خشوع

(19)خشوع

خشوع کی تعریف:

بارگاہِ اِلٰہی میں حاضری کے وقت دِل کا لگ جانا یا بارگاہِ اِلٰہی میں دلوں کو جھکا دینا ’’خشوع‘‘ کہلاتا ہے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۶۷)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-)(پ۲۷،الحدید:۱۶)ترجمۂ کنز الایمان: ’’کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لئے جو اُترا۔‘‘ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:(قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲))(پ۱۸، المؤمنون: ۱،۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے، جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔‘‘ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’بعض مفسرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے۔‘‘[2](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۶۷)

(حدیثِ مبارکہ)جس دل میں خشوع نہ ہو اس سے پناہ:

حضرت سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !میں اس دل سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس میں خشو ع نہ ہو۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۶۸)

خشوع کا حکم:

خشوع یعنی دل کا حاضر ہونا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے، خشوع رِضائے الٰہی پانے، نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے، جسے اپنے اعمال میں خشوع حاصل ہوجائے گویا اسے اخلاص نصیب ہوگیا۔حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’خشوع یعنی دل کی حاضری نماز کی رُوح ہے اور کم ازکم مقدار جس سے رُوح باقی رہے وہ تکبیر تحریمہ کے وقت دل کا حاضر ہونا ہے اور اس قدر سے بھی کم ہوتو ہلاکت ہے، اس سے زیادہ جس قدر حضورِ قلب ہوگا اسی قدر روح نماز کے اجزاء میں پھیلے گی اور کتنے ہی زندہ لوگ ہیں جو حرکت نہیں کرسکتے، وہ مردوں کے قریب ہیں، پس تکبیر تحریمہ کے علاوہ غافل اس زندہ کی مثل ہے جس میں حرکت نہیں۔‘‘[4]واضح رہے کہ خشوع کو عموماً نماز کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہ عام ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’جان لیجئے کہ خشوع ایمان کا پھل اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے جلال سے حاصل ہونے والے یقین کا نتیجہ ہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے وہ نماز سے باہر بلکہ تنہائی میں بھی خشوع اپناتا ہے، کیونکہ خشوع کا موجب (سبب وعِلَّت)اس بات کی پہچان ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بندے پر مطلع ہے، نیز بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے جلال اور اپنی کوتاہی کی معرفت رکھتا ہے، انہی باتوں کی پہچان سے خشوع حاصل ہوتا ہے اور یہ نماز کے ساتھ خاص نہیں اسی لیے بعض بزرگوں کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے حیا کرتے اور اس سے ڈرتے ہوئے 40سال تک آسمان کی طرف سر نہیں اٹھایا۔[5] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۶۸،۱۶۹)

اَعمال میں خشوع پیدا کرنے کے سات (7)طریقے:

(1) خشوع کے فضائل کا مطالعہ کیجئے: چندفضائل یہ ہیں: ٭ خشوع والوں کی فضیلت قرآن میں بیان کی گئی ہے۔٭خشوع سے نماز ادا کرنے والے کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔٭خشوع سے نماز پڑھنے والے کی نماز کامل ہے۔ ٭خشوع سے نماز ادا کرنے والے کی نماز مقبول ہے۔نماز میں خشوع کی خود حضور نبی کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْمنے ترغیب دلائی۔٭خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا ربّ تَعَالٰی کے قریب ہوجاتا ہے۔٭خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والے کی نماز کی طرف ربّ تَعَالٰی نظر رَحمت فرماتا ہے۔٭خشوع کے ساتھ دو رکعت ادا کرنا بغیر خشوع کے پوری رات قیام کرنے سے افضل ہے۔[6]

(2) اَعضاء میں خشوع پیدا کیجئے:کہ یہ دل کے خشوع پر دلالت کرتا ہے، سرکار مدینہ منورہ سردار مکہ مکرمہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک شخص کو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔‘‘[7]

(3)خشوع سے متعلق بزرگانِ دِین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے: ایسے واقعات پڑھنے سے اَعمال میں خشوع پیدا کرنے کا مدنی ذہن بنے گا، ایسے واقعات جاننے کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۱، صفحہ ۵۲۹ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ کیجئے۔

(4)دل میں نر می پیدا کیجیے :‏موت سے غفلت اورزیادہ کھانے سے پیٹ بھرنے کے سبب قساوتِ قلبی (دل میں سختی) پیدا ہوجاتی ہے اوریہی سختی اَعمال میں خشوع کو روکتی ہے، لہٰذا خشوع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں نرمی پیدا کرے، دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ دل کی سختی کے اَسباب وعلاج کی معلومات حاصل کرے، اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۳۵۲صفحات پر مشتمل کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ صفحہ۱۸۶ کا مطالعہ بہت مفید ہے ۔

(5)نماز میں جنت وجہنم کا تصور قائم کیجئے:جنت وجہنم کا تصوربھی خشوع پیدا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت سیدنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم سے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: ’’جب نما ز کا وقت آتا ہے تو میں کامل وضوکرتا ہوں، پھر جس جگہ نماز پڑھنے کا اِرادہ ہوتا ہے وہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اَعضاء جمع ہوجاتے ہیں، پھر یہ تصور باندھ کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں کہ کَعْبَۃُ اللہِ الْمُشَرَّفَہ میرے سامنے، پل صراط پاؤں تلے، جنت میرے دائیں جانب، جہنم بائیں طرف اور ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام میرے پیچھے ہیں اور گمان کرتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے۔ پھر امید وخوف کی درمیانی حالت میں ہوتا ہوں، پھر حقیقتاً تکبیر تحریمہ کہتا، ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتا، عاجزی کے ساتھ رکوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں، پھر اخلاص سے کام لیتا ہوں، اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں۔‘‘[8]

(6)آنکھوں کا قفل مدینہ لگائیے: اپنی آنکھوں کو ہرغیر شرعی منظر دیکھنے سے بچائیے کہ بندہ جو جو مناظر دیکھتا ہے وہ اس کے دل میں نقش ہوجاتے ہیں،دل غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، بندہ جب بھی کوئی نیک عمل کرنے لگتا ہے تو وہ مناظر سامنے آجاتے ہیں اور اس عمل میں خشوع پیدا نہیں ہو پاتا ، لہٰذا اعمال میں خشوع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی آنکھوں کی حفاظت کیجئے۔

(7)قلبی خیالات کو دور کرنے کی کوشش کیجئے:بسا اوقات دل میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں جو خشوع پیدا نہیں ہونے دیتے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اُن قلبی خیالات کے اَسباب پر غور کرے اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرے کہ جب اَسباب دُور ہوجائیں گے تو قلبی خیالات بھی دُور ہوجائیں گے۔ نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے مگر جب کھلی رہنے میں خشوع نہ ہوتا ہو تو بند کرنے میں حرج نہیں بلکہ آنکھیں بند کرنا بہتر ہے۔ [9] یا تاریک کمرے میں نماز پڑھے یا اپنے سامنے کوئی ایسی چیز نہ رہنے دے جو اس کے حواس کو مشغول کرے یا دیوار کے قریب نماز پڑھے تاکہ نظر زیادہ دُور تک نہ جائے اور راستوں میں نماز پڑھنے سے بچے، اسی طرح نقش ونگار والی جگہوں اور رنگ دار فرش پر بھی نماز نہ پڑھے، امید ہے اس طرح قلبی خیالات سے کافی حد تک حفاظت ہوگی۔[10] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۷۰تا۱۷۳)


[1] ۔۔۔۔الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الثالث و الاربعون،۲ / ۱۱۷ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۱۸، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۔

[3] ۔۔۔۔مسلم،کتاب الذکر و الدعا ۔۔۔ الخ، باب تعوذ من شرما عمل۔۔۔ الخ، ص۱۴۵۸،حدیث:۲۸۲۲۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۱ / ۵۰۱۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۱ / ۵۲۹۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۱ / ۵۲۹۔

[7] ۔۔۔۔نوادر الاصول، الاصل السابع والاربعون والمائتان، ص۱۰۰۷، حدیث: ۱۳۱۰۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۱ / ۴۷۲۔

[9] ۔۔۔۔بہارشریعت،۱ / ۶۳۴،حصہ سوم۔

[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۱ / ۵۰۷ملخصا۔

Share

Comments


Security Code