جُرم اور اُن کے کفارے کا بیان

جُرم اور اُن کے کفارے کا بیان

تنبیہ: مُحرم اگر بالقصد بلا عُذر جرم کرے تو کفارہ بھی واجب ہے اور گنہگار بھی ہوا، لہٰذا اس صورت میں توبہ واجب کہ محض کفارہ سے پاک نہ ہوگا جب تک توبہ نہ کرے اور اگر نادانستہ یا عذر سے ہے تو کفارہ کافی ہے۔ جرم میں کفارہ بہرحال لازم ہے، یا د سے ہو یا بھول چوک سے، اس کا جرم ہونا جانتا ہو یا معلوم نہ ہو، خوشی سے ہو یا مجبوراً، سوتے میں ہو یا بیداری میں، نشہ یا بے ہوشی میں یا ہوش میں، اُس نے اپنے آپ کیا ہو یا دوسرے نے اُس کے حکم سے کیا۔

تنبیہ: اس بیان میں جہاں دَم کہیں گے اس سے مراد ایک بکری یا بھیڑ ہوگی اور بدنہ اونٹ یا گائے یہ سب جانور انھیں شرائط کے ہوں جو قربانی میں ہیں اور صدقہ سے مراد انگریزی روپے سے ایک سو پچھتّر روپے آٹھ آنہ بھر گیہوں کہ سو۱۰۰ روپے کے سیر سے پونے دو سیر اٹھنی بھر اوپر ہوئے یا ا س کے دُونے جَو یا کھجور یا ان کی قیمت۔

مسئلہ ۱: جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جُوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں۔ اس میں اختیار ہو گا کہ دَم کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے، اگر چھ صدقے ایک مسکین کو دیدیے یا تین یا سات مساکین پر تقسیم کر دیے تو کفارہ ادا نہ ہوگابلکہ شرط یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو دے اور افضل یہ ہے کہ حرم کے مساکین ہوں اور اگر اس میں صدقہ کا حکم ہے اور بمجبور ی کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے۔ کفارہ اس لیے ہے کہ بھول چوک سے یا سوتے میں یا مجبوری سے جر م ہوں تو کفارہ سے پاک ہو جائیں، نہ اس لیے کہ جان بوجھ کر بلا عذر جُرم کرو اور کہو کہ کفارہ دیدیں گے، دینا تو جب بھی آئے گا مگر قصداً حکم الٰہی کی مخالفت سخت تر ہے۔

مسئلہ ۲: جہاں ایک دَم یا صدقہ ہے، قارِن پر دو ہیں۔ [1] (عامہ کتب)

مسئلہ ۳: کفارہ کی قربانی یا قارِن و مُتمتّع کے شکرانہ کی غیر حرم میں نہیں ہوسکتی۔ غیر حرم میں کی تو ادا نہ ہوئی، ہا ں جُرم غیر اختیاری میں اگر اس کا گوشت چھ مسکینوں پر تصدق کیا اور ہر مسکین کو ایک صدقہ کی قیمت کا پہنچا تو ادا ہوگیا۔[2] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: شکرانہ کی قربانی سے آپ کھائے، غنی کو کھلائے، مساکین کو دے اور کفارہ کی صرف محتاجوں کا حق ہے۔

مسئلہ ۵: اگر کفارے کے روزے رکھے تو اس میں شرط یہ ہے کہ رات سے یعنی صبح صادق سے پہلے نیت کرلے اور یہ بھی نیت کہ فُلاں کفارہ کا روزہ ہے، مطلق روزہ کی نیت یا نفل یا کوئی اور نیت کی تو کفارہ ادا نہ ہوا اور پے در پے ہونا یا حرم میں یا احرام میں رکھنا ضرور نہیں۔[3] (منسک) اب احکام سنیے: (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۶۲ تا ۱۱۶۳)

(۱) خوشبو اور تیل لگانا

مسئلہ ۶: خوشبو اگر بہت سی لگائی جسے دیکھ کر لوگ بہت بتائیں اگرچہ عضو کے تھوڑے حصہ پریا کسی بڑے عضو جیسے سر، مونھ، ران، پنڈلی کو پورا سان دیا اگرچہ خوشبو تھوڑی ہے تو ان دونوں صورتوں میں دَم ہے اور اگر تھوڑی سی خوشبو عضو کے تھوڑے سے حصہ میں لگائی تو صدقہ ہے۔[4] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: کپڑے یا بچھونے پر خوشبو مَلیتوخود خوشبو کی مقدار دیکھی جائے گی، زیادہ ہے تو دَم اور کم ہے تو صدقہ۔ [5] (عالمگیری)

مسئلہ ۸: خوشبو سونگھی پھل ہویا پھول جیسے لیمو، نارنگی، گلاب، چمیلی، بیلے ،جُوہی وغیرہ کے پھول تو کچھ کفارہ نہیں اگرچہ مُحرم کو خوشبو سونگھنا مکروہ ہے۔ [6] (ردالمحتار)

مسئلہ ۹: احرام سے پہلے بدن پر خوشبو لگائی تھی، احرام کے بعد پھیل کر اور اعضا کو لگی تو کفارہ نہیں۔ [7] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: مُحرِم نے دوسرے کے بدن پر خوشبولگائی مگر اس طرح کہ اس کے ہاتھ وغیرہ کسی عضومیں خوشبو نہ لگی یا اس کو سلا ہو ا کپڑا پہنایا تو کچھ کفارہ نہیں مگر جب کہ مُحرم کو خوشبو لگائی یا سِلا ہوا کپڑا پہنایا تو گنہگار ہوا اور جس کو لگائی یا پہنایا اس پر کفارہ واجب ہے۔ [8] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱: تھوڑی سی خوشبو بدن کے متفرق حصوں میں لگائی اگر جمع کرنے سے پورے بڑے عضو کی مقدار کو پہنچ جائے تو دَم ہے ورنہ صدقہ اور زیادہ خوشبو متفرق جگہ لگائی تو بہر حال دَم ہے۔ [9] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: ایک جلسہ میں کتنے ہی اعضا پر خوشبو لگائے بلکہ سارے بدن پر بھی لگائے تو ایک ہی جُرم ہے اور ایک کفارہ واجب اور کئی جلسوں میں لگائی تو ہر بار کے لیے الگ الگ کفارہ ہے، خواہ پہلی بار کا کفارہ دے کر دوسری بار لگائی یا ابھی کسی کا کفارہ نہ دیا ہو۔[10](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۳: کسی شے میں خوشبو لگی تھی اسے چھوا، اگر اس سے خوشبو چھوٹ کر بڑے عضوِ کامل کی قدر بدن کو لگی تو دَم دے اور کم ہو تو صدقہ اورکچھ نہیں تو کچھ نہیں مثلاً سنگِ اَسود شریف پر خوشبو ملی جاتی ہے اگر بحالتِ احرام بوسہ لیتے میں بہت سی لگی تو دَم دے اور تھوڑی سی تو صدقہ۔ [11] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۴: خوشبودار سُرمہ ایک یا دو بار لگایا تو صدقہ دے، اس سے زیادہ میں دَم اور جس سُرمہ میں خوشبو نہ ہو اُس کے استعمال میں حرج نہیں، جب کہ بضرورت ہو اور بلا ضرورت مکروہ۔ [12] (منسک، عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: اگر خالص خوشبو جیسے مشک، زعفران، لونگ، الائچی، دار چینی اتنی کھائی کہ مونھ کے اکثرحصہ میں لگ گئی تو دَم ہے ورنہ صدقہ۔ [13] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: کھانے میں پکتے وقت خوشبو پڑی یا فنا ہوگئی تو کچھ نہیں، ورنہ اگر خوشبو کے اجزا زیادہ ہوں تو وہ خالص خوشبوکے حکم میں ہے اور کھانا زیادہ ہو تو کفارہ کچھ نہیں مگر خوشبو آتی ہو تو مکروہ ہے۔ [14] (عالمگیری، درمختار ،ردالمحتار)

مسئلہ ۱۷: پینے کی چیز میں خوشبو ملائی، اگرخوشبو غالب ہے یا تین بار یا زیادہ پیا تو دَم ہے، ورنہ صدقہ۔ [15] (ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۱۸: تمباکو کھانے والے اس کا خیال رکھیں کہ احرام میں خوشبو دار تمباکو نہ کھائیں کہ پتیوں میں تو ویسے ہی کچی خوشبو ملائی جاتی ہے اور قوام میں بھی اکثر پکانے کے بعد مُشک وغیرہ ملاتے ہیں۔

مسئلہ ۱۹: خمیرہ تمباکو نہ پینا بہتر ہے ،کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے مگر پیا تو کفارہ نہیں۔

مسئلہ ۲۰: اگر ایسی جگہ گیا جہاں خوشبو سُلگ رہی ہے اور اس کے کپڑے بھی بس گئے تو کچھ نہیں اور سُلگا کر اس نے خود بَسائے تو قلیل میں صدقہ اور کثیر میں دَم اور نہ بسے تو کچھ نہیں اور اگر احرام سے پہلے بسایا تھا اور احرام میں پہنا تو مکروہ ہے مگر کفارہ نہیں۔[16] (عالمگیری، منسک)

مسئلہ ۲۱: سر پر منہدی کا پتلا خضاب کیا کہ بال نہ چھپے تو ایک دَم اور گاڑھی تھوپی کہ بال چھپ گئے اور چار پہر گزرے تو مرد پر دو دَم اور چار پہر سے کم میں ایک دَم اور ایک صدقہ اور عورت پر بہر حال ایک دم، چوتھائی سر چھپنے کا بھی یہی حکم ہے اور چوتھائی سے کم میں صدقہ ہے اور سر پر وسمہ پتلا پتلا لگایا تو کچھ نہیں اور گاڑھا ہو تو مردکو کفارہ دینا ہوگا۔[17](جوہرہ، عالمگیری)

مسئلہ ۲۲: داڑھی میں منہدی لگائی جب بھی دَم واجب ہے، پوری ہتھیلی یا تلوے میں لگائی تو دَم دے، مرد ہویا عورت اور چاروں ہاتھ پاؤں میں ایک ہی جلسہ میں لگائی جب بھی ایک ہی دَم ہے، ورنہ ہر جلسہ پر ایک دَم اور ہاتھ پاؤں کے کسی حصہ میں لگائی تو صدقہ۔ [18] (جوہرہ، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۲۳: خطمی سے سر یا داڑھی دھوئی تو دَم ہے۔ [19] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۴: عطر فروش کی دُکان پر خوشبو سونگھنے کے لیے بیٹھا تو کراہت ہے ورنہ حرج نہیں۔ [20] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۵: چادر یا تہبند کے کنارہ میں مشک، عنبر، زعفران باندھا اگر زیادہ ہے اور چار پہر گزرے تو دَم ہے اور کم ہے تو صدقہ۔[21] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۶: خوشبو استعمال کرنے میں بقصد یا بلا قصد ہونا، یاد کرکے یا بھولے سے ہونا، مجبوراً یا خوشی سے ہونا، مرد و عورت دونوں کے لیے سب کا یکساں حکم ہے۔ [22] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۷: خوشبو لگانا جب جُرم قرار پایا تو بدن یا کپڑے سے دُور کرنا واجب ہے اور کفارہ دینے کے بعد زائل نہ کیا تو پھر دَم وغیرہ واجب ہوگا۔ [23] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۸: خوشبو لگانے سے بہر حال کفارہ واجب ہے، اگرچہ فوراً زائل کردی ہو اور اگر کوئی غیر مُحرم ملے تو اس سے دھلوائے اور اگر صرف پانی بہانے سے دُھل جائے تو یوہیں کرے۔ [24] (منسک)

مسئلہ ۲۹: روغن چمیلی وغیرہ خوشبودار تیل لگا نے کا وہی حکم ہے جو خوشبو استعمال کرنے میں تھا۔ [25] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۰: تِل اور زیتون کا تیل خوشبو کے حکم میں ہے اگرچہ ان میں خوشبو نہ ہو، البتہ ان کے کھانے اور ناک میں چڑھانے اور زخم پر لگانے اور کان میں ٹپکانے سے صدقہ واجب نہیں۔ [26] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۱: مشک، عنبر، زعفران وغیرہ جو خود ہی خوشبو ہیں، ان کے استعمال سے مطلقاً کفارہ لازم ہے اگرچہ دواءً استعمال کیا ہو، یہ اس صورت میں ہے جب کہ ان کو خالص استعمال کریں اور اگر دوسری چیز جو خوشبو دار نہ ہو، اس کے ساتھ ملا کر استعمال کیا تو غالب کا اعتبار ہے اور دوسری چیز میں ملا کر پکا لیا ہو تو کچھ نہیں۔ [27] (درمختار)

مسئلہ ۳۲: زخم کا علاج ایسی دوا سے کیا جس میں خوشبو ہے پھر دوسرا زخم ہوا، اس کا علاج پہلے کے ساتھ کیا تو جب تک پہلا اچھا نہ ہو اس دوسرے کی وجہ سے کفارہ نہیں اور پہلے کے اچھے ہونے کے بعد بھی دوسرے میں وہ خوشبودار دوا لگائی تو دو کفارے واجب ہیں۔[28](عالمگیری)

مسئلہ ۳۳: کُسم یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا چار پہر پہنا تو دَم دے اور اس سے کم تو صدقہ، اگرچہ فوراً اُتار ڈالا۔ [29] (منسک، عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۶۳تا ۱۱۶۷)

(۲) سلے کپڑے پہننا

مسئلہ ۱: مُحرِم نے سِلا کپڑا چار پہر [30] کامل پہنا تو دَم واجب ہے اور اس سے کم تو صدقہ اگرچہ تھوڑی دیر پہنا اور لگاتار کئی دن تک پہنے رہا جب بھی ایک ہی دَم واجب ہے ،جب کہ یہ لگا تار پہننا ایک طرح کا ہو یعنی عُذر سے یا بلا عذر اور اگر مثلاً ایک دن بلاعذر تھا، دوسرے دن بعذر یا بالعکس تو دو کفارے واجب ہوں گے۔ [31] (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۲: اگر دن میں پہنا رات میں گرمی کے سبب اُتار ڈالا یا رات میں سردی کی وجہ سے پہنا دن میں اُتار ڈالا، باز آنے کی نیت سے نہ اُتارا تو ایک کفارہ ہے اور توبہ کی نیت سے اُتارا تو ہر بار میں نیا کفارہ واجب ہوگا۔ یوہیں کسی ایک دن کُرتا پہنا تھا اور اُتار ڈالا پھر پاجامہ پہنا اُسے بھی اُتار کر ٹوپی پہنی تو یہ سب ایک ہی پہننا ہے اور اگر ایک دن ایک پہنا دوسرے دن دوسرا تو دو کفارے واجب ہیں۔ [32] (عالمگیری، درمختار)

باندھنا ایک ہی جُرم ہے جب تک عُذر باقی ہے۔ [33] (عالمگیری)

مسئلہ ۹: مُحرِم نے دوسرے مُحرِم کو سِلا ہوا یا خوشبودار کپڑا پہنایا تو اس پہنانے والے پر کچھ نہیں۔ [34] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰: مرد یا عورت نے مونھ کی ٹکلی ساری یا چہارم چھپائی یا مرد نے پورا یا چہارم سر چھپایا تو چار پہر یا زیادہ لگاتار چھپانے میں دَم ہے اور کم میں صدقہ اور چہارم سے کم کو چار پہر تک چھپایا تو صدقہ ہے اور چار پہر سے کم میں کفارہ نہیں مگر گناہ ہے۔ [35](عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۱۱: مُحرِم نے سر پر کپڑے کی گٹھری رکھی تو کفارہ ہے اور غلہ کی گٹھری یا تختہ یا لگن وغیرہ کوئی برتن رکھ لیا تو نہیں اور اگر سر پر مٹی تھوپ لی تو کفارہ ہے۔ [36] (عالمگیری، منسک)

مسئلہ ۱۲: سلا ہوا کپڑا پہننے میں یہ شرط نہیں کہ قصداً پہنے بلکہ بھول کر ہو یا نادانی میں بہرحال وہی حکم ہے۔ یوہیں سر اور مونھ چھپانے میں، یہاں تک کہ مُحرِم نے سوتے میں سر یا مونھ چھپالیا تو کفارہ واجب ہے۔ [37] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۳: کان اور گدی کے چھپانے میں حرج نہیں ۔یوہیں ناک پر خالی ہاتھ رکھنے میں اور اگر ہاتھ میں کپڑا ہے اور کپڑے سمیت ناک پر ہاتھ رکھا تو کفارہ نہیں مگر مکروہ و گناہ ہے۔ [38] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: پہننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کپڑا اس طرح پہنے جیسے عادۃً پہنا جاتا ہے، ورنہ اگر کرتے کا تہبند باندھ لیا یا پاجامہ کو تہبند کی طرح لپیٹا پاؤں پائنچے میں نہ ڈالے تو کچھ نہیں۔ یوہیں انگر کھا پھیلا کر دونوں شانوں پر رکھ لیا، آستینوں میں ہاتھ نہ ڈالے تو کفارہ نہیں مگر مکروہ ہے اور مونڈھوں پر سِلے کپڑے ڈال لیے تو کچھ نہیں۔ [39] (درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: جوتے نہ ہوں تو موزے کو وہاں سے کا ٹ کر پہنے جہاں عربی جوتے کا تسمہ ہوتا ہے اور بغیر کاٹے ہوئے پہن لیا تو پورے چار پہر پہننے میں دَم ہے اور اس سے کم میں صدقہ اور جوتے موجود ہوں تو موزے کاٹ کر پہننا جائز نہیں کہ مال کو ضائع کرنا ہے پھر بھی اگر ایسا کیا تو کفارہ نہیں۔ [40] (منسک)

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ احرام میں انگریزی جوتے پہننا جائز نہیں کہ وہ اُس جوڑ کو چھپاتے ہیں، پہنے گا تو کفارہ لازم آئے گا۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۶۷ تا ۱۱۷۰)

(۳) بال دُور کرنا

مسئلہ ا: سر یا داڑھی کے چہارم بال یا زیادہ کسی طرح دُور کیے تو دَم ہے اور کم میں صدقہ اور اگر چند لاہے یا داڑھی میں کم بال ہیں، تو اگر چوتھائی کی مقدار ہیں تو کُل میں دَم ورنہ صدقہ۔ چند جگہ سے تھوڑے تھوڑے بال لیے تو سب کا مجموعہ اگر چہارم کو پہنچتا ہے تو دَم ہے ورنہ صدقہ۔ [41] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: پوری گردن یا پوری ایک بغل میں دَم ہے اور کم میں صدقہ اگرچہ نصف یا زیادہ ہو۔ یہی حکم زیرِ ناف کا ہے۔ دونوں بغلیں پوری مونڈائے، جب بھی ایک ہی دَم ہے۔[42] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳: پورا سر چند جلسوں میں مونڈایا، تو ایک ہی دَم واجب ہے مگر جب کہ پہلے کچھ حصہ مونڈا کر اُس کا کفارہ ادا کر دیا پھر دوسرے جلسہ میں مونڈایا تو اب نیاکفارہ دینا ہوگا۔ یوہیں دونوں بغلیں دو جلسوں میں مونڈائیں تو ایک ہی کفارہ ہے۔[43] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴: سر مونڈایا اور دَم دیدیا پھر اسی جلسہ میں داڑھی مونڈائی تو اب دوسرا دَم دے۔[44] (عالمگیری)

مسئلہ ۵: سر اور داڑھی اور بغلیں اور سارے بدن کے بال ایک ہی جلسہ میں مونڈائے تو ایک ہی کفارہ ہے اور اگر ایک ایک عضو کے ایک ایک جلسہ میں تو اتنے ہی کفارے۔[45] (عالمگیری)

مسئلہ ۶: سر اور داڑھی اور گردن اور بغل اور زیرِ ناف کے سوا باقی اعضا کے مونڈانے میں صرف صدقہ ہے۔ [46] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷: مونچھ اگرچہ پوری مونڈائے یا کتروائے صدقہ ہے۔ [47] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸: روٹی پکانے میں کچھ بال جل گئے تو صدقہ ہے، وضو کرنے یا کھجانے یا کنگھا کرنے میں بال گرے، اس پر بھی پورا صدقہ ہے اور بعض نے کہا دو تین بال تک ہر بال کے لیے ایک مٹھی ناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چھوہارا۔ [48] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: اپنے آپ بے ہاتھ لگائے بال گر جائے یا بیماری سے تمام بال گر پڑیں تو کچھ نہیں۔ [49] (منسک)

مسئلہ ۱۰: مُحرِم نے دوسرے مُحرِم کا سر مونڈا اس پر بھی صدقہ ہے، خواہ اُس نے اُسے حکم دیا ہو یا نہیں، خوشی سے مونڈایا ہویا مجبور ہو کر اور غیر مُحرم کا مونڈا تو کچھ خیرات کر دے۔ [50] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: غیر مُحرِم نے مُحرِم کا سر مونڈا اُس کے حکم سے یا بلا حکم تو مُحرِم پر کفارہ ہے اور مونڈنے والے پر صدقہ اور وہ مُحرِم اس مونڈنے والے سے اپنے کفارہ کا تاوان نہیں لے سکتا اور اگر مُحرِم نے غیر کی مونچھیں لیں یا ناخن تراشے تو مساکین کو کچھ صدقہ کھلادے۔ [51] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: مونڈنا، کترنا، موچنے سے لینا یا کسی چیزسے بال اُوڑانا، سب کا ایک حکم ہے۔ [52] (ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۱۳: عورت پورے یا چہارم سر کے بال ایک پورے برابر کترے تو دَم دے اور کم میں صدقہ۔ [53] (منسک)

مسئلہ ۱۴: بال مونڈا کر پچھنے لیے تو دَم ہے ورنہ صدقہ۔ [54] (درمختار)

مسئلہ ۱۵: آنکھ میں بال نکل آئے تو اُن کے اوکھاڑنے میں صدقہ نہیں۔[55] (منسک)(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۰ تا ۱۱۷۲)

(۴) ناخن کترنا

مسئلہ ۱: ایک ہاتھ ایک پاؤں کے پانچوں ناخن کترے یا بیسوں ایک ساتھ تو ایک دَم ہے اور اگر کسی ہاتھ یا پاؤں کے پورے پانچ نہ کترے تو ہر ناخن پر ایک صدقہ، یہاں تک کہ اگر چاروں ہاتھ پاؤں کے چار چار کترے تو سولہ صدقے دے مگر یہ کہ صدقوں کی قیمت ایک دَم کے برابر ہو جائے تو کچھ کم کرلے یا دَم دے اور اگر ایک ہاتھ یا پاؤں کے پانچوں ایک جلسہ میں اور دوسرے کے پانچوں دوسرے جلسہ میں کترے تو دو دَم لازم ہیں اور چاروں ہاتھ پاؤں کے چار جلسوں میں تو چار دَم۔ [56] (عالمگیری)

مسئلہ ۲: کوئی ناخن ٹوٹ گیا کہ بڑھنے کے قابل نہ رہا، اس کا بقیہ اُس نے کاٹ لیا تو کچھ نہیں۔ [57] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: ایک ہی جلسہ میں ایک ہاتھ کے پانچوں ناخن تراشے اور چہارم سر مونڈایا اور کسی عضو پر خوشبو لگائی تو ہر ایک پر ایک ایک دَم یعنی تین دَم واجب ہیں۔ [58] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: مُحرِم نے دوسرے کے ناخن تراشے تو وہی حکم ہے جو دوسرے کے بال مونڈنے کا ہے۔ [59] (منسک)

مسئلہ ۵: چاقو اور ناخن گیر سے تراشنا اور دانت سے کھٹکنا سب کا ایک حکم ہے۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۲)

(۵) بوس و کنار وغیرہ

مسئلہ ا: مباشرت فاحشہ اور شہوت کے ساتھ بوس و کنار اور بدن مَس کرنے میں دَم ہے، اگرچہ انزال نہ ہو اور

بلا شہوت میں کچھ نہیں۔ یہ افعال عورت کے ساتھ ہوں یا امرد کے ساتھ دونوں کا ایک حکم ہے۔[60] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: مرد کے ان افعال سے عورت کو لذت آئے تو وہ بھی دَم دے۔[61] (جوہرہ)

مسئلہ ۳: اندامِ نہانی پر نگاہ کرنے سے کچھ نہیں اگرچہ انزال ہوجائے اگرچہ بار بار نگاہ کی ہو۔ یوہیں خیال جمانے سے۔[62](عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۴: جلق[63] سے انزال ہو جائے تو دَم ہے ورنہ مکروہ اور احتلام سے کچھ نہیں۔ [64] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۲ تا ۱۱۷۳)

(۶) جماع

مسئلہ ا: وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کیا تو حج فاسد ہوگیا۔ اُسے حج کی طرح پورا کرکے دَم دے اور سال آئندہ ہی میں اس کی قضا کر لے۔ عورت بھی احرام حج میں تھی تو اس پر بھی یہی لازم ہے اور اگر اس بلا میں پھر پڑجانے کا خوف ہو تو مناسب ہے کہ قضا کے احرام سے ختم تک دونوں ایسے جدا رہیں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھے۔ [65] (عالمگیری)

مسئلہ ۲: وقوف کے بعد جماع سے حج تو نہ جائے گا مگر حلق و طواف سے پہلے کیا تو بدنہ دے اور حلق کے بعد تو دَم اور بہتر اب بھی بدنہ ہے اور دونوں کے بعد کیا توکچھ نہیں۔ طواف سے مُراد اکثر ہے یعنی چار پھیرے۔ [66] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: قصداً جماع ہو یا بھولے سے یا سوتے میں یا اکراہ کے ساتھ سب کا ایک حکم ہے۔[67] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: وقوف سے پہلے عور ت سے ایسے بچہ نے وطی کی جس کا مثل جماع کرتا ہے یا مجنون نے تو حج فاسد ہو جائے گا۔ یوہیں مرد نے مشتہاۃ لڑکی یا مجنونہ سے وطی کی حج فاسد ہوگیا مگر بچہ اور مجنون پر نہ دَم واجب ہے، نہ قضا۔ [68] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵: وقوفِ عرفہ سے پہلے چند بار جماع کیا اگر ایک ہی مجلس میں ہے تو ایک دَم واجب ہے اور دو مختلف مجلسوں میں تو دو دَم اور اگر دوسری بار احرام توڑنے کے قصد سے جماع کیا تو بہر حال ایک ہی دَم واجب ہے، چاہے ایک ہی مجلس میں ہو یا متعدد میں۔[69](عالمگیری)

مسئلہ ۶: وقوفِ عرفہ کے بعد سر مونڈانے سے پہلے چند با رجماع کیا اگر ایک مجلس میں ہے تو ایک بدنہ اور دو مجلسوں میں ہے تو ایک بدنہ اور ایک دَم اور اگر دوسری بار احرام توڑنے کے ارادہ سے جماع کیا تو اس بار کچھ نہیں۔[70](عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۷: جانور یا مردہ یا بہت چھوٹی لڑکی سے جماع کیا تو حج فاسد نہ ہوگا، انزال ہو یا نہیں مگر انزال ہوا تو دَم لازم۔[71] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸: عورت نے جانور سے وطی کرائی یا کسی آدمی یا جانور کا کٹا ہوا آلہ اندر رکھ لیا حج فاسد ہوگیا۔[72] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: عمرہ میں چار پھیرے سے قبل جماع کیا عمرہ جاتا رہا، دَم د ے اور عمرہ کی قضا اور چار پھیروں کے بعد کیا تو دَم دے عمرہ صحیح ہے۔ [73] (درمختار)

مسئلہ ۱۰: عمرہ کرنے والے نے چند بار متعدد مجلس میں جماع کیا تو ہر بار دَم واجب اور طواف و سعی کے بعد حلق سے پہلے کیا جب بھی دَم واجب ہے اور حلق کے بعد تو کچھ نہیں۔ [74] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: قِران والے نے عمرہ کے طواف سے پہلے جماع کیا تو حج و عمرہ دونوں فاسد مگر دونوں کے تمام افعال بجا لائے اور دو دَم دے اور سال آئندہ حج و عمرہ کرے اور اگر عمرہ کا طواف کرچکا ہے اور وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کیا تو عمرہ فاسد نہ ہوا، حج فاسد ہوگیا دو دَم دے اور سال آئندہ حج کی قضا دے اور اگر وقوف کے بعد کیا تو نہ حج فاسد ہوا ،نہ عمرہ ایک بدنہ اور ایک دَم دے اوران کے علاوہ قِران کی قربانی۔ [75] (منسک)

مسئلہ ۱۲: جماع سے احرام نہیں جاتا وہ بدستور مُحرِم ہے اور جو چیزیں مُحرِم کے لیے نا جائز ہیں وہ اب بھی ناجائز ہیں اور وہی سب احکام ہیں۔[76] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۳: حج فاسد ہونے کے بعد دوسرے حج کا احرام اسی سال باندھا تو دوسرا نہیں ہے بلکہ وہی ہے جسے اُس نے فاسد کردیا، اس ترکیب سے سال آئندہ کی قضا سے نہیں بچ سکتا۔[77] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۳ تا ۱۱۷۵)

(۷) طواف میں غلطیاں

مسئلہ ۱: طوافِ فرض کُل یا اکثر یعنی چار پھیرے جنابت یا حیض و نفاس میں کیا تو بدنہ ہے اور بے وضو کیا تو دَم اور پہلی صورت میں طہارت کے ساتھ اعادہ واجب، اگر مکہ سے چلا گیا ہو تو واپس آکر اعادہ کرے اگرچہ میقات سے بھی آگے بڑھ گیا ہو مگر بارھویں تاریخ تک اگر کامل طور پر اعادہ کرلیا تو جرمانہ ساقط اور بارھویں کے بعد کیا تو دَم لازم، بدنہ ساقط۔ لہٰذا اگر طوافِ فرض بارھویں کے بعد کیا ہے تودم[78]ساقط نہ ہوگا کہ بارھویں تو گزر گئی اور اگر طوافِ فرض بے وضو کیا تھا تو اعادہ مستحب پھر اعادہ سے دَم ساقط ہوگیا اگرچہ بارھویں کے بعد کیا ہو۔ [79] (جوہرہ، عالمگیری)

مسئلہ ۲: چار پھیرے سے کم بے طہارت کیا تو ہر پھیرے کے بدلے ایک صدقہ اور جنابت میں کیا تو دَم پھر اگر بارھویں تک اعادہ کرلیا تو دَم ساقط اور بارھویں کے بعد اعادہ کیا تو ہر پھیرے کے بدلے ایک صدقہ۔[80] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: طوافِ فرض کُل یا اکثر بلا عُذر چل کر نہ کیا بلکہ سواری پر یا گود میں یا گھسٹ کر یا بے سترکیا مثلاً عورت کی چہارم کلائی یا چہارم سر کے بال کھلے تھے یا اُلٹا طواف کیا یا حطیم کے اندر سے طواف میں گزرا یا بارھویں کے بعد کیا تو ان سب صورتوں میں دَم دے اور صحیح طور پر اعادہ کرلیا تو دَم ساقط اور بغیر اعادہ کیے چلا آیا تو بکری یا اُس کی قیمت بھیج دے کہ حرم میں ذبح کردی جائے، واپس آنے کی ضرورت نہیں۔[81] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۴: جنابت میں طواف کرکے گھر چلا گیا تو پھر سے نیا احرام باندھ کر واپس آئے اور واپس نہ آیا بلکہ بدنہ بھیج دیا تو بھی کافی ہے مگر افضل واپس آنا ہے اور بے وضو کیا تھا تو واپس آنا بھی جائز ہے اور بہتر یہ کہ وہیں سے بکری یا قیمت بھیج دے۔ [82] (عالمگیری)

مسئلہ ۵: طوافِ فرض چار پھیرے کرکے چلا گیا یعنی تین یا دو یا ایک پھیرا باقی ہے تو دَم واجب، اگر خودنہ آیا بھیج دیا تو کافی ہے۔[83] (عالمگیری)

مسئلہ ۶: فرض کے سوا کوئی اور طواف کل یا اکثر جنابت میں کیا تو دَم دے اور بے وضو کیا تو صدقہ اور تین پھیرے یا اس سے کم جنابت میں کیے تو ہر پھیرے کے بدلے ایک صدقہ پھر اگر مکہ معظمہ میں ہے تو سب صورتوں میں اعادہ کرلے، کفارہ ساقط ہو جائے گا۔ [84] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: طوافِ رخصت کُل یا اکثر ترک کیا تو دَم لازم اور چارپھیروں سے کم چھوڑا تو ہر پھیرے کے بدلے میں ایک صدقہ اور طوافِ قدوم ترک کیا تو کفارہ نہیں مگر بُرا کیا اور طوافِ عمرہ کا ایک پھیرا بھی ترک کریگا تو دَم لازم ہوگا اور بالکل نہ کیا یا اکثر ترک کیا تو کفارہ نہیں بلکہ اُس کا ادا کرنا لازم ہے۔ [85] (منسک)

مسئلہ ۸: قارِن نے طوافِ قدوم و طوافِ عمرہ دونوں بے وضو کیے تو دسویں سے پہلے طوافِ عمرہ کا اعادہ کرے اور اگر اعادہ نہ کیا یہاں تک کہ دسویں تاریخ کی فجر طلوع ہوگئی تو دَم واجب اور طوافِ فرض میں رَمَل و سعی کرلے۔ [86] (منسک)

مسئلہ ۹: نجس کپڑوں میں طواف مکروہ ہے کفارہ نہیں۔ [87] (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۱۰: طوافِ فرض جنابت میں کیا تھا اور بارھویں تک اس کا اعادہ بھی نہ کیا، اب تیر ھویں کو طوافِ رُخصت باطہارت کیا تو یہ طوافِ رخصت طوافِ فرض کے قائم مقام ہو جائے گا اور طوافِ رُخصت کے چھوڑنے اور طوافِ فرض میں دیر کرنے کی وجہ سے اس پر دو دَم لازم اور اگر بارھویں کو طوافِ رخصت کیا ہے تو یہ طوافِ فرض کے قائم مقام ہوگا اور چونکہ طوافِ رخصت نہ کیا، لہٰذا ایک دَم لازم اور اگر طوافِ رُخصت دوبارہ کرلیا تو یہ دَم بھی ساقط ہو گیا اور اگر طوافِ فرض بے وضو کیا تھا اور یہ با وضو تو ایک دَم اور اگر طوافِ فرض بے وضو کیا تھا اور طوافِ رُخصت جنابت میں تو دو دَم۔ [88] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: طوافِ فرض کے تین پھیرے کیے اور طوافِ رُخصت پورا کیا تو اس میں کے چار پھیرے اس میں محسوب ہو جائیں گے اور دو۲ دَم لازم، ایک طواف ِفرض میں دیر کرنے، دوسرا طوافِ رُخصت کے چار پھیرے چھوڑنے کا۔ اور اگر ہر ایک کے تین تین پھیرے کیے تو کل فرض میں شمار ہوں گے اور دو۲ دَم واجب۔ [89] (عالمگیری) اس مسئلہ میں فروع کثیرہ ہیں بخوفِ تطویل ذکر نہ کیے۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۵ تا ۱۱۷۷)

(۸) سعی میں غلطیاں

مسئلہ ۱: سعی کے چار پھیرے یا زیادہ بلا عذر چھوڑدیے یا سواری پر کیے تو دَم دے اور حج ہوگیا اور چار سے کم میں ہر پھیرے کے بدلے صدقہ اور اعادہ کرلیا تو دَم و صدقہ ساقط اور عذر کے سبب ایسا ہوا تو معاف ہے۔ یہی ہر واجب کا حکم ہے کہ عذرِ صحیح سے ترک کرسکتا ہے۔ [90] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: طواف سے پہلے سعی کی اور اعادہ نہ کیا تو دَم دے۔[91] (درمختار)

مسئلہ ۳: جنابت میں یا بے وضو طواف کرکے سعی کی تو سعی کے اعادہ کی حاجت نہیں۔[92](درمختار)

مسئلہ ۴: سعی میں احرام یا زمانہ حج شرط نہیں، نہ کی ہو تو جب چاہے کرلے ادا ہو جائے گی۔ [93] (جوہرہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۷، ۱۱۷۸)

(۹) وقوف عرفہ میں غلطی

مسئلہ ۱: جو شخص غروب آفتاب سے پہلے عرفات سے چلا گیا دَم دے پھر اگر غروب سے پہلے واپس آیا تو ساقط ہوگیا اور غروب کے بعد واپس ہوا تو نہیں اور عرفات سے چلا آنا خواہ باختیار ہو یا بلا اختیار ہو مثلاً اونٹ پر سوار تھا وہ اسے لے بھاگا دونوں صورت میں دَم ہے۔ [94] (عالمگیری، جوہرہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۸)

(۱۰) وقوف مُزدَلِفہ

مسئلہ ۱: دسویں کی صبح کو مزدلفہ میں بلا عذر وقوف نہ کیا تو دَم دے۔ ہا ں کمزور یا عورت بخوف ازدحام وقوف ترک کرے تو جرمانہ نہیں۔ [95] (جوہرہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۸)

(۱۱) رَمی کی غلطیاں

مسئلہ ۱: کسی دن بھی رَمی نہیں کی یا ایک دن کی بالکل یا اکثر ترک کر دی مثلاً دسویں کو تین کنکریاں تک ماریں یا گیارھویں وغیرہ کو دس کنکریاں تک یا کسی دن کی بالکل یا اکثر رَمی دوسرے دن کی تو ان سب صورتوں میں دَم ہے اور اگر کسی دن کی نصف سے کم چھوڑی مثلاً دسویں کو چار کنکریاں ماریں، تین چھوڑدیں یا اور دِنوں کی گیارہ ماریں دس چھوڑدیں یا دوسرے دن کی تو ہر کنکری پرایک صدقہ دے اور اگر صدقوں کی قیمت دَم کے برابر ہو جائے تو کچھ کم کردے۔ [96] (عالمگیری، درمختار ،ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۸)

(۱۲) قربانی اور حَلْقْ میں غلطی

مسئلہ ۱: حرم میں حلق نہ کیا، حدود حرم سے باہر کیا یا بارھویں کے بعد کیا یا رَمی سے پہلے کیا یا قارِن و مُتمتّع نے قربانی سے پہلے کیا یا ان دونوں نے رَمی سے پہلے قربانی کی تو ان سب صورتوں میں دَم ہے۔ [97] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲: عمرہ کا حلق بھی حرم ہی میں ہونا ضرور ہے، اس کا حلق بھی حرم سے باہر ہوا تو دَم ہے مگر اس میں وقت کی شرط نہیں۔ [98] (درمختار)

مسئلہ ۳: حج کرنے والے نے بارھویں کے بعد حرم سے باہر سر مونڈایا تو دو دَم ہیں، ایک حرم سے باہر حلق کرنے کا دوسرا بارھویں کے بعد ہونے کا۔ [99] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۹)

(۱۳) شکار کرنا

مسئلہ ۱: خشکی کا وحشی جانور شکار کرنا یا اس کی طرف شکار کرنے کو اشارہ کرنا یا اور کسی طرح بتانا، یہ سب کام حرام ہیں اور سب میں کفارہ واجب اگرچہ اُس کے کھانے میں مُضطر ہو۔ یعنی بھوک سے مرا جاتا ہو اور کفارہ اس کی قیمت ہے یعنی دو عادل وہاں کے حسابوں جو قیمت بتادیں وہ دینی ہوگی اور اگر وہاں اُس کی کوئی قیمت نہ ہو تو وہاں سے قریب جگہ میں جو قیمت ہو وہ ہے اور اگر ایک ہی عادل نے بتا دیا جب بھی کافی ہے۔[100] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲: پانی کے جانور کو شکار کرنا جائز ہے، پانی کے جانور سے مراد وہ جانور ہے جو پانی میں پیدا ہوا ہو اگرچہ خشکی میں بھی کبھی کبھی رہتا ہو اور خشکی کا جانور وہ ہے جس کی پیدائش خشکی کی ہو اگرچہ پانی میں رہتا ہو۔ [101] (منسک)

مسئلہ ۳: شکار کی قیمت میں اختیار ہے کہ اس سے بھیڑ بکری وغیرہ اگر خرید سکتا ہے تو خرید کر حرم میں ذبح کرکے فقرا کو تقسیم کر دے یا اُس کا غلہ خرید کر مساکین پر صدقہ کردے، اتنا اتنا کہ ہر مسکین کو صدقہ فطر کی قدر پہنچے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قیمت کے غلّہ میں جتنے صدقے ہو سکتے ہوں ہر صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اگر کچھ غلہ بچ جائے جو پورا صدقہ نہیں تو اختیار ہے وہ کسی مسکین کو دیدے یا اس کی عوض ایک روزہ رکھے اور اگر پوری قیمت ایک صدقہ کے لائق بھی نہیں تو بھی اختیار ہے کہ اتنے کا غلہ خرید کر ایک مسکین کو دیدے یا اس کے بدلے ایک روزہ رکھے۔ [102] (درمختار، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ۴: کفارہ کا جانور حرم کے باہر ذبح کیا تو کفارہ ادا نہ ہوااور اگر اس میں سے خود بھی کھالیا تو اتنے کا تاوان دے اور اگر اس کفارہ کے گوشت کو ایک مسکین پر تصدق کیا جب بھی جائز ہے۔ یوہیں تاوان کی قیمت بھی ایک مسکین کو دے سکتا ہے اور اگر جانور کو باہر ذبح کیا اور اُس کا گوشت ہر مسکین کو ایک ایک صدقہ کی قیمت کا دیا اور وہ سب گوشت اتنی قیمت کا ہے جتنی قیمت کا غلہ خریدا جاتا تو ادا ہوگیا۔ [103] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۵: کفارہ کا جانور چوری گیا یا زندہ جانور ہی تصدق کر دیا تو نا کافی ہے اور اگر ذبح کردیا اور گوشت چوری گیا تو ادا ہوگیا۔[104](ردالمحتار)

مسئلہ ۶: قیمت کا غلہ تصدق کرنے کی صورت میں ہر مسکین کو صدقہ کی مقدار دینا ضروری ہے کم و بیش دے گا تو ادا نہ ہوگا۔ کم کم دیا تو کل نفل صدقہ ہے اور زیادہ زیادہ دیا تو ایک صدقہ سے جتنا زیادہ دیا نفل ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ ایک ہی دن میں دیا ہو اور اگر کئی د ن میں دیا اور ہر روز پورا صدقہ تو یوں ایک مسکین کو کئی صدقہ دے سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر مسکین کو ایک ایک صدقہ کی قیمت دیدے۔ [105] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷: مُحرِم نے جنگل کے جانور کو ذبح کیا تو حلال نہ ہوا بلکہ مُردار ہے ذبح کرنے کے بعد اُسے کھا بھی لیا تو اگر کفارہ دینے کے بعد کھایا تو اب پھر کھانے کا کفارہ دے اور اگر نہیں دیا تھا تو ایک ہی کفارہ کافی ہے۔ [106] (جوہرہ)

(8)جتنی قیمت اُس شکار کی تجویز ہوئی اُسکا جانور خرید کر ذبح کیا اور قیمت میں سے بچ رہا تو بقیہ کا غلہ خرید کر تصدّق کرے یا ہر صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھے یا کچھ روزے رکھے کچھ صدقہ دے سب جائز ہے۔ یوہیں اگر وہ قیمت دو جانوروں کے خریدنے کے لائق ہے تو چاہے دو۲ جانور ذبح کرے یا ایک ذبح اور ایک کے بدلے کا صدقہ دے یا روزے رکھے ہرطرح اختیار ہے۔ [107] (عالمگیری)

مسئلہ ۹: احرام والے نے حرم کا جانور شکار کیا تو اس کا بھی یہی حکم ہے، حرم کی وجہ سے دوہرا کفارہ واجب نہ ہوگا اور اگر بغیر احرام کے حرم میں شکار کیا تو اس کا بھی وہی کفارہ ہے جو مُحرِم کے لیے ہے مگر اس میں روزہ کافی نہیں۔ [108] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰: جنگل کے جانور سے مراد وہ ہے جو خشکی میں پیداہوتا ہے اگرچہ پانی میں رہتا ہو۔ لہٰذا مرغابی اور وحشی بط کے شکار کرنے کا بھی یہی حکم ہے اور پانی کا جانور وہ ہے جس کی پیدائش پانی میں ہوتی ہے اگرچہ کبھی کبھی خشکی میں رہتا ہو۔ گھریلو جانور جیسے گائے، بھینس، بکری اگر جنگل میں رہنے کے سبب انسان سے وحشت کریں تو وحشی نہیں اور وحشی جانور کسی نے پال لیا تو اب بھی جنگل ہی کا جانور شمار کیا جائے گا، اگر پلاؤ ہرن شکار کیا تو اس کا بھی وہی حکم ہے۔ جنگل کا جانور اگر کسی کی ملک میں ہو جائے مثلاً پکڑ لایا یا پکڑنے والے سے مول لیا تو اس کے شکار کرنے کا بھی وہی حکم ہے۔[109] (عالمگیری، جوہرہ، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱: حرام اور حلال جانور دونوں کے شکار کا ایک حکم ہے مگر حرام جانور کے قتل کرنے میں کفارہ ایک بکری سے زیادہ نہیں ہے اگرچہ اس جانور کی قیمت ایک بکری سے بہت زائد کی ہو مثلاً ہاتھی کو قتل کیا تو صرف ایک بکری کفارہ میں واجب ہے۔[110](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: سکھایا ہو ا جانور قتل کیا تو کفارہ میں وہی قیمت واجب ہے جو بے سکھائے کی ہے، البتہ اگر وہ کسی کی مِلک ہے تو کفارہ کے علاوہ اس کے مالک کو سکھائے ہوئے کی قیمت دے۔[111] (درمختار)

مسئلہ ۱۳: کفارہ لازم آنے کے لیے قصداً قتل کرنا شرط نہیں بُھول چوک سے قتل ہوا جب بھی کفارہ ہے۔ [112] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۴: جانور کو زخمی کردیا مگر مرا نہیں یا اس کے بال یا پر نوچے یا کوئی عضو کاٹ ڈالا تو اس کی وجہ سے جو کچھ اُس جانور میں کمی ہوئی وہ کفارہ ہے اور اگر زخم کی وجہ سے مرگیا تو پوری قیمت واجب۔ [113] (عامہ کتب)

مسئلہ ۱۵: زخم کھا کر بھاگ گیا اور معلوم ہے کہ مر گیا یا معلوم نہیں کہ مرگیا یا زندہ ہے تو قیمت واجب ہے اور اگر معلوم ہے کہ مرگیا مگر اس زخم کے سبب سے نہیں بلکہ کسی اور سبب سے تو زخم کی جزا دے اور بالکل اچھا ہوگیا، جب بھی کفارہ ساقط نہ ہوگا۔[114](ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: جانور کو زخمی کیا پھر اُسے قتل کر ڈالا تو زخم و قتل دونوں کا کفارہ دے۔ [115] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۷: جانور جال میں پھنسا ہوا تھا یا کسی درندہ نے اسے پکڑا تھا اُس نے چھوڑانا چاہا، تو اگر مر بھی جائے جب بھی کچھ نہیں۔[116](درمختار)

مسئلہ ۱۸: پرند کے پر نوچ ڈالے کہ اُوڑ نہ سکے یا چوپایہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے کہ بھاگ نہ سکے تو پورے جانور کی قیمت واجب ہے اور انڈا توڑا یا بھونا تو اس کی قیمت دے مگر جب کہ گندہ ہو تو کچھ واجب نہیں اگرچہ اس کاچھلکا قیمتی ہو جیسے شُتر مرغ کا انڈا کہ لوگ اُسے خرید کر بطور نمائش رکھتے ہیں اگرچہ گندہ ہو۔ انڈا توڑا اس میں سے بچہ مرا ہوا نکلا تو بچہ کی قیمت دے اور جنگل کے جانور کا دودھ دوہا تو دودھ کی اور بال کترے تو بالوں کی قیمت دے۔ [117] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۹: پرندکے پر نوچ ڈالے یا چوپایہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے پھر کفارہ دینے سے پہلے اُسے قتل کر ڈالا تو ایک ہی کفارہ ہے اور کفارہ ادا کرنے کے بعد قتل کیا تو دوکفارے، ایک زخم وغیرہ کا دوسرا قتل کا اور اگر زخمی کیا پھر وہ جانور زخم کے سبب مرگیا تو ایک ہی کفارہ ہے خواہ مرنے سے پہلے دیا ہو یا بعد۔ [118] (منسک، عالمگیری)

مسئلہ ۲۰: جنگل کے جانور کا انڈا بُھونا یا دودھ دوہا اور کفارہ ادا کر دیا تو اب اس کا کھانا حرام نہیں اور بیچنا بھی جائز مگر مکروہ ہے اور جانور کا کفارہ دیا اور کھا یا تو پھر کفارہ دے اور دوسرے محرم نے کھا لیا تو اس پر کفارہ نہیں اگرچہ کھانا حرام تھا کہ وہ مُردار ہے۔[119] (جوہرہ، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۱: جنگل کے جانور کا انڈا اُٹھا لایا اور مرغی کے نیچے رکھ دیا اگر گندہ ہوگیا تو اس کی قیمت دے اور اس سے بچہ نکلا اور بڑاہو کر اُڑ گیا تو کچھ نہیں اور اگر انڈے پر سے جانور کو اڑا دیا اور انڈا گندہ ہوگیا تو کفارہ واجب۔[120] (منسک)

مسئلہ ۲۲: ہرنی کو مارا اس کے پیٹ میں بچہ تھا، وہ مرا ہوا گرا تو اس بچہ کی قیمت کفارہ دے اور ہرنی بعد کو مر گئی تو اس کی قیمت بھی اور اگر نہ مری تو اس کی وجہ سے جتنا اس میں نقصان آیا وہ کفارہ میں دے اورا گر بچہ نہیں گرا مگر ہرنی مر گئی تو حالتِ حمل میں جو اس کی قیمت تھی وہ دے۔ [121] (جوہرہ)

مسئلہ ۲۳: کوّا، چیل، بھیڑیا، بچھو، سانپ، چوہا، گھونس، چھچوندر، کٹکھنا کتّا، پِسُّو، مچھر، کلّی، کچھوا، کیکڑا، پتنگا، کاٹنے والی چیونٹی، مکھی، چھپکلی، بُر اور تمام حشرات الارض بِجو، لومڑی، گیدڑ جب کہ یہ درندے حملہ کریں یا جو درندے ایسے ہوں جن کی عادت اکثر ابتدائً حملہ کرنے کی ہوتی ہے جیسے شیر، چیتا، تیندوا، اِن سب کے مارنے میں کچھ نہیں۔ یوہیں پانی کے تمام جانوروں کے قتل میں کفارہ نہیں۔ [122] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار وغیرہا)

مسئلہ ۲۴: ہرن اور بکری سے بچہ پیدا ہوا تو اس کے قتل میں کچھ نہیں، ہرنی اور بکرے سے ہے تو کفارہ واجب۔ [123] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۵: غیر مُحرم نے شکار کیا تو مُحرم اُسے کھا سکتا ہے اگرچہ اُس نے اسی کے لیے کیا ہو، جب کہ اُ س محرم نے نہ اُسے بتایا، نہ حکم کیا، نہ کسی طرح اس کام میں اعانت کی ہو اور یہ شرط بھی ہے کہ حرم سے باہر اُسے ذبح کیا ہو۔ [124] (درمختار)

مسئلہ ۲۶: بتانے والے، اشارہ کرنے والے پر کفارہ اس وقت لازم ہے کہ1جسے بتایا وہ اس کی بات جھوٹی نہ جانے اور2 بے اس کے بتائے وہ جانتا بھی نہ ہو اور3 اُس کے بتانے پر فوراً اُس نے مار بھی ڈالا ہو اور4 وہ جانور وہاں سے بھاگ نہ گیا اور5 یہ بتانے والا جانور کے مارے جانے تک احرام میں ہو۔ اگر ان پانچوں شرطوں میں ایک نہ پائی جائے تو کفارہ نہیں رہا گناہ وہ بہرحال ہے۔[125] (درمختار، جوہرہ)

مسئلہ ۲۷: ایک مُحرِم نے کسی کو شکار کا پتا دیا مگر اس نے نہ اُسے سچا جانا نہ جھوٹا پھر دوسرے نے خبر دی، اب اس نے جستجو کی اور جانور کو مارا تو دونوں بتانے والوں پر کفارہ ہے اور اگر پہلے کو جھوٹا سمجھا تو صرف دوسرے پر ہے۔[126] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸: مُحرِم نے شکار کا حکم دیا تو کفارہ بہر حال لازم اگرچہ جانور خود مارنے والے کے علم میں ہے۔ [127] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۹: ایک مُحرِم نے دوسرے مُحرِم کوشکار کرنے کا حکم دیا اور دوسرے نے خودنہ کیا بلکہ اُس نے تیسرے مُحرِم کو حکم دیا، اب تیسرے نے شکار کیا تو پہلے پر کفارہ نہیں اور دوسرے اور تیسرے پر لازم اور اگر پہلے نے دوسرے سے کہا کہ تو فُلاں کو شکار کا حکم دے اور اس نے حکم دیا تو تینوں پر جرمانہ لازم۔ [128] (منسک)

مسئلہ ۳۰: غیر مُحرِم نے مُحرِم کو شکار بتایا یا حکم کیا تو گنہگار ہوا توبہ کرے، اس غیر مُحرِم پر کفارہ نہیں۔[129] (منسک)

مسئلہ ۳۱: مُحرِم نے جسے بتایا وہ مُحرِم ہو یا نہ ہو بہر حال بتانے والے پر کفارہ لازم۔[130] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۲: کئی شخصوں نے مل کر شکار کیا تو سب پر پورا پورا کفارہ ہے۔[131] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۳: ٹڈّی بھی خشکی کا جانور ہے، اُسے مارے تو کفارہ دے اور ایک کھجور کافی ہے۔[132] (جوہرہ)

مسئلہ ۳۴: مُحرِم نے جنگل کا جانور خریدا یا بیچا تو بیع باطل ہے پھر بائع و مشتری دونوں مُحرِم ہیں اور جانور ہلاک ہوا تو دونوں پر کفارہ ہے۔ یہ حکم اس وقت ہے کہ احرام کی حالت میں پکڑا اور احرام ہی میں بیچا اور اگر پکڑنے کے وقت مُحرِم نہ تھا اور بیچنے کے وقت ہے تو بیع فاسد ہے اور اگر پکڑنے کے وقت مُحرِم تھا اور بیچنے کے وقت نہیں ہے تو بیع جائز۔ [133] (جوہرہ)

مسئلہ ۳۵: غیر مُحرِم نے غیر مُحرِم کے ہاتھ جنگل کا جانور بیچا اور مشتری نے ابھی قبضہ نہ کیا تھا کہ دونوں میں سے ایک نے احرام باندھ لیا تو اب وہ بیع باطل ہوگئی۔ [134] (جوہرہ)

مسئلہ ۳۶: احرام باندھا اور اس کے ہاتھ میں جنگل کا جانور ہے تو حکم ہے کہ چھوڑدے اور نہ چھوڑا یہاں تک کہ مر گیا تو ضمان دے مگر چھوڑنے سے اس کی ملک سے نہیں نکلتا جب کہ احرام سے پہلے پکڑا تھا اور یہ بھی شرط ہے کہ بیرونِ حرم پکڑا ہو فلہٰذا اگر اسے کسی نے پکڑ لیا تو مالک اس سے لے سکتا ہے۔ جب کہ احرام سے نکل چکا ہو اور اگر کسی اور نے اس کے ہاتھ سے چھڑا دیا تو یہ تاوان دے اور اگر جانور اس کے گھر ہے تو کچھ مضایقہ نہیں یا پاس ہی ہے مگر پنجرے میں ہے تو جب تک حرم سے باہر ہے چھوڑنا ضروری نہیں۔ لہٰذا اگر مرگیا تو کفارہ لازم نہیں۔ [135] (جوہرہ، عالمگیری)

مسئلہ ۳۷: مُحرِم نے جانور پکڑا تو اس کی مِلک نہ ہوا، حکم ہے کہ چھوڑ دے اگرچہ پنجرے میں ہو یا گھر پر ہو اور اُسے کوئی پکڑلے تو احرام کے بعد اس سے نہیں لے سکتا اور اگر کسی دوسرے نے چھوڑ دیا تو اُس سے تاوان نہیں لے سکتا اور دوسرے مُحر م نے مار ڈالا تو دونوں پر کفارہ ہے مگر پکڑنے والے نے جو کفارہ دیا ہے، وہ مارنے والے سے وصول کرسکتا ہے۔[136] (جوہرہ، عالمگیری)

مسئلہ ۳۸: مُحرِم نے جنگل کا جانور پکڑا تو اُس پر لازم ہے کہ جنگل میں یا ایسی جگہ چھوڑ دے جہاں وہ پناہ لے سکے، اگر شہر میں لا کر چھوڑا جہاں اس کے پکڑنے کا اندیشہ ہے تو جرمانہ سے بَری نہ ہوگا۔[137] (منسک)

مسئلہ ۳۹: کسی نے ایسی جگہ شکار دیکھا کہ مارنے کے لیے تیر کمان، غلیل، بندوق وغیرہا کی ضرورت ہے اور مُحرم نے یہ چیزیں اسے دیں تو اس پر پورا کفارہ لازم اور شکار ذبح کرنا ہے اُس کے پاس ذبح کرنے کی چیز نہیں، مُحرم نے چُھری دی تو کفارہ ہے اور اگر اس کے پاس ذبح کرنے کی چیز ہے اور مُحرِم نے چھری دی تو کفارہ نہیں مگر کراہت ہے۔[138] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۰: مُحرم نے جانور پر اپنا کتّا یا باز سکھایا ہوا چھوڑا، اُس نے شکار کو مار ڈالا تو کفارہ واجب ہے اور اگر احرام کی وجہ سے تعمیلِ حکمِ شرع کے لیے باز چھوڑ دیا، اُس نے جانور کو مار ڈالا یا سُکھانے کے لیے جال پھیلایا، اس میں جانور پھنس کر مر گیا یا کوآں کھودا تھا اُس میں گر کر مرا تو ان صورتوں میں کفارہ نہیں۔ [139] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۷۹ تا ۱۱۸۶)

(۱۴) حرم کے جانور کو ایذا دینا

مسئلہ ۱: حرم کے جانور کو شکار کرنا یا اُسے کسی طرح ایذا دینا سب کو حرام ہے۔ مُحرِم اور غیر مُحرِم دونوں اس حکم میں یکساں ہیں۔ غیر مُحرم نے حرم کے جنگل کا جانور ذبح کیا تو اس کی قیمت واجب ہے اور اس قیمت کے بدلے روزہ نہیں رکھ سکتا اور مُحرم ہے تو روزہ بھی رکھ سکتا ہے۔ [140] (درمختار)

مسئلہ ۲: مُحرِم نے اگر حرم کا جانور مارا تو ایک ہی کفارہ واجب ہوگا دو نہیں اور اگر وہ جانور کسی کا مملوک تھا تو مالک کو اس کی قیمت بھی دے۔ پھر اگر سکھا یا ہوا ہو مثلاً طوطی تو مالک کووہ قیمت دے جو سیکھے ہوئے کی ہے اور کفارہ میں بے سکھائے ہوئے کی قیمت۔[141] (منسک)

مسئلہ ۳: جو حرم میں داخل ہوا اور اُس کے پاس کوئی وحشی جانور ہو اگرچہ پنجرے میں تو حکم ہے کہ اُسے چھوڑدے، پھر اگر وہ شکاری جانور باز، شکرا، بہری وغیرہا ہے اور اس نے اس حکم شرع کی تعمیل کے لیے اُسے چھوڑا، اُس نے شکار کیا تو اُس کے ذمہ تاوان نہیں اور شکار پر چھوڑا تو تاوان ہے۔ [142] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ۴: ایک شخص دوسرے کا وحشی جانور غصب کرکے حرم میں لایا تو واجب ہے کہ چھوڑ دے اور مالک کو قیمت دے اور نہ چھوڑا بلکہ مالک کو واپس دیا تو تاوان دے۔ غصب کے بعد احرام باندھا جب بھی یہی حکم ہے۔[143] (ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۵: دو غیر مُحرِم نے حرم کے جانور کو ایک ضرب میں مار ڈالا تو دونوں آدھی آدھی قیمت دیں۔ یوہیں اگر بہت سے لوگوں نے مارا تو سب پر وہ قیمت تقسیم ہو جائے گی اور اگر اُن میں کوئی محرم بھی ہے تو علاوہ اُس کے جو اُس کے حصہ میں پڑا پوری قیمت بھی کفارہ میں دے اور ایک نے پہلے ضرب لگائی پھر دوسرے نے تو ہر ایک کی ضرب سے اس کی قیمت میں جو کمی ہوئی وہ دے۔ پھر باقی قیمت دونوں پر تقسیم ہو جائے گی اس بقیہ کا نصف نصف دونوں دیں۔ [144] ( عالمگیری ،منسک)

مسئلہ ۶: ایک نے حرم کا جانور پکڑا، دوسرے نے مار ڈالا تو دونوں پوری پوری قیمت دیں اور پکڑنے والے کو اختیار ہے کہ دوسرے سے تاوان وصول کرلے۔ [145] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: چند شخص مُحرم مکہ کے کسی مکان میں ٹھہرے، اس مکان میں کبوتر رہتے تھے۔ سب نے ایک سے کہا، دروازہ بند کر دے، اس نے دروازہ بند کردیا اور سب منیٰ کو چلے گئے، واپس آئے تو کبوتر پیاس سے مرے ہوئے ملے تو سب پورا پورا کفارہ دیں۔[146] (عالمگیری)

مسئلہ ۸: جانور کا کچھ حصہ حرم میں ہو اور کچھ باہر تو اگر کھڑا ہو اور اس کے سب پاؤں حرم میں ہوں یا ایک ہی پاؤں تو وہ حرم کا جانور ہے، اُس کو مارنا حرام ہے اگرچہ سر حرم سے باہر ہے اور اگر صرف سر حرم میں ہے اور پاؤں سب کے سب باہر تو قتل پر جرمانہ لازم نہیں اور اگر لیٹا سویا ہے اور کوئی حصہ بھی حرم میں ہے تو اسے مارنا حرام۔[147] (ردالمحتار)

مسئلہ ۹: جانور حرم سے باہر تھا، اس نے تیر چھوڑا وہ جانور بھاگا اور تیر اُسے اس وقت لگا کہ حرم میں پہنچ گیا تھا تو جرمانہ لازم اور اگر تیر لگنے کے بعد بھاگ کر حرم میں گیا اور وہیں مر گیا تو نہیں مگر اس کا کھانا حلال نہیں۔ [148] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: جانور حرم میں نہیں مگر یہ شکار کرنے والا حرم میں ہے اور حرم ہی سے تیر چھوڑا تو جرمانہ واجب۔[149] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱: جانور اور شکاری دونوں حرم سے باہر ہیں مگر تیر حرم سے ہوتا ہوا گزرا تو اسمیں بھی بعض علما تاوان واجب کرتے ہیں۔ درمختار میں یہی لکھا مگر بحر الرائق و لباب میں تصریح ہے کہ اس میں تاوان نہیں اور علامہ شامی نے فرمایاکلام علما سے یہی ثابت۔ کتا یا باز وغیرہ چھوڑا اور حرم سے ہوتا ہوا گزرا، اس کا بھی یہی حکم ہے۔[150]

مسئلہ ۱۲: جانور حرم سے باہر تھا اس پر کتا چھوڑا ، کتے نے حرم میں جا کر پکڑا تو اُس پر تاوان نہیں مگر شکار نہ کھایا جائے۔[151](عالمگیری)

مسئلہ ۱۳: گھوڑے وغیرہ کسی جانور پر سوار جا رہا تھا یا اسے ہانکتا یا کھینچتا لیے جا رہا تھا، اُس کے ہاتھ پاؤں سے کوئی جانور دب کر مر گیا یا اس نے کسی جانور کو دانت سے کاٹا اور مر گیا تو تاوان دے۔[152] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۴: بھیڑیے پر کتا چھوڑا، اُس نے جاکر شکار پکڑا یا بھیڑیا پکڑنے کے لیے جال تانا، اُس میں شکار پھنس گیا تو دونوں صورتوں میں تاوان کچھ نہیں۔[153] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: جانور کو بھگایا وہ کوئیں میں گر پڑا یا پھسل کر گرا اور مر گیا یا کسی چیز کی ٹھوکر لگی وہ مرگیا تو تاوان دے۔[154] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۶: حرم کا جانور پکڑ لایا اور اسے بیرون حرم چھوڑ دیا، اب کسی نے مار ڈالا تو پکڑنے والے پر کفارہ لازم ہے اور اگر کسی نے نہ بھی مارا تو جب تک امن کے ساتھ حرم کی زمین میں پہنچ جانا معلوم نہ ہو، کفارہ سے بَری نہ ہوگا۔[155] (منسک)

مسئلہ ۱۷: جانور حرم سے باہر تھا اور اس کا بہت چھوٹا بچہ حرم کے اندر، غیر مُحرِم نے اُس جانور کو مارا تو اس کا کفارہ نہیں مگر بچہ بھوک سے مر جائے گا تو بچہ کا کفارہ دینا ہوگا۔[156] (منسک)

مسئلہ ۱۸: ہرنی کو حرم سے نکالا وہ بچے جنی پھروہ مر گئی اور بچے بھی تو سب کا تاوان دے اور اگر تاوان دینے کے بعدجنی تو بچوں کا تاوان لازم نہیں۔ [157] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۹: پرند درخت پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ درخت حرم سے باہر ہے مگر جس شاخ پر بیٹھا ہے وہ حرم میں ہے تو اُسے مارنا حرام ہے۔[158] (درمختار وغیرہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۸۶تا ۱۱۸۹)

(۱۵) حرم کے پیڑ وغیرہ کاٹنا

مسئلہ ۱: حرم کے درخت چار قسم ہیں: 1کسی نے اُسے بویا ہے اور وہ ایسا درخت ہے جسے لوگ بویا کرتے ہیں۔ 2 بویا ہے مگر اس قسم کا نہیں جسے لوگ بویا کرتے ہیں۔3 کسی نے اسے بویا نہیں مگر اس قسم سے ہے جسے لوگ بویا کرتے ہیں۔ 4 بویا نہیں، نہ اس قسم سے ہے جسے لوگ بوتے ہیں۔

پہلی تین قسموں کے کاٹنے وغیرہ میں کچھ نہیں یعنی اس پر جرمانہ نہیں۔ رہا یہ کہ وہ اگر کسی کی ملک ہے تو مالک تاوان لے گا، چوتھی قسم میں جرمانہ دینا پڑے گا اور کسی کی ملک ہے تو مالک تاوان بھی لے گااور جرمانہ اُسی وقت ہے کہ تر ہو اور ٹوٹا یا اُکھڑا ہوا نہ ہو۔ جرمانہ یہ ہے کہ اُس کی قیمت کا غلہ لے کر مساکین پر تصدق کرے، ہر مسکین کو ایک صدقہ اور اگر قیمت کا غلہ پورے صدقہ سے کم ہے تو ایک ہی مسکین کو دے اور اس کے لیے حرم کے مساکین ہو نا ضرور نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قیمت ہی تصدق کردے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قیمت کا جانور خرید کر حرم میں ذبح کردے روزہ رکھنا کافی نہیں۔ [159] (عالمگیری، درمختار وغیرہما)

مسئلہ ۲: درخت اُکھیڑا اور اس کی قیمت بھی دیدی، جب بھی اُس سے کسی قسم کا نفع لینا جائز نہیں اور اگر بیچ ڈالا تو بیع ہو جائے گی مگر اُس کی قیمت تصدق کر دے۔ [160] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: جو درخت سُوکھ گیا اُسے اُکھاڑ سکتا ہے اور اس سے نفع بھی اُٹھا سکتا ہے۔ [161] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: درخت اُکھاڑا اور تاوان بھی ادا کر دیا پھر اسے وہیں لگا دیا اور وہ جم گیا پھر اسی کو اُکھاڑا تو اب تاوان نہیں۔ [162] (عالمگیری)

مسئلہ ۵: درخت کے پتے توڑے اگر اس سے درخت کو نقصان نہ پہنچا تو کچھ نہیں۔ یوہیں جو درخت پھلتا ہے اُسے بھی کاٹنے میں تاوان نہیں جب کہ مالک سے اجازت لے لی ہو اُسے قیمت دیدے۔ [163] (درمختار)

مسئلہ ۶: چند شخصوں نے مل کر درخت کاٹا تو ایک ہی تاوان ہے جو سب پر تقسیم ہو جائے گا، خواہ سب مُحرِم ہوں یا غیر مُحرِم یا بعض مُحرِم بعض غیر مُحرِم۔ [164] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: حرم کے پیلو یا کسی درخت کی مسواک بنانا جائز نہیں۔ [165] (عالمگیری)

مسئلہ ۸: جس درخت کی جڑ حرم سے باہر ہے اور شاخیں حرم میں وہ حرم کا درخت نہیں اور اگر تنے کا بعض حصہ حرم میں ہے اور بعض باہر تو وہ حرم کا ہے۔ [166] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۹: اپنے یا جانور کے چلنے میں یا خیمہ نصب کرنے میں کچھ درخت جاتے رہے تو کچھ نہیں۔ [167] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: ضرورت کی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ وہاں کی گھاس جانوروں کو چرانا جائز ہے۔ باقی کاٹنا، اُکھاڑنا، اس کا وہی حکم ہے جو درخت کا ہے۔ سوا اِذخر اور سوکھی گھاس کے کہ ان سے ہر طرح انتفاع جائز ہے۔ کھنبی کے توڑنے، اُکھاڑنے میں کچھ مضایقہ نہیں۔ [168] (درمختار، ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۸۹،۱۱۹۰)

(۱۶) جوں مارنا

مسئلہ ۱: اپنی جُوں اپنے بدن یا کپڑوں میں ماری یا پھینک دی تو ایک میں روٹی کا ٹکڑا اور دو یا تین ہوں تو ایک مُٹھی ناج اور اس سے زیادہ میں صدقہ۔ [169] (درمختار)

مسئلہ ۲: جُوئیں مرنے کو سر یا کپڑا دھویا یا دھوپ میں ڈالا، جب بھی یہی کفارے ہیں جو مارنے میں تھے۔ [170] (درمختار)

مسئلہ ۳: دوسرے نے اُس کے کہنے یا اشارہ کرنے سے اُس کی جوں ماری، جب بھی اُس پر کفارہ ہے اگرچہ دوسرا احرام میں نہ ہو۔[171](درمختار)

مسئلہ ۴: زمین وغیرہ پر گری ہوئی جوں یا دوسرے کے بدن یا کپڑوں کی مارنے میں اس پر کچھ نہیں اگرچہ وہ دوسرا بھی احرام میں ہو۔ [172] (بحر)

مسئلہ ۵: کپڑا بھیگ گیا تھا سُکھانے کے لیے دھوپ میں رکھا، اس سے جوئیں مرگئیں مگر یہ مقصود نہ تھا توکچھ حرج نہیں۔[173](منسک متوسط)

مسئلہ ۶: حرم کی خاک یاکنکری لانے میں حرج نہیں۔ [174] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۹۰، ۱۱۹۱)

(۱۷) بغیر احرام میقات سے گزرنا

مسئلہ ۱: میقات کے باہر سے جو شخص آیا اور بغیر احرام مکہ معظمہ کو گیا تو اگرچہ نہ حج کا ارادہ ہو، نہ عمرہ کا مگر حج یا عمرہ واجب ہو گیا پھر اگر میقات کو واپس نہ گیا، یہیں احرام باندھ لیا تو دَم واجب ہے اور میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا تو دَم ساقط اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے جو اُس پر حج یا عمرہ واجب ہوا تھا اس کا احرام باندھا اور ادا کیا تو بری الذّمہ ہوگیا۔ یوہیں اگر حجۃ الاسلام یا نفل یا منّت کا عمرہ یا حج جو اُس پر تھا، اُس کا احرام باندھا اور اُسی سال ادا کیا جب بھی بری الذّمہ ہوگیا اور اگر اس سال ادانہ کیا تو اس سے بری الذّمہ نہ ہوا، جو مکہ میں جانے سے واجب ہوا تھا۔ [175] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: چند بار بغیر احرا م مکہ معظمہ کو گیا، پچھلی بار میقات کو واپس آکر حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر ادا کیا تو صرف اس بار جو حج یا عمرہ واجب ہوا تھا، اس سے بری الذّمہ ہوا، پہلوں سے نہیں۔ [176] (عالمگیری)

مسئلہ ۳: حج یا عمرہ کا ارادہ ہے اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا تو اگر یہ اندیشہ ہے کہ میقات کو واپس جائے گا تو حج فوت ہو جائے گا تو واپس نہ ہو، وہیں سے احرام باندھ لے اور دَم دے اور اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو واپس آئے۔ پھر اگر میقات کو بغیر احرام آیا تو دَم ساقط۔ یوہیں اگر احرام باندھ کر آیا اور لبیک کہہ چکا ہے تو دَم ساقط اور نہیں کہا تو نہیں۔[177] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: میقات سے بغیر احرام گیا پھر عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کو فاسد کردیا، پھر میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کی قضا کی تو میقات سے بے احرام گزرنے کا دَم ساقط ہوگیا۔ [178] (درمختار)

مسئلہ ۵: مُتمتّع نے حرم کے باہر سے حج کا احرام باندھا، اُسے حکم ہے کہ جب تک وقوفِ عرفہ نہ کیا اور حج فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو حرم کو واپس آئے اگر واپس نہ آیا تو دَم واجب ہے اور اگر واپس ہوا اور لبیک کہہ چکا ہے تو دَم ساقط ہے نہیں تو نہیں اور باہر جاکر احرام نہیں باندھا تھا اور واپس آیا اور یہاں سے احرام باندھا تو کچھ نہیں۔ مکہ میں جس نے اقامت کرلی ہے اس کا بھی یہی حکم ہے اور اگر مکہ والا کسی کام سے حرم کے باہر گیا تھا اور وہیں سے حج کا احرام باندھ کر وقوف کرلیا تو کچھ نہیں اور اگر عمرہ کا احرام حرم میں باندھا تو دَم لازم آیا۔[179] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۶: نابالغ بغیر احرام میقات سے گزرا پھر بالغ ہوگیا اور وہیں سے احرام باندھ لیا تو دَم لازم نہیں اور غلام اگر بغیر احرام گزرا پھر اُس کے آقا نے احرام کی اجازت دے دی اور اُس نے احرام باندھ لیا تو دَم لازم ہے جب آزاد ہو ادا کرے۔ [180] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: میقات سے بغیر احرام گزرا پھر عمرہ کا احرام باندھا اس کے بعد حج کا یا قِران کیا تو دَم لازم ہے اور اگر پہلے (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۹۱، ۱۱۹۲)


حج کا باندھا پھر حرم میں عمرہ کا تو دو دَم۔ [181] (عالمگیری)

(۱۸) احرام ہوتے ہوئے دوسرا احرام باندھنا

مسئلہ ۱: جو شخص میقات کے اندر رہتا ہے اُس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کا طواف ایک پھیرا بھی کرلیا، اُس کے بعد حج کا احرام باندھا تو اسے توڑ دے اور دَم واجب ہے۔ اس سال عمرہ کرلے، سال آئندہ حج اور اگر عمرہ توڑ کر حج کیا تو عمرہ ساقط ہوگیا اور دَم دے اور دونوں کرلیے تو ہوگئے مگر گنہگار ہوا اور دَم واجب۔ [182] (درمختار)

مسئلہ ۲: حج کا احرام باندھا پھر عرفہ کے دن یا رات میں دوسرے حج کا احرام باندھا تو اسے توڑ دے اور دَم دے اور حج و عمرہ اُس پر واجب اور اگر دسویں کو دوسرے حج کا احرام باندھا اور حلق کرچکا ہے تو بدستور احرام میں رہے اور دوسرے کو سال آئندہ میں پورا کرے اور دَم واجب نہیں اور حلق نہیں کیا ہے تو دَم واجب۔[183] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳: عمرہ کے تمام افعال کرچکا تھا صرف حلق باقی تھا کہ دوسرے عمرہ کا احرام باندھا تو دَم واجب ہے اور گنہگار ہوا۔[184](درمختار)

مسئلہ ۴: باہر کے رہنے والے نے پہلے حج کا احرام باندھا اور طوافِ قدوم سے پیشتر عمرہ کا احرام باندھ لیا تو قارِن ہوگیا مگر اساء ت ہوئی اور شکرانہ کی قربانی کرے اور عمرہ کے اکثر طواف یعنی چار پھیرے سے پہلے وقوف کرلیا تو عمرہ باطل ہوگیا۔ [185] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵: طوافِ قدوم کا ایک پھیرا بھی کرلیا تو عمرہ کا احرام باندھنا جائز نہیں پھر بھی اگر باندھ لیا تو بہتر یہ ہے کہ عمرہ توڑ دے اور قضا کرے اور دَم دے اور اگر نہیں توڑا اور دونوں کرلیے تو دَم دے۔[186] (درمختار)

مسئلہ ۶: دسویں سے تیرھویں تک حج کرنے والے کو عمرہ کا احرام باندھنا ممنوع ہے، اگر باندھا تو توڑ دے اور اُس کی قضا کرے اور دَم دے اور کرلیا تو ہوگیا مگر دَم واجب ہے۔ [187] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۹۳)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الھدایۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل في جزاء الصید، ج۱، ص۱۷۱.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۴.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''المسلک المتقسط''،(باب فيجزاء الجنایات وکفاراتھا، فصل في احکام الصیام في باب الاحرام ص۴۰۱۔۴۰۳.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۰۔۲۴۱.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۳.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۳.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۳، وغیرہ.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق . و''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل فی الکحل المطیب ص۳۱۴.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.و''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۶.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴، وغیرہ.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱. و ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل في تطیییب الثوب...إلخ ص۳۲۱.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات، ص۲۱۷.و''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴، وغیرہما.

[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[20] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۲.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۴.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱۔۲۴۲.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناک''و ''المسک المتقسط''،( کتاب الحج ،باب الحنایات،لا یشترط بقاء الطیب )،ص۳۱۹

[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی ص۲۴۰.

[26] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۵.

[27] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۶.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الأول، ج۱، ص۲۴۱.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل في تطیب الثوب اذا کان الطیب في ثوبہ شبراً في شبر ص۳۲۰.

[30] ۔۔۔۔۔۔ چار پہر سے مراد ایک دن یا ایک رات کی مقدار ہے ،مثلاً طلوع آفتاب سے غروب آفتاب یا غروب آفتاب سے طلوع آفتاب یا دوپہر سے آدھی رات یاآدھی رات سے دوپہر تک ۔ ( حاشیہ '' انور البشارۃ''. '' الفتاوی الرضویۃ ''، ج۱۰، ص ۷۵۷).

[31] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲، وغیرہ.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲.و''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۷.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۳.

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲، وغیرہ.

[36] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق .و''لباب المناسک'' و '' المسلک المتقسط''، (باب الجنایات ص۳۰۸.

[37] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲.

[38] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۹.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۶.و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴۲.

[40] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في لبس الخفین ص۳۰۹۔۳۱۰.

[41] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۹.

[42] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۹.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۹۔۶۶۱.

[44] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۳.

[45] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۳.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار'' ، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۰.

[47] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ص۶۶۹.

[48] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۳. و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ص ۶۷۰.

[49] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل في سقوط الشعرص۳۲۸.

[50] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۳.

[51] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۳.

[52] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار'' ، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۰، وغیرہ.

[53] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في حکم التقصیر ص۳۲۷.

[54] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۵۹.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل في سقوط الشعر ص۳۲۸.

[56] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الثالث، ج۱، ص۲۴۴.

[57] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[58] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[59] ۔۔۔۔۔۔ ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في قلم الاظفار ص۳۳۲.

[60] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۷.

[61] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص، ۲۲۰.

[62] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۴.

[63] ۔۔۔۔۔۔ یعنی مشت زنی۔

[64] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۴.

[65] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۴.

[66] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۲۴۵.

[67] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۴.

[68] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۲.

[69] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۵.

[70] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۵.

[71] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۲.

[72] ۔۔۔۔۔۔ ''الدر المختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۳.

[73] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۶.

[74] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الرابع، ج۱، ص۲۴۵.

[75] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات ص۳۳۸.

[76] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۳.

[77] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[78] ۔۔۔۔۔۔ بہار شریعت کے نسخوں میں اس جگہ''دم''کے بجائے'' بَدَ نہ'' لکھا ہے ،جو کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ''طوافِ فرض بارھویں کے بعد کیاتو بدنہ ساقط ہو جائے گا''،ایسا ہی فتاوی عالمگیری میں ہے،اسی وجہ سے ہم نے لفظ''دم'' کر دیا ہے ۔ لہٰذا جن کے پاس بہار شریعت کے دیگر نسخے ہیں ان کو چاہیے کہ لفظ ''بدنہ'' کو قلم زد کر کے اس جگہ پر لفظ'' دم'' لکھ لیں۔

[79] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص ۲۲۱.و''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱،ص۲۴۵.

[80] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۶.

[81] ۔۔۔۔۔۔ '''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۷. و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۲.

[82] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص ۲۴۵،۲۴۶.

[83] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[84] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[85] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في الجنایۃ في طواف الصدر ص۳۵۰۔۳۵۳.

[86] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۵۳.

[87] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۶، وغیرہ.

[88] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۶.

[89] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق۔

[90] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۷.و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۵.

[91] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' کتاب الحج، باب فی السعی بین الصفا والمروۃ، ج۳، ص۵۸۷.

[92] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۱.

[93] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص۲۲۲.

[94] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۷.و''الجوھرۃ النیرۃ''، ، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص۲۲۲.

[95] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص۲۲۳.

[96] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثامن في الجنایات، الفصل الخامس، ج۱، ص۲۴۷. و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۶.

[97] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۶، وغیرہ.

[98] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۶.

[99] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۶۶.

[100] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۶، وغیرہ.

[101] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل في ترک الواجبات بعذر ص۳۶۰.

[102] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' ،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱.و''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۴۸، وغیرھما.

[103] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''،المرجع السابق ص۲۴۸و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱.

[104] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱.

[105] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱۔۶۸۳.

[106] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ص۲۲۸.

[107] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۴۸.

[108] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[109] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۲۴۷. و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۶.

[110] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱.

[111] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۱.

[112] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۸، وغیرہ.

[113] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویر الابصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۳.

[114] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۳.

[115] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۴۸.

[116] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۴.

[117] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۴، وغیرہ.

[118] ۔۔۔۔۔۔ '''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في الجرح ص۳۶۲. و''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع فی الصید، ج۱، ص۲۴۸.

[119] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ '' ،کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج ص۲۲۶ . و ''ردالمحتار''، کتاب الجنایات، ج۳، ص۶۸۸.

[120] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ '' ، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج ص۲۲۶ .

[121] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۴، وغیرہ.

[122] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۹۔۶۹۱.و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۲.

[123] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۹۲.

[124] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''،کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۹۲.

[125] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ'' ،کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج ص۲۲۴ . و''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۷.

[126] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۷.

[127] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[128] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل فيالدلالۃ والاشارۃ ونحو ذلک ص۳۶۹.

[129] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الجنایات، فصل فيالدلالۃ والاشارۃ ونحو ذلک ص۳۶۹.

[130] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۷۷.

[131] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۴۹.

[132] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ'' ،کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج ص۲۲۷ .

[133] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ'' ،کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج ص۲۲۹ .

[134] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[135] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۰،۲۵۱.

[136] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[137] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في أخذ الصید و ارسالہ ص۳۶۸.

[138] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۰.

[139] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۲۵۱.

[140] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۹۳.

[141] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات، فصل في صید الحرم ص۳۷۴.

[142] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۹۳، وغیرہ.

[143] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار'' ، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۹۴.

[144] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' کتاب المناسک، الباب التاسع فی الصید، ج۱، ص۲۴۹. و''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات ص۳۶۴.

[145] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۰.

[146] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[147] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الجنایات،ج۳، ص۶۸۷.

[148] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۶۸۸.

[149] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۱.

[150] ۔۔۔۔۔۔ انظر:''الدر المختار'' و''رد المحتار''، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۷. و ''البحر الرائق''، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل ان قتل محرم صیداً، ج۳، ص۶۹. و ''لباب المناسک'' ، (باب الجنایات، فصل في صید الحرم ص۳۷۶.

[151] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۱.

[152] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۵۲.

[153] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[154] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[155] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' ، (باب الجنایات، فصل في أخذ الصید و ارسالہ ص۳۶۸.

[156] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' ، (باب الجنایات، فصل في صید الحرم ص۳۷۷.

[157] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۷۰۴، وغیرہ.

[158] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۶۸۶.

[159] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۲۔۲۵۳.

[160] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۳.

[161] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[162] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۳.

[163] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۵.

[164] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب التاسع في الصید، ج۱، ص۲۵۳.

[165] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب السابع عشر فی النذر بالحج، ج۱، ص۲۶۴.

[166] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۶، وغیرہ.

[167] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۶.

[168] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۶۸۸.

[169] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۶۸۹.

[170] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[171] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[172] ۔۔۔۔۔۔ ''البحر الرائق''، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل ان قتل محرم صیداً، ج۳، ص۶۱.

[173] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط''، (باب الجنایات ،فصل في قتل القمل ص ۳۷۸.

[174] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الہندیۃ''، کتاب المناسک، الباب السابع عشر فی النذر بالحج، ج۱، ص۲۶۴.

[175] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب العاشر في مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ج۱، ص۲۵۳. و''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، مطلب لایجب الضمان بکسر آلات اللھو، ج۳، ص۷۱۱.

[176] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب العاشر في مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ج۱، ص۲۵۳،۲۵۴.

[177] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۲۵۳.

[178] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۷۱۳.

[179] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب العاشر في مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ج۱، ص۲۵۴. و''ردالمحتار''،

[180] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب العاشر في مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ج۱، ص۲۵۳.

[181] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب العاشر في مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ج۱، ص۲۵۳.

[182] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۷۱۳.

[183] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، مطلب لایجب الضمان بکسر آلات اللّھو، ج۳، ص۷۱۵.

[184] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۷۱۶.

[185] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الجنایات، مطلب لایجب الضمان... إلخ، ج۳، ص۷۱۷.

[186] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الجنایات، ج۳، ص۷۱۷.

[187] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۷۱۸.

Share