جمعہ کا بیان

جمعہ کا بیان

مسائلِ فقہیّہ

جمعہ فرض عین ہے اور اس کی فرضیّت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ [1] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱: جمعہ پڑھنے کے ليے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو ہو گا ہی نہیں۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۲)

(۱) مصر یا فنائے مصر

مصر وہ جگہ ہے جس میں متعدد کُوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ [2] ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ اپنے دبدبہ و سَطوَت کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر قدرت کافی ہے، اگرچہ ناانصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو اور مصر کے آس پاس کی جگہ جو مصر کی مصلحتوں کے ليے ہو اسے ''فنائے مصر'' کہتے ہیں۔ جیسے قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں، اسٹیشن کہ یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر ميں ان کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز۔ [3] (غنیہ وغیرہا) لہٰذا جمعہ يا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں۔[4] (غنیہ)

مسئلہ ۲: جس شہر پر کفار کا تسلط ہوگیا وہاں بھی جمعہ جائز ہے، جب تک دارالاسلام رہے۔ [5] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳: مصر کے ليے حاکم کا وہاں رہنا ضرور ہے، اگر بطور دورہ وہاں آگیا تو وہ جگہ مصر نہ ہوگی، نہ وہاں جمعہ قائم کیا جائے گا۔[6] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴: جو جگہ شہر سے قریب ہے مگر شہر کی ضرورتوں کے ليے نہ ہو اور اس کے اور شہر کے درمیان کھیت وغیرہ فاصل ہو تو وہاں جمعہ جائز نہیں اگرچہ اذان جمعہ کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو۔ [7] (عالمگیری) مگر اکثر آئمہ کہتے ہیں کہ اگر اذان کی آواز پہنچتی ہو تو ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا فرض ہے بلکہ بعض نے تو یہ فرمایا کہ اگر شہر سے دور جگہ ہو مگر بلا تکلیف واپس باہر جاسکتا ہو تو جمعہ پڑھنا فرض ہے۔[8] (درمختار) لہٰذا جو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھيں چاہيے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھ جائیں۔

مسئلہ ۵: گاؤں کا رہنے والے شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو، زوال سے پہلے یا بعد تو فرض نہیں، مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے۔ يوہيں مسافر شہر میں آیا اور نیت اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں، گاؤں والا جمعہ کے ليے شہر کو آیا اور کوئی دوسرا کام بھی مقصود ہے تو اس سعی (یعنی جمعہ کے ليے آنے) کا بھی ثواب پائے گا اور جمعہ پڑھا تو جمعہ کا بھی۔[9](عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶: حج کے دنوں میں منیٰ میں جمعہ پڑھا جائے گا جبکہ خلیفہ یا امیر حجاز یعنی شريف مکّہ وہاں موجود ہو اور امیر موسم یعنی وہ کہ حاجیوں کے ليے حاکم بنایا گیا ہے جمعہ نہیں قائم کر سکتا۔ حج کے علاوہ اور دنوں میں منیٰ میں جمعہ نہیں ہوسکتا اور عرفات میں مطلقاً نہیں ہو سکتا، نہ حج کے زمانہ میں، نہ اور دنوں میں۔ [10] (عالمگیری)

مسئلہ ۷: شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ۔ [11] (درمختار وغیرہ) مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس ليے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔

مسئلہ ۸: ظہراحتیاطی (کہ جمعہ کے بعد چار رکعت نماز اس نیت سے کہ سب ميں پچھلی ظہر جس کا وقت پایا اور نہ پڑھی) خاص لوگوں کے ليے ہے جن کو فرض جمعہ ادا ہونے ميں شک نہ ہو اور عوام کہ اگر ظہر احتیاطی پڑھیں تو جمعہ کے ادا ہونے میں انھيں شک ہو گا وہ نہ پڑھیں اور اس کی چاروں رکعتیں بھری پڑھی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ جمعہ کی پچھلی چار سنتیں پڑھ کر ظہر احتیاطی پڑھیں پھر دو سنتیں اور ان چھ سنتوں میں سنت وقت کی نیت کریں۔ [12] (عالمگیری، صغیری، ردالمحتار وغیرہا) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۲تا۷۶۴)

(۲) سلطان اسلام یا اس کا نائب جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا [13]

مسئلہ ۹: سُلطان عادل ہو یا ظالم جمعہ قائم کرسکتا ہے۔ يوہيں اگر زبردستی بادشاہ بن بیٹھا یعنی شرعاً اس کو حق امامت نہ ہو، مثلاً قرشی نہ ہو یا اور کوئی شرط مفقود ہو تو یہ بھی جمعہ قائم کر سکتا ہے۔ يوہيں اگر عورت بادشاہ بن بیٹھی تو اس کے حکم سے جمعہ قائم ہوگا، یہ خود نہیں قائم کر سکتی۔ [14] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۱۰: بادشاہ نے جسے جمعہ کا امام مقرر کر دیا وہ دوسرے سے بھی پڑھوا سکتا ہے اگرچہ اسے اس کا اختیار نہ دیا ہو کہ دوسرے سے پڑھوا دے۔ [15] (درمختار)

مسئلہ ۱۱: امام جمعہ کی بلا اجازت کسی نے جمعہ پڑھایا اگر امام یا وہ شخص جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے شریک ہوگیا تو ہو جائے گا ورنہ نہیں۔ [16] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: حاکم شہر کا انتقال ہوگیا یا فتنہ کے سبب کہیں چلا گیا اور اس کے خلیفہ (ولی عہد) یا قاضی ماذون نے جمعہ قائم کیا جائز ہے۔ [17] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۳: کسی شہر میں بادشاہ اسلام وغیرہ جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے نہ ہو تو عام لوگ جسے چاہیں امام بناویں۔ يوہيں اگر بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں جب بھی کسی کو مقرر کرسکتے ہیں۔ [18] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۱۴: حاکمِ شہر نابالغ یا کافر ہے اور اب وہ نابالغ بالغ ہوا یا کافر مسلمان ہوا تو اب بھی جمعہ قائم کرنے کا ان کو حق نہیں، البتہ اگر جدید حکم ان کے ليے آیا یا بادشاہ نے کہہ دیا تھا کہ بالغ ہونے یا اسلام لانے کے بعد جمعہ قائم کرنا تو قائم کر سکتا ہے۔[19](عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: خطبہ کی اجازت جمعہ کی اجازت ہے اور جمعہ کی اجازت خطبہ کی اجازت ہے اگرچہ کہہ دیا ہو کہ خطبہ پڑھنا اور جمعہ نہ قائم کرنا۔[20] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۶: بادشاہ لوگوں کو جمعہ قائم کرنے سے منع کر دے تو لوگ خودقائم کر لیں اور اگر اس نے کسی شہر کی شہریت باطل کر دی تو لوگوں کو اب جمعہ پڑھنے کا اختیار نہیں۔[21] (ر دالمحتار) یہ اس وقت ہے کہ بادشاہِ اسلام نے شہریت باطل کی ہو اور کافر نے باطل کی تو پڑھیں۔

مسئلہ ۱۷: امام جمعہ کو بادشاہ نے معزول کر دیا تو جب تک معزولی کا پروانہ نہ آئے یا خود بادشاہ نہ آئے معزول نہ ہوگا۔[22] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۸: بادشاہ سفر کر کے اپنے ملک کے کسی شہر میں پہنچا تو وہاں جمعہ خود قائم کر سکتا ہے۔[23] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۴تا۷۶۶)

(۳) وقت ظہر

یعنی وقت ظہر میں نماز پوری ہو جائے تو اگر اثنائے نماز میں اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا جمعہ باطل ہوگیا ظہر کی قضا پڑھیں۔[24](عامۂ کتب)

مسئلہ ۱۹: مقتدی نماز میں سو گیا تھا آنکھ اس وقت کھلی کہ امام سلام پھیر چکا ہے تو اگر وقت باقی ہے جمعہ پورا کر لے ورنہ ظہر کی قضا پڑھے یعنی نئے تحریمہ سے۔[25](عالمگیری وغیرہ) يوہيں اگر اتنی بھیڑ تھی کہ رکوع و سجود نہ کرسکا یہاں تک کہ امام نے سلام پھیر دیا تو اس میں بھی وہی صورتیں ہیں۔[26](درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۶)

(۴) خطبہ

مسئلہ ۲۰: خطبہ جمعہ میں شرط یہ ہے، کہ:

(۱) وقت میں ہو اور

(۲) نماز سے پہلے اور

(۳) ایسی جماعت کے سامنے ہو جو جمعہ کے ليے شرط ہے یعنی کم سے کم خطیب کے سوا تین مرد اور

(۴) اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سُن سکیں اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو اگر زوال سے پیشتر خطبہ پڑھ لیا یا نماز کے بعد پڑھا یا تنہا پڑھا یا عورتوں بچوں کے سامنے پڑھا تو ان سب صورتوں میں جمعہ نہ ہوا اور اگر بہروں یا سونے والوں کے سامنے پڑھا یا حاضرین دور ہیں کہ سنتے نہیں یا مسافر یا بیماروں کے سامنے پڑھا جو عاقل بالغ مرد ہیں تو ہو جائے گا۔[27](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۱: خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے اگرچہ صرف ایک بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا سُبْحٰنَ اللہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّااللہ کہا اسی قدر سے فرض ادا ہوگیا مگر اتنے ہی پر اکتفا کرنا مکروہ ہے۔[28](درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲۲: چھینک آئی اور اس پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا یا تعجب کے طور پر سُبْحٰنَ اللہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّااللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔ [29] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۳: خطبہ و نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ خطبہ کافی نہیں۔ [30](درمختار)

مسئلہ ۲۴: سنت یہ ہے کہ دو خطبے پڑھے جائیں اور بڑے بڑے نہ ہوں اگر دونوں مل کر طوال مفصّل سے بڑھ جائیں تو مکروہ ہے خصوصاً جاڑوں [31] میں۔ [32] (درمختار، غنیہ)

مسئلہ ۲۵: خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں:

(۱) خطیب کا پاک ہونا۔

(۲) کھڑا ہونا۔

(۳) خطبہ سے پہلے خطیب کا بیٹھنا۔

(۴) خطیب کا منبر پر ہونا۔ اور

(۵) سامعین کی طرف مونھ۔ اور

(۶) قبلہ کو پیٹھ کرنا اور بہتر یہ ہے کہ منبر محراب کی بائیں جانب ہو۔

(۷) حاضرین کا متوجہ بامام ہونا۔

(۸) خطبہ سے پہلے اَعُوْذُ بِاللہ آہستہ پڑھنا۔

(۹) اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں۔

(۱۰) الحمد سے شروع کرنا۔

(۱۱)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ثنا کرنا۔

(۱۲) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی وحدانیت اور رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی رسالت کی شہادت دینا۔

(۱۳) حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی) پر درود بھیجنا۔

(۱۴) کم سے کم ایک آیت کی تلاوت کرنا۔

(۱۵) پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا۔

(۱۶) دوسرے میں حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا۔

(۱۷) دوسرے میں مسلمانوں کے ليے دُعا کرنا۔

(۱۸) دونوں خطبے ہلکے ہونا۔

(۱۹) دونوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔ مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین وعمّین مکرمین حضرت حمزہ و حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمکا ذکر ہو بہتریہ ہے کہ دوسرا خطبہ اس سے شروع کریں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللہ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِی اللہ فَلَا مُضِلَّ لَـہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَـہٗ . [33]

(۲۰) مرد اگر امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف مونھ کرے اور دہنے بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے۔ اور

(۲۱) امام سے قریب ہونا افضل ہے مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے ليے لوگوں کی گردنیں پھلانگے، البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے۔

(۲۲) خطبہ سننے کی حالت میں دو زانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔ [34] (عالمگیری، درمختار، غنیہ وغیرہا)

مسئلہ ۲۶: بادشاہ اسلام کی ایسی تعریف جو اس میں نہ ہو حرام ہے، مثلاً مالک رقاب الامم کہ یہ محض جھوٹ اور حرام ہے۔ [35] (درمختار)

مسئلہ ۲۷: خطبہ میں آیت نہ پڑھنا یا دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ نہ کرنا یا اثنائے خطبہ میں کلام کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر خطیب نے نیک بات کا حکم کیا یا بُری بات سے منع کیا تو اسے اس کی ممانعت نہیں۔[36] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۸: غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا خلاف سنت متوارثہ ہے۔ يوہيں خطبہ میں اشعار پڑھنا بھی نہ چاہيے اگرچہ عربی ہی کے ہوں، ہاں دو ایک شعر پندونصائح کے اگر کبھی پڑھ لے تو حرج نہیں۔(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۶ تا۷۶۹)

(۵) جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد

مسئلہ ۲۹: اگر تین غلام یا مسافر یا بیمار یا گونگے یا اَن پڑھ مقتدی ہوں تو جمعہ ہو جائے گا اور صرف عورتیں یا بچے ہوں تو نہیں۔[37](عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: خطبہ کے وقت جو لوگ موجود تھے وہ بھاگ گئے اور دوسرے تین شخص آگئے تو ان کے ساتھ امام جمعہ پڑھے یعنی جمعہ کی جماعت کے ليے انھيں لوگوں کا ہونا ضروری نہیں جو خطبہ کے وقت حاضر تھے بلکہ ان کے غیر سے بھی ہوجائے گا۔ [38] (درمختار)

مسئلہ ۳۱: پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پیشتر سب مقتدی بھاگ گئے یا صرف دو رہ گئے تو جمعہ باطل ہوگیا سرے سے ظہر کی نیت باندھے اور اگر سب بھاگ گئے مگر تین مرد باقی ہیں یا سجدہ کے بعد بھاگے يا تحريمہ کے بعد بھاگ گئے تھے مگر پہلے رکوع ميں آکر شامل ہوگئے يا خطبہ کے بعد بھاگ گئے اور امام نے دوسرے تین مردوں کے ساتھ جمعہ پڑھا تو ان سب صورتوں میں جمعہ جائز ہے۔ [39] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۲: امام نے جباللہ اَکْبَر کہا اس وقت مقتدی باوضو تھے مگر انہوں نے نیت نہ باندھی پھر یہ سب بے وضو ہو گئے اور دوسرے لوگ آگئے یہ چلے گئے تو ہوگیا اور اگر تحریمہ ہی کے وقت سب مقتدی بے وضو تھے پھر اور لوگ آگئے تو امام سرے سے تحریمہ باندھے۔[40] (خانيہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۶۹، ۷۷۰)

(۶) اذن عام

یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو، اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہو گئے دروازہ بند کر کے جمعہ پڑھا نہ ہوا۔ [41] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۳: بادشاہ نے اپنے مکان میں جمعہ پڑھا اور دروازہ کھول دیا لوگوں کو آنے کی عام اجازت ہے تو ہوگیا لوگ آئیں یا نہ آئیں اور دروازہ بند کر کے پڑھا یا دربانوں کو بٹھا دیا کہ لوگوں کو آنے نہ دیں تو جمعہ نہ ہوا۔[42] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۴: عورتوں کو اگر مسجد جامع سے روکا جائے تو اذن عام کے خلاف نہ ہو گا کہ ان کے آنے میں خوفِ فتنہ ہے۔[43] (ردالمحتار)

جمعہ واجب ہونے کے ليے گیارہ شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہوجائے گا بلکہ مرد عاقل بالغ کے ليے جمعہ پڑھنا افضل ہے اور عورت کے ليے ظہر افضل، ہاں عورت کا مکان اگر مسجد سے بالکل متصل ہے کہ گھر میں امام مسجد کی اقتدا کر سکے تو اس کے ليے بھی جمعہ افضل ہے اور نابالغ نے جمعہ پڑھا تو نفل ہے کہ اس پر نماز فرض ہی نہیں۔ [44](درمختار، ردالمحتار)

(۱) شہر میں مقیم ہونا

(۲) صحت یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں مریض سے مراد وہ ہے کہ مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہوگا۔ [45](غنیہ) شیخ فانی مریض کے حکم میں ہے۔[46](درمختار)

مسئلہ ۳۵: جو شخص مریض کا تیماردار ہو، جانتا ہے کہ جمعہ کو جائے گا تو مریض دِقتوں میں پڑ جائے گا اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا تو اس تیماردار پر جمعہ فرض نہیں۔ [47] (درمختار وغيرہ)

(۳) آزاد ہونا۔ غلام پر جمعہ فرض نہیں اور اس کا آقا منع کر سکتا ہے۔[48] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۶: مکاتب غلام پر جمعہ واجب ہے۔ يوہيں جس غلام کا کچھ حصہ آزاد ہو چکا ہو باقی کے ليے سعایت کرتا ہو یعنی بقیہ آزاد ہونے کے ليے کما کر اپنے آقا کو دیتا ہو اس پر بھی جمعہ فرض ہے۔[49] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۳۷: جس غلام کو اس کے مالک نے تجارت کرنے کی اجازت دی ہو یا اس کے ذمہ کوئی خاص مقدار کما کر لانا مقرر کیا ہو اس پر جمعہ واجب ہے۔[50] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۸: مالک اپنے غلام کو ساتھ لے کر، مسجد جامع کو گیا اور غلام کو دروازہ پر چھوڑا کہ سواری کی حفاظت کرے تو اگر جانور کی حفاظت میں خلل نہ آئے پڑھ لے۔[51](عالمگیری)

مسئلہ ۳۹: مالک نے غلام کو جمعہ پڑھنے کی اجازت دے دی جب بھی واجب نہ ہوا اور بلااجازت مالک اگر جمعہ یا عید کو گیا اگر جانتا ہے کہ مالک ناراض نہ ہو گا تو جائز ہے ورنہ نہیں۔[52](ردالمحتار)

مسئلہ ۴۰: نوکر اور مزدور کو جمعہ پڑھنے سے نہیں روک سکتا، البتہ اگر مسجد جامع دور ہے تو جتنا حرج ہوا ہے اس کی مزدوری میں کم کر سکتا ہے اور مزدور اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا۔[53](عالمگیری)

(۴) مرد ہونا

(۵) بالغ ہونا

(۶) عاقل ہونا۔ یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے ليے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے۔

(۷) انکھیارا ہونا۔[54]

مسئلہ ۴۱: یک چشم اور جس کی نگاہ کمزور ہو اس پر جمعہ فرض ہے۔ يوہيں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت باوضو ہو اس پر جمعہ فرض ہے اور وہ نابینا جو خود مسجد جمعہ تک بلا تکلّف نہ جا سکتا ہو اگرچہ مسجد تک کوئی لے جانے والا ہو، اُجرتِ مثل پر لے جائے یا بلا اُجرت اس پر جمعہ فرض نہیں۔ [55] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۲: بعض نابینا بلا تکلّف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں راستوں میں چلتے پھرتے ہیں اور جس مسجد میں چاہیں بلا پُوچھے جا سکتے ہیں ان پر جمعہ فرض ہے۔ [56] (ردالمحتار)

(۸) چلنے پر قادر ہونا۔

مسئلہ ۴۳: اپاہج پر جمعہ فرض نہیں، اگرچہ کوئی ایسا ہو کہ اسے اٹھا کر مسجد میں رکھ آئے گا۔ [57] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۴: جس کا ایک پاؤں کٹ گیا ہو یا فالج سے بیکار ہوگیا ہو، اگر مسجد تک جا سکتا ہو تو اس پر جمعہ فرض ہے ورنہ نہیں۔ [58](درمختار وغیرہ)

(۹) قید میں نہ ہونا، مگر جب کہ کسی دَین کی وجہ سے قید کیا گیا اور مالدار ہے یعنی ادا کرنے پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے۔ [59](ردالمحتار)

(۱۰) بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا، مفلس قرضدار کو اگر قید کا اندیشہ ہو تو اس پر فرض نہیں۔[60](ردالمحتار)

(۱۱) مینھ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اسقدر کہ ان سے نقصان کا خوف صحیح ہو۔ [61]

مسئلہ ۴۵: جمعہ کی امامت ہر مرد کر سکتا ہے جو اور نمازوں میں امام ہو سکتا ہو اگرچہ اس پر جمعہ فرض نہ ہو جیسے مریض مسافر غلام۔[62](درمختار) یعنی جبکہ سلطان اسلام یا اس کا نائب یا جس کو اس نے اجازت دی بیمار ہو یا مسافر تو یہ سب نمازجمعہ پڑھا سکتے ہیں یا انہوں نے کسی مریض یا مسافر یا غلام یا کسی لائق امامت کو اجازت دی ہو یا بضرورت عام لوگوں نے کسی ایسے کو امام مقرر کیا ہو جو امامت کر سکتا ہو، یہ نہیں کہ بطور خود جس کا جی چاہے جمعہ پڑھاوے کہ یوں جمعہ نہ ہوگا۔

مسئلہ ۴۶: جس پر جمعہ فرض ہے اسے شہر میں جمعہ ہو جانے سے پہلے ظہر پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، بلکہ امام ابن ہمام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: حرام ہے اور پڑھ لیا جب بھی جمعہ کے ليے جانا فرض ہے اور جمعہ ہو جانے کے بعد ظہر پڑھنے میں کراہت نہیں، بلکہ اب تو ظہر ہی پڑھنافرض ہے، اگر جمعہ دوسری جگہ نہ مل سکے مگر جمعہ ترک کرنے کا گناہ اس کے سر رہا۔ [63] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۷: یہ شخص کہ جمعہ ہونے سے پہلے ظہر پڑھ چکا تھا نادم ہو کر گھر سے جمعہ کی نیت سے نکلا اگر اس وقت امام نماز میں ہو تو نماز ظہر جاتی رہی، جمعہ مل جائے تو پڑھ لے ورنہ ظہر کی نماز پھر پڑھے اگرچہ مسجد دور ہونے کے سبب جمعہ نہ ملا ہو۔[64] (درمختار)

مسئلہ ۴۸: مسجد جامع میں یہ شخص ہے جس نے ظہر کی نماز پڑھ لی ہے اور جس جگہ نماز پڑھی وہیں بیٹھا ہے تو جب تک جمعہ شروع نہ کرے ظہر باطل نہیں اور اگر بقصد جمعہ وہاں سے ہٹا تو باطل ہوگئی۔ [65] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۹: یہ شخص اگر مکان سے نکلا ہی نہیں یا کسی اور ضرورت سے نکلا یا امام کے فارغ ہونے کے وقت يا فارغ ہونے کے بعد نکلا یا اس دن جمعہ پڑھا ہی نہ گیا یا لوگوں نے جمعہ پڑھنا تو شروع کیا تھا مگر کسی حادثہ کے سبب پورا نہ کیا تو ان سب صورتوں میں ظہر باطل نہیں۔[66](عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۵۰: جن صورتوں میں ظہر باطل ہونا کہا گیا اس سے مراد فرض جاتا رہنا ہے کہ یہ نماز اب نفل ہوگئی۔ [67] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۵۱: جس پر جمعہ فرض تھا اس نے ظہر کی نماز میں امامت کی پھر جمعہ کو نکلا تو اس کی ظہر باطل ہے مگر مقتديوں ميں جو جمعہ کو نکلا اس کے فرض باطل نہ ہوئے۔ [68] (درمختار)

مسئلہ ۵۲: جس پر کسی عذر کے سبب جمعہ فرض نہ ہو وہ اگر ظہر پڑھ کر جمعہ کے ليے نکلا تو اس کی نماز بھی جاتی رہی، ان شرائط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوئیں۔[69] (درمختار)

مسئلہ ۵۳: مریض یا مسافر یا قیدی یا کوئی اور جس پر جمعہ فرض نہیں ان لوگوں کو بھی جمعہ کے دن شہر میں جماعت کے ساتھ ظہر پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ جمعہ ہونے سے پیشتر جماعت کریں یا بعد میں۔ يوہيں جنھیں جمعہ نہ ملا وہ بھی بغیر اذان و اقامت ظہر کی نماز تنہا تنہا پڑھیں، جماعت ان کے ليے بھی ممنوع ہے۔[70] (درمختار)

مسئلہ ۵۴: علما فرماتے ہیں جن مسجدوں میں جمعہ نہیں ہوتا، انھيں جمعہ کے دن ظہر کے وقت بند رکھیں۔ [71] (درمختار)

مسئلہ ۵۵: گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔ [72] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۶: معذور اگر جمعہ کے دن ظہر پڑھے تو مستحب یہ ہے کہ نماز جمعہ ہو جانے کے بعد پڑھے اور تاخیر نہ کی تو مکروہ ہے۔[73](درمختار)

مسئلہ ۵۷: جس نے جمعہ کا قعدہ پالیا یا سجدۂ سہو کے بعد شریک ہوا اسے جمعہ مل گیا۔ لہٰذا اپنی دو ہی رکعتیں پوری کرے۔ [74] (عالمگیری وغيرہ)

مسئلہ ۵۸: نماز جمعہ کے ليے پیشتر سے جانا اور مسواک کرنا اور اچھے اور سفید کپڑے پہننا اور تیل اور خوشبو لگانا اور پہلی صف میں بیٹھنا مستحب ہے اور غسل سنت۔ [75] (عالمگیری، غنيہ)

مسئلہ ۵۹: جب امام خطبہ کے ليے کھڑا ہوا اس وقت سے ختم نماز تک نماز و اذکار اور ہر قسم کا کلام منع ہے، البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑھ لے۔ يوہيں جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے جلد جلد پوری کرلے۔[76] (درمختار)

مسئلہ ۶۰: جو چیزیں نماز میں حرام ہیں مثلاً کھانا پینا، سلام و جواب سلام وغیرہ یہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں یہاں تک کہ امر بالمعروف، ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے، جب خطبہ پڑھے تو تمام حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے، جو لوگ امام سے دور ہوں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھيں بھی چپ رہنا واجب ہے، اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں زبان سے ناجائز ہے۔ [77] (درمختار)

مسئلہ ۶۱: خطبہ سننے کی حالت میں دیکھا کہ اندھا کوئيں میں گرا چاہتا ہے یا کسی کو بچّھو وغیرہ کاٹنا چاہتا ہے، تو زبان سے کہہ سکتے ہیں، اگر اشارہ یا دبانے سے بتا سکيں تو اس صورت میں بھی زبان سے کہنے کی اجازت نہیں۔[78] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۲: خطیب نے مسلمانوں کے ليے د ُعا کی تو سامعین کو ہاتھ اٹھانا یا آمین کہنا منع ہے، کریں گے گنہگار ہوں گے۔ خطبہ میں دُرُود شریف پڑھتے وقت خطیب کا داہنے بائیں مونھ کرنا بدعت ہے۔[79] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۳: حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکا نام پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں دُرُود شریف پڑھیں، زبان سے پڑھنے کی اسوقت اجازت نہیں۔ [80]يوہيں صحابۂ کرام کے ذکر پر اس وقت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمزبان سے کہنے کی اجازت نہیں۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۶۴: خطبۂ جمعہ کے علاوہ اور خطبوں کا سننا بھی واجب ہے، مثلاً خطبۂ عیدین و نکاح وغیرہما۔[81](درمختار)

مسئلہ ۶۵: پہلی اذان کے ہوتے ہی سعی واجب ہے اور بیع وغیرہ ان چیزوں کا جو سعی کے منافی ہوں چھوڑ دینا واجب یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے اور کھانا کھارہا تھاکہ اذان جمعہ کی آواز آئی اگر یہ اندیشہ ہو کہ کھائے گا تو جمعہ فوت ہو جائے گا تو کھانا چھوڑ دے اور جمعہ کو جائے،جمعہ کے ليے اطمينان و وقارکے ساتھ جائے۔[82] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۶۶: خطیب جب منبر پر بیٹھے تو اس کے سامنے دوبارہ اذان دی جائے۔[83] (متون) یہ ہم اوپر بیان کر آئے کہ سامنے سے یہ مراد نہیں کہ مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو کہ مسجد کے اندر اذان کہنے کو فقہائے کرام مکروہ فرماتے ہیں۔

مسئلہ ۶۷: اکثر جگہ دیکھا گیا کہ اذان ثانی پست آواز سے کہتے ہیں،یہ نہ چاہيے بلکہ اسے بھی بلند آواز سے کہیں کہ اس سے بھی اعلان مقصود ہے اور جس نے پہلی نہ سُنی اسے سُن کر حاضر ہو۔[84] (بحر وغیرہ)

مسئلہ ۶۸: خطبہ ختم ہو جائے تو فوراً اقامت کہی جائے، خطبہ و اقامت کے درمیان دنیا کی بات کرنا مکروہ ہے۔ [85] (درمختار)

مسئلہ ۶۹: جس نے خطبہ پڑھا وہی نماز پڑھائے، دوسرا نہ پڑھائے اور اگر دوسرے نے پڑھا دی جب بھی ہو جائے گی جبکہ وہ ماذُون[86] ہو۔ يوہيں اگر نابالغ نے بادشاہ کے حکم سے خطبہ پڑھا اور بالغ نے نماز پڑھائی جائز ہے۔[87] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۰: نماز جمعہ میں بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ منافقون یا پہلی میں سَبِّحِ اسْمَ اور دوسری میں ھَلْ اَ تٰکَپڑھے، مگر ہمیشہ انھيں کو نہ پڑھے کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھے۔[88](ردالمحتار)

مسئلہ ۷۱: جمعہ کے دن اگر سفر کیا اور زوال سے پہلے آبادی شہر سے باہر ہوگیا تو حرج نہیں ورنہ ممنوع ہے۔ [89](درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۷۲: حجامت بنوانا اور ناخن ترشوانا جمعہ کے بعد[90] افضل ہے۔[91](درمختار)

مسئلہ ۷۳: سوال کرنے والا اگر نمازیوں کے آگے سے گزرتا ہو یا گردنیں پھلانگتا ہو یا بلا ضرورت مانگتا ہو تو سوال بھی ناجائز ہے اور ایسے سائل کو دینا بھی ناجائز۔[92] (ردالمحتار) بلکہ مسجد میں اپنے ليے مطلقاً سوال کی اجازت نہیں۔

مسئلہ ۷۴: جمعہ کے دن یا رات میں سورۂ کہف کی تلاوت افضل ہے اور زیادہ بزرگی رات میں پڑھنے کی ہے نسائی بيہقی بسند صحیح ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، کہ فرماتے ہیں: ''جو شخص سورۂ کہف جمعہ کے دن پڑھے، اس کے ليے دونوں جمعوں کے درمیان نور روشن ہو گا۔'' [93]

اور دارمی کی روایت میں ہے، ''جو شب جمعہ میں سورۂ کہف پڑھے اس کے ليے وہاں سے کعبہ تک نور روشن ہوگا۔''[94] اور ابو بکر ابن مردویہ کی روایت ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے ہے کہ فرماتے ہیں: ''جو جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے اس کے قدم سے آسمان تک نور بلند ہو گا جو قیامت کو اس کے ليے روشن ہو گا اور دو جُمعوں کے درمیان جو گناہ ہوئے ہيں بخش ديے جائیں گے۔'' [95] اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں۔ حم الدخان پڑھنے کی بھی فضیلت آئی ہے۔

طبرانی نے ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کی کہ حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) نے فرمایا: ''جو شخص جمعہ کے دن یا رات میں حم الدخان پڑھے، اس کے ليےاللہ تعالٰی جنت میں ایک گھر بنائے گا۔''[96] اور ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی، کہ ''اس کی مغفرت ہوجائے گی۔''[97] اور ایک روایت میں ہے، ''جو کسی رات میں حم الدخان پڑھے، اس کے ليے ستر ہزار فرشتے استغفار کریں گے۔''[98] جمعہ کے دن یا رات میں جو سورۂ يٰس پڑھے، اس کی مغفرت ہو جائے۔'' [99]

فائدہ: جمعہ کے دن روحیں جمع ہوتی ہیں، لہٰذا اس میں زیارتِ قبور کرنی چاہيے اور اس روز جہنم نہیں بھڑکایا جاتا۔[100](درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۷۰تا۷۷۷)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۵.

[2] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ضلع کا حصہ۔

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۴۹ ۔ ۵۵۱، وغیرہا.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۴۹.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في جواز استنابۃ الخطيب، ج۳، ص۱۶.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۷.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۰.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵.

و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقی بين يدی الخطيب، ج۳، ص۴۴.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۱۸، و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۸، ص۳۱۲.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵.

و ''صغيری ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۲۷۸، و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في نیۃ آخر ظھر بعد صلاۃ الجمعۃ، ج۳، ص۲۱، و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۸، ص۲۹۳.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ... إلخ، ج۳، ص۹، وغيرہما.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۱۰.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في جواز استنابۃ الخطيب، ج۳، ص۱۴.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۱۴.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶.

[19] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[20] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في جواز استنابۃ الخطيب، ج۳، ص۱۶.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶.

[23] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶.

[26] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۱.

[27] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في نیۃ آخر ظھر بعد صلاۃ الجمعۃ، ج۳، ص۲۱.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۲، وغيرہ .

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶.

[30] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۷.

[31] ۔۔۔۔۔۔ یعنی سرديوں۔

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۳.

[33] ۔۔۔۔۔۔ حمد ہےاللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے ليے، ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور اس سے مدد طلب کرتے ہیں اور مغفرت چاہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر توکل کرتے ہیں اوراللہ (عَزَّوَجَل) کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفسوں کی برائی سے اور اپنے اعمال کی بدی سے جسکواللہ (عَزَّوَجَل) ہدایت کرے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہيں اور جس کو گمراہ کرے اسے ہدايت کرنے والا کوئی نہيں۔ ۱۲

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶، ۱۴۷. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۳ ۔ ۲۶.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۴.

[36] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶.

[37] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۸. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۷.

[38] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۶، ۱۴۷. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۳ ۔ ۲۶.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في قول الخطيب... إلخ، ج۳، ص۲۷.

[40] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۸.

[41] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق

[42] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في قول الخطيب... إلخ، ج۳، ص۲۹.

[44] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۰.

[45] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۴۸.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۱.

[47] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۱، وغيرہ .

[48] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۴.

[49] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۴.و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۱.

[50] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۴.

[51] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[52] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۲.

[53] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۴.

[54] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۲.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۲.

[56] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۲.

[57] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[58] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۲، وغيرہ .

[59] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۳.

[60] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[61] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۳.

[62] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۳.

[63] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۳.

[64] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۴.

[65] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۴.

[66] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۹.

[67] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۵.

[68] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[69] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[70] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۶.

[71] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[72] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۹.

[73] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۶.

[74] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۹.

[75] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. و ''غنیۃ المتملي''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۵۹.

[76] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۸. و''جدالممتار'' علی ''ردالمحتار''کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ،ج۱،ص۳۷۸.

[77] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۹.

[78] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۹.

[79] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ، ج۳، ص۳۸، و مطلب في قول الخطيب... إلخ، ص۲۴.

[80] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۰.

[81] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[82] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۹. و ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۲.

[83] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۲.

[84] ۔۔۔۔۔۔ ''البحر الرائق''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۲۷۳. وغيرہ

[85] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۳.

[86] ۔۔۔۔۔۔ يعنی جس کو اجازت دی گئی۔

[87] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي... إلخ، ج۳، ص۴۳.

[88] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، مطلب: أمر الخليفۃ... إلخ، ج۳، ص۶۴. و ''البحر الرائق''، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ج۲، ص۲۷۵.

[89] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۴.

[90] ۔۔۔۔۔۔ جمہ سے پہلے اور بعد میں ناخن وغیرہ تراشوانہ جائز ہے البتہ حدیث میں جمعہ سے پہلے کا ذکر آیا ہے جیسا کے صدر الشریعہ نے بہار شریعت حصہ ۱۲میں یہ حدیث رقم فرمائی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جمعہ کے دن نماز کے لیے جانے سے پہلے مونچھے کترواتے اور ناخن ترشواتے تھے۔(شعب الا یمان ، باب العشرون من شعب لایمان۔۔۔ الخ ،فضل الوضو ء،ج۳،ص۲۳)۔۔۔علمیہ

[91] ۔۔۔۔۔۔ ’’الدرالمختار‘‘،کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ،ج۳،ص۴۶

[92] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في الصدقۃ علی سؤال المسجد، ج۳، ص۴۷.

[93] ۔۔۔۔۔۔ ''السنن الصغری'' للبیھقي، کتاب الصلاۃ، باب فضل الجمعۃ، الحدیث: ۶۰۸، ج۱، ص۲۱۰.

[94] ۔۔۔۔۔۔ ''سنن الدارمي''، کتاب فضائل القرآن، باب في فضل سورۃ الکھف، الحدیث: ۳۴۰۷، ج۲، ص۵۴۶.

[95] ۔۔۔۔۔۔ ''الترغيب و الترھيب''، کتاب الجمعۃ، الترغيب في قرأۃ سورۃ الکھف... إلخ، الحدیث: ۲، ج۱، ص۲۹۸.

[96] ۔۔۔۔۔۔ ''المعجم الکبير''، الحدیث: ۸۰۲۶، ج۸، ص۲۶۴.

[97] ۔۔۔۔۔۔ ''جامع الترمذي''، أبواب فضائل القرآن، باب ماجاء في فضل حمۤ الدخان، الحدیث: ۲۸۹۸، ج۴، ص۴۰۷.

[98] ۔۔۔۔۔۔ ''جامع الترمذي''، أبواب فضائل القرآن، باب ماجاء في فضل حمۤ الدخان، الحدیث:۲۸۹۷، ج۴، ص۴۰۶.

[99] ۔۔۔۔۔۔ ''الترغيب و الترھيب''، کتاب الجمعۃ، الترغيب في قرأۃ سورۃ الکھف... إلخ، الحدیث: ۴، ج۱، ص۲۹۸.

[100] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۴۹.

Share