خوفِ خدا

(23)خوفِ خدا

خوفِ خدا کی تعریف :

خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰیکی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۰)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ)(پ۲۲، الاحزاب: ۷۰) ترجمۂ کنزالایمان:’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:( وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶))(پ۲۷، الرحمن: ۴۶)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۰)

(حدیث مبارکہ)حکمت کی اصل خوفِ خدا ہے:

حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حکمت کی اصل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف ہے۔‘‘[2]سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے فرمایا: ’’اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے بہت ڈرتے رہنا۔‘‘[3] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۱)

خوفِ خدا کا حکم:

خوفِ خدا تمام نیکیوں اور دنیا وآخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے، خوفِ خدا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ پھر خوف کے تین درجات ہیں: (۱) ضعیف: (یعنی کمزور) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سن کر محض جھرجھری لے کر رہ جانا اور پھرسے غفلت ومعصیت (گناہ)میں گرفتار ہوجانا۔(۲) معتدل: (یعنی متوسط) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو، مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لیے عملی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ربّ تَعَالٰی سے اُمید رحمت بھی رکھنا۔ (۳) قوی: (یعنی مضبوط) یہ وہ خوف ہے جو انسان کو ناامیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کردے، مثلاً اللہ تَعَالٰی کے عذاب وغیرہ کا سن کر اپنی مغفرت سے ناامید ہوجانا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اِن سب میں بہتر درجہ ’’معتدل‘‘ ہے کیونکہ خوف ایک ایسے تازیانے (کوڑے)کی مثل ہے جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لیے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب (چوٹ)اتنی ضعیف (کمزور) ہو کہ جانور کی رفتار میں  ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اِتنی قوی ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاسکے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لیے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔[4] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۱،۲۰۲)

خوفِ خدا پیدا کرنے کے آٹھ (8)طریقے:

(1)ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلیجئے:جس طرح طویل دنیاوی سفر پر تنہا روانہ ہوتے وقت عموماًہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہی سامان ساتھ رکھیں جو مفید ہو نقصان دہ اشیاء ساتھ نہیں رکھتےتاکہ ہمارا سفر قدرے آرام سے گزرے اور ہمیں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کر نا پڑے، بالکل اسی طرح سفرِ آخرت کو کامیابی سے طے کرنے کی خواہش رکھنے والے کو چاہیے کہ روانگی سے قبل گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کرے کہ کہیں یہ بوجھ اسے تھکا کر کامیابی کی منزل پر پہنچنے سے محروم نہ کر دے۔ اس بوجھ سے چھٹکارے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار عَزَّ وَجَلکی بارگاہ میں سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتی ہے جیسے کبھی کیے ہی نہ تھے ۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘[5]

(2)خوفِ خدا کے لیے بارگاہ ربّ العزت میں دعا کیجئے:یوں دعا کیجئے: اے میرے مالک عَزَّ وَجَل! تیرا یہ کمزور وناتواں بندہ دنیا وآخرت میں کامیابی کے لئے تیرے خوف کو اپنے دل میں بسانا چاہتاہے۔ اے میرے ربّ عَزَّوَجَل! میں گناہوں کی غلاظت سے لتھڑا ہوا بدن لیے تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہوں۔اے میرے پرورد گار عَزَّ وَجَل!مجھے معاف فرمادے اور آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے کے لئے اس صفت کو اپنانے کے سلسلے میں بھرپور عملی کوشش کرنے کی توفیق عطافرمادے اور اس کوشش کو کامیابی کی منزل پر پہنچادے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔آمین

یارب ! میں تیرے خوف سے روتا رہوں ہر دم

دیوانہ شہنشاہِ مدینہ کا بنا دے

(3)خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیے: فطری طور پر انسان ہر اس چیز کی طرف آسانی سے مائل ہوجاتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔ اس تقاضے کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ قرآن واحادیث میں بیان کردہ خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیں، چند فضائل یہ ہیں:خوفِ خدا رکھنے والوں کے لیے دو جنتوں کی بشارت دی گئی ہے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید (خوشخبری)سنائی گئی ہے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو جنت کے باغات اور چشمے عطا کیے جائیں گے۔ خوفِ خدا رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو مددوتائید الٰہی حاصل ہوتی ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پسندیدہ بندے ہیں۔ خوفِ خدا اَعمال میں قبولیت کا ایک سبب ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے بارگاہ الٰہی میں مکرم ہیں۔خوفِ خدا رکھنے والے دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران ہیں۔ خوفِ خدا جہنم سے چھٹکارے کا سبب ہے۔ خوفِ خدا ذریعہ نجات ہے۔[6]

(4) خوفِ خدا کی علامات پر غور کیجئے: جب کسی چیز کی علامات پائی جائیں گیں تو وہ شے بھی خود بخود پائی جائے گی۔ حضرت سیدنا فقیہ ابواللیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے: (۱) انسان کی زبان میں، اس طرح کہ ربّ تَعَالٰی کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اسے ذکرُاللہ، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔(۲)اس کے شکم میں، اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔(۳)اس کی آنکھ میں، اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں بلکہ حصولِ عبرت کے لیے دیکھے گا۔(۴)اس کے ہاتھ میں، اس طرح کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا بلکہ ہمیشہ اِطاعت الٰہی میں استعمال کرے گا۔ (۵) اس کے قدموں میں، اس طرح کہ وہ انہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا بلکہ اس کے حکم کی اِطاعت کے لیے اٹھائے گا۔(۶)اس کے دل میں، اس طرح کہ وہ اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حسد کرنے کو دور کردے اور اس میں خیرخواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔ (۷)اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں، اس طرح کہ وہ فقط اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے لیے عبادت کرے اور رِیاء ونفاق سے خائف رہے۔(۸) اس کی سماعت میں، اس طرح کہ وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔[7]

(5)جہنم کے عذابات پر غوروتفکر کیجئے:جہنم کے عذابات پر غور کرنے کے لیے پانچ فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں: ٭دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہوگا اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔[8]٭دوزخیوں میں بعض وہ لوگ ہوں گے جن کے ٹخنوں تک آگ ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے زانوؤں تک آگ کے شعلے پہنچیں گے اور بعض وہ ہوں گے جن کی کمرتک ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے گلے تک آگ کے شعلے ہوں گے۔[9] ٭ اگر اس زرد پانی کا ایک ڈول جو دوخیوں کے زخموں سے جاری ہوگا، دنیا میں ڈال دیاجائے تو دنیا والے بدبودار ہوجائیں۔[10]٭دوزخ کی آگ ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی، پس اب وہ نہایت سیاہ ہے۔[11]٭دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر سانپ ہیں، یہ سانپ ایک بارکسی کو کاٹے تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا اور دوزخ میں پالان باندھے ہوئے خچروں کی مثل بچھو ہیں تو اُن کے ایک بار کاٹنے کا درد چالیس سال تک رہے گا۔[12]

(6)خوفِ خدا کے بارے میں بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے: چند اَحوال پیش خدمت ہیں:٭حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر گریہ وزاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے اُن کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی۔ ایک دن حضرت سیدنا داود عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں کو نصیحت کرنے اور خوفِ خدا دِلانے کے لیے گھرسے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان میں اس وقت چالیس ہزار لوگ موجود تھے، جن پر آپ کے پُراَثر بیان کی وجہ سے ایسی رقت طاری ہوئی کہ تیس ہزار لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت سیدنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی آپ کے ساتھ رونے لگتے۔ حضرت سیدنا شعیب عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوفِ خدا سے اتنا روتے تھے کہ مسلسل رونے کی وجہ سے آپ کی اکثر بینائی رخصت ہوگئی۔[13]

ایک بار حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک جنازے میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اَقدس (مبارک آنکھوں)سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی، پھر فرمایا: اے بھائیو! اس قبر کے لیے تیاری کرو۔[14]

حضرت سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک بار بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: جب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے، میری آنکھیں اس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں نہ ڈال دیا جاؤں۔[15]

(7)خود اِحتسابی کی عادت اپناتے ہوئے فکرمدینہ کیجئے:اپنی ذات کا محاسبہ کرلینے کی عادت اپنا لینے سے بھی خوفِ خدا کے حصول کی منزل پر پہنچنا قدرے آسان ہوجاتا ہے، فکرمدینہ کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ انسان اُخروی اعتبار سے اپنے معمولات زندگی کا محاسبہ کرے، پھر جو کام اس کی آخرت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، انہیں درست کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور جو اُمور اُخروی اِعتبار سے نفع بخش نظر آئیں، اِن میں بہتری کے لیے اِقدامات کرے، مدنی اِنعامات پر عمل کرے۔

(8)خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اِختیار کیجئے: ایسے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا بھی بندے کے دل میں خوفِ خدا بیدار کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ ہر صحبت اپنا اثر رکھتی ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کو کبھی کسی میت والے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں کی فضا پر چھائی ہوئی اداسی دیکھ کر کچھ دیر کے لئے آپ بھی غمگین ہوجائیں گے اور اگر کسی شادی پر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو خوشیوں بھرا ماحول آپ کو بھی کچھ دیر کے لئے مسرور کر دے گا ۔بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص غفلت کا شکارہو کر گناہوں پر دلیرہوجانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے گا ،تو غالب گمان ہے کہ وہ بھی بہت جلد انہی کی مانندہوجائے گا اور اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کی صحبت اختیارکرے گا جن کے دل خوفِ خدا سے معمور ہوں، اُن کی آنکھیں اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے روئیں تو امید ہے کہ یہی کیفیات اس کے دل میں بھی سرایت کر جائیں گی ۔اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۳تا۲۰۹)


.....[1]احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان حقیقۃ الخوف، ۴ / ۱۹۰ ماخوذا،خوف خدا، ص۱۴۔

.....[2]شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی،۱ / ۴۷۰، حدیث: ۷۴۳۔

[3].....احیاء العلوم،۴ / ۴۷۲۔

[4].....احیاء العلوم، ۴ / ۴۵۷، خوف خدا، ص۱۸۔

[5].....ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ، ۲ / ۴۹۱، حدیث: ۴۲۵۰۔

[6].....خوف خدا، ص۲۶ملخصا۔

[7]..... درۃ الناصحین، المجلس الثلاثون، ص۱۰۹، خوف خدا، ص۱۹۔

.....[8]بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، ۲ / ۲۶۲، حدیث: ۶۵۶۱۔

[9].....مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، باب فی شدۃ حر نار جھنم۔۔۔الخ، ص۱۵۲۴، حدیث: ۲۸۴۵۔

.....[10]ترمذی، کتاب صفۃ الجھنم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اھل النار، ۴ / ۲۶۳، ص۲۶۳، حدیث: ۲۵۹۴۔

.....[11]ترمذی، کتاب صفۃ الجھنم، ۴ / ۲۶۶، حدیث: ۲۶۰۰۔

[12].....مشکوۃ، کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق، باب صفۃ النار،۳ / ۲۴۳، حدیث: ۵۶۹۱۔

[13].....احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان احوال الانبیاء۔۔۔الخ، ۴ / ۲۲۴ تا۲۲۶ ملتقطا۔

[14].....ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، حدیث: ۴۱۹۵۔

.....[15]شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی، ۱ / ۵۲۱، حدیث: ۹۱۵، خوف خدا، ص۱۴۲ تا ۱۴۶ ملخصا۔

Share