خلوت ‏ وگوشہ نشینی

(17)خلوت وگوشہ نشینی

خلوت وگوشہ نشینی کی تعریف :

خلوت کے لغوی معنیٰ ’’تنہائی ‘‘کے ہیں اور بندے کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا حاصل کرنے، تقویٰ وپرہیزگاری کے درجات میں ترقی کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اپنے گھر یا کسی مخصوص مقام پر لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اس طرح معتدل انداز میں نفلی عبادت کرنا ’’خلوت وگوشہ نشینی‘‘کہلاتا ہے کہ حقوقُ اللہ (یعنی فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ) اور شریعت کی طرف سے اس پر لازم کیے گئے تمام حقوق کی ادائیگی، والدین، گھروالوں، آل اَولاد ودیگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق)کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے نزدیک لوگوں میں ظاہری طور پر رہتے ہوئے باطنی طور پر ان سے جدا رہنا یعنی خودکو ربّ تَعَالٰی کی طرف متوجہ رکھنا خلوت وگوشہ نشینی ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۴۲، ۱۴۳)

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸))(پ۲۹، المزمل: ۸)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو ر ہو۔‘‘اس آیت کے تحت صدرالافاضل مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں:’’یعنی‏عبادت میں اِنقطاع کی صفت ہو کہ دل اللہ تَعَالٰی کے سوا اور کسی طرف مشغول نہ ہو، سب علاقہ (تعلقات) قطع‏(ختم)ہوجائیں، اسی کی طرف توجہ رہے۔‘‘[1] اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:( وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَۘ-اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ(۱۶))(پ۱۶، مریم: ۱۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب (مشرق)کی طرف ایک جگہ الگ گئی ۔‘‘اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدتنا مریم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا کی خلوت کا ذکر ہے کہ وہ اپنے مکان میں یا بیت المقدس کی شرقی جانب میں لوگوں سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خلوت میں بیٹھ گئیں۔[2](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۴۳)

(حدیث مبارکہ)خلوت وگوشہ نشینی ذریعۂ نجات ہے:

حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے عرض کی:’’نجات کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تم کو تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤ ں پر روؤ۔‘‘[3] مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں: ’’یعنی بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ، لوگوں کے پاس بلاوجہ نہ جاؤ، گھر سے نہ گھبراؤ، اپنے گھر کی خلوت کو غنیمت جانو کہ اس میں صدہا (سینکڑوں)آفتوں سے امان ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ سکوت،لزوم بیوت اور قناعت بالقوت اِلٰی اَنْ یَّمُوْتامان کی چابی ہے یعنی خاموشی،گھر میں رہنا،ربّ کی عطا پر قناعت،موت تک اس پر قائم رہنا۔‘‘[4](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۴۴)

خلوت وگوشہ نشینی کے اَحکام:

(1)مطلقاً خلوت رِضائے الٰہی پانے، خود کو نیکیوں میں لگانے،گناہوں سے بچانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔ہرمسلمان کو چاہیے کہ رضائے الٰہی کے حصول اور عبادات میں پختگی حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت خلوت اختیار کرے،البتہ مختلف اَفراد کے مختلف اَحوال کی وجہ سے اس کے اَحکام بھی مختلف ہیں، بعض کے لیے خلوت افضل اور بعض کے لیے جلوت (یعنی لوگوں میں رہنا)افضل۔

(2)ایسا عالم دین جس سے لوگ علم دِین حاصل کرتے ہوںاور اگر یہ خلوت اختیار کر لے تو لوگ شرعی مسائل سے محروم ہوکر گمراہی میں جا پڑیں گے تو ایسے عالم کے لیے کلیۃً خلوت اِختیار کرناناجائز وممنوع ہے البتہ ایسا صاحب علم شخص جس کے پاس اپنی ضرورت کا علم موجود ہے اور اس کے خلوت اختیار کرنے سے لوگوں کا بھی کوئی نقصان نہیں تو ایسے شخص کے لیے خلوت اختیار کرنا جائز ہے۔

(3)ایسا شخص جو ضروریاتِ دِین (فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ)سے ناواقف ہو، اگر علم حاصل نہ کرے گا تو نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر گمراہی کے گڑھے میں گرجا ئے گا ایسے شخص کے لیے خلوت اختیار کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے بلکہ اس پر لازم ہے کہ فرض علوم کوحاصل کرے۔

(4) اگر کسی شخص کو اچھی صحبت میسرنہیں ہے اور وہ خلوت اختیار نہیں کرے گا توگناہوں میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ حقوق اللہ وحقوق العباد (اللہ تَعَالٰی اور بندوں کے حقوق)کی ادائیگی کرتے ہوئے بقدرِ ضرورت خلوت اختیار کرے اور خود کو گناہوں سے بچا کر عبادت میں مصروف ہو جائے۔ مرآۃ المناجیح میں ہے: صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ ’’اب اس زمانہ میں جلوت (لوگوں میں رہنے)سے خلوت افضل،بری صحبت سے تنہائی افضل۔‘‘[5] برے لوگوں کی صحبت سے خلوت افضل اور خلوت سے اچھے لوگوں کی صحبت افضل۔

(5)اگر خلوت اختیار کرنے میں کسی بھی طرح حقوق اللہ یا حقوق العباد کی تلفی ہوتی ہو تو ایسی خلوت اختیار کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔ مثلاً کوئی شخص گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر اس طرح ذکر واَذکار وعبادت وغیرہ میں مصروف ہوجائے کہ جماعت بھی ترک کردے، جمعہ وعیدین میں بھی سستی ہوجائے،کسب حلال ترک کر دے اور اسے یا اس کے گھروالوں کو اس خلوت کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے تو ایسی خلوت ناجائز وحرام ہے۔حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:’’مسلمان دو قسم کے ہیں: ایک وہ جنہیں خلوت بہتر ہے، بعض وہ جن کے لیے جلوت افضل، ان دونوں میں جلوت والے افضل ہیں کیونکہ خلوت والے صرف اپنی اِصلاح کرتے ہیں اور جلوت والے دوسروں کوبھی درست کرتے ہیں۔ حضرت علی (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) فرماتے ہیں کہ تم دنیا میں اپنے دوست زیادہ بناؤ کہ کل قیامت میں مؤمن دوست شفاعت کریں گے اور آپ نے اپنی تائید میں یہ‏آیت پڑھی:( فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَۙ(۱۰۰) وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(۱۰۱)) (پ۱۹، الشعراء: ۱۰۰، ۱۰۱)کفارِ مکہ اپنے لیے شفیع اور دوست نہ ملنے پر افسوس کریں گے مگر خیال رہے کہ بعض لوگوں کے لیےبعض حالات میں بعض مقامات پر خلوت افضل ہوتی ہے، اگر جلوت میں خود اپنے آپ کےگناہوں میں مشغول ہوجانے کا اندیشہ ہو تو خلوت بہتر۔ حضرت وہب (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ) فرماتے ہیں کہ حکمت دس حصے ہیں: نو خاموشی میں، ایک خلوت میں۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی خلوت اختیارکرے کبھی جلوت: خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا(سب سے بہتر کام میانہ روی والا ہوتا ہے)عربی میں تنہائی کو عُزْلَۃٌ کہتے ہیں، عارفین فرماتے ہیں کہ عُزْلَۃ میں اگر علم کا ’’عین‘‘ نہ ہو تو ذلت ہے اور اگر زُہد کی‏’’ز‘‘ نہ ہو تو نری علت ہے یعنی خلوت وہ اختیار کرے جس کے پاس علم بھی ہو زُہد بھی۔‘‘[6]اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ اِمام اَحمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن سے جب خلوت نشینی کے متعلق سوال ہوا تو آ پ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:’’آدمی تین قسم کے ہیں: (۱) مُفِیْد (۲) مُسْتَفِیْد (۳) مُنْفَرِد۔ مفید وہ کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے، مستفیدوہ کہ خو دد وسرے سے فائدہ حاصل کرے، منفرد وہ کہ دوسرے سے فائدہ لینے کی اسے حاجت نہ ہو اور نہ دوسرے کو فائدہ پہنچاسکتا ہو۔ مفید اور‏مستفید کو عزلت گز ینی (یعنی خلوت)حرام ہے اور منفرد کو جائز بلکہ واجب۔‘‘ اِمام اِبن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا واقعہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا: ’’وہ لوگ جو پہاڑ پر گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے تھے وہ خود فائدہ حاصل کیے ہوئے تھے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی اُن میں قابلیت نہ تھی اُن کو گوشہ نشینی جائز تھی او ر امام اِبن سیرین (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) پر عزلت (یعنی خلوت)حرام تھی۔‘‘[7]

دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

سارا عالم ہو مگر دیدہ دل دیکھے تمہیں

انجمن گرم ہو اور لذت تنہائی ہو

(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۴۴تا۱۴۷)

خلوت اِختیار کرنے کے نو(9) طریقے:

(1)خلوت سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:چند اَقوال یہ ہیں:حضرت سیدنا سہل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’خلوت، حلال کھانے کے ساتھ درست ہوتی ہے اور حلال کھانا اس وقت درست ہوتا ہے جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا حق ادا کیا جائے۔‘‘حضرت سیدنا جریری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’گوشہ نشینی یہ ہے کہ تم لوگوں کے ہجوم میں داخل ہو جاؤ اور اپنے باطن کو ان کی مزاحمت (سامنے آنے)سے محفوظ رکھو، اپنے نفس کو گناہوں سے الگ رکھو اور تمہارا باطن حق کے ساتھ مربوط (وابستہ) ہو۔‘‘ کہا گیا ہے کہ ’’جس نے گوشہ نشینی کو ترجیح دی اس نے حق کو پالیا۔‘‘حضرت سیدنا ذوالنون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’میں نے خلوت سے بڑھ کر کوئی چیز اِخلاص کی ترغیب دینے والی نہیں دیکھی۔‘‘حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: ’’گوشہ نشینی کی مشقت برداشت کرنا لوگوں کے میل جول اور مُدَارات (اچھی طرح پیش آنے)سے زیادہ آسان ہے۔‘‘حضرت سیدنا مکحول رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’اگر مخلوق سے میل جول میں بھلائی ہے تو گوشہ نشینی میں سلامتی ہے۔‘‘[8]

(2)آدابِ خلوت کی معلومات حاصل کیجئے:خلوت یعنی گوشہ نشینی کے بھی کچھ آداب ہیں، جب تک بندہ اُن آداب کو نہ بجالائے اُس وقت تک خلوت اِختیار نہ کرے کہ اِس سے نقصان کا اندیشہ ہے، چند آداب یہ ہیں:(۱)خلوت وگوشہ نشینی اِختیار کرنے والے کو چاہیے کہ اَوّلاًدرست عقائد کا علم حاصل کرے تاکہ شیطان اُسے وسوسوں کے ذریعے بہکا نہ سکے، پھر ضروری اَحکامِ شرعیہ کی تفصیلی معلومات حاصل کرے تاکہ اس کے ذریعے فرائض وواجبات کی اچھے طریقے سے ادائیگی کرسکے اور خلوت کا مقصد حقیقی (یعنی رِضائے الٰہی وعبادت پر اِستقامت)حاصل ہو۔ علم عقائد و مسائل کے بغیر خلوت اِختیار کرنے والا ایسا ہے جیسے ٹیڑھی بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے والا کہ وہ چاہے جتنی بھی خوبصورت عمارت قائم کرلے وہ کبھی سیدھی نہ ہوگی اور ہمیشہ اس کے گرنے کا خطرہ ہی رہے گا، اس طرح بغیر علم کے خلوت اختیار کرنے والا بھی کبھی نہ کبھی نفس و شیطان کے شکنجے میں آکر گمراہی کے عمیق (گہرے)گڑھے میں گر سکتاہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم نخعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے ایک گوشہ نشین سے فرمایا: ’’پہلے علم حاصل کروپھر گوشہ نشینی اختیار کرو۔‘‘[9] (۲) خلوت اور گوشہ نشینی درحقیقت بری خصلتوں سے دُور رہنے کا نام ہے پس اس کی غرض اپنے اَعمال میں تبدیلی لانا ہےنہ کہ اپنی ذات سے ہی دُور ہوجانا، اسی لیے جب پوچھا گیا کہ عارِف کون ہے؟ تو صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے جواباً ارشادفرمایا: ’’جو ظاہر میں مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے اور باطنی اِعتبار سے اُن سے جدا ہوتا ہے۔‘‘ (۳) حضرت سیدنا ابو عثمان مغربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’جو شخص صحبت پر خلوت کو ترجیح دیتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر کے علاوہ تمام اَذکار کو چھوڑ دے اور اپنے ربّ کی رضا کے علاوہ تمام اِرادوں سے خالی ہوجائے اور اگر نفس تمام اَسباب کا مطالبہ کرے تو اُس سے بھی الگ ہو جائے، اگر یہ صورت پیدا نہیں ہوتی تو اُس کی خلوت اُسے فتنے یا آزمائش میں ڈال دے گی۔‘‘(۴)حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’یہ دیکھو کہ تمہیں خلوت کے ساتھ اُنس (محبت)ہے یا خلوت میں تمہارا اُنس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ ہے؟ اگر تمہارا اُنس خلوت کے ساتھ ہے تو جب تم خلوت سے نکلو گے تو تمہارا اُنس ختم ہوجائے گا اور اگر تمہیں خلوت میں اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکے ساتھ اُنس ہوگا تو تمہارے لیے صحرا اور جنگل تمام جگہیں برابر ہوں گی۔‘‘[10] (۵)خلوت اختیار کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ دل سے ان تمام وسوسوں کو نکال دے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔ (۶)تھوڑے رزق پر قناعت کرے۔ (۷)نیک عورت سے شادی کرے یا نیک شخص کی صحبت اختیار کرے تاکہ دن بھرذکرو اذکار میں مشغولیت کے بعد کچھ وقت ان کے ذریعے نفس کو آرام پہنچا سکے۔ (۸)لمبی زندگی کی آس نہ لگائے، صبح اس حال میں کرے کہ شام کی امید نہ ہواور شام اس حال میں کرے کہ صبح کی امید نہ ہو۔(۹)تنہائی وگوشہ نشینی سے جب دل گھبرائے تو موت اور قبر کی تنہائی کو کثرت سے یاد کرے۔[11]

(3)خلوت سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال وواقعات کا مطالعہ کیجئے: خلوت کے بارے میں مطالعہ کرنے سے خلوت وگوشہ نشینی اختیارکرنے اور اس کا ذہن بنانے میں معاونت ملے گی۔ اس سلسلے میں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف احیاء العلوم، ج۲، ص۷۹۹کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(4)خلوت اختیار کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کرلیجئے:چند نیتیں یہ ہیں:لوگوں کو اپنے شرسے بچاؤں گا۔خود کو شریروں کے شرسے محفوظ رکھوں گا۔مسلمانوں کے حقوق پورا نہ کرنے کی آفت سے چھٹکارا حاصل کروں گا۔تمام وقت خالصتاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہوں گا۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’ان نیتوں کے ساتھ گوشہ نشین ہونے کے بعد انسان کو چاہیے کہ مستقل علم وعمل اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر وفکر میں مشغول رہے تاکہ گوشہ نشینی کے ثمرات حاصل کرسکے۔‘‘[12]

(5)برے لوگوں کی صحبت کے نقصانات پر غور کیجیے : جب کوئی بری صحبت کے نقصانات پر غور کرے گا تو ان سے دور رہنے اورخلوت اختیار کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔برے لوگوں کی صحبت کے‏چند نقصانات یہ ہیں: ٭بندہ آہستہ آہستہ ظاہری وباطنی گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، تکبر، وعدہ خلافی، ریاکاری، بغض وکینہ، محبت دنیا، طلب شہرت، تعظیم اُمراء، تحقیر مساکین، اِیذائے مسلم، اِتباعِ شہوات، حرص، بخل، خیانت، اور قساوتِ قلبی (دل کی سختی)جیسے خطرناک اَمراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔بسا اوقات بندہ فرائض وواجبات وسنن مؤکدہ کی ادائیگی بھی نہیں کر پاتا۔٭برے لوگوں کے ساتھ رہنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے کوبھی ان میں شمار کیا جاتا ہے۔برے لوگوںکی صحبت اختیار کرنے والےاور گناہوں میں مبتلا ہونے والے پر برے خاتمے کا بھی خوف ہے کیونکہ گناہوں میں مبتلا ہونا برے خاتمے کے اسباب میں سے ہے۔ برے لوگوں کی صحبت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی کا سبب ہے۔برے لوگوں کی صحبت قبر وحشر کی تکالیف اور مشکلات کو دعوت دیتی ہے۔برے لوگوں کی صحبت ایمان کو تباہ وبرباد کرنے والی ہے۔الغرض برے لوگوں کی صحبت دنیا وآخرت کی بے شمار تباہیوں وبربادیوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا اِن تمام نقصانات سے بچنے کے لیے خلوت اختیار کرنا بہتر ہےکہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا فرمان ہے: ’’گوشہ نشینی میں برے ساتھی سے نجات ہے۔‘‘[13]

(6)خلوت کے دِینی ودُنیوی فوائد پیش نظر رکھیے:‏چند دینی فوائد یہ ہیں: خلوت میں بندہ جلوت سے بسا اوقات زیادہ عبادت کرلیتا ہے۔خلوت سے عبادت پر اِستقامت نصیب ہوتی ہے۔٭خلوت میں بندہ جلوت کے گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ خلوت میں گویا بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی صحبت اختیار کرلیتا ہے۔خلوت میں بندہ فضول گفتگو سے بچ جاتاہے۔٭خلوت میں بندہ کئی ظاہری وباطنی گناہوں سے بچ جاتا ہے۔خلوت میں بندہ حقوق العباد کی تلفی سے بھی بچ جاتا ہے۔٭خلوت میں ذوق وشوق کے ساتھ مطالعہ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔٭ حضرت سیدنا شعیب بن حرب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں حضرت سیدنا مالک بن‏مسعود رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا وہ اپنے گھر میں تنہا تھے۔میں نے عرض کی: ’’آپ تنہائی میں وحشت محسوس نہیں فرماتے ؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی صحبت میں وَحشت کیسے محسوس کر سکتا ہے؟‘‘ [14]

چند دُنیوی فوائد یہ ہیں:٭بندہ دنیا کی خوبصورتی کی طرف دیکھنے سے بچ جاتا ہے۔٭لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔٭وہ لوگوں کے مال میں  خواہش نہیں  رکھتا۔٭لوگ اس کے مال میں خواہش نہیں رکھتے۔٭میل جول کی وجہ سے ختم ہونے والی مروت (لحاظ ورِعایت)باقی رہتی ہے۔٭ہم نشین کی بداَخلاقی سے بندہ بچ جاتا ہے۔بندہ لڑائی جھگڑے اور فتنہ وفساد سے بچ جاتا ہے۔[15]

(7)حب جاہ، حب مدح اور طلب شہرت سے بچیے :‏مقام ومرتبے،اپنی تعریف، واہ واہ اور لوگوں میں مشہور ہونے کی خواہشات یہ تینوں وہ باطنی امراض ہیں جو بندے کو خلوت اختیار نہیں کرنے دیتے، بندہ اپنے گرد لوگوں کے ہجوم کو پسند کرتا ہے، اپنی تعریف پر پھولا نہیں سماتا، ان کی وجہ سے بندہ تکبر میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے، الغرض خلوت اختیار کرنے کے لیے ان تینوں امراض سے بچنا نہایت ضروری ہے، ان کی تفصیلی معلومات، اَسباب وعلاج کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(8)خاموش مبلغ بننے کا ذہن بنا لیجیے :‏ باعمل مسلمان خاموش مبلغ ہوتا ہے کیوں کہ اس کا عمل ہی دوسروں کے لیے ترغیب کا سبب ہے،اس کے اخلاق اور کردار ہر ایک کے لیے وہ آئینہ ہوتے ہیں جس میں اپنی ظاہر ی اور باطنی خامیوں کو دیکھ کر سنوار ا جاسکتا ہے۔خاموش مبلغ بننے کا ایک فائد ہ یہ بھی ہے کہ بندہ لوگوں کے عیوب میں غور و فکر کرکے ہلاکت میں پڑنے سے بچ جاتا ہے کیوں کہ اس کی نظر صر ف اپنی خامیو ں پر ہوتی ہے اور انہیں دور کر نے ‏کے لیے وہ ہر کوشش کرتا ہے اورایسا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا ہے تو لوگوں کے دل اسے بہت جلد قبول کرلیتے ہیں،اسےاپنی گفتگو میں تکلف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، اس کے چند جملے ہی لوگوں کی زندگی بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں لہٰذا اگر آپ خلوت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو خاموش مبلغ بن جائیے، اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل اس کی کثیر برکتیں حاصل ہوں گی۔

(9)اپنی ذات کو نظا م الاوقات کا پابند کیجیے : ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کرلیجئے اور پھر اسے اس وقت پر انجام دینے کی بھرپور کوشش کیجئے، جو بندہ اپنے آپ کو نظام الاوقات کا پابند نہیں بناتا، ہر کام کو اس کے وقت میں کرنے کا عادی نہیں بنتا، پھر اس کے تمام کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور اس کے لیے خلوت اختیار کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۵۰تا۱۵۶)


[1] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۹،المزمل، تحت الآیۃ: ۸۔

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۱۶،مریم، تحت الآیۃ: ۱۶ ماخوذا۔

[3] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی حفظ اللسان،۴ / ۱۸۲،حدیث:۲۴۱۴۔

[4] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح،۶ / ۴۶۴۔

[5] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح، ج۵، ص۱۳۷۔

[6] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح،۶ / ۶۴۷۔

[7] ۔۔۔۔ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص۳۷۳۔

[8] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ،باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹، ۱۴۰۔

[9] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۸ / ۲۰۰۔

[10] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ، باب الخلوۃ والعزلۃ، ص۱۳۹۔

[11] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، ۲ / ۸۸۲، ۸۸۳ملخصا۔

[12] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۲ / ۸۸۱، ۸۸۲۔

[13] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۲ / ۸۴۷۔

[14] ۔۔۔۔الرسالۃ القشیریۃ، ص۱۴۰۔

[15] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۲ / ۸۱۷ ماخوذا۔

Share

Comments


Security Code