جرأت علی اللہ

(30) جرأت علی اللہ

جرأت علی اللہ کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی سر کشی و قصداً نافرمانی کرنا یعنی جن کاموں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں نہ کرنا اور جس سے منع فرمایا ہے ان سے اپنے آپ کو نہ بچانا جرأت علی اللہکہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۱۳)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : (اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲))(پ۲۵، الشوری: ۴۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مواخذہ تو انہیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۱۳،۲۱۴)

حدیث مبارکہ، سرکش انسان کی ذلت وخواری :

سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو دنیا میں سرکشی کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اسے ذلیل کرےگا اور جو دنیامیں تواضع اختیار کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس سے کہے گا: اے نیک بندے! اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے کہ میرے قرب میں آ جا کہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن پر آج نہ کوئی خوف ہے اور نہ کچھ غم۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۱۴)

جرأت علی اللہ یعنی سرکشی کے بارے میں تنبیہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی سرکشی و نافرمانی کرنا، اس کے مامُورَات (جن کاموں کا اس نے حکم دیا ان ) سے روگردانی کرنا اور اس کے مَنْہِیَّات (جن چیزوں سے اس سےمنع کیا ہے ان) کو بجا لانا حرام ناجائز اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۱۴)

جرأت علی اللہ کے اسبا ب و علاج:

(1)…جرأت علی اللہ کاپہلاسبب خوفِ خدا کی کمی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اند ر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا کرے، اپنی توجہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کی جانب رکھے، اس کی نعمتوں پر شکرادا کرنے کی عادت ڈالے۔

(2)…جرأت علی اللہ کادوسرا اسبب جہالت اور لاعلمی ہے۔بندہ گناہوں میں مبتلارہتا ہےاور اسے یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ’’میں گناہ کررہاہوں۔‘‘اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ گناہ کی معلومات ان پر ملنے والے عذابات کی تفصیل کا علم حاصل کرے۔ اس حوالے سے تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال ‘‘کامطالعہ بے حد مفیدہے۔

(3)…جرأت علی اللہ کاتیسرا سبب حب جاہ اور طلب شہرت ہے۔بندہ اپنی تعریف سننے اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ناجائز وحرام کام بھی کر گزرتا ہے اور کبھی تو ایمان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سستی شہرت کے بدلے آخرت میں ملنے والےرُسوا کن عذاب کو پیش نظر رکھےاور حب جاہ اور طلب شہرت کے اسباب وعلاج کا مطالعہ کرکے اس مہلک مرض سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

(4)…جرأت علی اللہ کا چوتھا سبب بُری صحبت ہے۔ برے دوستوں کی بداعمالیاں دیکھ کر انسان کے اندربھی گناہ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،آخر کاریہ جذبہ اسے گناہوں کے دلدل میں پھنسا دیتا ہےجس کی وجہ سے بندہ دنیاوی ذلت کے ساتھ اُخروی عذاب کا بھی مستحق قرار پاتا ہے۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ بری صحبت کو اپنے لیے اندھا کنواں سمجھےاور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔

(5)…جرأت علی اللہ کا پانچواں سبب اتباعِ شہواتہے۔ کیونکہ بندے کا نفسِ اَمَّارَہ اسے ناجائز و حرام کاموں پر اُکساتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بندہ قصداً گنا ہ میں مبتلا ہوجا تا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ضروریات اور جائز وناجائز خواہشات میں فرق کرے، نفسانی خواہش پر قابو پائے اور نفس کی شرارتوں سے باخبر رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۱۷،۲۱۸)


[1] ۔۔۔۔ تاریخ ابن عساکر، ج۵۴، ص۴۳۱۔

Share

Comments


Security Code