے اس کی اقتدا کی تو لوٹائی نہ جائے کہ اگرچہ مردوں کی اقتدا صحیح نہ ہوئی مگر عورت کی نماز تو ہوگئی، وہی کافی ہے اور نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں۔ [6] (درمختار)

مسئلہ ۷: نماز جنازہ سواری پر پڑھی تو نہ ہوئی۔ امام کا بالغ ہونا شرط ہے خواہ امام مرد ہو یا عورت، نابالغ نے نماز پڑھائی تو نہ ہوئی۔ [7] (درمختار، عالمگیری)

نماز جنازہ میں میّت سے تعلق رکھنے والی چند شرطیں ہیں۔

(۱) میّت کا مسلمان ہونا۔ [8]

مسئلہ ۸: میّت سے مراد وہ ہے جو زندہ پیدا ہوا پھر مر گیا، تو اگر مردہ پیدا ہوا بلکہ اگر نصف سے کم باہر نکلا اس وقت زندہ تھا اور اکثر باہر نکلنے سے پیشتر مر گیا تو اُس کی بھی نماز نہ پڑھی جائے اور تفصیل آتی ہے۔

مسئلہ ۹: چھوٹے بچے کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں یا ایک تو وہ مسلمان ہے، اُس کی نماز پڑھی جائے اور دونوں کافر ہیں تو نہیں۔ [9] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۰: مسلمان کو دارالحرب میں چھوٹا بچہ تنہا ملا اور اُس نے اُٹھا لیا پھر مسلمان کے یہاں مرا، تو اُس کی نماز پڑھی جائے۔ [10] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: ہر مسلمان کی نماز پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا ہی گنہگار و مرتکب کبائر ہو مگر چند قسم کے لوگ ہیں کہ اُن کی نماز نہیں۔

(۱) باغی جو امام برحق پر ناحق خروج کرے اور اُسی بغاوت میں مارا جائے۔

(۲) ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا نہ اُن کو غسل دیا جائے نہ اُن کی نماز پڑھی جائے، مگر جبکہ بادشاہِ اسلام نے اُن پر قابو پایا اورقتل کیا تو نماز و غسل ہے یا وہ نہ پکڑے گئے نہ مارے گئے بلکہ ویسے ہی مرے تو بھی غسل و نماز ہے۔

(۳) جو لوگ ناحق پاسداری سے لڑیں بلکہ جو اُن کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور پتھر آکر لگا اور مر گئے تو ان کی بھی نماز نہیں، ہاں اُنکے متفرق ہونے کے بعد مرے تو نماز ہے۔

(۴) جس نے کئی شخص گلا گھونٹ کر مار ڈالے۔

(۵) شہر میں رات کو ہتھیار لے کر لوٹ مار کریں وہ بھی ڈاکو ہیں، اس حالت میں مارے جائیں تو اُن کی بھی نماز نہ پڑھی جائے۔

(۶) جس نے اپنی ماں یا باپ کو مار ڈالا، اُس کی بھی نماز نہیں۔

(۷) جو کسی کا مال چھین رہا تھا اور اس حالت میں مارا گیا، اُس کی بھی نماز نہیں۔[11](عالمگیری، درمختار وغیرہما)

مسئلہ ۱۲: جس نے خودکشی کی حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، مگر اُس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی اگرچہ قصداً خودکشی کی ہو، جو شخص رجم کیا گیا یا قصاص میں مارا گیا، اُسے غسل دیں گے اور نماز پڑھیں گے۔ [12] (عالمگیری، درمختار وغیرہما)

(۲) میّت کے بدن و کفن کا پاک ہونا۔ [13]

مسئلہ ۱۳: بدن پاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ اُسے غسل دیا گیا ہو یا غسل نا ممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہو اور کفن پہنانے سے پیشتر اُسکے بدن سے نجاست نکلی تو دھو ڈالی جائے اور بعد میں خارج ہوئی تو دھونے کی حاجت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست خارج ہوئی اور کفن آلودہ ہوا تو حرج نہیں۔[14] (درمختار ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: بغیر غسل نماز پڑھی گئی نہ ہوئی، اُسے غسل دے کر پھر پڑھیں اور اگر قبر میں رکھ چکے، مگر مٹی ابھی نہیں ڈالی گئی تو قبر سے نکالیں اور غسل دے کر نماز پڑھیں اور مٹی دے چکے تو اب نہيں نکال سکتے، لہٰذا اب اُس کی قبر پر نماز پڑھیں کہ پہلی نماز نہ ہوئی تھی کہ بغير غُسل ہوئی تھی اور اب چونکہ غسل نا ممکن ہے لہٰذا اب ہو جائے گی۔ [15] (ردالمحتار وغیرہ)

(۳) جنازہ کا وہاں موجود ہونا یعنی کُل یا اکثر یا نصف مع سر کے موجود ہونا، لہٰذا غائب کی نماز نہیں ہوسکتی۔[16]

(۴) جنازہ زمین پر رکھا ہونا یا ہاتھ پر ہو مگر قريب ہو، اگر جانور وغيرہ پر لدا ہو نماز نہ ہوگی۔[17]

(۵) جنازہ مصلّی کے آگے قبلہ کو ہونا، اگر مصلّی کے پیچھے ہوگا نماز صحیح نہ ہوگی۔ [18]

مسئلہ ۱۵: اگر جنازہ الٹا رکھا یعنی امام کے دہنے میّت کا قدم ہو تو نماز ہو جائے گی، مگر قصداً ایسا کیا تو گنہگار ہوئے۔[19] (درمختار)

مسئلہ ۱۶: اگر قبلہ کے جاننے میں غلطی ہوئی یعنی میّت کو اپنے خیال سے قبلہ ہی کو رکھا تھا مگر حقیقۃً قبلہ کو نہیں، تو موضع تحری میں اگر تحری کی نماز ہوگئی ورنہ نہیں۔[20] (درمختار)

(۶) میّت کا وہ حصۂ بدن جس کا چھپانا فرض ہے چُھپا ہونا۔ [21]

(۷) میّت امام کے محاذی ہو یعنی اگر ایک میّت ہے تو اُس کا کوئی حصۂ بدن امام کے محاذی ہو اور چند ہوں تو کسی ایک کا حصۂ بدن امام کے محاذی ہونا کافی ہے۔[22] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۷: نماز جنازہ میں دو رکن ہیں:

(۱) چار بار اللہ اکبر کہنا

(۲) قیام

بغیر عذر بیٹھ کر يا سواری پر نماز جنازہ پڑھی، نہ ہوئی اور اگر ولی یا امام بیمار تھا اس نے بیٹھ کر پڑھائی اور مقتدیوں نے کھڑے ہو کر پڑھی ہوگئی۔[23](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۸: نماز جنازہ میں تین چیزیں سنت مؤکدہ ہیں:

(۱)اللہ عَزَّ وَجَلَّکی حمد و ثنا۔ (۲) نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود۔ (۳) میّت کے ليے دُعا۔

نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ کان تک ہاتھ اُٹھا کر اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے حسب دستور باندھ لے اور ثنا پڑھے، یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلَا اِلٰـہَ غَیْرُکَ . پھر بغیرہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے اور درود شریف پڑھے بہتر وہ دُرود ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے اور کوئی دوسرا پڑھا جب بھی حرج نہیں، پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے اور میّت اور تمام مومنین و مومنات کے ليے دُعا کرے اور بہتر یہ کہ وہ دُعا پڑھے جو احادیث میں وارد ہیں اور ماثور دُعائیں اگر اچھی طرح نہ پڑھ سکے توجو دُعا چاہے پڑھے، مگروہ دُعا ایسی ہو کہ اُمورِ آخرت سے متعلق ہو۔[24] (جوہرہ نیرہ، عالمگيری، درمختار وغيرہا)

بعض ماثور دُعائیں یہ ہیں:

(۱) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ ؕ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ (ھا) [25] وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ (ھا) . [26]

(۲) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ (لَھَا) وَارْحَمْہٗ (ھَا) وَعَافِہٖ (ھا) وَاعْفُ عَنْہُ (ھَا) وَاَکْرِمْ نُزُلَہٗ (ھَا) وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ (ھَا) وَاغْسِلْہُ (ھَا) بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِوَنَقِّہٖ (ھَا) مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْاَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَاَبْدِلْہُ (ھَا) دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِہٖ (ھَا) وَاَھْلاً خَیْرًا مِّنْ اَھْلِہٖ (ھَا) وَزَوْجًا خَیْرًا مِّنْ زَوْجِہٖ[27] وَاَدْخِلْہُ (ھَا) اَلْجَنَّۃَ وَاَعِذْہٗ (ھَا) مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ۔[28]

(۳) اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ (اَمَتَکَ) وَابْنُ (بِنْتُ) اَمَتِکَ یَشْھَدُ (تَشْھَدُ) اَنْ لَّا اِلہٰ َ اِلَّا اَنتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ وَ یَشْھَدُ (تَشْھَدُ) اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ اَصْبَحَ فَقِیْرًا (اَصْبَحَتْ فَقِیْرَۃً) اِلٰی رَحْمَتِکَ وَاَصْبَحْتَ غَنِیًّا عَنْ عَذَابِہٖ (ھَا) تَخَلّٰی (تَخَلَّتْ) مِنَ الدُّنْیَا وَاَھْلِھَا اِنْ کَانَ (کَانَتْ) زَاکِیًا (زَکِیَۃً) فَزِکِّہٖ (ھَا) وَاِنْ کَانَ (کَانَتْ) مُخْطِئًا (مُخْطِئَۃً) فَاغْفِرْ لَـہٗ (ھَا) اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ (ھَا) وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ (ھَا) . [29]

(۴) اَللّٰھُمَّ ھَذَا (ھٰذِہٖ) عَبْدُکَ ابْنُ (اَمَتُکَ بِنْتُ) عَبْدِکَ ابْنُ (بِنْتُ) اَمَتِکَ مَاضٍ فِیْہِ (ھَا) حُکْمُکَ خَلَقْتَہٗ (ھَا) وَلَمْ یَکُ (تَکُ ھِیَ) شَیْئًا مَذْکُوْرًا ؕ نَزَلَ (نَزَلَتْ) بِکَ وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بَہٖ اَللّٰہُمَّ لَقِّنْہُ (ھَا) حُجَّتَہٗ (ھَا) وَاَلْحِقْہُ (ھا) بِنَبِیِّہٖ (ھَا)مُحَمَّدٍ صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؕ وَثَبِّتْہُ (ھَا) بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِاِنَّہٗ (ھَا) اِفْتَقَرَ (اِفْتَقَرَتْ) اِلَیْکَ وَاسْتَغْنَیْتَ عَنْہُ (ھَا) کَانَ (کَانَتْ) یَشْھَدُ (تَشْھَدُ) اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ فَاغْفِرْلَہٗ (لَھَا) وَارْحَمْہُ (ھَا) وَلَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ (ھَا) وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ (ھَا) ط اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ (کَانَتْ) زَاکِیَّا (زَاکِیَّۃً) فَزَکِّہٖ (ھَا) وَاِنْ کَانَ (کَانَتْ) خَاطِئًا (خَاطِئَۃً) فَاغْفِرْ لَـہٗ (ھَا) . [30]

(۵) اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ (اَمَتُکَ) وَابْنُ (بِنْتُ) اَمَتِکَ اِحْتَاجَ (جَتْ) اِلیٰ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ غَنِیٌّ عَنْ عَذَابِہٖ (ھَا) اِنْ کَانَ (کانَتْ) مُحْسِنًا (مُحْسِنَۃً) فَزِدْ فِیْ اِحْسَانِہٖ (ھَا) وَاِنْ کَانَ (کَانَتْ) مُسِیْئًا (مُسِیْئَۃً) فَتَجَاوَزْ عَنْہُ (ھَا) . [31]

(۶) اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ (اَمَتُکَ) وَابْنُ (بِنْتُ) عَبْدِکَ کَانَ (کَانَتْ) یَشْھَدُ (تَشْھَدُ) اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ صَلیَ اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؕ وَاَنْتَ اَعْلَمُ بہٖ (ھَا) مِنَّا اِنْ کَانَ (کَانَتْ) مُحْسِنًا (مُحْسِنَۃً) فَزِدْ فِیْ اِحْسَانِہٖ (ھَا) وَاِنْ کَانَ (کَانَتْ) مُسِیْئًا (مُسِیْئَۃً) فَاغْفِرْ لَـہٗ (ھَا) وَلَا تَحْرِمْنَآ اَجْرَہٗ (ھَا) وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ (ھَا) . [32]

(۷) اَصْبَحَ (اَصْبَحَتْ) عَبْدُکَ (اَمَتُکَ) ھَذٰا (ہٰذِہٖ) قَدْ تَخَلّٰی (تَخَلَّتْ) عَنِ الدُّنْیَا وَتَرَکَھَا (تَرَکَتْھَا) لِاَھْلِھَا وَافْتَقَرَ (افْتَقَرَتْ) اِلَیْکَ وَاسْتَغْنَیْتَ عَنْہُ (ھَا) وَقَد کَانَ (کَانَتْ) یَشْھَدُ (تَشْھَدُ) اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؕ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ (ھَا) وَتَجَاوَزْ عَنْہُ (ھَا) وَاَلْحِقْہُ (ھَا) بِنَبِیِّہٖ (ھَا) صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ . [33]

(۸) اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبُّھَا وَاَنْتَ خَلَقْتَھَا وَاَنْتَ ھَدَیْتَھَا لِلْاِسْلَامِ ؕ وَاَنْتَ قَبَضْتَ رُوْحَھَا وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِسِرِّھَا وَعَلَا نِیَّتِھَا جِئْنَا شُفَعَاءَ فَاغْفِرْلَھَا . [34]

(۹) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاِخْوَانِنَا وَاَخَوَاتِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا اَللّٰھُمَّ ھٰذَا (ھٰذِہٖ) عَبْدُکَ (اَمَتُکَ) فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ وَلَا نَعْلَمُ اِلَّا خَیْرًا وَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ (بِھَا) مِنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَلَہٗ (لَھَا) . [35]

(۱۰) اَللّٰھُمَّ اِنَّ فُـلَانَ بْنَ فُـلَانٍ (فُـلَانَہُ بِنْتَ فُـلَانٍ) فِیْ ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جَوَارِکَ فَقِہٖ (ھَا) مِنْ

فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَاَنْتَ اَھلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِؕ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ (ھَا) وَارْحَمْہٗ (ھَا) اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ؕ . 1

(۱۱) اَللّٰھُمَّ اَجِرْھَا مِنَ الشَّیْطَانِ وَعَذَابِ الْقَبْرِؕ اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْھَا وَصَعِّدْ رُوْحَھَا وَلَقِّھَا مِنْکَ رِضْوَانًا ؕ . 2

(۱۲) اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ خَلَقْتَنَا وَنَحْنُ عِبَادُکَ ؕ اَنْتَ رَبُّنَا وَ اِلَیْکَ مَعَادُنَا . 3

(۱۳) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَوَّلِنَا واٰخِرِنَا وَحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ (ھَا) وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ (ھَا). 4

(۱۴) اَللّٰھُمَّ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا بَدِیْعَ

(۹) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاِخْوَانِنَا وَاَخَوَاتِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا اَللّٰھُمَّ ھٰذَا (ھٰذِہٖ) عَبْدُکَ (اَمَتُکَ) فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ وَلَا نَعْلَمُ اِلَّا خَیْرًا وَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ (بِھَا) مِنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَلَہٗ (لَھَا) . 3

(۱۰) اَللّٰھُمَّ اِنَّ فُـلَانَ بْنَ فُـلَانٍ (فُـلَانَہُ بِنْتَ فُـلَانٍ) فِیْ ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جَوَارِکَ فَقِہٖ (ھَا) مِنْ

فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَاَنْتَ اَھلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِؕ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ (ھَا) وَارْحَمْہٗ (ھَا) اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ؕ . [36]

(۱۱) اَللّٰھُمَّ اَجِرْھَا مِنَ الشَّیْطَانِ وَعَذَابِ الْقَبْرِؕ اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْھَا وَصَعِّدْ رُوْحَھَا وَلَقِّھَا مِنْکَ رِضْوَانًا ؕ . [37]

(۱۲) اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ خَلَقْتَنَا وَنَحْنُ عِبَادُکَ ؕ اَنْتَ رَبُّنَا وَ اِلَیْکَ مَعَادُنَا . [38]

(۱۳) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَوَّلِنَا واٰخِرِنَا وَحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ (ھَا) وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ (ھَا) . [39]

(۱۴) اَللّٰھُمَّ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اِنِّیْ اَسْئَالُکَ بِاَنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللہُ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِؕ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؕ اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْکَرِیْمَ اِذَا اَمَرَ بِالْسُّئَوالِ لَمْ یَرُدَّہٗ اَبَدًا وَّقَدْ اَمَرْتَنَا فَدَعَوْنَا وَاَذِنْتَ لَنَا فَشَفَعْنَا وَاَنْتَ اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنَ ؕ فَشَفِّعْنَا فِیْہِ (ھَا) وَارْحَمْہُ (ھَا) فِیْ وَحْدَتِہٖ (ھَا) وَارْحَمْہُ (ھَا) فِیْ وَحْشَتِہٖ (ھَا) وَارْحَمْہُ (ھَا) فِیْ غُرْبَتِہٖ (ھَا) وَارْحَمْہُ (ھَا) فِیْ کُرْبَتِہٖ (ھَا) وَاعْظِمْ لَـہٗ (لَھَا) اَجْرَہٗ (ھَا) وَنَوِّرْ لَـہٗ (ھَا) قَبْرَہٗ (ھاَ) وَبَیِّضْ لَـہٗ (لَھَا) وَجْھَہٗ (ھَا) وَبَرِّدْلَـہٗ (ھَا) مَضْجَعَہٗ (ھَا) وَعَطِّرْلَـہٗ (ھَا) مَنْزِلَـہٗ (ھَا) وَاَکْرِمْ لَـہٗ (ھَا) نُزُلَہُ (ھَا) یَا خَیْرَ الْمُنْزِلِیْنَ ج وَ یَاخَیْرَ الْغَافِرِیْنَ وَ یَا خَیْرَ الرَّاحِمِیْنَ ج اٰمِیْنَ اٰمِیْنَ اٰمِیْنَ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِ الشَّافِعِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِـہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ ؕ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ[40]

فائدہ: نویں دسویں دعاؤں میں اگر میت کے باپ کا نام معلوم نہ ہو تو اُس کی جگہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام کہے کہ وہ سب آدمیوں کے باپ ہیں اور اگر خود میّت کا نام بھی معلوم نہ ہو تو نویں دُعا میں ھٰذَا عَبْدُکَ یا ھٰذِہٖ اَمَتُکَ پر قناعت کرے فلاں بن فلاں یا بنت کو چھوڑ دے اور دسویں میں اُس کی جگہ عَبْدُکَ ھٰذَا یا عورت ہو تو اَمَتُکَ ھٰذِہٖ کہے۔

فائدہ: میّت کا فسق و فجور معلوم ہو تو نویں دُعا میں لَا نَعْلَمُ اِلَّا خَیْرًا کی جگہ قَدْ عَلِمْنَا مِنْہُ خَیْرًا کہے کہ اسلام ہر خير سے بہترخیر ہے۔

فائدہ: ان دُعاؤں میں بعض مضامین مکرر ہیں اور دُعا میں تکرار مستحسن اگر سب دُعائیں یاد ہوں اور وقت میں گنجائش ہو تو سب کا پڑھنا اَولیٰ، ورنہ جو چاہے پڑھے اور امام جتنی دیر میں یہ دُعائیں پڑھے اگر مقتدی کو یاد نہ ہوں تو پہلی دُعا کے بعد آمین آمین کہتا رہے۔

مسئلہ ۱: میت مجنون یا نابالغ ہو تو تیسری تکبیر کے بعد یہ دُعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا ذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا . [41]

اور لڑکی ہو تو اجْعَلْھَا اور شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً کہے۔ [42] (جوہرہ)

مجنون سے مراد وہ مجنون ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے مجنون ہوا کہ وہ کبھی مکلّف ہی نہ ہوا اور اگر جنون عارضی ہے تو اس کی مغفرت کی دُعا کی جائے، جیسے اوروں کے ليے کی جاتی ہے کہ جنوں سے پہلے تو وہ مکلّف تھا اور جنون کے پیشتر کے گناہ جنوں سے جاتے نہ رہے۔[43] (غنیہ)

مسئلہ ۲: چوتھی تکبیر کے بعد بغیر کوئی دُعا پڑھے ہاتھ کھول کر سلام پھیر دے[44]، سلام میں میّت اور فرشتوں اورحاضرین نماز کی نیت کرے، اُسی طرح جیسے اور نمازوں کے سلام میں نیت کی جاتی ہے یہاں اتنی بات زیادہ ہے کہ میّت کی بھی نیت کرے۔ [45] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۳: تکبیر و سلام کو امام جہر کے ساتھ کہے، باقی تمام دُعائیں آہستہ پڑھی جائیں اور صرف پہلی مرتبہ اللہ اکبر کہنے کے وقت ہاتھ اٹھائے پھر ہاتھ اٹھانا نہیں۔[46] (جوہرہ، درمختار)

مسئلہ ۴: نماز جنازہ میں قرآن بہ نیت قرآن یا تشہد پڑھنا منع ہے اور بہ نیت دُعا و ثنا الحمد وغیرہ آیات دعائیہ و ثنائیہ پڑھنا جائز ہے۔[47] (درمختار)

مسئلہ ۵: بہتر یہ ہے کہ نماز جنازہ میں تین صفیں کریں کہ حدیث میں ہے: ''جس کی نماز تین صفوں نے پڑھی، اُس کی مغفرت ہو جائے گی۔'' اور اگر کُل سات ہی شخص ہوں تو ایک امام ہو اور تین پہلی صف میں اور دو دوسری میں اور ایک تیسری میں۔ [48] (غنیہ)

مسئلہ ۶: جنازہ میں پچھلی صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے۔ [49] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۸۲۵تا ۸۳۶)

( نمازِ جنازہ کون پڑھائے)

مسئلہ ۷: نماز جنازہ میں امامت کا حق بادشاہ اسلام کو ہے، پھر قاضی، پھر امام جمعہ، پھر امام محلہ، پھر ولی کو، امام محلہ کا ولی پر تقدم بطور استحباب ہے اور یہ بھی اُس وقت کے ولی سے افضل ہو ورنہ ولی بہترہے۔ [50] (غنیہ، درمختار)

مسئلہ ۸: ولی سے مراد میّت کے عصبہ ہیں اور نماز پڑھانے میں اولیا کی وہی ترتیب ہے جو نکاح میں ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ نماز جنازہ میں میّت کے باپ کو بیٹے پر تقدم ہے اورنکاح میں بیٹے کو باپ پر، البتہ اگر باپ عالم نہیں اور بیٹا عالم ہے تو نماز جنازہ میں بھی بیٹا مقدم ہے، اگر عصبہ نہ ہوں تو ذوی الارحام غیروں پر مقدم ہیں۔ [51] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: میّت کا ولی اقرب (سب سے زيادہ نزدیک کا رشتہ دار) غائب ہے اور ولی ابعد (دُور کا رشتہ والا) حاضر ہے تو یہی ابعد نماز پڑھائے، غائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اتنی دُور ہے کہ اُس کے آنے کے انتظار میں حرج ہو۔ [52] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: عورت کا کوئی ولی نہ ہو تو شوہر نماز پڑھائے، وہ بھی نہ ہو تو پڑوسی۔ يوہيں مرد کا ولی نہ ہو تو پروسی اوروں پر مقدم ہے۔[53] (درمختار)

مسئلہ ۱۱: غلام مر گیا تو اُس کا آقا بیٹے اور باپ پر مقدم ہے، اگرچہ یہ دونوں آزاد ہوں اور آزاد شدہ غلام میں باپ اور بیٹے اور دیگر ورثہ آقا پر مقدم ہیں۔[54] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: مکاتب کا بیٹا یا غلام مر گیا تو نماز پڑھانے کا حق مکاتب کو ہے، مگر اُس کا مولیٰ اگر موجود ہو تو اُسے چاہيے کہ مولیٰ سے پڑھوائے اور اگر مکاتب مر گیا اور اتنا مال چھوڑا کہ بدل کتابت ادا ہو جائے اور وہ مال وہاں موجود ہے تو اُس کا بیٹا نماز پڑھائے اور مال غائب ہے تو مولیٰ۔[55] (جوہرہ)

مسئلہ ۳ا: عورتوں اور بچوں کو نماز جنازہ کی ولایت نہیں۔ [56] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۴: ولی اور بادشاہ اسلام کو اختیار ہے کہ کسی اور کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دے دے۔ [57] (درمختار)

مسئلہ ۱۵: میّت کے ولی اقرب اورولی ابعد دونوں موجود ہیں تو ولی اقرب کو اختیار ہے کہ ابعد کے سوا کسی اور سے پڑھوا دے ابعد کو منع کرنے کا اختیار نہیں اور اگر ولی اقرب غائب ہے اور اتنی دُور ہے کہ اُس کے آنے کا انتظار نہ کیا جا سکے اور کسی تحریر کے ذریعہ سے ابعد کے سوا کسی اور سے پڑھوانا چاہے تو ابعد کو اختیار ہے کہ اُسے روک دے اور اگر ولی اقرب موجود ہے مگر بیمار ہے تو جس سے چاہے پڑھوا دے ابعد کو منع کا اختیار نہیں۔ [58] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۶: عورت مر گئی شوہر اور جوان بیٹا چھوڑا تو ولایت بیٹے کو ہے شوہر کو نہیں، البتہ اگر یہ لڑکا اُسی شوہر سے ہے تو باپ پر پیش قدمی مکروہ ہے، اسے چاہيے کہ باپ سے پڑھوائے اور اگر دوسرے شوہر سے ہے تو سوتیلے باپ پر تقدم کر سکتا ہے کوئی حرج نہیں اور بیٹا بالغ نہ ہو تو عورت کے جو اور ولی ہوں اُن کا حق ہے شوہر کا نہیں۔[59] (جوہرہ، عالمگیری)

مسئلہ ۱۷: دو یا چند شخص ایک درجہ کے ولی ہوں تو زیادہ حق اُس کا ہے جو عمر میں بڑا ہے، مگر کسی کو یہ اختیار نہیں کہ دوسرے ولی کے سوا کسی اور سے بغیر اُس کی اجازت کے پڑھوا دے اور اگر ایسا کیا یعنی خود نہ پڑھائی اور کسی اور کو اجازت دے دی تو دوسرے ولی کو منع کا اختیار ہے، اگرچہ یہ دوسرا ولی عمر میں چھوٹا ہو اور اگر ایک ولی نے ایک شخص کو اجازت دی، دوسرے نے دوسرے کو تو جس کو بڑے نے اجازت دی وہ اولیٰ ہے۔ [60] (عالمگیری وغيرہ)

مسئلہ ۱۸: میّت نے وصیت کی تھی کہ میری نماز فلاں پڑھائے یا مجھے فلاں شخص غسل دے تو یہ وصیت باطل ہے یعنی اس وصیت سے ولی کا حق جاتا نہ رہے گا، ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اُس سے پڑھوا دے۔ [61] (عالمگیری وغيرہ)

مسئلہ ۱۹: ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی۔ [62] (عالمگیری، درمختار وغیرہما)

مسئلہ ۲۰: جن چیزوں سے تمام نمازیں فاسد ہوتی ہیں نماز جنازہ بھی اُن سے فاسد ہو جاتی ہے سوا ایک بات کے کہ عورت مرد کے محاذی ہو جائے تونماز جنازہ فاسد نہ ہوگی۔[63] (عالمگيری)

مسئلہ ۲۱: مستحب یہ ہے کہ میّت کے سینہ کے سامنے امام کھڑا ہو اور میّت سے دُور نہ ہو میّت خواہ مرد ہو یا عورت بالغ ہو یا نابالغ یہ اُس وقت ہے کہ ایک ہی میّت کی نماز پڑھانی ہو اور اگر چند ہوں تو ایک کے سینہ کے مقابل اورقریب کھڑا ہو۔[64](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۲: امام نے پانچ تکبیریں کہیں تو پانچویں تکبیر میں مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ چُپ کھڑا رہے جب امام سلام پھیرے تو اُس کے ساتھ سلام پھیر دے۔ [65] (درمختار)

مسئلہ ۲۳: بعض تکبیریں فوت ہو گئیں یعنی اُس وقت آیا کہ بعض تکبیریں ہو چکی ہیں تو فوراً شامل نہ ہو اس وقت ہو جب امام تکبیر کہے اور اگر انتظار نہ کیا بلکہ فوراً شامل ہوگیا تو امام کے تکبیر کہنے سے پہلے جو کچھ ادا کیا اُس کا اعتبار نہیں، اگر وہیں موجود تھا مگر تکبیر تحریمہ کے وقت امام کے ساتھ اللہ اکبر نہ کہا، خواہ غفلت کی وجہ سے دیر ہوئی یا ہنوز نیّت ہی کرتا رہ گیا تو یہ شخص اس کا انتظار نہ کرے کہ امام دوسری تکبیر کہے تو اُس کے ساتھ شامل ہو بلکہ فوراً ہی شامل ہو جائے۔ [66] (درمختار، غنیہ)

مسئلہ ۲۴: مسبوق یعنی جس کی بعض تکبیريں فوت ہو گئیں وہ اپنی باقی تکبیریں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کہے اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ دُعائیں پڑھے گا تو پوری کرنے سے پہلے لوگ میّت کو کندھے تک اٹھالیں گے تو صرف تکبيريں کہہ لے دُعائیں چھوڑ دے۔[67] (درمختار)

مسئلہ ۲۵: لاحق یعنی جو شروع میں شامل ہوا مگر کسی وجہ سے درمیان کی بعض تکبیریں رہ گئیں مثلاً پہلی تکبیر امام کے ساتھ کہی، مگر دوسری اور تیسری جاتی رہیں تو امام کی چوتھی تکبیر سے پیشتر یہ تکبیریں کہہ لے۔ [68] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۶: چوتھی تکبیر کے بعد جو شخص آیا تو جب تک امام نے سلام نہ پھیرا شامل ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد تین بار اللہ اکبر کہہ لے۔ [69] (درمختار)

مسئلہ ۲۷: کئی جنازے جمع ہوں تو ایک ساتھ سب کی نماز پڑھ سکتا ہے یعنی ایک ہی نماز میں سب کی نیّت کر لے اور افضل یہ ہے کہ سب کی علیحدہ علیحدہ پڑھے ا ورا س صورت میں یعنی جب علیحدہ علیحدہ پڑھے تو اُن میں جو افضل ہے اس کی پہلے پڑھے پھر اس کی جو اُس کے بعد سب میں افضل ہے وعلیٰ ھذا القیاس۔ [70] (درمختار)

مسئلہ ۲۸: چند جنازے کی ایک ساتھ پڑھائی تو اختیار ہے کہ سب کو آگے پیچھے رکھیں یعنی سب کا سینہ امام کے مقابل ہو یا برابر برابر رکھیں یعنی ایک کی پائنتی یا سرہانے دوسرے کو اورا س دوسرے کی پائنتی یا سرہانے تیسرے کو وعلیٰ ھذا القیاس۔ اگر آگے پیچھے رکھے تو امام کے قریب اس کا جنازہ ہو جو سب میں افضل ہو پھر اُس کے بعد جو ا فضل ہو وعلٰی ھذا القیاس۔

اوراگر فضیلت میں برابر ہوں تو جس کی عمر زیادہ ہو اسے امام کے قریب رکھیں یہ اس وقت ہے کہ سب ایک جنس کے ہوں اور اگر مختلف جنس کے ہوں تو امام کے قریب مرد ہو اس کے بعد لڑکا پھر خنثیٰ پھر عورت پھر مراہقہ یعنی نماز میں جس طرح مقتدیوں کی صف میں ترتیب ہے، ا س کا عکس یہاں ہے اور اگر آزاد و غلام کے جنازے ہوں تو آزاد کو امام سے قریب رکھیں گے اگرچہ نابالغ ہو، اُس کے بعد غلام کو اور کسی ضرورت سے ایک ہی قبر میں چند مُردے دفن کریں تو ترتیب عکس کریں یعنی قبلہ کو اُسے رکھیں جو افضل ہے جب کہ سب مرد یا سب عورتیں ہوں، ورنہ قبلہ کی جانب مرد کو رکھیں پھر لڑکے پھر خنثیٰ پھر عورت پھر مراہقہ کو۔[71](عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۲۹: ایک جنازہ کی نماز شروع کی تھی کہ دوسرا آگیا تو پہلے کی پوری کر لے اور اگردوسری تکبیر میں دونوں کی نیّت کرلی، جب بھی پہلے ہی کی ہوگی اور اگر صرف دوسرے کی نیّت کی تو دوسرے کی ہوگی اس سے فارغ ہو کر پہلے کی پھر پڑھے۔[72] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۰: نماز جنازہ میں امام بے وضو ہوگیا اور کسی کو اپنا خلیفہ کیا تو جائز ہے۔[73] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۱: میّت کو بغیر نماز پڑھے دفن کر دیا اور مٹی بھی دے دی گئی تو اب اس کی قبر پر نماز پڑھیں، جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو اور مٹی نہ دی گئی ہو تو نکالیں اور نماز پڑھ کر دفن کریں اور قبر پر نماز پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں کہ کتنے دن تک پڑھی جائے کہ یہ موسم اور زمین اور میّت کے جسم و مرض کے اختلاف سے مختلف ہے، گرمی میں جلد پھٹے گا اور جاڑے میں بدیر تر یا شور زمین میں جلد خشک اور غیر شور میں بدیر فربہ جسم جلد لاغر دیر میں۔ [74] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۲: کوئیں میں گِرکر مر گیا یا اوس کے اوپر مکان گِر پڑا اور مردہ نکالا نہ جا سکا تو اُسی جگہ اُس کی نماز پڑھیں اور دریا میں ڈوب گیا اور نکالا نہ جاسکا تو اس کی نماز نہیں ہو سکتی کہ میّت کا مصلّی کے آگے ہونا معلوم نہیں۔ [75] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۳: مسجد میں نماز جنازہ مطلقاً مکروہِ تحریمی ہے، خواہ میّت مسجد کے اندر ہو یا باہر، سب نمازی مسجد میں ہوں یا بعض، کہ حدیث میں نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کی ممانعت آئی۔ [76] (درمختار) شارع عام اور دوسرے کی زمین پر نماز جنازہ پڑھنا منع ہے۔[77] (ردالمحتار) یعنی جب کہ مالک زمین منع کرتا ہو۔

مسئلہ ۳۴: جمعہ کے دن کسی کا انتقال ہوا تو اگر جمعہ سے پہلے تجہیز و تکفین ہو سکے تو پہلے ہی کر لیں، اس خیال سے روک رکھنا کہ جمعہ کے بعد مجمع زیادہ ہوگا مکروہ ہے۔ [78] (ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۳۵: نماز مغرب کے وقت جنازہ آیا تو فرض اور سنتیں پڑھ کر نماز جنازہ پڑھیں۔ يوہيں کسی اور فرض نماز کے وقت جنازہ آئے اور جماعت طیار ہو تو فرض و سنت پڑھ کر نماز جنازہ پڑھیں، بشرطیکہ نماز جنازہ کی تاخیر میں جسم خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ [79] ( ردالمحتار)

مسئلہ ۳۶: نماز عید کے وقت جنازہ آیا تو پہلے عید کی نماز پڑھیں پھر جنازہ پھر خطبہ اور گہن کی نماز کے وقت آئے تو پہلے جنازہ پھر گہن کی۔ [80] (درمختار، جوہرہ)

مسئلہ ۳۷: مسلمان مرد یا عورت کا بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصہ باہر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مر گیا تو اُس کو غسل و کفن دیں گے اور اس کی نماز پڑھیں گے، ورنہ اُسے ويسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں گے، اُس کے ليے غسل و کفن بطریق مسنون نہیں اور نماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائے گی، یہاں تک کہ سر جب باہر ہوا تھا اس وقت چیختا تھا مگراکثر حصہ نکلنے سے پیشتر مر گیا تو نماز نہ پڑھی جائے، اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک۔[81] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۳۸: بچہ کی ماں یا جنائی نے زندہ پیدا ہونے کی شہادت دی تو اس کی نماز پڑھی جائے، مگروراثت کے بارے میں اُ ن کی گواہی نامعتبر ہے یعنی بچہ اپنے باپ فوت شدہ کا وارث نہیں قرار دیا جائے گا نہ بچہ کی وارث اُس کی ماں ہوگی، یہ اس وقت ہے کہ خود باہر نکلا اور کسی نے حاملہ کے شکم پر ضرب لگائی کہ بچہ مرا ہوا باہر نکلا تو وارث ہوگا اور وارث بنائے گا۔[82] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۹: بچہ زندہ پیدا ہوا یا مُردہ اُس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہرحال اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اُس کا حشر ہوگا۔[83] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۰: کافر کا بچہ دارالحرب میں اپنی ماں یا باپ کے ساتھ یا بعد میں قید کیا گیا پھر وہ مر گیا اور اُس کے ماں باپ میں سے اب تک کوئی مسلمان نہ ہوا تو اسے نہ غسل دیں گے نہ کفن، خواہ دارالحرب ہی میں مرا ہو یا دارالاسلام میں اور اگر تنہا دارالاسلام میں اُسے لائیں یعنی اُس کے ماں باپ میں سے کسی کو قید کر کے نہ لائے ہوں نہ وہ بطور خود بچہ کے لانے سے

پہلے ذمی بن کر آئے تو اسے غسل و کفن دیں گے اور اُس کی نماز پڑھی جائے گی، اگر اس نے عاقل ہو کر کفر اختیار نہ کیا۔[84](عالمگیری، درمختار وغیرہما)

مسئلہ ۴۱: کافر کے بچہ کو قید کیا اور ابھی وہ دارالحرب ہی ميں تھا کہ اُس کا باپ دارالاسلام میں آکر مسلمان ہوگیا تو بچہ مسلمان سمجھا جائے گا یعنی اگرچہ دارالحرب میں مر جائے، اسے غسل و کفن دیں گے اس کی نماز پڑھیں گے۔ [85] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۲: بچہ کو ماں باپ کے ساتھ قید کر لائے اور ان میں سے کوئی مسلمان ہوگیا یا وہ بچہ سمجھ وال تھا، خود مسلمان ہوگیا تو ان دونوں صورتوں میں وہ مسلمان سمجھا جائے گا۔ [86] (تنویر الابصار)

مسئلہ ۴۳: کافر کے بچہ کو ماں باپ کے ساتھ قید کیا مگر وہ دونوں وہیں دارالحرب میں مر گئے تو اب مسلمان سمجھا جائے، مجنون بالغ قید کیا گیا تو اس کا حکم وہی ہے جو بچہ کا ہے۔[87] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۴: مسلمان کا بچہ کافرہ سے پیدا ہوا اور وہ اُس کی منکوحہ نہ تھی، يعنی وہ بچہ زنا کا ہے تو اُس کی نماز پڑھی جائے۔[88](ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۸۳۶تا ۸۴۲)

جنازہ لے چلنے کا بیان

مسئلہ ۱: جنازہ کو کندھا دینا عبادت ہے، ہر شخص کو چاہيے کہ عبادت میں کوتاہی نہ کرے اور حضور سید المرسلین صَلیَّ اللہُ تَعَالی عَلَيْہِ وَسَلَّم نے سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالی عَنْہُ کا جنازہ اٹھایا۔ [89] (جوہرہ)

مسئلہ ۲: سنّت یہ ہے کہ چار شخص جنازہ اٹھائیں، ايک ايک پایہ ایک شخص لے اور اگر صرف دوشخصوں نے جنازہ اٹھایا، ایک سرہانے اور ایک پائنتی تو بلا ضرورت مکروہ ہے اور ضرورت سے ہو مثلاً جگہ تنگ ہے تو حرج نہیں۔ [90](عالمگیری)

مسئلہ ۳: سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ کہ پہلے دہنے سرہانے کندھا دے پھر دہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے کہ حدیث میں ہے، ''جو چالیس قدم جنازہ لے چلے اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا ديے جائیں گے۔'' نیز حدیث میں ہے، ''جو جنازہ کے چاروں پایوں کو کندھا دے، اللہ تَعَالٰی اس کی حتمی مغفرت فرما دے گا۔'' [91](جوہرہ، عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۴: جنازہ لے چلنے میں چارپائی کو ہاتھ سے پکڑ کر مونڈھے پر رکھے، اسباب کی طرح گردن یا پیٹھ پر لادنا مکروہ ہے، چوپایہ پر جنازہ لادنا بھی مکروہ ہے۔ [92] (عالمگیری، غنیہ، درمختار) ٹھیلے پر لادنے کا بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ ۵: چھوٹا بچّہ شیرخوار یا ابھی دُودھ چھوڑا ہو یا اس سے کچھ بڑا، اس کو اگر ایک شخص ہاتھ پر اٹھا کر لے چلے تو حرج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں اور اگر کوئی شخص سواری پر ہو اور اتنے چھوٹے جنازہ کو ہاتھ پر ليے ہو، جب بھی حرج نہیں اور اس سے بڑا مردہ ہو تو چارپائی پر لے جائیں۔ [93] (غنیہ، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۶: جنازہ معتدل تیزی سے لے جائیں مگر نہ اس طرح کہ میّت کو جھٹکا لگے اور ساتھ جانے والوں کے ليے افضل یہ ہے کہ جنازہ سے پیچھے چلیں، دہنے بائیں نہ چلیں اور اگر کوئی آگے چلے تو اسے چاہيے کہ اتنی دور رہے کہ ساتھیوں میں نہ شمار کیا جائے اورسب کے سب آگے ہوں تو مکروہ ہے۔ [94] (عالمگیری وغيرہ)

مسئلہ ۷: جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا افضل ہے اور سواری پر ہو تو آگے چلنا مکروہ اور آگے ہو تو جنازہ سے دور ہو۔ [95] (عالمگیری، صغیری)

مسئلہ ۸: عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانا ناجائز و ممنوع ہے اور نوحہ کرنے والی ساتھ ميں ہو تو اسے سختی سے منع کیا جائے، اگر نہ مانے تو اس کی وجہ سے جنازہ کے ساتھ جانا نہ چھوڑا جائے کہ اس کے ناجائز فعل سے يہ کیوں سُنت ترک کرے، بلکہ دل سے اسے بُرا جانے اور شریک ہو۔[96] (درمختار، صغیری)

مسئلہ ۹: اگر عورتیں جنازے کے پیچھے ہوں اور مرد کو یہ اندیشہ ہو کہ پیچھے چلنے میں عورتوں سے اختلاط ہو گا یا ان میں کوئی نوحہ کرنے والی ہو تو ان صورتوں میں مرد کو آگے چلنا بہتر ہے۔[97] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: جنازہ لے چلنے میں سرہانا آگے ہونا چاہيے اور جنازہ کے ساتھ آگ لے جانے کی ممانعت ہے۔ [98] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو سکوت کی حالت میں ہونا چاہيے۔ موت اور احوال و اہوالِ قبر کو پیش نظر رکھیں، دنیا کی باتیں نہ کریں نہ ہنسیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ نے ایک شخص کو جنازہ کے ساتھ ہنستے دیکھا، فرمایا: ''تُو جنازہ میں ہنستا ہے، تجھ سے کبھی کلام نہ کروں گا۔'' اور ذکر کرنا چاہیں تو دل میں کریں اور بلحاظ حال زمانہ اب علما نے ذکر جہر کی بھی اجازت دی ہے۔ [99] (صغیری، درمختار وغیرہما)

مسئلہ ۱۲: جنازہ جب تک رکھا نہ جائے بیٹھنا مکروہ ہے اور رکھنے کے بعد بے ضرورت کھڑا نہ رہے اور اگر لوگ بیٹھے ہوں اور نماز کے ليے وہاں جنازہ لایا گیا تو جب تک رکھا نہ جائے کھڑے نہ ہوں۔ يوہيں اگر کسی جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں سے جنازہ گزرا تو کھڑا ہونا ضرور نہیں، ہاں جو شخص ساتھ جانا چاہتا ہے وہ اٹھے اور جائے، جب جنازہ رکھا جائے تو یوں نہ رکھیں کہ قبلہ کو پاؤں ہوں یا سر بلکہ آڑا رکھیں کہ دہنی کروٹ قبلہ کو ہو۔[100] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۱۳: جنازہ اٹھانے پر اُجرت لینا دینا جائز ہے، جب کہ اور اٹھانے والے بھی موجود ہوں۔ [101] (عالمگیری) مگر جو ثواب جنازہ لے چلنے پر حديث ميں بيان ہوا، اسے نہ ملے گا کہ اس نے تو بدلہ لے ليا۔

مسئلہ ۱۴: میّت اگر پڑوسی یا رشتہ داریاکوئی نیک شخص ہو تو اس کے جنازہ کے ساتھ جانا نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ [102] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو اسے بغیر نماز پڑھے واپس نہ ہونا چاہيے اور نماز کے بعد اولیائے میّت سے اجازت لے کر واپس ہو سکتا ہے اور دفن کے بعد اولیا سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ [103] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۸۲۲تا ۸۲۵)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۰. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۲.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۲.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۱.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۱، وغيرہ

[5] ۔۔۔۔۔۔ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:احتیاط یہی ہے کہ جوتا اتار کر اس پر پاؤں رکھ کر نماز پڑھی جائے کہ زمین یا تلا اگر ناپاک ہو تو نماز میں خلل نہ آئے۔(فتاویٰ رضویہ ج۹ ص۱۸۸)

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۲.

[7] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۴.

[8] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۱.

[9] ۔۔۔۔۔۔

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض... إلخ، ج۳، ص۱۲۵، ۱۲۸.و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳، وغيرہما.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، المرجع السابق، و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۷، وغيرہما.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۲.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۲.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۱، وغيرہ

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي، ج۳، ص۱۲۳.

[17] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[18] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۴.

[20] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۱.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي، ج۳، ص۱۲۳.

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض... إلخ، ج۳، ص۱۲۴.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۷. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۴، ۱۲۸.

[25] ۔۔۔۔۔۔ ان دعاؤں میں عورتوں کیلئے جہاں صیغے کا اختلاف ہے اسے ہلال کے اوپر لکھ دیا ہے۔ ۱۲ منہ ز جبکہ ہم نے اسے ہلال ميں سامنے لکھ ديا ہے۔

[26] ۔۔۔۔۔۔ رواہ احمد وابو داود و الترمذی والنسائی وابن حبان والحاکم عن ابی ہریرۃ و احمد وابو يعلی والبیہقی وسعید بن منصور فی سننہ عن ابی قتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہما. ۱۲ منہ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب الجنائز، باب أدعیۃ صلاۃ الجنازۃ، الحديث: ۱۳۶۶، ج۱، ص۶۸۴. و ''عمل اليوم و الليلۃ'' مع ''السنن الکبری'' للنسائي، الحديث: ۱۰۹۱۹، ج۶، ص۲۶۶. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تو بخش دے ہمارے زندہ اور مردہ اور ہمارے حاضر و غائب کو اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے بڑے کو اور ہمارے مرد اور عورت کو، اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! ہم میں سے تُو جسے زندہ رکھے، اُسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے تُو جس کو وفات دے اُسے ایمان پر وفات دے۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تو ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈال۔ ۱۲

[27] ۔۔۔۔۔۔ يعنی يہ الفاظ عورت کے جنازہ پر نہ پڑھے جائيں۔ ۱۲ منہ

[28] ۔۔۔۔۔۔ رواہ مسلم والترمذی والنسائی و ابن ماجہ و ابوبکر بن ابی شیبۃ عن عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''صحيح مسلم''، کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت في الصلاۃ، الحدیث: ۹۶۳، ص۴۷۹. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اُس کو بخش دے اور رحم کر اور عافیت دے اور معاف کر اور عزت کی مہمانی کر اور اس کی جگہ کو کشادہ کر اور اس کو پانی اور برف اور اولے سے دھو دے اور اس کو خطا سے پاک کر جیسا کہ تو نے سفید کپڑے کو میل سے کیا اور اس کو گھرکے بدلے ميں بہتر گھر دے اور اہل کے بدلے میں بہتر اہل دے اور بی بی کے بدلے میں بہتر بی بی اور اس کو جنت میں داخل کر اور عذاب قبر و فتنہ قبر و عذاب جہنم سے محفوظ رکھ۔ ۱۲

[29] ۔۔۔۔۔۔ رواہ الحاکم عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما. ۱۲ منہ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب الجنائز، باب أدعیۃ صلاۃ الجنازۃ، الحديث: ۱۳۶۹، ج۱، ص۶۸۵. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیری باندی کا بیٹا ہے گواہی دیتا ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو تنہا ہے تیرا کوئی شریک نہیں گواہی دیتا ہے کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم) تیرے بندے اور رسول ہیں یہ تیری رحمت کا محتاج ہے اور تو اسکے عذاب سے غنی ہے دنیااور دنیا والوں سے جُدا ہوا، اگر یہ پاک ہے تو تُو اسے پاک و صاف کر اور اگر خطا کار ہے تو بخش دے۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔ ۱۲

[30] ۔۔۔۔۔۔ رواہ عن امیر المومنین علی کَرَّمَ اللہ تَعَالیٰ وجہہ. ۱۲ منہ ''کنز العمال''، کتاب الموت، صلاۃ الجنائز، الحديث: ۴۲۸۵۷، ج۱۵، ص۳۰۴.

ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! یہ تیرا بندہ ہے اور تيرے بندہ اور تیری باندی کا بیٹا ہے، اس کے متعلق تیرا حکم نافذ ہے تُو نے اسے پیدا کیا

حالانکہ یہ قابل ذکر شے نہ تھا۔ تیرے پاس آیا تو ان سب سے بہتر ہے جن کے پاس اوترا جائے۔ اے اللہ حجت کی تو اس کو تلقین کر اور اس کو اس کے نبی محمد صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم کے ساتھ ملا دے اور قول ثابت پر اسے ثابت رکھ اس ليے کہ یہ تیری طرف محتاج ہے اور تو اس سے غنی ہے یہ شہادت دیتا تھا کہ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں، پس اسے بخش دے اور رحم کر اور اس کے اجر سے ہم کو محروم نہ کر اور اس کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈال۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اگر یہ پاک ہے تو پاک کر اور بدکار ہے تو بخش دے۔ ۱۲

[31] ۔۔۔۔۔۔ رواہ الحاکم عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما. ۱۲ منہ ''المستدرک'' للحاکم، کتاب الجنائز، باب أدعیۃ صلاۃ الجنازۃ، الحديث: ۱۳۶۹، ج۱، ص۶۸۵. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیری باندی کا بیٹا ہے گواہی دیتا ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو تنہا ہے تیرا کوئی شریک نہیں گواہی دیتا ہے کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم) تیرے بندے اور رسول ہیں یہ تیری رحمت کا محتاج ہے اور تو اسکے عذاب سے غنی ہے دنیااور دنیا والوں سے جُدا ہوا، اگر یہ پاک ہے تو تُو اسے پاک و صاف کر اور اگر خطا کار ہے تو بخش دے۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔ ۱۲

[32] ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابن حبان عن ابی ہریرۃ رَضِیَ اللہ تَعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان''، کتاب الجنائز، فصل في الصلاۃ علی الجنازۃ، الحديث: ۳۰۶۲، ج۵، ص۳۰. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندہ کا بیٹا ہے، گواہی دیتا تھا کہ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم تیرے بندہ اورتیرے رسول ہیں اور تُو ہم سے زیادہ اسے جانتا ہے، اگر نیکوکار ہے تو نیکی میں زیادہ کر اوراگر گنہگار ہے تو اسے بخش دے اور اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ کر اور اس کے بعد فتنہ میں نہ ڈال۔ ۱۲

[33] ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابو یعلی بسند صحیح عن سعید بن المسیب عن امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ من قولہ الحقنا بما قبلہ من المرفوعات للمناسبتہ. ۱۲ منہ

''کنز العمال''، کتاب الموت، صلاۃ الجنائز، الحديث: ۴۲۸۱۷، ج۱۵، ص۲۹۹. ترجمہ: آج تیرا یہ بندہ دنیا سے نکلا اور دنیا کو اہل دنیا کے ليے چھوڑا۔ تیری طرف محتاج ہے اور تو اس سے غنی گواہی دیتا تھا کہ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں اور صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم تیرے بندہ اور رسول ہیں اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تُو اس کو بخش دے اور اس سے درگزر فرما اور اس کو اس کے نبی محمد صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم کے ساتھ لاحق کر دے۔ ۱۲

[34] ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابو داود والنسائی والبیہقی عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''سنن أبي داود''، کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت، الحديث: ۳۲۰۰، ج۳، ص۲۸۳.

و ''السنن الکبریٰ'' للبيہقي، کتاب الجنائز، باب الدعاء في صلاۃ الجنازۃ، الحديث: ۶۹۷۶، ج۴، ص۶۸. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تُو اس کا رب ہے اور تُو نے اس کو پیدا کیا اورتُو نے اس کو اسلام کی طرف ہدایت کی اور تُو نے اس کی رُوح کو قبض کیا تُو اس کے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے ہم سفارش کے ليے حاضر ہوئے اسے بخش دے۔

[35] ۔۔۔۔۔۔ روا ابو نعیم عن عبد اللہ بن الحارث بن نوفل عن ابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''کنز العمال''، کتاب الموت، صلاۃ الجنائز، الحديث: ۴۲۸۳۷، ج۱۵، ص۳۰۱.

ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو تُو بخش دے اور ہمارے آپس کی حالت درست کر اور ہمارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دے۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! یہ تیرا بندہ فلاں بن فلاں ہے ہم اس کے متعلق خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے اور تُو اس کو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تُو ہم کو اور اُس کو بخش دے۔ ۱۲

[36] ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابو داود و ابن ماجہ عن واثلہ بن الاسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''سنن أبي داود''، کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت، الحديث: ۳۲۰۲، ج۳، ص۲۸۳. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! فلاں بن فلاں تیرے ذمہ اور تیری حفاظت میں ہے، اس کو فتنۂ قبر اور عذاب جہنم سے بچا، تُو وفا اور حمد کا اہل ہے اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اس کو بخش اور رحم کر بے شک تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ۱۲

[37] ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابن ماجہ عن ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُمَا. ۱۲ منہ ''سنن ابن ماجہ''، کتاب الجنائز، باب ماجاء في إدخال الميت القبر، الحديث: ۱۵۵۳، ج۲، ص۲۴۳. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اس کو شیطان سے اور عذابِ قبر سے بچا اے اللہ زمین کو اس کی دونوں کروٹوں سے کشادہ کر دے اور اُس کی رُوح کو بلند کر اور اپنی خوشنودی دے۔ ۱۲

[38] ۔۔۔۔۔۔ رواہ البغوی و ابن مندہ والدیلمی فی مسند الفردوس عن ابی حاضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ . ۱۲ منہ ''کنز العمال''، کتاب الموت، صلاۃ الجنائز، الحديث: ۴۲۸۴۲، ج۱۵، ص۳۰۲. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تُو نے ہم کو پیدا کیا اور ہم تیرے بندے ہیں، تُو ہمارا رب ہے اور تیری ہی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔ ۱۲

نوٹ: بہارِ شريعت کے مطبوعہ نسخوں ميں عن ابی عامر جبکہ فتاویٰ رضويہ قدیم و جدید دونوں ميں عن ابی حاصر ہے۔ ہم نے بہارِ شريعت ميں اسے عن ابی حاضرلکھ دیا ہے، کیونکہ يہ دونو ں کتابت کی غلطیاں معلوم ہوتی ہیں۔ دیکھئے: ''مسند الفردوس''، الحدیث: ۲۰۲۶، ج۱، ص۴۹۷. ''الاصابۃ في تمييز الصحابۃ'' للعسقلاني، رقم: ۹۷۴۱، ج۷، ص۷۰.

[39] ۔۔۔۔۔۔ رواہ البغوی عن ابراہیم الاسہلی عن ابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ. ۱۲ منہ ''کنز العمال''، کتاب الموت، في الصلاۃ علی الميت، الحديث: ۴۲۲۹۲، ج۱۵، ص۲۴۸. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! بخش دے ہمارے اگلے اور پچھلے کو اورہمارے زندہ و مردہ کو اور ہمارے مرد و عورت کو اور ہمارے چھوٹے اور بڑے کو اور ہمارے حاضر و غائب کو۔ اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ کر اور اس کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈال۔ ۱۲

[40] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ زادہ مجدد المأتہ الحاضرۃ. ۱۲ منہ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۹، ص۲۱۷. ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! اے ارحم الراحمین، اے ارحم الراحمین، اے ارحم الراحمین، اے زندہ، اے قیوم، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، اے عظمت و بزرگی والے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس وجہ سے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ تو اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) یکتا ہے، بے نیاز ہے، جو نہ دوسرے کو جنا، نہ دوسرے سے جنا اور اُس کا مقابل کوئی نہیں۔ اے اللہ میں سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی محمد صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم کے ذریعہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے اللہ کریم! جب سوال کا حکم دیتا ہے تو واپس کبھی نہیں کرتا اور تُو نے ہمیں حکم دیا ہم نے دُعاکی اور تُو نے ہمیں اجازت دی ہم نے سفارش کی اور تو سب کریموں سے زیادہ کریم ہے، ہماری سفارش اس کے بارہ میں قبول کر اور اس کی تنہائی میں تُو اس پر رحم کر اور اس کی وحشت میں تُو رحم کر اور اس کی غربت میں تُو رحم کر اس کی بے چینی میں تُو رحم کر اور اس کے اجر کو عظیم کر اور اس کی قبر کو منور کر اور اس کے چہرہ کو سپید کر اور اس کی خواب گاہ کو ٹھنڈا کر اور اُس کی منزل کو معطر کر اور اس کی مہمانی کا سامان اچھا کر۔ اے بہتر اوتارنے والے اور اے بہتر بخشنے والے اور اے بہتر رحم کرنے والے۔ آمین، آمین، آمین، دُرودو سلام بھیج اور برکت کر شفاعت کرنے والوں کے سردار محمد (صَلیَّ اللہُ تَعَالیٰ عَلَيْہِ وَسَلَّم) اور اُن کی آل و اصحاب سب پر۔ تمام تعریفیں اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے ليے، جو رب ہے تمام جہان کا۔ ۱۲

[41] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ترجمہ: اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) ! تو اس کو ہمارے ليے پیش رو کر اور اسکو ہمارے ليے ذخیرہ کر اور اسکو ہماری شفاعت کرنیوالا اور مقبول الشفاعۃ کر دے۔ ۱۲

[42] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۸.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فصل في الجنائز، ص۵۸۷.

[44] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اس کی وضاحت فتاویٰ رضویہ جلد 9صفحہ 194پر ملاحظہ فرمالیجئے۔

[45] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب ھل يسقط فرض... إلخ، ج۳، ص۱۳۰، وغيرہما.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۲۸۔۱۳۰.

[47] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۰.

[48] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فصل في الجنائز، ص۵۸۸.

[49] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۱.

[50] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فصل في الجنائز، ص۵۸۴. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۹ ۔ ۱۴۱.

[51] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم أولی الأمر واجب، ج۳، ص۱۴۱.

[52] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم أولی الأمر واجب، ج۳، ص۱۴۱.

[53] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۴۳.

[54] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم أولی الأمر واجب، ج۳، ص۱۴۳.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، الجزء الأول، ص۱۳۶.

[56] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳.

[57] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم... إلخ، ج۳، ص۱۴۱۔ ۱۴۴.

[58] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳.

[59] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[60] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[61] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳، وغيرہ.

[62] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۴۴، وغیرھما.

[63] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۴.

[64] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض... إلخ، ج۳، ص۱۳۴.

[65] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۱.

[66] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فصل في الجنائز، ص۵۸۷.

[67] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۶.

[68] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ھل يسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي، ج۳، ص۱۳۶.

[69] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۶.

[70] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۸.

[71] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۵. و''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۳۹.

[72] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۵.

[73] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[74] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم أولی الأمر واجب، ج۳، ص۱۴۶.

[75] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: تعظيم أولی الأمر واجب، ج۳، ص۱۴۷.

[76] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۴۸.

[77] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراھۃ صلاۃ الجنازۃ في المسجد، ج۳، ص۱۴۸.

[78] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، مطلب في دفن الميت، ج۳، ص۱۷۳، و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۹، ص۳۱۰.

[79] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: فيما يترجع تقديمہ من صلاۃ عيد و جنازۃ... إلخ، ج۳،ص۵۲ ۔ ۵۳. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۹، ص۱۸۳۔۱۸۴.

[80] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۵۲. و ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الکسوف، ص۱۲۴.

[81] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: مھم إذا قال... إلخ، ج۳، ص۱۵۲۔۱۵۴.

[82] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: مھم إذا قال... إلخ، ج۳، ص۱۵۲.

[83] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۵۴.

[84] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۵۹. و''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۵۵، وغيرہما.

[85] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: مھم إذا قال... إلخ، ج۳، ص۱۵۵.

[86] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''تنوير الأبصار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۵۵ ۔ ۱۵۷.

[87] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: مھم إذا قال... إلخ، ج۳، ص۱۵۷.

[88] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''

[89] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۹.

[90] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲.

[91] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النيرۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ص۱۳۹. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۵۸ ۔ ۱۵۹.

[92] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۵۹.

[93] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲. و ''غنیۃ المتملي، فصل في الجنائز، ص۵۹۲. وغیرھما

[94] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲، وغیرہ .

[95] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''صغيری''، فصل في الجنائز، ص۲۹۲.

[96] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''صغيری ''، فصل في الجنائز، ص۲۹۳. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۲.

[97] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، في حمل الميت، ج۳، ص۱۶۲.

[98] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲.

[99] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''صغيری ''، فصل في الجنائز، ص۲۹۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۳. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۹، ص۱۴۰.

[100] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج۳، ص۱۶۰.

[101] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۶۲.

[102] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[103] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۵.

Share