جنت کا بیان

جنّت کا بیان

جنت ایک مکان ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی [1] ؎ آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔ [2] جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ [3] ؎ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ۔ وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی روشنی جاتی رہے اور اُس کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر۔ [4] اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو اسکی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ [5] اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں اور اگرجنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹادے، جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے۔ [6] جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا[7] رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ [8] جنت کتنی وسیع ہے، اس کو اللہ و رسول ( عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ہی جانیں ، اِجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں ۱۰۰سو درجے ہیں ۔ ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ [9] رہا یہ کہ خود اُس درجہ کی کیا مسافت ہے، اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں ، البتہ ایک حدیث ’’ترمذی‘‘ کی یہ ہے: ’’کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔ ‘‘[10]

جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ۱۰۰سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا رہے اورختم نہ ہو۔[11] جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہوگی[12] پھر بھی جانے والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چِھلتا ہوگا[13]، بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروازہ چَرچَرانے لگے گا۔[14] اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں ، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔[15] جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں [16]، ایک اینٹ سونے کی، ایک چاندی کی، زمین زعفران کی، کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت۔ [17] اور ایک روایت میں ہے کہ جنتِ عدن کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک یاقوتِ سرخ کی، ایک زَبَرْجَد سبز کی، اور مشک کا گارا ہے اورگھاس کی جگہ زعفران ہے، موتی کی کنکریاں ، عنبر کی مٹی[18]، جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل۔[19] جنت میں چار دریا ہیں ، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شراب کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں ۔[20] وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں ، بلکہ زمین کے اوپر اوپر رواں ہیں ، نہروں کا ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اور نہروں کی زمین خالص مشک کی[21]، وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں ، آپے سے باہر ہو کر بیہودہ بکتے ہیں ، وہ پاک شراب اِن سب باتوں سے پاک و منزَّہ ہے۔[22]جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہو گا[23]، اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا[24]، اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی، دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ، بعد پینے کے خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے۔ [25] وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے، ایک خوشبو دار فرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا، سب کھانا ہضم ہوجائے گا اور ڈکا ر اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی۔[26] ہر شخص کو ۱۰۰سو آدمیوں کے کھانے، پینے، جماع کی طاقت دی جائے گی۔[27] ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بہ قصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوگی۔[28] کم سے کم ہر شخص کے سرہانے د۱۰س ہزار خادم کھڑے ہونگے، خادموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئے نئے رنگ کی نعمت ہو گی[29]، جتنا کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی ، ہر نوالے میں ۷۰ ستّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے ممتاز، وہ معاً محسوس ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانع[30] نہ ہوگا، جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں گے، نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔[31] پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا، اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حورِ عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی، پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے[32] اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی اور یاقوت میں سوراخ کرکے اگر ڈورا ڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا۔[33] آدمی اپنے چہرے کو اس کے رُخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور اس پر ادنیٰ درجہ کا جو موتی ہوگا، وہ ایسا ہو گا کہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دے۔[34] اور ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا تو سینہ کی طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔[35] اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں اس کا تحمل نہ کرسکیں [36] ، مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کوآری[37] پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی[38] ، اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔[39] اور ایک روایت ہے کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں ۔[40]

جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی[41] دو حوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و پاکی ہوگا[42] ، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی: کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں ، کبھی نہ مریں گے، ہم چَین والیاں ہیں ، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ہمارا اور ہم اس کے ہوں ۔[43] سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنتی کے بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سُرمگیں آنکھیں ، تیس برس کی عمر کے معلوم ہوں گے[44]، کبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے۔[45] ادنیٰ جنتی کے لیے اَ۸۰سّی ہزار خادم اور ۷۲بہتّربیبیاں ہوں گی اور اُن کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دے[46] اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے تو اس کا حمل اور وضع[47] اور پوری عمر (یعنی تیس سال کی)، خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہو جائے گی۔[48] جنت میں نیند نہیں ، کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں ۔[49] جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی حد نہیں ۔ پھر اُنھیں دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی زیارت کریں اور عرشِ الٰہی ظاہر ہوگا اور رب عَزَّوَجَلَّ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے، نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر اور اُن میں کا ادنیٰ مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں ، اپنے گمان میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر ایک پر تجلّی فرمائے گا، ان میں سے کسی کو فرمائے گا: اے فلاں بن فلاں ! تجھے یاد ہے، جس دن تُو نے ایسا ایسا کیا تھا۔۔۔؟! دنیا کے بعض مَعاصی یاد دلائے گا، بندہ عرض کرے گا: تو اے رب! کیا تُو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں ! میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ سے تُو اِس مرتبہ کو پہنچا، وہ سب اسی حالت میں ہونگے کہ اَبر چھائے گا اور اُن پر خوشبو برسائے گا، کہ اُس کی سی خوشبو ان لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا: کہ جاؤ اُس کی طرف جو میں نے تمہارے لیے عزت تیار کر رکھی ہے، جو چاہو لو، پھر لوگ ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں ، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی، نہ قلوب پر ان کا خطرہ گزرا، اس میں سے جو چاہیں گے، اُن کے ساتھ کر دی جائے گی اور خریدوفروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم ملیں گے، چھوٹے مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند کرے گا، ہنوز گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کرے گا، میرا لباس اُس سے اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں ، پھر وہاں سے اپنے اپنے مکانوں کو واپس آئیں گے۔ اُن کی بیبیاں استقبال کریں گی اور مبارکباد دے کر کہیں گی کہ آپ واپس ہوئے اور آپ کا جمال اس سے بہت زائد ہے کہ ہمارے پاس سے آپ گئے تھے، جواب دیں گے کہ پروردگار جبّار کے حضور بیٹھنا ہمیں نصیب ہوا تو ہمیں ایسا ہی ہوجانا سزاوار تھا۔[50] جنتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ [51]

اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی سواریاں اور گھوڑے لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے۔ [52] سب سے کم درجہ کا جو جنتی ہے اس کے باغات اور بیبیاں اور نعیم و خدّام اور تخت ہزار برس کی مسافت تک ہوں گے اور اُن میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرّف ہوگا۔ [53] جب جنتی جنت میں جا لیں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن سے فرمائے گا: کچھ اور چاہتے ہو جو تم کو دوں ؟ عرض کریں گے: تُو نے ہمارے مونھ روشن کیے، جنت میں داخل کیا، جہنم سے نجات دی، اس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔[54]

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا زِیَارَۃَ وَجْھِکَ الْکَرِیْمِ بِجَاہِ حَبِیْبِکَ الرَّؤُوْفِ الرَّحِیْمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیْمُ، اٰمین!(بہار شریعت ،حصہ اول،جلد۱۵۲تا ۱۶۲)


[1] ؎ یعنی بے دیکھے ورنہ دیکھ کر توآپ ہی جانیں گے تو جنہوں نے حالت ِحیات دنیوی ہی میں مشاہدہ فرمایا وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی سرے سے یہ حکم انہیں شامل ہی نہیں ، علی الخصوص صاحب ِ معراج صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم ۔ ۱۲ منہ

[2] عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((قال اللّٰہ [عزوجل]: أعددتُ لعبادي الصالحین ما لا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، الحدیث:۲۸۲۴، ص۱۵۱۶۔

[3] ؎ کعبہ معظمہ، جنت سے اعلیٰ ہے اور تربتِ اطہر حضورِ انور صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم تو کعبہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے، مگر یہ دُنیا کی چیزیں نہیں ۔ ۱۲ منہ

(البقعۃ التي ضمت أعضاء الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہي أفضل حتی من الکعبۃ ’’فیض القدیر‘‘، ج۶، ص۳۴۳۔

(البقعۃ التي ضمت أعضاء ہ علیہ الصلاۃ والسلام فإنّہا أفضل من مکۃ بل من الکعبۃ بل من العرش إجماعاً

’’مرقاۃ‘‘، ج۵، ص۶۰۲۔(البقعۃ التي ضمت أعضاء المصطفی فہي أفضل من جمیع بقاع الأرض والسماء حتی الکعبۃ والعرش والکرسي واللوح والقلم والبیت المعمور ’’حاشیۃ الصاوي علی الشرح الصغیر‘‘، ج۴، ص۲۹۴۔ (المکتبۃ الشاملۃ)

[4] ؎ ((ولو أنّ امراۃ من نساء أھل الجنۃ اطّلعت إلی الأرض لأضاء ت ما بینھما، ولملأ ت ما بینہما ریحاً، ولنصیفھا ۔یعني: الخمار۔ خیرٌ من الدنیا وما فیھا))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الرقاق، الحدیث: ۶۵۶۸، ج۴، ص۲۶۴۔

وفي روایۃ ’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، الحدیث: ۵۵۱۲، ج۶، ص۵۹: ((لو أنّ امرأۃ من أھل الجنۃ أشرفت إلی أھل الأرض لملأت الأرض ریح مسک، ولأذھبت ضوء الشمس والقمر))۔

[5] ((لو أنّ حوراء أخرجت کفھا بین السماء والأرض لافتتن الخلائق بحسنھا، ولو أخرجت نصیفھا لکانت الشمس عند حسنہ مثل الفتیلۃ في الشمس، لاضوء لھا))۔

’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل الجنۃ، الحدیث:۹۷، ج۴، ص۲۹۸۔

[6] ((لو أنّ ما یُقلُّ ظفر مما في الجنۃ بدا لَتزخرفت لہ ما بین خوافق السموات والأرض، ولو أنّ رجلاً من أھل الجنۃ اطلع فبدا أساورہ لطمس ضوء الشمس کما تطمس الشمس ضوء النجوم))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أھل الجنۃ، الحدیث: ۲۵۴۷، ج۴، ص۲۴۱۔

’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل الجنۃ، الحدیث:۹۷، ج۴، ص۲۹۸۔

[7] چابک ، درّہ۔

[8] ((موضع سوط في الجنۃ خیر من الدنیا وما فیھا))۔

’’جنت میں ایک کوڑے (یعنی ایک چابک) جتنی جگہ دُنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سے بہتر ہے‘‘۔

( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ وأنّہا مخلوقۃ، الحدیث: ۳۲۵۰، ج۲، ص۳۹۲

شیخ محقق شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَ حْمَۃُاللہِ الْقَوِیْ ارشادفر ما تے ہیں : ’’یعنی جنت کی تھوڑی سی اور معمولی جگہ د نیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہے ۔چابک کا ذکر اس عادت کے مطابق ہے کہ سوار جب کسی جگہ اترنا چاہتا ہے تو اپنا چابک پھینک دیتا ہے تاکہ اس کی نشانی رہے اور دوسرا کوئی شخص وہاں نہ اُترے‘‘۔(’’أشعۃ اللمعات‘‘، ج۷، ص۵۰

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فر ما تے ہیں :’’ کوڑے سے مراد ہے وہاں کی تھوڑی سی جگہ۔ واقعی جنت کی نعمتیں دائمی ہیں ۔دنیا کی فانی پھر دنیا کی نعمتیں تکالیف سے مخلوط وہاں کی نعمتیں خالص ،پھر دنیا کی نعمتیں ادنیٰ وہ اعلیٰ اس لیے دنیا کو وہاں کی ادنیٰ جگہ سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔ (''مراۃ المناجیح''، ج۷ ، ص۴۴۷وانظر ''المرقاۃ''، کتاب الفتن، باب صفۃ الجنۃ وأھلہا، الحدیث: ۵۶۱۳، ج ۹، ص ۵۷۸۔

[9] أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((في الجنۃ مائۃ د رجۃ ما بین کل درجتین کما بین السماء والأرض))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ درجات الجنۃ، الحدیث: ۲۵۳۹، ج۴، ص۲۳۸۔

[10] عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ في الجنۃ مائۃ درجۃ لو أنّ العالمین اجتمعوا في إحداھنّ لوسعتھم))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ درجات الجنۃ، الحدیث: ۲۵۴۰، ج۴، ص۲۳۹۔

[11] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ في الجنۃ لشجرۃ یسیر الراکب في ظلہا مائۃ عام، لا یقطعھا))۔

وفي روایۃ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ في الجنۃ شجرۃ یسیر الراکب الجواد المضمّر السریع مائۃ عام، ما یقطعھا))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ، باب إنّ في الجنۃ شجرۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث:۲۸۲۷۔۲۸۲۸، ص۱۵۱۷۔

[12] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ للجنۃ لثمانیۃ أبواب ما منہما بابان إلاّ یسیر الراکب بینہما سبعین عامًا))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، حدیث أبي رزین العقیلي، الحدیث: ۱۶۲۰۶، ج۵، ص۴۷۵۔

وفي روایۃ: عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((ما بین کل مصراعین من مصاریع الجنۃ مسیرۃ سبعین عامًا))۔

’’حلیۃ الأولیائ‘‘، الحدیث: ۸۳۷۱، ج۶، ص۲۲۱۔

[13] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((باب أمتي الذي یدخلون منہ الجنۃ عرضہ مسیرۃ الراکب المجود ثلاثا، ثم إنّھم لیضغطون علیہ حتی تکاد مناکبھم تزول))۔

’’سنن الترمذي‘‘، أبواب صفۃ الجنۃ۔۔۔ إلخ، باب ما جاء في صفۃ أبواب الجنۃ، الحدیث: ۲۵۵۷، ج۴، ص ۲۴۶۔

[14] ((ولیأتین علیہا یوم وہو کظیظ من الزحام))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الزہد، الحدیث: ۲۹۶۷، ص۱۵۸۶۔

[15] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ في الجنۃ غرفا من أصناف الجوھر کلہ یری ظاھرھا من باطنھا وباطنھا من ظاھرھا))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في درجات الجنۃ وغرفھا، الحدیث: ۲۷، ج۴، ص۲۸۱۔

[16] ((حائط الجنۃ لبنۃ من ذہب ولبنۃ من فضۃ وملاطہا المسک))۔

’’مجمع الزوائد‘‘، کتاب أھل الجنۃ، باب في بناء الجنۃ وصفتہا، الحدیث: ۱۸۶۴۲،ج۱۰، ص۷۳۲۔

[17] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لبنۃ من ذھب، ولبنۃ من فضۃ، ملاطھا المسک الأذفر، وحصباؤھا الیاقوت واللؤلؤ، وترابھا الزعفران))۔ ’’سنن الدارمي‘‘، کتاب الرقائق، باب في بناء الجنۃ، الحدیث:۲۸۲۱، ج۲، ص۴۲۹۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ماجاء في صفۃ الجنۃ ونعیمہا، الحدیث: ۲۵۳۴، ج۴، ص۲۳۶۔

[18] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((خلق اللّٰہ جنۃ عدن بیدہ، لبنۃ من درّۃ بیضائ، ولبنۃ من یاقوتۃ حمراء، ولبنۃ من زبرجدۃ خضرائ، وملاطھا مسک، حشیشھا الزعفران، حصباؤھا اللؤلؤ، ترابھا العنبر))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، الترغیب في الجنۃ ونعیمھا، فصل في بناء الجنۃ وترابھا وحصبائھا وغیر ذلک، الحدیث: ۳۳، ج۴، ص۲۸۳۔

[19] عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ للمؤمن في الجنۃ لخیمۃ من لؤلؤۃ واحدۃ مجوفۃ، طولھا ستون میلاً))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في صفۃ خیام الجنۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۸۳۸، ص۱۵۲۲۔

[20] { فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىؕ-} پ۲۶، محمد: ۱۵۔قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((في الجنۃ بحر اللبن وبحر الماء وبحر العسل وبحر الخمر، ثم تشقق الأنھار منھا بعدہ)) ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۰۰۷۲، ج۷ ،ص۲۴۲۔

وفي روایۃ ’’الترمذي‘‘: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ في الجنۃ بحر المائ، وبحر العسل، وبحر اللبن، وبحر الخمر، ثم تشقق الأنہار بعد))۔کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أنہارالجنۃ، الحدیث: ۲۵۸۰،ج۴، ص۲۵۷۔

في ’’المرقاۃ‘‘، ج۹، ص۶۱۶، تحت الحدیث: (وقولہ: ثم تشقق أي: تفترق الأنہار إلی الجداول بعد تحقق الأنہار إلی بساتین الأبرار، وتحت قصور الأخیار

[21] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لعلکم تظنّون أنّ أنھار الجنۃ أخدود في الأرض، لا، واللّٰہ إنّہا لسائحۃ علی وجہ الأرض، إحدی حافتیہا اللؤلؤ، والأخری الیاقوت، وطینہ المسک الأذفر، قال: قلت: ما الأذفر؟ قال: الذي لا خلط لہ))۔ ’’الترغیب وا لترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أنہار الجنۃ، الحدیث: ۴۸، ج۴، ص۲۸۶۔

و’’حلیۃ الأولیاء‘‘، الحدیث: ۸۳۷۲، ج۶، ص۲۲۲، بألفاظ متقاربۃ۔

[22] { وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ } پ۲۶، محمد: ۱۵۔ في ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ ج۷، ص۲۸۹، تحت ہذہ الآیۃ: (أي: لیست کریہۃ الطعم والرائحۃ کخمر الدنیا، حسنۃ المنظر والطعم والرائحۃ والفعل

{ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱)} پ۲۹، الدہر:۲۱۔

{ یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَ لَا تَاْثِیْمٌ(۲۳)} پ۲۷، الطور:۲۳۔

{ بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِیْقَ ﳔ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍۙ(۱۸) لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَۙ(۱۹)} پ۲۷، الواقعۃ: ۱۸۔۱۹۔

{ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍۭۙ(۴۵) بَیْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَۚۖ(۴۶) لَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ(۴۷)} پ۲۳، الصفت: ۴۵۔۴۷۔

[23] { وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ } ۲۴،حم السجدۃ: ۳۱]، وفي ’’تفسیر ابن کثیر‘‘،ج۷، ص۱۶۲، تحت ہذہ الآیۃ: ({وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ } أي: في الجنۃ من جمیع ما تختارون مما تشتہیہ النفوس، وتقرّ بہ العیون، { وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ(۳۱)} أي: مہما طلبتم وجدتم، وحضر بین أیدیکم کما اخترتم).

[24] { وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَؕ(۲۱)} پ۲۷، الواقعہ: ۲۱۔ عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: ((إنّ الرجل لیشتھي الطیر في الجنۃ من طیور الجنۃ، فیقع في یدہ مقلیا نضیجا))۔ ’’الدر المنثور‘‘، ج۸، ص۱۱۔

وفي روایۃ: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّک لتنظر إلی الطیر في الجنۃ فتشتہیہ فیجيء مشویّا بین یدیک))۔ ’’الترغیب وا لترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أکل أھل الجنۃ وشربھم وغیر ذلک ، الحدیث: ۷۳، ج۴، ص ۲۹۲۔

[25] عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: ((إنّ الرجل من أھل الجنۃ لیشتھي الشراب من شراب الجنۃ، فیجيء الإبریق، فیقع في یدہ فیشرب، ثم یعود إلی مکانہ))۔ ’’الترغیب وا لترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أکل أھل الجنۃ وشربھم وغیر ذلک، الحدیث: ۶۶، ج۴، ص۲۹۰۔

[26] عن جابر قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ((إنّ أھل الجنۃ یأکلون فیھا ویشربون، ولا یتفلون ولا یبولون، ولا یتغوّطون و لا یمتخطون، قالوا: فما بال الطعام؟ قال: جشاء ورشح کرشح المسک))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب في صفۃ الجنۃ ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۸۳۵، ص۱۵۲۰۔

وفي روایۃ ’’المسند‘‘: الحدیث: ۱۹۲۸۹، ج۷، ص ۷۶: فإنّ الذي یأکل ویشرب تکون لہ الحاجۃ، قال: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((حاجۃ أحدہم عرق یفیض من جلودہم مثل ریح المسک فإذا البطن قد ضمر))۔

[27] فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((والذي نفسي بیدہ! إنّ أحدہم لیُعطی قوۃ مائۃ رجل في المطعم والمشرب والشہوۃ والجماع))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۹۲۸۹۔۱۹۳۳۳، ج۷، ص۷۶ و۸۴۔

[28] ((یلھمون التسبیح والتکبیر، کما یلھمون النفس))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في صفات الجنۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۸۳۵، ص۱۵۲۱۔

وفي ’’فتح الباري‘‘، ج۷، ص۲۶۷، تحت قول: ’’یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا‘‘: (عند مسلم بقولہ: ’’یلہمون التسبیح والتکبیرکما یلہمون النفس‘‘ ووجہ التشبیہ أنّ تنفس الإنسان لا کلفۃ علیہ فیہ ولا بد لہ منہ، فجعل تنفسہم تسبیحا، وسببہ أنّ قلوبہم تنوّرت بمعرفۃ الرب سبحانہ وامتلأت بحبّہ، ومن أحب شیئا أکثر من ذکرہ

[29] عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ یرفعہ قال: ((إنّ أسفل أہل الجنۃ أجمعین من یقوم علی رأسہ عشرۃ آلاف خادم، مع کل خادم صحفتان، واحدۃ من فضۃ وواحدۃ من ذہب، في کل صحفۃ لون لیس في الأخری مثلہا، یأکل من آخرہ کما یأکل من أوّلہ، یجد لآخرہ من اللذّۃ والطعم ما لا یجد لأوّلہ))۔ ’’الترغیب وا لترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أکل أھل الجنۃ وشربھم وغیر ذلک، الحدیث: ۷۰، ج۴، ص۲۹۱۔

و’’حلیۃ الأولیاء‘‘، الحدیث: ۸۲۴۶، ج۶، ص ۱۸۸۔

[30] روکنے والا۔

[31] عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((من یدخل الجنۃ ینعم لا یبأس، لا تبلی ثیابہ ولا یفنی شبابہ))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في دوام نعیم أھل۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۸۳۶، ص۱۵۲۱۔

[32] عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أوّل زمرۃ تدخل الجنۃ علی صورۃ القمر لیلۃ البدر، والذین علی آثارھم کأحسن کوکب دري في السماء إضاء ۃ، قلوبھم علی قلب رجل واحد، لا تباغض بینھم ولا تحاسد، لکل امریٔ زوجتان من الحور العین یری مخ سوقھن من وراء العظم واللحم))۔

’’صحیح البخاري‘‘، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ وأنّھا مخلوقۃ، الحدیث: ۳۲۵۴، ج۲، ص۳۹۳۔

وفي روایۃ ’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني: عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((لکل رجل منھم زوجتان من الحور العین علی کل زوجۃ سبعون حلۃ یری مخ سوقھما من وراء لحومھما وحللھما کما یری الشراب الأحمر في الزجاجۃ البیضاء))، الحدیث: ۱۰۳۲۱، ج۱۰، ص۱۶۰۔۱۶۱۔

[33] عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ المرأۃ من نساء أھل الجنۃ لیری بیاض ساقھا من وراء سبعین حلۃ حتی یری مخھا وذلک بأنّ اللّٰہ تعالی یقول: { كَاَنَّهُنَّ الْیَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُۚ(۵۸)} [الرحمن :۵۸] فأمّا الیاقوت فإنّہ حجر لو أدخلت فیہ سلکا، ثم استصفیتہ لأریتہ من ورا ئہ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ نساء أھل الجنۃ، الحدیث: ۲۵۴۱، ج۴، ص۲۳۹۔

[34] عن أبي سعید الخد ري عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ الرجل لیتکیء في الجنۃ سبعین سنۃً قبل أن یتحول، ثم تأتیہ امرأتہ فتضرب علی منکبیہ، فینظر وجھہ فيخدّھا أصفی من المرآۃ، وإنّ أدنی لؤلؤۃ علیھا تضيء مابین المشرق والمغرب))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۷۱۵، ج۴، ص۱۵۰۔

[35] ((ثم یضع یدہ بین کتفیھا ثم ینظر إلی یدہ من صد رھا من وراء ثیابھا وجلدھا ولحمھا))۔

’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أھل الجنۃ، الحدیث: ۹۶، ج۴، ص۲۹۸۔

[36] عن شریح بن عبید رضي اللّٰہ عنہ قال: قال کعب: ((لو أنّ ثوباً من ثیاب أھل الجنۃ لبس الیوم في الدنیا لصعق من ینظر إلیہ وما حملتہ أبصارُھم))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في ثیابہم وحللہم، الحدیث: ۸۴، ج۴، ص۲۹۴۔

[37] یعنی: کنواری۔

[38] ((ولا یأتیھا مرۃ إلاّ وجدھا عذراء ما یفتر ذکرہ ولا یشتکي قبلھا))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، الحدیث: ۹۶، ج۴، ص۲۹۸۔

[39] عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((لو أنّ حوراء بزقت في بحر لعذب ذلک البحر من عذوبۃ ریقھا))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أہل الجنۃ، الحدیث: ۹۸، ج۴، ص۲۹۹۔

[40] عن ابن عباس موقوفاً قال: ((لو أنّ امرأۃ من نساء أھل الجنۃ بصقت في سبعۃ أبحر لکانت تلک الأبحر أحلی من العسل))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في وصف نساء أہل الجنۃ، الحدیث: ۹۹، ج۴، ص۲۹۹۔

[41] یعنی پیروں کی طرف۔

[42] عن أبي أمامۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:((ما من عبد یدخل الجنۃ إلاّ [ویجلس] وعند رأسہ وعند رجلیہ ثنتان من الحور العین یغنیان بأحسن صوت سمعہ الإنس والجن، ولیس بمزامیر الشیطان، ولکن بتحمید اللّٰہ وتقدیسہ))۔’’مجمع الزوائد‘‘، الحدیث: ۱۸۷۵۹، ج۱۰، ص۷۷۴۔ و’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، الحدیث: ۷۴۷۸، ج۸، ص۹۵۔

[43] عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ في الجنۃ لمجتمعًا للحور العین یرفعن بأصوات لم یسمع الخلائق مثلھا، قال: یقلن: نحن الخالدات فلا نبید، ونحن الناعمات فلا نبأس، ونحن الراضیات فلا نسخط، طوبی لمن کان لنا وکنّا لہ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في کلام حورالعین، الحدیث: ۲۵۷۳، ج۴، ص۲۵۵۔

[44] عن معاذ بن جبل أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:((یدخل أہل الجنۃ الجنۃ جرداً مرداً مکحّلین أبناء ثلاثین أو ثلاث وثلاثین سنۃ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ماجاء في سن أہل الجنۃ، الحدیث: ۲۵۵۴، ج۴، ص۲۴۴۔عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((یدخل أہل الجنۃ مرداً بیضاً جعاداً مکحّلین أبناء ثلاث وثلاثین ۔۔۔إلخ))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل ، الحدیث: ۹۳۸۶، ج۳، ص۳۹۳ ۔وفي روایۃ: قال نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((یبعث المؤمنون یوم القیامۃ جرداً مرداً مکحّلین بني ثلاثین سنۃ))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۲۰۸۵، ج ۸ ،ص۲۳۷۔

[45] عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((من مات من أہل الجنۃ من صغیر أو کبیر یردون بني ثلاثین في الجنۃ لا یزیدون علیہا أبدا))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ما لأدنی۔۔۔ الخ، الحدیث:۲۵۷۱، ج۴، ص ۲۵۴۔

[46] عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أدنی أھل الجنۃ منزلۃ الذي لہ ثمانون ألف خادم واثنتان وسبعون زوجۃ))۔۔۔ وقال: ((إنّ علیھم التیجان إنّ أدنی لؤلؤۃ منھا لتضيء ما بین المشرق والمغرب))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ما لأدنی أھل الجنۃ من الکرامۃ، الحدیث: ۲۵۷۱، ج۴، ص۲۵۴۔

[47] بچے کاماں کے پیٹ میں ٹھہر نا اور اس کی پیدائش۔

[48] عن أبي سعید الخد ري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((المؤمن إذا اشتھی الولد في الجنۃ کان حملہ ووضعہ وسنّہ في ساعۃ کما یشتھي))۔ وقال إسحاق بن ابراہیم في ہذا الحدیث: إذا اشتہی المؤمن في الجنۃ الولدَ کان في ساعۃ ولکن لا یشتھي۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ما لأدنی أھل الجنۃ من الکرامۃ،الحدیث: ۲۵۷۲، ج۴، ص۲۵۴، و’’مشکاۃ‘‘، ج۲، ص۳۳۵۔

وفي ’’المرقاۃ‘‘، ج۹، ص۶۱۴، تحت الحدیث: ((المؤمن إذا اشتہی الولد في الجنۃ)) أي: فرضاً وتقدیراً، ((کان حملہ)) أي: حمل الولد ((ووضعہ وسنہ)) أي: کمال سنہ وہو الثلاثون سنۃ ((في ساعۃ))؛ لأنّ الانتظار أشدّ من الموت ولا موت في الجنّۃ ولا حزن ((کما یشتہي)) من أن یکون ذکراً أو أنثی ونحو ذلک۔ وقال اسحاق بن ابراہیم: في ہذا الحدیث دلالۃٌ علی أنّہ إذا اشتہی المؤمن في الجنۃ الولد کان في ساعۃ، أي: حصل الولد في ساعۃ، ولکن لا یشتہي، فقولہ: ’’ولکن‘‘ ہو المقول حقیقۃ۔

[49] ((النوم أخو الموت، وأھل الجنۃ لا ینامون))۔ ’’المعجم الأوسط ‘‘ للطبراني، الحدیث: ۹۱۹، ج۱، ص۲۶۶۔

[50] أخبر ني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أنّ أھل الجنۃ إذا دخلوھا نزلوا فیھا بفضل أعمالھم، ثم یؤذن في مقدار یوم الجمعۃ من أیام الدنیا، فیزورون ربھم ویبرز لھم عرشہ ویتبدّی لھم في روضۃ من ریاض الجنۃ، فتوضع لھم منابر من نور، ومنابر من لؤلؤ ، ومنابر من یاقوت، ومنابر من زبرجد، ومنابر من ذھب، ومنابر من فضۃ، ویجلس أدناھم وما فیھم من دَنِيِّ علی کثبان المسک والکافور، وما یرون أنّ أصحاب الکراسيّ بأفضل منھم مجلساً))۔ قال أبو ھریرۃ: قلت: یا رسول اللّٰہ! وھل نری ربنا؟ قال: ((نعم، ھل تتمارون في رؤیۃ الشمس والقمر لیلۃ البدر؟)) قلنا: لا، قال: ((کذلک لا تتمارون في رؤیۃ ربکم، ولا یبقی في ذلک المجلس رجل إلاّ حاضَرہُ اللّٰہ محاضرۃً حتی یقول للرجل منھم: یا فلان بن فلان! أتذکر یوم قلت کذا وکذا فیذکرہ ببعض غدراتہ في الدنیا، فیقول: یا رب! أفلم تغفر لي؟ فیقول: بلی فبسعۃ مغفرتي بلغت منزلتک ھذہ، فبینا ھم علی ذلک غشیتھم سحابۃ من فوقھم فأمطرت علیھم طیبا لم یجدوا مثل ریحہ شیئاً قط، ویقول ربنا: قوموا إلی ما أعددتُ لکم من الکرامۃ فخذوا ما اشتھیتم، فنأتي سوقا قد حفّت بہ الملائکۃ ما لم تنظر العیون إلی مثلہ ولم تسمع الآذان، ولم یخطر علی القلوب، فیحمل إلینا ما اشتھینا لیس یباع فیھا ولا یشتری، وفي ذلک السوق یلقی أھل الجنۃ بعضھم بعضا۔ قال: فیقبل الرجل ذو المنزلۃ المرتفعۃ فیلقی من ھو دونہ وما فیھم دَنِيُّ فیروعہ ما یری علیہ من اللباس فما ینقضي آخر حدیثہ حتی یتخیل علیہ ما ھو أحسن منہ، وذلک أنّہ لا ینبغي لأحد أن یحزن فیھا، ثم ننصرف إلی منازلنا فتتلقانا أزواجُنا فیقلنَ مرحباً وأھلاً لقد جئت وإنّ لک من الجمال أفضل ممّا فارقتنا علیہ، فیقول: إنّا جالسنا الیوم ربنا الجبار، وبحقّ لنا أن ننقلب بمثل ما انقلبنا))۔و’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في سوق الجنۃ، الحدیث:۲۵۵۸، ج۴، ص۲۴۶۔

[51] عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إذا دخل أھل الجنۃ الجنۃ فیشتاق الإخوان بعضھم إلی بعض فیسیر سریر ھذا إلی سریر ھذا وسریر ھذا إلی سریر ھذا حتی یجتمعا جمیعا۔۔۔إلخ))۔

’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في تزاورہم ومراکبہم، الحدیث: ۱۱۵، ج۴، ص۳۰۴۔

[52] عن أبي أیوب قال: أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعرابيّ فقال: یا رسول اللّٰہ إني أحب الخیل أ في الجنۃ خیل؟ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إن أُدخلتَ الجنۃ أتیت بفرس من یاقوتۃ لہ جناحان فحملتَ علیہ، ثم طار بک حیث شئتَ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ،باب ماجاء فيصفۃ خیل الجنۃ،الحدیث:۲۵۵۳، ج۴، ص۲۴۴۔

وفي روایۃ: عن شفي بن ماتع أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ من نعیم أھل الجنۃ أنّھم یتزاورون علی المطایا والنجب وإنّھم یؤتون في الجنۃ بخیل مسرجۃ ملجمۃ لا تروث ولا تبول فیرکبونھا حتی ینتھوا حیث شاء اللّٰہ عزوجل))۔

’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في تزاورہم ومراکبہم، الحدیث:۱۱۴، ج۴، ص۳۰۳۔

[53] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ أدنی أہل الجنۃ منزلۃ لمن ینظر إلی جنانہ وزوجاتہ ونعیمہ وخدمہ وسررہ مسیرۃ ألف سنۃ، وأکرمہم علی اللّٰہ من ینظر إلی وجہہ غدوۃ وعشیۃ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب منہ، الحدیث: ۲۵۶۲، ج۴، ص۲۴۹۔

[54] عن صہیب عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((إذا دخل أہل الجنۃ الجنۃ، قال: یقول اللّٰہ تبارک وتعالی: تریدون شیئاً أزیدکم؟ فیقولون: ألم تبیض وجوہنا؟ ألم تدخلنا الجنۃ وتنجنا من النار؟ قال: فیکشف الحجاب، فما أعطوا شیئا أحب إلیہم من النظر إلی ربہم عز وجل))۔ ’’صحیح المسلم‘‘، کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المومنین في الآخرۃ۔۔۔إلخ، ص۱۱۰، الحدیث:۱۸۱۔و’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في رؤیۃ الرب تبارک وتعالٰی، الحدیث:۲۵۶۱، ج۴، ص۲۴۸۔

Share