امامت کا بیان

امامت کا بیان

امامت دو ۲قسم ہے:

۱ صغریٰ۔ ۲ کبریٰ۔[1]

امامتِ صغریٰ، امامتِ نماز ہے[2]، اِس کا بیا ن اِنْ شَاءَ اﷲتَعَالٰی کتابُ الصلاۃ میں آئے گا۔

امامتِ کبریٰ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی نیابتِ مطلقہ، کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام اُمورِ دینی ودنیوی میں حسبِ شرع تصرّفِ عام کا اختیار رکھے اور غیرِ معصیت میں اُس کی اطاعت، تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔[3] اِس امام کے لیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہونا شرط ہے، ہاشمی، علوی، معصوم ہونا اس کی شرط نہیں ۔[4]اِن کا شرط کرنا روافض کا مذہب ہے، جس سے اُن کا یہ مقصد ہے کہ برحق اُمرائے مؤمنین خلفائے ثلٰثہ ابو بکر صدیق و عمرِ فاروق وعثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو خلافت سے جدا کریں [5]، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکا اِجماع ہے۔[6] مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم و حضرا ت حسنَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اُن کی خلافتیں تسلیم کیں [7]بیان کر آئے[8]، امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے۔[9]

مسئلہ۱: محض مستحقِ امامت ہونا امام ہونے کے لیے کافی نہیں ، بلکہ ضروری ہے کہ اہلِ حَلّ و عقد[10]نے اُسے امام مقرر کیا ہو، یا امامِ سابق نے۔ [11]


مسئلہ ۲: امام کی اِطاعت مطلقاً ہر مسلمان پر فرض ہے، جبکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، خلافِ شریعت میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ [12]

مسئلہ ۳: امام ایسا شخص مقرر کیا جائے، جو شجاع اور عالم ہو، یا علماء کی مدد سے کام کرے۔

مسئلہ ۴: عورت اور نابالغ کی امامت جائز نہیں [13]، اگر نابالغ کو امامِ سابق نے امام مقرر کر دیا ہو تو اس کے بلوغ تک کے لیے لوگ ایک والی مقرر کریں کہ وہ احکام جاری کرے اور یہ نابالغ صرف رسمی امام ہو گا اور حقیقۃً اُس وقت تک وہ والی اِمام ہے۔[14]

عقیدہ ۱: نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے بعد خلیفۂ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہوئے[15]، اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں [16]، کہ انھوں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔

عقیدہ ۲: بعد انبیا و مرسلین، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم، پھر عثمٰن غنی، پھر مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم [17]

جو شخص مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو صدیق یا فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے افضل بتائے، گمراہ بدمذہب ہے۔ [18]

عقیدہ ۳: افضل کے یہ معنی ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں زیادہ عزت و منزلت والا ہو، اسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں [19]، نہ کثرتِ اجر کہ بارہا مفضولکے لیے ہوتی ہے[20]۔[21] حدیث میں ہمراہیانِ سیّدنا اِمام مَہدی کی نسبت آیا کہ: ’’اُن میں ایک کے لیے پچاس کا اجر ہے، صحابہ نے عرض کی: اُن میں کے پچاس کا یا ہم میں کے؟ فرمایا: بلکہ تم میں کے۔‘‘ [22]تو اجر اُن کا زائد ہوا، مگر افضلیت میں وہ صحابہ کے ہمسر بھی نہیں ہو سکتے، زیادت درکنار، کہاں امام مَہدی کی رفاقت اور کہاں حضور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی صحابیت!، اس کی نظیر بلا تشبیہ یوں سمجھیے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیے اور وزیر کو خالی پروانۂ خوشنودیٔ مزاج دیا تو انعام انھیں کو زائد ملا، مگر کہاں وہ اور کہاں وزیرِ اعظم کا اِعزاز؟

عقیدہ ۴: ان کی خلافت بر ترتیب فضلیت ہے، یعنی جو عند اﷲ افضل و اعلٰی و اکرم تھا وہی پہلے خلافت پاتا گیا، نہ کہ افضلیت بر ترتیب خلافت، یعنی افضل یہ کہ مُلک داری و مُلک گیری میں زیادہ سلیقہ ، جیسا آج کل سُنّی بننے والے تفضیلیے کہتے ہیں [23]،یوں ہوتا تو فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے افضل ہوتے کہ اِن کی خلافت کو فرمایا:

لَمْ أَرَ عَبْقَرِیًّا یَّفْرِِيْ فَرْیَہٗ، حَتّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ۔[24]

اور صدیقِ اکبر کی خلافت کو فرمایا:

فِيْ نَزْعِہٖ ضَعْفٌ وَاللہُ یَغْفِرُ لَہٗ۔[25]

عقیدہ ۵: خلفائے اربعہ راشدین کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے [26] اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔ [27]

عقیدہ ۶: تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ [28]

عقیدہ ۷: کسی صحابی کے ساتھ سوئِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے ساتھ بغض ہے[29]، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدۂ ماجدہ حضرت ہند، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ، وحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، حتیٰ کہ حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون [30]کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے :کہ میں نے خیر النّاس و شر النّاس کو قتل کیا [31]، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا[32]ہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔ [33]

عقیدہ ۸: کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کاہو، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔ [34]

مسئلہ ۵: صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے جاں نثار اور سچے غلام ہیں ۔

عقیدہ ۹: تمام صحابۂ کرام اعلیٰ و ادنیٰ اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک[35]نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انھیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا [36]، یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔

عقیدہ ۱۰: صحابۂ کر ام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، انبیا نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں ، ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے خلاف ہے۔[37] اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے ’’سورۂ حدید‘‘ میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں ، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:

{ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-}

’’سب سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔‘‘

ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:

{ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠۱۰}[38]

’’اﷲ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔‘‘

تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے۔۔۔؟! کیا طعن کرنے والا اﷲ عَزَّوَجَلَّ سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔[39]

عقیدہ ۱۱: امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مجتہد تھے، اُن کا مجتہد ہونا حضرت سیّدنا عبد اﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے حدیث ِ’’صحیح بخاری‘‘ میں بیان فرمایا ہے[40]، مجتہد سے صواب و خطا[41]دونوں صادر ہوتے ہیں ۔[42]

خطا دو قسم ہے: خطاء عنادی، یہ مجتہد کی شان نہیں اور خطاء اجتہادی، یہ مجتہد سے ہوتی ہے اور اِس میں اُس پر عند اﷲ اصلاً مؤاخذہ نہیں ۔ مگر احکامِ دنیا میں وہ دو قسم ہے: خطاء مقرر کہ اس کے صاحب پر انکار نہ ہوگا، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو، جیسے ہمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا۔

دوسری خطاء منکَر، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا، کہ اس کی خطا باعثِ فتنہ ہے۔ حضرت امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا حضرت سیّدنا امیرالمومنین علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے خلاف اسی قسم کی خطا کا تھا[43]اور فیصلہ وہ جو خود رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈِگری[44]اور امیرِ معاویہ کی مغفرت، رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماَجْمَعِیْن۔[45]

مسئلہ ۶: یہ جو بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت مولیٰ [علی] کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ساتھ امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نام لیا جائے تو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہ کہا جائے، محض باطل وبے اصل ہے۔[46] علمائے کرام نے صحابہ کے اسمائے طیبہ کے ساتھ مطلقاً ’’رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ‘‘ کہنے کا حکم دیا ہے[47]، یہ استثنا نئی شریعت گڑھنا ہے۔

عقیدہ ۱۲: منہاجِ نبوت پر خلافتِ حقہ راشدہ تیس سال رہی، کہ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی، پھر امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافتِ راشدہ ہوئی[48]اور آخر زمانہ میں حضرت سیّدنا امام مَہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہوں گے۔[49]امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اوّل ملوکِ اسلام ہیں[50]، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں اشارہ ہے کہ:

’’مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَوَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَوَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ۔‘‘[51]

’’وہ نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔‘‘

تو امیرِ معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی! محمد رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سلطنت ہے۔ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک فوجِ جرّار جاں نثار کے ساتھ عین میدان میں بالقصد و بالاختیار ہتھیار رکھ دیے اور خلافت امیرِ معاویہ کو سپرد کر دی اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرمالی[52]اور اس صُلح کو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے پسند فرمایا اور اس کی بشارت دی کہ امام حسن کی نسبت فرمایا:

إِنَّ ابْنِي ھٰذَا سَیِّدٌ لَعَلَّ اللہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔[53]

’’میرایہ بیٹا سیّد ہے، میں امید فرماتا ہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے باعث دو بڑے گروہِ اسلام میں صلح کرا دے۔‘‘ تو امیرِ معاویہ پر مَعَاذَ اﷲ فِسق وغیرہ کا طعن کرنے والا حقیقۃً حضرت امام حسن مجتبیٰ، بلکہ حضور سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بلکہ حضرت عزّت جلّ وعلا پر طعن کرتا ہے۔[54]

عقیدہ ۱۳: ام المومنین صدیقہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہَا قطعی جنتی اور یقینا آخرت میں بھی محمد رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبوبۂ عروس ہیں [55]، جو انھیں ایذا دیتا ہے رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتا ہے[56]اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا تو عشرۂ مبشَّرہ [57]سے ہیں[58]، ان صاحبوں سے بھی بمقابلہ امیر المومنین مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خطائے اجتہادی واقع ہوئی، مگر اِن سب نے بالآخر رجوع فرمائی [59]، عرفِ شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلۂ امامِ برحق کو کہتے ہیں ، عناداً [60]ہو، خواہ اجتہاداً [61]، ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، گروہِ امیرِ معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر حسبِ اصطلاحِ شرع اِطلاق فئہ باغیہ [62] آیا ہے [63]، مگر اب کہ باغی بمعنی مُفسِد ومُعانِد وسرکش ہو گیا اور دُشنام [64]سمجھا جاتا ہے، اب کسی صحابی پر اس کا اِطلاق جائز نہیں ۔

عقیدہ ۱۴: ام المؤمنین حضرت صدیقہ بنت الصدیق محبوبۂ محبوبِ ربِ العالمین جَلَّ وَ عَلَا وَ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمَا وَسَلَّم پر معاذاﷲ تہمتِ ملعونۂ اِفک [65]سے اپنی ناپاک زبان آلودہ کرنے والا، قطعاً یقینا کافر مرتد ہے[66]اور اس کے سوا اور طعن کرنے والا رافضی، تبرّائی، بد دین، جہنمی۔

عقیدہ ۱۵: حضرات حسنَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا یقینا اعلیٰ درجہ شہدائے کرام سے ہیں ، ان میں کسی کی شہادت کا منکر گمراہ، بددین، خاسر ہے۔

عقیدہ ۱۶: یزید پلید فاسق فاجر مرتکبِ کبائر تھا، معاذاﷲ اس سے اور ریحانۂ رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسیّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کیا نسبت۔۔۔؟! آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ: ’’ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل؟ ہمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادے‘‘۔[67] ایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی[68]مستحقِ جہنم ہے۔ہاں ! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہلِ سنّت کے تین قول ہیں اور ہمارے امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مسلک سُکُوت، یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں ، نہ مسلمان۔[69]

عقیدہ ۱۷: اہلِ بیتِ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممقتدایانِ اہلِ سنّت ہیں ، جو اِن سے محبت نہ رکھے، مردود وملعون خارجی ہے۔

عقیدہ ۱۸: اُم المومنین خدیجۃ الکبریٰ، و ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، و حضرت سیّدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ قطعی جنتی ہیں[70] اور انھیں اور بقیہ بَناتِ مکرّمات و ازواجِ مطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو تمام صحابیات پر فضیلت ہے۔[71]

عقیدہ ۱۹: اِن کی طہارت کی گواہی قرآنِ عظیم نے دی۔ [72] (بہارِ شریعت،حصہ اول ،جلد۱،صفحہ۲۳۷تا۲۶۳)


[1] (ھي صغری وکبری ’’الدرالمختار‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ:ج۲: ص۳۳۱۔

[2] (والصغری ربط صلاۃ المؤتم بالإمام)’’الدرالمختار‘‘:کتاب ا لصلاۃ:بابالإمامۃ:ج۲: ص۳۳۷۔

[3] في ’’المقاصد‘‘:الفصل الرابع في الإمامۃ:ج۳: ص۴۹۶:(الإمامۃ: وھي ریاسۃ عامۃ في أمر الدین والدنیا خلافۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم

وفي’’المسامرۃ‘‘:الأصل السابع في الإمامۃ:ص۲۹۵:(الإمامۃ بأنّہا خلافۃ الرسول في إ قامۃ الدین وحفظ حوزۃ الملۃ بحیث یجب اتباعہ علی کافۃ الأمۃ

و’’ردالمحتار‘‘:باب الإمامۃ:ج۲: ص۳۳۲۔

وفي ’’شرح المقاصد‘‘:الفصل الرابع في الإمامۃ:ج۳: ص۴۷۰: (یجب طاعۃ الإمام ما لم یخالف حکم الشرع

[4] في ’’الدرالمختار‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ:ج۲: ص۳۳۳: (ویشترط کونہ مسلماً حراً ذکراً عاقلاً بالغاً قادراً قرشیاً: لا ہاشمیاً علویاً معصوماً

وفي ’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘:مبحث الإمامۃ:ص۱۵۶: (ولا یشترط أن یکون ہاشمیاً أو علویاً: ولا یشترط في الإمام أن یکون معصوماً ملتقطاً۔

وفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘:الباب الرابع في الإمامۃ:ص۱۹۰۔۱۹۱: (ولا یشترط کونہ ھاشمیاً: ولا معصوماً؛ لأنّ العصمۃ من خصائص الأ نبیاء ملتقطاً۔

[5] في ’’ردالمحتار‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ:مطلب: شروط الإمامۃالکبری:ج۲: ص۳۳۳ ۔ ۳۳۴: (قولہ: لا ھاشمیا۔۔۔الخ) أي: لا یشترط کونہ ھاشمیاً: أي: من أولاد ھاشم بن عبد مناف کما قالت الشیعۃ نفیاً لإمامۃ أبي بکر وعمر وعثمان رضي اللّٰہ تعالی عنھم: ولا علویاً: أي: من أولاد عليّ بن أبي طالب کما قال بہ بعض الشیعۃ نفیاً لخلافۃ بني العباس: ولا معصوماً کما قالت الإسماعیلیۃ والاثنا عشریۃ: أي: الإمامیۃ

[6] في ’’شرح المقاصد‘‘:المبحث الثاني:الشروطالتي تجب في الإمام:ج۳: ص۴۸۲: (وکفی بإجماع المسلمین علی إمامۃ الأئمۃ الثلا ثۃ حجۃ علیہم

[7] اعلی حضرت عظیم البرکت، عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولاناشاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن’’ فتاوی رضویہ ‘‘ شریف ج۲۸: ص۴۷۲۔۴۷۳میں فرماتے ہیں : امام اسحٰق بن راہو یہ ودارقطنی وابن عساکر وغیرہم بطرقِ عدیدہ واسانید کثیرہ راوی، دوشخصوں نے امیر المومنین مولی علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ان کے زمانہ خلافت میں دربارہ خلافت استفسارکیا: اعھدعھدہ إلیک النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم أم رایٔ رأیتہ۔کیا یہ کوئی عہد وقرارداد حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی طرف سے ہے یا آپ کی رائے ہے فرمایا: بل رایٔ رأیتہ بلکہ ہماری رائے ہے أما أن یکون عندي عھد من النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عھدہ إلیّ في ذلک فلا واللّٰہ لئن کنت أوّل من صدّق بہ فلا أکون أوّل من کذب علیہ۔رہا یہ کہ اسباب میں میرے لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے کوئی عہدہ قرارداد فرمادیا ہو سو خدا کی قسم ایسا نہیں ،اگر سب سے پہلے میں نے حضور کی تصدیق کی تو میں سب سے پہلے حضور پر افتراء کرنے والا نہ ہوں گا، ولو کان عندي منہ عھد في ذلک ما ترکت أخا بني تیم بن مرۃ وعمر بن الخطابی ثوبان علی منبرہ ولقاتلتھما بیدي ولولم أجد إلاّ بردتي ھذہ۔ اوراگر اسباب میں حضور والا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی طرف سے میرے پا س کوئی عہد ہوتا تو میں ابوبکر وعمر کو منبر اطہر حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَپر جست نہ کرنے دیتا اوربیشک اپنے ہاتھ سے اُن سے قتال کرتا اگرچہ اپنی اس چادر کے سواکوئی ساتھی نہ پاتا ولکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لم یقتل قتلا ولم یمت فجأۃ مکث في مرضہ أیّاماً ولَیَالي یأتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیأمر أبابکر فیصلي بالناس وھو یری مکاني ثم یأتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیأمر أبابکر فیصلي بالناس وھو یری مکاني بات یہ ہوئی کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ معاذاللہ کچھ قتل نہ ہوئے نہ یکایک انتقال فرمایا بلکہ کئی دن رات حضور کو مرض میں گزرے ، مؤذن آتا نماز کی اطلاع دیتا، حضور ابوبکر کو امامت کا حکم فرماتے حالانکہ میں حضور کے پیش نظر موجودتھا،پھر مؤذن آتا اطلاع دیتا حضور ابوبکر ہی کو امامت دیتے حالانکہ میں کہیں غائب نہ تھا، ولقد أرادت إمرأۃ من نسائہ أن تصرفہ عن أبي بکر فأبی وغضب وقال :أنتنّ صواحب یوسف مروا أبابکر فلیصل بالناس۔ اورخدا کی قسم ازواج مطہرات میں سے ایک بی بی نے اس معاملہ کو ابوبکر سے پھیرنا چاہاتھا، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے نہ مانا اورغضب کیا اورفرمایا تم وہی یوسف (علیہ السلام)والیاں ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ امامت کرے، فلمّا قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نظرنا في أمورنا فاخترنا لدنیانا من رضیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لدیننا فکا نت الصلوۃ عظیم الإسلام وقوام الدین: فبایعنا أبابکر رضي اللّٰہ تعالی عنہ فکان لذلک أھلاً لم یختلف علیہ منا اثنان۔

پس جبکہ حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے انتقال فرمایا ہم نے اپنے کاموں میں نظر کی تو اپنی دنیایعنی خلافت کے لئے اسے پسندکرلیا جسے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے ہمارے دین یعنی نماز کے لئے پسند فرمایاتھاکہ نماز تو اسلام کی بزرگی اوردین کی درستی تھی لہذا ہم نے ابوبکررَضِیَ اللہتَعَالٰی عنہ سے بیعت کی اوروہ اس کے لائق تھے ہم میں کسی نے اس بارہ میں خلاف نہ کیا۔ یہ سب کچھ ارشاد کر کے حضرت مولی علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ الاسنٰی نے فرمایا: فادّیت إلی أبي بکر حقہ وعرفت لہ طاعتہ وغزوت معہ في جنودہ وکنت اٰخذاً إذا أعطاني وأغزو إذا غزاني وأضرب بین یدیہ الحدود بسوطي۔ پس میں نے ابو بکر کو ان کا حق دیا اوران کی اطاعت لازم جانی اور ان کے ساتھ ہوکر ان کے لشکروں میں جہاد کیا جب وہ مجھے بیت المال سے کچھ دیتے میں لے لیتا اور جب مجھے لڑائی پر بھیجتے میں جاتا اورانکے سامنے اپنے تازیانہ سے حد لگاتا……پھر بعینہٖ یہی مضمون امیرالمومنین فاروق اعظم وامیر المومنین عثمان غنی کی نسبت ارشاد فرمایا، رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔

’’ابن عساکر‘‘:ج۴۲: ص۴۴۲۔

8 دیکھیں اسی کتاب کا صفحہ نمبر۳۸۔

[9] في’’شرح المقاصد‘‘:المبحث الثاني:الشروط التي تجب في الإمام:ج۳: ص۴۸۴: (من معظم الخلافیات مع الشیعۃ اشتراطھم أن یکون الإمام معصوماً

[10] دینی اور دنیاوی انتظامی معاملات کوجاننے والے۔

[11] في ’’الفقہ الأکبر‘‘:نصب الإمام واجب:ص۱۴۶: (الإمامۃ تثبت عند أہل السنۃ والجماعۃ إمّا باختیار أہل الحل والعقد من العلماء وأصحاب العدل والرأي کما تثبت إمامۃ أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ: وإمّا بتنصیص الإمام وتعیینہ کما تثبت إمامۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ باستخلاف أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ إیاہ

وفي ’’المسامرۃ‘‘:مایثبت عقدالإمامۃ:ص۳۲۶: (ویثبت عقد الإمامۃ) بأحد أمرین: (إمّا باستخلاف الخلیفۃ إیّاہ کما فعل أبو بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ) حیث استخلف عمر رضي اللّٰہ عنہ: وإجماع الصحابۃ علی خلافتہ بذلک إجماع علی صحۃ الاستخلاف: (وإمّا بیعۃ) من تعتبر بیعۃ من أہل الحل والعقد: ولا یشترط بیعۃ جمیعہم: ولا عدد محدود: بل یکفي بیعۃ (جماعۃ من العلماء أو) جماعۃ (من أہل الرأي والتدبیر

[12] { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ } پ۵: النساء:۵۹۔

في ’’تفسیرالمدارک‘‘:ص۲۳۴: تحت الآیۃ: (دلت الآیۃ علی أنّ طاعۃ الأمراء واجبۃ إذا وافقوا الحق: فإذا خالفوہ فلا طاعۃ لہم لقولہ علیہ السلام: ((لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق))

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((السمع والطاعۃ حق ما لم یؤمر بمعصیۃ: فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ))۔ ’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الجہاد:باب السمع والطاعۃللإمام:الحدیث: ۲۹۵۵: ج۲: ص۲۹۷۔

عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما أحب وکرہ ما لم یؤمر بمعصیۃ: فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ))۔

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الأحکام:باب السمع والطاعۃللإمام مالم تکن معصیۃ:الحدیث: ۷۱۴۴: ج۴: ص۴۵۵۔

’’صحیح مسلم‘‘:کتاب الإمارۃ: باب وجوب طاعۃ الأمراء إلخ: الحدیث: ۱۸۳۹:ص۱۰۰۸۔

في ’’الدرالمختار‘‘: (طاعۃالإمام فی مالیس بمعصیۃفرض)۔

وفي ’’ردّالمحتار‘‘: (والأصلفیہ قولہ تعالی: {وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ } وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((اسمعواوأطیعواولوأمّرعلیکم عبد حبشي أجدع)):وروي: ((مجدع))۔ وعن ابن عمر أنّہ علیہ الصلاۃ والسلام قال: ((علیکم بالسمع والطاعۃ لکلّ من یؤمر علیکم ما لم یأمرکم بمنکر)): ففي المنکر لا سمع ولا طاعۃ’’الدرالمختار‘‘مع’’ردالمحتار‘‘:کتاب الجہاد:بابالبغاۃ:ج۶: ص۴۰۳۔۴۰۴۔

[13] في ’’المسامرۃ‘‘بشرح’’المسایرۃ‘‘:الأصل التاسع: شروط الإمام:ص۳۱۸: (لا تصحّ إمامۃ الصبي والمعتوہ؛ لقصور کلّ منہما عن تدبیر نفسہ: فکیف تدبیر الأمور العامۃ؟… وأنّ إمامۃ المرأۃ لا تصحّ؛ إذ النساء ناقصات عقل ودین کما ثبت بہ الحد یث الصحیح): ملتقطاً۔

[14] في ’’الدر المختار‘‘:کتابالصلاۃ:بابالإمامۃ:ج۲: ص۳۳۵۔۳۳۶: وتصحّ سلطنۃ متغلب للضرورۃ: وکذا صبي۔ وینبغي أن یفوّض أمور التقلید علی وال تابع لہ: والسلطان في الرسم ہو الولد: وفي الحقیقۃ ہو الوالي لعدم صحۃ إذنہ بقضاء

وجمعۃ کما في ’’الأشباہ‘‘عن’’البزازیۃ‘‘:وفیہا: لو بلغ السلطان أو الوالي یحتاج إلی تقلید جدیدوفي’’ردالمختار‘‘:تحتقولہ (وکذاصبي)أي: تصحّ سلطنتہ للضرورۃ:لکن في الظاہرلاحقیقۃ۔قالفي’’الأشباہ‘‘:وتصحّ سلطنتہ ظاہراً: قال في ’’البزازیۃ‘‘: مات السلطان واتفقت الرعیۃ علی سلطنۃابن صغیر لہ ینبغي أن تفوّض أمور التقلید علیوال: ویعدّ ہذا الوالي نفسہ تبعاً لابن السلطان لشرفہ والسلطان في الرسم ہو الابن: وفي الحقیقۃ ہو الوالي لعدم صحۃ الإذن بالقضاء والجمعۃ ممن لا ولایۃ لہ ا ہـ۔ أي: لأنّ الوالي لو لم یکن ہو السلطان في الحقیقۃ لم یصح إذنہ بالقضاء والجمعۃ: لکن ینبغي أن یقال: إنّہ سلطان إلی غایۃ وہي بلوغ الابن: لئلاّ یحتاج إلی عزلہ عند تولیۃ ابن السلطان إذا بلغ۔ تأمل

15في’’منح الروض الأزہر‘‘:ص۶۸: (خلافۃ النبوۃ ثلاثون: منہا خلافۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ سنتان وثلاثۃ أشہر: وخلافۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ عشر سنین ونصف: وخلافۃ عثمان رضي اللّٰہ عنہ اثنتا عشرۃ سنۃ: وخلافۃ عليّ رضي اللّٰہ عنہ أربع سنین وتسعۃ أشہر: وخلافۃ الحسن ابنہ ستۃ أشہر

في’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘:مبحث أفضل البشربعدنبیناأبوبکرثم عمرثم عثمان ثم عليإلخ:ص۱۵۰: (وخلافتھم أي: نیابتھم عن الرسول في إقامۃ الدین بحیث یجب علی کافۃ الأمم الاتباع علی ھذا الترتیب أیضًا یعني: أنّ الخلافۃ بعد رسول اللّٰہ علیہ السلام لأبي بکر ثم لعمر ثم لعثمان ثم لعلي رضي اللّٰہ تعالی عنہم

وفي’’النبراس‘‘:وخلافۃالخلفاءالراشدین:ص۳۰۸: (في روایۃ: الخلافۃ بعدي ثلاثون سنۃ ثم تکون ملکاً عضوضاً: وقد استشہد عليّ رضي اللّٰہ عنہ علی رأس ثلثین سنۃ أي: نہایتہا من وفات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہذا تقریب: والتحقیق أنّہ کان بعد عليّ نحوستۃ أشھر باقیۃ من ثلثین سنۃ وھي مدۃ خلا فۃ الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما و’’المسامرۃ‘‘:ص۳۱۶۔

[16] في ’’فیض القدیر‘‘:ج۴: ص۶۶۴: تحت الحدیث: ۶۰۹۶: ((وسنّۃ)) أي: طریقۃ ((الخلفاء الراشدین المہدیین))والمراد بالخلفاء الأربعۃ والحسن رضي اللّٰہ عنہم

[17] في’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘:مبحث أفضلال بشربعدنبینا۔۔۔إلخ:ص۱۴۹ ۔ ۱۵۰: (وأفضل البشر بعد نبیّنا (أي: بعد الأنبیاء) أبو بکر الصدیق: ثم الفاروق: ثم عثمان ذوالنورین: ثم علي المرتضی): ملخصاً۔ وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘:للقاریٔ:باب أفضل الناس بعدہ علیہالصلاۃوالسلام الخلفاء الأربعۃ علی إلخ: ص۶۱ ۔۶۳: (وأفضل الناس بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم: أبو بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ: ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علي بن أبي طالب رضوان اللّٰہ تعالی علیہم أجمعین

اعلی حضرت عظیم البرکت، عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن’’ فتاوی رضویہ ‘‘شریف میں فرماتے ہیں :’’اہل سنت وجماعت نصرہم اللہتَعَالٰی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ ورسل وانبیائے بشر صلوات اللہتَعَالٰی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہتَعَالٰی علیہم تمام مخلوق ِالہی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت ووجاہت وقبول وکرامت وقرب وولایت کو نہیں پہنچتا۔{ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠(۲۹)}فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے (ت)۔

پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی ، پھر مولی علیصَلَّی اللہ تَعَالٰی علی سیدہم، ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم۔ اس مذہبِ مہذب پر آیاتِ قرآنِ عظیم واحادیث ِکثیرہ ٔ حضورپرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ وصحبہ الصلوۃ والتسلیم وارشادات جلیلۂ واضحۂ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمئہ اہلبیت طہارت وار تضاواجماعِ صحابۂ کرام وتابعین عظام وتصریحاتِ اولیائے امت وعلمائے امت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین سے وہ دلائل باہر ہ وحجج قاہر ہ ہیں جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۲۸: ص۴۷۸۔

اسی طرح اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :

اب ان سب میں افضل وا علیٰ و اکمل حضرات عشرہ مبشرہ ہیں وہ دس صحابی جن کے قطعی جنتی ہونے کی بشارت وخوشخبری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنادی تھی وہ عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات خلفائے اربعہ راشدین،حضرت طلحہ بن عبید اللہ ،حضرت زبیر بن العوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت سعید بن زید،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ۔ ؎

دہ یار بہشتی اند قطعی بوبکر و عمرعثمان وعلی

سعد ست سعید وبوعبیدہ طلحہ ست وزبیر وعبدالرحمن

اور ان میں خلفائے اربعہ رضی اللہ تَعَالٰی عنہم اَجْمَعِیْن اور ان چار ارکان قصر ملت (ملّت اسلامیہ کے عالی شان محل کے چار ستونوں ) و چار انہار باغ شریعت (اور گلستان ِ شریعت کی ان چار نہروں) کے خصائص وفضائل ،کچھ ایسے رنگ پر واقع ہیں کہ ان میں سے جس کسی کی فضلیت پر تنہا نظر کیجئے یہی معلوم (و متبادرو مفہوم) ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں یہی ہیں ان سے بڑھ کر کون ہوگا ؎

بہر گلے کہ ازیں چار باغ می نگرم

بہار دامن دل می کشد کہ جا اینجاست

(ان چار باغوں میں سے جس پھول کو میں دیکھتا ہوں تو بہار میرے دل کے دامن کو کھینچتی ہے کہ اصل جگہ تو یہی ہے)۔ علی الخصوص شمع شبستان ولایت ،بہار چمنستانِ معرفت، امام الواصلین ،سیّد العارفین، (واصلانِ حق کے امام اہل معرفت کے پیش رو) خاتمِ خلافت نبوت، فاتح سلاسل طریقت ، مولیٰ المسلمین ، امیر المومنین ابوالائمۃ الطاھرین (پاک طینت ،پاکیزہ خصلت، اماموں کے جدا مجد طاہر مطہر، قاسمِ کوثر، اسد اللہ الغالب،مظہر العجائب والغرائب، مطلوب کل طالب،سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب کرّم اﷲتعالٰی وجہہ الکریم وحشرنا في زمرتہ في یوم عقیم کہ اس جناب گردوں قباب (جن کے قبہ کی کلس آسمان برابر ہے ان )کے مناقب جلیلہ (اوصافِ حمیدہ) ومحامد جمیلہ (خصائل حسنہ) جس کثرت و شہرت کے ساتھ (کثیر و مشہورزبان زد عام و خواص) ہیں دوسرے کے نہیں ۔(پھر) حضرات شیخین،صاحبین صہرین (کہ ان کی صاحبزادیاں حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں اور امہات المومنین مسلمانوں ایمان والوں کی مائیں کہلائیں ) وزیرین (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد کہ میرے دو وزیر آسمان پر ہیں جبرائیل ومیکائیل اور دو وزیر زمین پر ہیں ابوبکر و عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ) امیرین (کہ ہر دو امیر المومنین ہیں )مشیرین (دونوں حضور اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی مجلس شوریٰ کے رکن اعظم)ضجیعین (ہم خواجہ اور دونوں اپنے آقا و مولیٰ کے پہلو بہ پہلو آج بھی مصروفِ استراحت )رفیقین (ایک دوسرے کے یارو غمگسار) سیّدنا و مولٰنا عبداللہ العتیق ابوبکر صدیق و جناب حق مآب ابوحفص عمر فاروقرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما کی شانِ والا سب کی شانوں سے جداہے اور ان پر سب سے زیادہ عنایت خدا و رسول ِ خدا جل جلالہ و صلی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہے بعد انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین کے جو مرتبہ ان کا خدا کے نزدیک ہے دوسرے کا نہیں اور رب تبارک و تَعَالٰی سے جو قرب و نزدیکی اور بارگاہِ عرش اشتباہ رسالت میں جو عزت و سر بلندی ان کا حصہ ہے اوروں کا نصیبا نہیں اور منازل جنت ومواہب بے منت میں انہیں کے درجات سب پر عالی فضائل و فواضل (فضیلتوں اور خصوصی بخششوں )و حسنات طیبات (نیکیوں اور پاکیزگیوں ) میں انہیں کو تقدم و پیشی (یہی سب پر مقدم،یہی پیش پیش) ہمارے علماء و آئمہ نے اس (باب) میں مستقل تصنیفیں فرما کر سعادتِ کونین و شرافتِ دارین حاصل کی(ان کے خصائل تحریر میں لائے،ان کے محاسن کا ذکر فرمایاان کے اولیات و خصوصیات گنائے) ورنہ غیر متناہی (جو ہماری فہم و فراست کی رسائی سے ماورا ہو اس)کا شمار کس کے اختیار، واللہ العظیم اگر ہزاروں دفتر ان کے شرح فضائل (اور بسط فواضل) میں لکھے جائیں یکے ازہزار تحریر میں نہ آئیں ۔وعلی تفنن واصفیہ بحسنہ یغني الزمان وفیہ ما لم یوصف(اور اس کے حسن کی تعریف کرنے والوں کی عمدہ بیانی کی بنیاد پر زمانہ غنی ہوگیا اور اس میں ایسی خوبیاں ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا)مگر کثرتِ فضائل و شہرتِ فواضل (کثیر در کثیر فضیلتوں کا موجود اور پاکیزہ و برتر عزتوں مرحمتوں کا مشہور ہونا) چیزے دیگر (اور بات ہے) اور فضیلت و کرامت (سب سے افضل اور بارگاہِ عزت میں سب سے زیادہ قریب ہونا) امرے آخر (ایک اور بات ہے اس سے جدا و ممتا ز) فضل اللہ تَعَالٰی کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے : { قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِۚ-یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ- }۔

اس کی کتاب کریم اور اس کا رسول عظیم علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ والتسلیم علی الاعلان گواہی دے رہے ہیں ۔ حضرت امام حسنرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہ اپنے والد ماجد مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں :

کہ فرماتے ہیں : ((کنت عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأقبل أبو بکر وعمر: فقال: یاعلي: ھذان سیّداکہول أھل الجنۃوشبابھابعدالنبیین والمرسلین))۔’’المسند‘‘للإمام أحمد:الحدیث: ۶۰۲: ج۱: ص۱۷۴۔

’’سنن الترمذي‘‘:کتاب المناقب:الحدیث: ۳۶۸۵: ج۵: ص۳۷۶۔

و’’سنن ابن ماجہ‘‘:کتاب السنۃ:فضل أبي بکرالصدیق رضي اللّٰہ عنہ:الحدیث: ۱۰۰: ج۱: ص۷۵۔

’’میں خدمت اقدس حضور افضل الانبیاءصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں حاضر تھا کہ ابوبکر و عمر سامنے آئے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کہ علی!یہ دونوں سردار ہیں اہل جنت کے سب بوڑھوں اور جوانوں کے، بعد انبیاء و مرسلین کے‘‘۔

حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہ سید المرسلینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے راوی،حضور کا ارشاد ہے: ((أبو بکر وعمر خیر الأولین والآخرین وخیر أھل السموات وخیر أھل الأرضین إلاّ النبیین والمرسلین))۔ رواہ الحاکم في ’’الکنی‘‘وابن عدی وخطیب۔

ابوبکر و عمر بہتر ہیں سب اگلوں پچھلوں کے،اور بہتر ہیں سب آسمان والوں سے اور بہتر ہیں سب زمین والوں سے،سوا انبیا و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔

’’کنزالعمال‘‘:کتاب الفضائل:فضائل أبي بکروعمررضي اللّٰہ تعالی عنہما:ج۱۱: ص ۲۵۶: الحدیث: ۳۲۶۴۲۔

خود حضرت مولیٰ علی کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ نے بار بار اپنی کرسی مملکت و سطوت (و دبدبہ)خلافت میں افضلیت مطلقہ شیخین کی تصریح فرمائی (اور صاف صاف واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ دونوں حضرات علی الاطلاق بلا قیدِ جہت و حیثیت تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں ) اور یہ ارشاد ان سے بتواتر ثابت ہوا کہ اسّی سے زیادہ صحابہ و تابعین نے اسے روایت کیا۔ اور فی الواقع اس مسئلہ (افضلیت شیخ کریمین)کو جیسا حق مآب مرتضوی نے صاف صاف واشگاف بہ کرّات و مرّات (بار بار موقع بہ موقع اپنی )جَلَوات وخلوات (عمومی محفلوں ،خصوصی نشستوں )و مشاہد عامہ و مساجد جامعہ (عامۃ الناس کی مجلسوں اور جامع مسجدوں ) میں ارشاد فرمایا دوسروں سے واقع نہیں ہوا۔(ازاں جملہ وہ ارشاد گرامی کہ) امام بخاری رحمۃ اللہ تَعَالٰی علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزادئہ جناب امیر المومنین علیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے راوی :قال: قلت لأبي: أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی اللّٰہ تَعَالٰی علیہ وسلم؟ قال: ((أبو بکر: قال: قلت: ثم من؟ قال: عمر))۔

یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ سے عرض کیا: کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’ابو بکر، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: عمر‘‘۔

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم:الحدیث: ۳۶۷۱: ج۲: ص۵۲۲۔

ابوعمر بن عبداللہ حکم بن حجل سے اور دار قطنی اپنی ’’سنن‘‘ میں راوی جناب امیر المومنین علی کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ فرماتے ہیں :((لا أجد أحداً فضلني علی أبي بکر وعمر إلاّ جلدتہ حد المفتري))’’الصواعق المحرقۃ‘‘:ص۶۰۔

جسے میں پاؤں گا کہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ) سے مجھے افضل بتاتا (اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا )ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا کہ اسّی کوڑے ہیں ۔ ابوالقاسم طلحی ’’کتاب السّنّتہ‘‘ میں جناب علقمہ سے راوی: بلغ علیّا أنّ أقواماً یفضّلونہ علی أبي بکر وعمر فصعد المنبر فحمد اﷲ وأثنی علیہ ثم قال: أیہا الناس! ((أنّہ بلغني أنّ أقواماً یفضّلوني علی أبي بکر وعمر ولو کنت تقدمت فیہ لعاقبت فیہ فمن سمعتہ بعد ھذا الیوم یقول ھذا فھو مفتر: علیہ حد المفتري: ثم قال: إنّ خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیہا صلی اللّٰہ تَعَالٰی علیہ وسلم أبو بکر ثم عمر ثم اﷲ أعلم بالخیر بعدہ: قال: وفي المجلس الحسن بن علي فقال: واﷲ لو سمّی الثالث لسمی عثمٰن))۔

یعنی جناب مولیٰ علی کو خبر پہنچی کہ لوگ انہیں حضرات شیخینرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما پر تفضیل دیتے (اور حضرت مولیٰ کو ان سے افضل بتاتے)ہیں ، پس منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ تَعَالٰی کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا :اے لوگو!مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر سے افضل بتاتے ہیں اور اگر میں نے پہلے سے سُنا ہوتا تو اس میں سزا دیتا یعنی پہلی بار تفہیم (وتنبیہ) پر قناعت فرماتا ہوں پس اس دن کے بعد جسے ایسا کہتے سنوں گا تو وہ مفتری (بہتان باندھنے والا)ہے اس پر مفتری کی حد لازم ہے، پھر فرمایا :بے شک بہتر اس امت کے بعد ان نبیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ابوبکر ہیں ، پھر عمر، پھر خداخوب جانتا ہے بہتر کو ان کے بعد، اور مجلس میں امام حسن (رضی اللہ عنہ)بھی جلوہ فرما تھے انہوں نے ارشاد کیا: خدا کی قسم !اگر تیسرے کا نام لیتے تو عثمٰن کا نام لیتے۔’’إزالۃالخفاءعنخلافۃالخلفاء‘‘بحوالہأبيالقاسم مسند علي بن أبي طالب: ج۱: ص۶۸۔

بالجملہ احادیث ِ مرفوعہ و اقوالِ حضرت مرتضوی و اہلبیت نبوت اس بارے میں لا تعداد ولا تحصی (بے شمار ولا انتہا) ہیں کہ بعض کی تفسیر فقیر نے اپنے رسالہ تفضیل میں کی ۔ اب اہل سنت (کے علمائے ذوی الاحترام)نے ان احادیث و آثار میں جو نگاہ غور کو کام فرمایا تو تفضیل شیخین کی صدہا تصریحیں (سیکڑوں صراحتیں ) علی الاطلاق پائیں کہیں جہت و حیثیت کی قید نہ دیکھی کہ یہ صرف فلاں حیثیت سے افضل ہیں اور دوسری حیثیت سے دوسروں کو افضیلت (حاصل ہے) لہذا انہوں نے عقیدہ کرلیا کہ گو فضائل خاصہ و خصائص فاضلہ (مخصوص فضیلتیں اور فضیلت میں خصوصیتیں ) حضرت مولیٰ (علی مشکل کُشا کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ) اور ان کے غیر کو بھی ایسے حاصل (اور بعطائے الہٰی وہ ان خصوصیات کے تنہا حامل) جو حضرات شیخین (کریمین جلیلین )نے نہ پائے جیسے کہ اس کا عکس بھی صادق ہے (کہ امیرین وزیرین کو وہ خصائصِ غالیہ اور فضائل عالیہ بارگاہ ِ الہی سے مرحمت ہوئے کہ ان کے غیر نے اس سے کوئی حصہ نہ پایا)مگر فضل مطلق کُلّ (کسی جہت و حیثیت کا لحاظ کیے بغیر فضیلت مطلقہ کُلّیہ) جو کثرتِ ثواب و زیادتِ قُربِ ربّ الارباب سے عبارت ہے وہ انہیں کو عطا ہوا (اوروں کے نصیب میں نہ آیا)۔

اور (یہ اہل سنت و جماعت کا وہ عقیدہ ثابتہ محکمہ ہے کہ) اس عقیدہ کا خلاف اوّل تو کسی حدیث صحیح میں ہے ہی نہیں اور اگر بالفرض کہیں بوئے خلاف پائے بھی تو سمجھ لے کہ یہ ہماری فہم کا قصور ہے (اور ہماری کوتاہ فہمی) ورنہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور خود حضرت مولیٰ (علی) واہلبیت کرام (صاحب البیت ادرٰی بما فیہ کے مصداق اسرار خانہ سے مقابلۃً واقف تر)کیوں بلا تقیید (کسی جہت و حیثیت کی قید کے بغیر) انہیں افضل و خیر امت و سردار اوّلین و آخرین بتاتے،کیا آیہ کریمہ: { فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)} (تو ان سے فرمادو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں )

و حدیث صحیح : ((من کنتُ مولاہ فعلي مولاہ))۔(جس کا میں مولا ہوں تو علی بھی اس کا مولا ہے)

’’سنن الترمذي‘‘:کتاب المناقب:الحدیث: ۳۷۳۳: ج۵: ص۳۹۸۔

’’سنن ابن ماجہ‘‘:کتاب السنۃ: الحدیث: ۱۲۱: ج۱: ص۸۶۔

اور خبر شدید الضعف وقوی الجرح (نہایت درجہ ضعیف و قابل شدید جرح و تعدیل ) ((لحمک لحمي ودمک دمي))(تمہارا گوشت میرا گوشت اور تمہارا خون میرا خون ہے)

’’کنزالعمال‘‘:کتاب الفضائل:فضائل علي رضي اللّٰہ تعالی عنہ:ج۱۱: ص ۲۷۹: الحدیث: ۳۲۹۳۳۔

برتقدیر ثبوت (بشرطیکہ ثابت وصحیح مان لی جائے) وغیر ذلک (احادیث و اخبار)سے انہیں آگاہی نہ تھی(ہوش و حواس علم و شعور اور فہم وفراست میں یگانہ روزگار ہوتے ہوئے ان اسرارِ درون خانہ سے بیگانہ رہے اور اسی بیگانگی میں عمریں گزاردیں ) یا (انہیں آگاہی اور ان اسرار پر اطلاع)تھی تو وہ (ان واضح الدلالۃ الفاظ کا) مطلب نہ سمجھے(اور غیرت و شرم کے باعث اور کسی سے پوچھ نہ سکے) یا سمجھے (حقیقت ِ حال سے آگاہ ہوئے) اور اس میں تفضیل شیخین کا خلاف پایا (مگر خاموش رہے اور جمہور صحابہ کرام کے برخلاف عقیدہ رکھا زبان پر اس کا خلاف نہ آنے دیا اور حالانکہ یہ ان کی پاک جنابوں میں گستاخی اور ان پر تقیہّ ملعونہ کی تہمت تراشی ہے) تو (اب ہم )کیونکر خلاف سمجھ لیں (کسے کہہ دیں کہ ان کے دل میں خلاف تھا زبان سے اقرار )اور تصریحات بیّنہ و قاطع الد لالۃ (روشن صراحتوں قطعی دلالتوں ) وغیر محتملۃ الخلاف کو (جن میں کسی خلاف کا احتمال نہیں کوئی ہیر پھیر نہیں )کیسے پس پشت ڈال دیں الحمد ﷲرب العلمین کہ حق تبارک و تَعَالٰی نے فقیر حقیر کو یہ ایسا جواب شافی تعلیم فرمایا کہ منصف (انصاف پسندذی ہوش)کے لیے اس میں کفایت (اور یہ جواب اس کی صحیح رہنمائی وہ ہدایت کے لیے کافی) اور متعصب کو (کہ آتش غلو میں سُلگتا اور ضد و نفسانیت کی راہ چلتا ہے) اس میں غیظ بے نہایت {قُلْ  مُوْتُوْا  بِغَیْظِكُمْؕ- } (انہیں آتش ِ غضب میں جلنا مبارک) (ہم مسلمانانِ اہلسنت کے نزدیک حضرت مولیٰ کی ماننا) یہی محبتِ علی مرتضیٰ ہے اور اس کا بھی (یہی تقاضا )یہی مقتضیٰ ہے کہ محبوب کی اطاعت کیجئے اور اس کے غضب اور اَسّی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے (والعیاذ باللہ )‘‘۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۲۹: ص۳۶۳ تا۳۷۰۔

٭ نوٹ : ’’فتاوی رضویہ‘‘ شریف کے مندرجہ بالا کلام میں قوسین ( ) کی عبارت ، حضرت خلیل ملت علامہ مولانا خلیل خان قادری برکاتی رحمۃ اللہتَعَالٰی علیہ کی ہے ۔

18 في ’’الفتاوی البزازیہ‘‘:کتاب السیر:نوع فی مایتصل بہ۔۔۔إلخ:ج۶: ص۳۱۹: (الرافضي إن کان یفضل علیاً علیہما فہو مبتدع): ھامش ’’الہندیۃ‘‘۔وفي ’’فتح القدیر‘‘:باب الإمامۃ:ج۱: ص۳۰۴: (وفي الروافض أنّ من فضل علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع

وفي ’’البحرالرائق‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ:إمامۃالعبدوالأعرابيوالفاسق۔۔۔إلخ:ج۱: ص۶۱۱: (والرافضی إن فضل علیاً علی غیرہ فہو مبتدع

[19] في’’مطلعالقمرین‘‘:ص۱۱۰ عن ’’شرح المقاصد‘‘: (الکلام في الأفضلیۃ بمعنی الکرامۃ عند اللّٰہ تعالی وکثرۃ الثواب و’’شرح المواقف‘‘: (ومرجعہاأي: مرجعالأفضلیۃالتي نحن بصددھاإلی کثرۃ الثواب والکرامۃ عند اللّٰہ تعالی

[20] یعنی اکثر و بیشتر اجر کی زیادتی ایسے شخص کے لیے ہوتی ہے جو افضل نہ ہو۔

[21] في ’’الصواعقالمحرقۃ‘‘:ص۲۱۳: (إنّ المفضول قد یکون فیہ مزیۃ لا یوجد في الفاضل: وأیضاً مجرّد زیادۃ الأجرلا تستلزم الأفضلیۃ المطلقۃ

[22] عن أبي أمیۃ الشعباني قال: أتیت أبا ثعلبۃ الخشني فقلت لہ: کیف تصنع بہذہ الآیۃ؟ قال: أیّۃُ آیۃ؟ قلت: قولہ تعالی: { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-} قال: أمَا واللّٰہ لقد سألت عنہا خبیرا سألت عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ((بل ائتمروا بالمعروف وتناہوا عن المنکر حتی إذا رأیت شحّاً مطاعاً وہوًی متّبعاً: ودنیَا مؤثرۃً وإعجاب کل ذي رأي برأیہ فعلیک بخاصۃ نفسک ودع العوامّ: فإنّ من ورائکم أیاماً الصبر فیہن مثل القبض علی الجمر: للعامل فیہن مثل أجر خمسین رجلا یعملون مثل عملکم)): قال عبد اللّٰہ بن المبارک: وزادني غیر عتبۃ قیل: یا رسول اللّٰہ! أجر خمسین منّا أو منہم: قال: ((لا: بل أجر خمسین رجلاً منکم))۔’’سنن لترمذي‘‘:کتاب التفسیر:باب ومن سورۃالمائدۃ:الحدیث: ۳۰۷۹: ج۵: ص۴۲۔و’’ابن ماجہ‘‘:کتاب الفتن:بابقولہ تعالی: { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ ۔۔۔إلخ}:الحدیث: ۴۰۱۴: ج۴: ص۳۶۵۔ في ’’فتح الباري‘‘:کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ج۷: ص۶: تحت الحدیث: ۳۶۵۱: (أنّ حدیث: ((للعامل منہم أجر خمسین منکم))لا یدلّ علی أفضلیۃ غیر الصحابۃ علی الصحابۃ؛ لأنّ مجرد زیادۃ الأجر لا یستلزم ثبوت الأفضلیۃ المطلقۃ: وأیضاً فالأجر إنّما یقع تفاضلہ بالنسبۃ إلی ما یماثلہ في ذلک العمل: فأمّا ما فاز بہ من شاہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من زیادۃ فضیلۃ المشاہدۃ فلا یعدلہ فیہا أحد

[23]في’’مجموعۃالحواشي البہیۃ‘‘:’’حاشیۃعصام‘‘علی’’شرح العقائد‘‘:ج۲:ص۲۳۶:

(قولہ:’’علی ہذاالترتیب أیضاً‘‘: یشعرأنّ مبني ترتیب الخلافۃعلی ترتیب الأفضلیۃالتي حکم بہاالسلف)۔وفي ’’الطریقۃالمحمدیۃ‘‘مع شرح’’الحدیقۃالندیۃ‘‘:ج۱: ص۲۹۳: (وأفضلہم أبو بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ: ثم عمر الفاروق: ثم عثمان ذو النورین: ثم علي المرتضی: وخلافتہم) أي: ہؤلاء الأربعۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کانت (علی ھذا الترتیب أیضاً) أي: کما ہي فضیلتہم کذلک: (ثم) بعدہم في الفضیلۃ (سائر) أي: بقیۃ (الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم أجمعینوفي ’’المعتقدالمنتقد‘‘:الباب الرابع في الإمامۃ:ص۱۹۱: (والإمام الحق بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم أبو بکر: ثم عمر: ثم عثمان: ثم علي رضي اللّٰہ تعالی عنہم أجمعین: والفضیلۃ علی ترتیب الخلافۃیعنی: اور امام بر حق رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے بعد ابو بکر ، پھر عمر ،پھر عثمان ،پھر علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِین ہیں ، اور (ان چاروں کی ) فضیلت ترتیب خلافت کے موافق ہے ۔قال الإمام أحمد رضا في حاشیتہ ’’المعتمدالمستند‘‘:نمبر۳۱۶: ص۱۹۱: تحت اللفظ: ’’والفضیلۃ‘‘(تبع في ہذہ العبارۃ الحسنۃ الأئمۃ السابقین: وفیہا ردّ علی مفضلۃ الزمان المدعین السنیۃ بالزور والبہتان حیث أوّلوا مسألۃ ترتیب الفضیلۃ بأنّ المعنی الأولویۃ للخلافۃ الدنیویۃ: وہي لمن کان أعرف بسیاسۃ المدن وتجہیز العساکر وغیر ذلک من الأمور المحتاج إلیہا في السلطنۃ: وہذا قول باطل خبیث مخالف لإجماع الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ تعالی عنہم: بل الأفضلیۃ في کثرۃ الثواب وقرب ربّ الأرباب والکرامۃ عند اللّٰہ تعالی: ولذا عبر عن المسألۃ في ’’الطریقۃالمحمدیۃ‘‘وغیرہافي بیان عقائدالسنۃبأنّ أفضل الأولیاءالمحمدیین أبوبکرثم عمرثم عثمان ثم علي رضي اللّٰہ تعالی عنہم:وللعبدالضعیف في الردّعلی ھؤلاءالضالین کتاب حافل کافل بسیط محیط سمّیتُہ ’’مطالع القمرین بإبانۃسبقۃالعمرین‘‘۱۲)۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہتَعَالٰی علیہ اس کے حاشیہ میں ’’والفضیلۃ‘‘ کے تحت کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اس حسین عبارت میں مصنف رحمۃاللہ تعالی علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے میں تفضیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنّی ہونے کے مدّعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلت میں ترتیب کے مسئلے کو (ظاہر سے) اس طرف پھیر ا کہ خلافت میں اولویت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا ، او ریہ اس کے لئے ہے کہ جو شہروں کے انتظام اور لشکرسازی ، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو ۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے ، صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اجماع کے خلاف ہے۔ بلکہ افضلیت ثواب کی کثرت میں اور رب الارباب (اللہ تعالی) کی نزدیکی میں اور اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک بزرگی میں ہے ، اسی لئے ’’ طریقہ محمدیہ‘‘وغیرہا کتا بوں میں اہلسنت وجماعت کے عقیدوں کے بیان میں اس مسئلے کی تعبیر یوں فرمائی کہ اولیاء محمد یین (محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی امت کے اولیاء) میں سب سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان ہیں پھر علی ہیں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور اس ناتو اں بندے کی ان گمراہوں کے رد میں ایک جامع کتاب ہے جو کافی او ر مفصل اور تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جس کا نام میں نے’’مطلع القمرین في إبانۃ سبقۃ العمرین‘‘ رکھا ۔ ۱۲ امام اہلسنترَضِیَ اللہتَعَالٰی عنہ انظر: ’’مطلع القمرین في إبانۃسبقۃالعمرین‘‘:ص۱۰۸

[24] میں نے کسی کو ایسا جواں مرد نہیں دیکھا جو اتنا کام کرسکے، حتیٰ کہ لوگ (اُن کے نکالے ہوئے پانی سے) سیراب ہوگئے۔

’’سنن الترمذي‘‘:کتاب الرؤیا:باب ماجاءفيرؤیاالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المیزان والدلو: الحدیث: ۲۲۹۶: ج۴: ص۱۲۷۔

[25] ان کے (دورانِ خواب، کنوئیں سے پانی) نکالنے میں کمزوری تھی، اللہ عزوجل ا نہیں معاف فرمائے۔

’’صحیح البخاري‘‘کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ تَعَالٰی علیہ وسلم: الحدیث: ۳۶۷۶: ج۲: ص۵۲۴۔

[26] في ’’شرح المسلم‘‘للنووي:کتاب فضائل الصحابۃ:ص۲۷۲: (واتفق أہل السنۃ علی أنّ أفضلہم أبوبکر: ثم عمر: قال جمہورہم: ثم عثمان: ثم علي: قال أبو منصورالبغدادي: أصحابنا مجمعون علی أنّ أفضلہم الخلفاء الأربعۃ علی الترتیب المذکور ثم تمام العشرۃ: ثم أہل بدر: ثم أُحد: ثم بیعۃ الرضوان): ملتقطاً۔وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:أفضلیۃالصحابۃ بعد الخلفاء: ص۱۱۹: (أجمع أھل السنۃ والجماعۃ علی أنّ أفضل الصحابۃ أبو بکر فعمر فعثمان فعلي: فبقیۃ العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ: فأھل بدر: فباقيأھل أحد: فباقي أھل بیعۃ الرضوان بالحدیبیۃ

[27] { اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)} پ۱۷: الأنبیاء :۱۰۱۔۱۰۳۔

{ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)} پ۱۱: التوبۃ: ۱۰۰۔

{ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰)}پ۲۷: الحدید: ۱۰۔

عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((الحسن والحسین سیدا شباب أہل الجنۃ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘:کتاب المناقب:باب مناقب أبي محمدالحسن۔۔۔إلخ:الحدیث: ۳۷۹۳: ج۵: ص۴۲۶۔ و’’سنن ابن ماجہ‘‘:کتاب السنۃ: الحدیث: ۱۱۸: ج۱: ص۸۴۔ عن جابر عن أم مبشر عن حفصۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إني لأرجو أن لا یدخل النار إن شاء اللّٰہ أحد شہد بدراً والحدیبیۃ)): قالت: فقلت: ألیس اللّٰہ عزوجل یقول:{ وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-}: قال: فسمعتہ یقول: { ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(۷۲)

’’المسند‘‘للإمامأحمدبنحنبل:مسندجابربنعبداللّٰہ:الحدیث: ۲۶۵۰۲: ج۱۰: ص۱۶۳۔

{ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ } پ۲۶: الفتح: ۱۸۔

عن جابر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أنّہ قال: ((لا یدخل النار أحد ممن بایع تحت الشجرۃ))۔

’’سنن أبي داود‘‘:کتاب السنۃ: باب في الخلفاء: الحدیث: ۴۶۵۳:ج۴: ص۲۸۱۔و’’سنن الترمذي‘‘:کتاب المناقب:باب في فضل من بایع تحت الشجرۃ:الحدیث: ۳۸۸۶: ج۵: ص۴۶۲۔

شیخ المحققین خاتم المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہتَعَالٰی علیہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’تکمیل الایمان‘‘ میں فرماتے ہیں :

ذکر عشرہ مبشرہ :

باقي العشرۃ المبشرۃ: یعنی بعد از خلفاء اربعہ فضیلت بقیہ عشرہ مبشرہ کے لیے ہے ، اور عشرہ مبشرہ جن کی عرفیت ہے ، وہ دس صحابہ کرام ہیں جن کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے دنیا میں جنت کی بشارت دے کر فرمایا :((أبو بکر في الجنۃ وعمر في الجنۃ وعثمان في الجنۃ وعلي في الجنۃ وطلحۃ في الجنۃ والزبیر في الجنۃ وعبد الرحمن بن عوف في الجنۃ وسعد بن أبي وقاص في الجنۃ وسعید بن زید في الجنۃ وأبو عبیدۃ بن الجراح في الجنۃ))۔

’’سنن الترمذي‘‘:کتابالمناقب:الحدیث: ۳۷۶۸: ج۵: ص۴۱۶: و’’المسند‘‘:ج۱: ص۴۱۰: الحدیث: ۱۶۷۵۔

یعنی: ابو بکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں ، عثمان جنتی ہیں ، علی جنتی ہیں ، طلحہ جنتی ہیں ، زبیر جنتی ہیں ،عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں ، سعد بن ابی وقاص جنتی ہیں ، سعید بن زید جنتی ہیں ، ابو عبیدہ بن الجراح جنتی ہیں ،(رَضِیَ اللہتَعَالٰی عنہم)

یہ دس صحابہ کرام خیار امت ، افاضل صحابہ ، اکابر قریش ،پیشوائے مہاجرین اور اقاربِ مصطفیصَلَّی اللہتَعَالٰی علیہ وعلی آلہ واصحابہ اَجْمَعِیْن وسلم ، ان کے لیئے سبقت ایمان اور خد مت اسلام ثابت ہے ، جوکہ اوروں کے لئے نہیں ہے ، ان کا جنتی ہونا قطعی ہے لیکن یہ قطعیت بشارت انہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ ان کے سوا بھی اور اصحاب بشارت یافتہ ہیں مثلاً :سید تنا فاطمہ ، امام حسن ، امام حسین ، حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ ، حضرت حمزہ ،حضرت عباس ،حضرت سلمان ، حضرت صہیب ، حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرھا ۔ان د س اصحاب مبشرہ کی شہرت ولقب ،وقوع بشارت ایک حدیث اور ایک وقت میں ہونے کی وجہ سے ہے اور ان کا ذکر عقائد کے ضمن میں بسبب اہتمام بشارت ، اور اہل زیغ کے مذہب کے ردوا بطال کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ ان کی شان میں گستاخی کرتے اور بے ادبی کی راہ چلتے ہیں ، اور عام مخلوق جان لے کہ دخول جنت کی بشارت ان ہی دسوں کے ساتھ قطعی اور مخصوص ہے یہ گمان محض غلط اور صریح جہالت ہے ۔ور بعض عربی کے طالب علم جو نا پختہ اور عام جہلا ء سے بڑ ھ کر ہیں کہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی بشارت ہے لیکن ان عشرہ مبشرہ کی بشارت قطعی ہے اور ان کے سوا اوروں کے لیئے ظنی ہے اور ان دسوں کی درجہ بشارت سے قوت وشہرت اور تواتر میں کم ہے ۔ اس گمان فاسد کی منشاء عد م تتبع احادیث او ر علم حدیث کی خدمت میں کوتا ہی کی وجہ سے ہے ، اللہتَعَالٰی ان سے در گزر فرمائے ، ہم نے اس بحث کو اسی زمانہ میں ایک مستقل کتاب میں جس کانام’’تحقیق الإشارۃفي تعمیم البشارہ‘‘ہے تفصیل وتحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور مبشرین کے نام بھی جو کہ احادیث میں نظر سے گزرے ذکر کردیے ہیں ۔

حق وصواب یہی ہے کہ خلفاء اربعہ، فاطمہ وحسن وحسین وغیرہمرَضِیَ اللہ عنہم کی بشارت مشہور اور اصل بحد تواتر معنوی ہے باقی عشرہ مبشرہ کی بشارت بھی بحد شہرت پہنچی ہوئی ہے اور بعض دیگر صحابہ بھی اخبار احاد سے تفاوت مراتب کے ساتھ صاحب بشارت ہیں ، اور حکم غیر مبشرین کا یہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ: مومنین ومسلمین جنتی، اور کفار دوزخی ،بغیر جزم و یقین، اور بلا قطعی کسی کے جنتی یا نار ی کی خصوصیت کے ، اس کی مکمل تحقیق کتاب مذکور میں ملاحظہ کریں ۔ وباللہ التوفیق۔

ذکر أہل بدر: أھل بدر: یعنی بعد عشرہ مبشرہ کے فضیلت بدری اصحاب کے لئے ہے ۔ اوراہل بد ر تین سو تیرہ (۳۱۳) اصحاب ہیں وہ سب قطعی طور پر جنتی ہیں کیونکہ ان کی شان میں فرمایا گیا: ((إنّ اللّٰہ قد اطّلع علی أھل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم))۔

یعنی: بے شک اللہتَعَالٰی اہل بد ر کو مطلع فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ :جو چا ہو عمل کرو بے شک میں نے تم کو بخش دیا ۔

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الجھادوالسیر:باب الجاسوس: الحدیث: ۳۰۰۷: ج۲: ص۳۱۱۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:((لن یدخل اللّٰہ النار رجلاً شہد بدراً والحدیبیۃ))۔ یعنی: اللہتَعَالٰی بدر و حدیبیہ میں حاضر ہونے والوں کو ہرگز آگ میں داخل نہ کرے گا۔

ذکر أہل أحد: فأحد: یعنی بعد از اہل بد ر فضیلت اہل غزوہ اُحد کے لئے ہے جو کہ سال چہارم ہجری میں واقع ہوا۔

بیعت رضوان :

أھل بیعت الرضوان: یعنی اہل غزوہ احد کے بعد فضیلت اہل بیعت رضوان کے لئے ہے ۔ یہ وہ نامی بیعت ہے جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں سے ہوئی چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:{ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ }پ۲۶: الفتح: ۱۸۔ ترجمہ : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے۔

اور حدیث مبارک میں ہے: ((لا یدخل النار أحدٌ بایعني تحت الشجرۃ))۔ یعنی: اللہتَعَالٰی کسی کو دوزخ میں نہ ڈالے گا جنہوں نے درخت کے نیچے مجھ سے بیعت کی۔ یہ سب بھی جنتی ہیں ، اور افضلیت میں یہ ترتیب مذکور مجمع علیہ ہے جسے ابو منصور تمیمی نے نقل کیا ہے ۔ ان تمام مذکور ین صحابہ کے بعد بھی بحسب فضائل ومآ ثر جو ان کے حق میں مروی ہیں ، وہ سب جنتی ہیں ، ان کے درجات ومقامات جدا جدا ہوں گے ، علماء نے ان کی تصریح منظور نہ کی ، واللہ اعلم۔’’تکمیل الایمان‘‘ (فارسی)، ص۱۶۱۔۱۶۵، (مترجم) ص۱۱۷۔۱۲۱۔

28 في ’’المسامرۃ‘‘:ص۳۱۳: (واعتقاد أہل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللّٰہ عنہم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم: (والثناء علیہم کما أثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالی علیہم إذ قال: { كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   }) وقال تعالی: { وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ } وسطاً: أي: عدولاً خیاراً۔

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:أفضلیۃالصحابۃبعدالخلفاء:ص۷۱: (ولا نذکر الصحابۃ) أي: مجتمعین ومنفردین: وفي نسخۃ : ولا نذکر أحداً من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم إلاّ بخیر: ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ((إذا ذکر أصحابي فأمسکوا)): ولذلک ذھب جمھور العلماء إلی أنّ الصحابۃ رضي اللّٰہ عنھم کلّھم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلي وکذا بعدہا): ملتقطاً۔

وفي’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘:ص۱۶۲: (ویکف عن ذکر الصحابۃ إلاّ بخیر

[29] عن عبد اللّٰہ بن مغفل قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((اللّٰہ اللّٰہ في أصحابي: لا تتخذوہم غرضاً بعدي: فمن أحبہم فبحبي أحبہم ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم: ومن آذاہم فقد آذاني: ومن آذاني فقد آذی اللّٰہ: ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ))۔’’سنن الترمذي‘‘:کتاب المناقب:بابمن سبّ أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحدیث: ۳۸۸۸: ج۵: ص۴۶۳۔

في ’’فیض القدیر‘‘:ج۲: ص۱۲۴: تحت الحدیث: (((اللّٰہ اللّٰہ في))حق (أصحابي) أي: اتقوا اللّٰہ فیہم ولا تلمزوہم بسوئ: أو اذکروا اللّٰہ فیہم وفي تعظیمہم وتوقیرہم: وکررہ إیذاناً بمزید الحث علی الکف عن التعرض لہم بمنقص

((لا تتخذوہم غرضاً)) ہدفاً ترموہم بقبیح الکلام کما یرمی الہدف بالسہام: ہو تشبیہ بلیغ ((بعدي))أي: بعد وفاتي…((ومن آذاہم))بما یسوء ہم ((فقد آذاني ومن آذاني فقد آذی اللّٰہ ومن آذی اللّٰہ یوشک أن یأخذہ))أي: یسرع انتزاع روحہ أخذۃ غضبان منتقم عزیز مقتدر جبار قہار { اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ }): ملتقطاً۔

[30] نبوت کا جھوٹا دعویدار مسیلمہ لعنتی۔

[31] (وحشي بن حرب الحبشي قاتل حمزۃ بن عبد المطلب رضي اللّٰہ عنہ یوم أحد: وشَرِک في قتل مسیلمۃ الکذاب یوم الیمامۃ: وکان یقول: قتلت خیر الناس في الجاھلیۃ وشرّ الناس في الإسلام ’’أسدالغابۃفي معرفۃالصحابۃ‘‘:الجزءالخامس:رقمالترجمۃ: ۵۴۴۲: ص۴۵۴۔

[32] نفرت کا اظہار کرنا۔

[33] في ’’الدرالمختار‘‘:کتاب الجہاد:باب المرتد:ج۶: ص۳۶۲: (من سب الشیخین أو طعن فیہما کفر ولا تقبل توبتہ

وفي ’’البزازیۃ‘‘:ج۶: ص ۳۱۹: (الرافضي إن کان یسب الشیخین ویلعن ہما فہو کافر): (ھامش ’’الہندیۃ‘‘)۔

وفیہا ج۶: ص ۳۱۸: (من أنکر خلافۃ أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ فہو کافر في الصحیح: ومنکر خلافۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ فہو کافر في الأصحّ): (ھامش ’’الہندیۃ‘‘)۔وفي ’’فتح القدیر‘‘:بابالإمامۃ:ج۱: ص۳۰۴: (وفي الروافض أنّ من فضل علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر رضي اللّٰہ عنہما فہو کافر

وفي ’’البحرالرائق‘‘:کتاب الصلاۃ:إمامۃالعبدوالأعرابي والفاسق۔۔۔إلخ:ج۱: ص۶۱۱: (والرافضي إن فضّل علیاً علی غیرہ فہو مبتدع : وإن أنکر خلافۃ الصدیق فہو کافر

في ’’ردالمحتار‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الإمامۃ:ج۲: ص۳۵۸: (وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر فہو کافر

وفي ’’تبیین الحقائق‘‘:کتاب الصلاۃ:الأحق بال إمامۃ:ج۱: ص۳۴۷: (وفي الروافض إن فضل علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر فہو کافر انظر للتفصیل ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:کتابالسیر:ج۱۴: ص۲۵۱۔

[34] في ’’المرقاۃ‘‘:کتاب الفتن:تحت الحدیث: ۵۴۰۱: ج۹: ص۲۸۲: (من القواعد المقررۃ أنّ العلماء والأولیاء من الأمۃ لم یبلغ أحد منہم مبلغ الصحابۃ الکبراء اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں : ’’تابعین سے لے کرتا بقیامت امت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے صاحب ِسلسلہ ہو خواہ غیر ان کا، ہرگز ہرگز ان (یعنی صحابہ) میں سے ادنی سے ادنی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، اور ان میں ادنی کوئی نہیں ۔’’الفتاویالرضویۃ‘‘:ج۲۹: ص۳۵۷۔

[35] ہلکی سی آواز بھی۔

[36] { اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)} پ۱۷: الأ نبیاء: ۱۰۱۔ ۱۰۳۔

[37] { وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ } پ۸: الأعراف: ۴۳۔

في ’’التفسیرالکبیر‘‘:ج۵: ص۲۴۲۔۲۴۳: تحت الآیۃ: (ومعنی نزع الغل: تصفیۃ الطباع وإسقاط الوساوس ومنعہا من أن ترد علی القلوب:۔۔۔۔۔۔۔۔ وإلی ہذا المعنی أشار علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ فقال: إنّي لأرجو أن أکون أنا وعثمان وطلحۃ والزبیر من الذین قال اللّٰہ تعالی فیہم: { وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ })۔

وفي ’’روح البیان‘‘:تحت الآیۃ: ج۳: ص۱۶۲: (قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: نزلت ہذہ الآیۃ في أبي بکر وعمر وعثمان وعلي وطلحۃ والزبیر وابن مسعود وعمار بن یاسر وسلمان وأبي ذر ینزع اللّٰہ في الآخرۃ ما کان في قلوبہم من غشّ بعضہم لبعض في الدنیا من العداوۃ والقتل الذي کان بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والأمر الذي اختلفوا فیہ فیدخلون إخواناً علی سرر متقابلین

[38] {{ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰)}پ۲۷: الحدید : ۱۰۔

[39] ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۲۹: ص۱۰۰ ۔ ۱۰۱: ۲۶۴: ۳۳۶: ۳۶۱۔۳۶۳۔

[40] حدثنا ابن أبي مریم: حد ثنا نافع بن عمر: حدثني ابن أبي ملیکۃ: (قیل لابن عباس: ہل لک في أمیر المؤمنین معاویۃ فإنّہ ما أوتر إلاّ بواحدۃ قال: أصاب إنّہ فقیہ

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: باب ذکر معاویۃ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ: الحدیث: ۳۷۶۵: ج۲: ص۵۰۵۔ و’’المشکاۃ‘‘:کتاب الصلاۃ:باب الوتر:الحدیث: ۱۲۷۷: ج۱: ص۲۵۰۔

في ’’المرقاۃ‘‘:ج۳: ص ۳۴۹۔۳۵۰: تحت الحدیث: (قال: أي: ابن عباس أصاب: أي: أدرک الثواب في اجتہادہ إنّہ فقیہ: أي: مجتہد وہو مثاب وإن أخطأ

[41] صحیح اور غلط۔

[42] في’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘:مبحث المجتھدقدیخطیٔ ویصیب:ص۱۷۵: (والمجتھد في العقلیات والشرعیات الأصلیۃ والفرعیۃ قد یخطیٔ وقد یصیب

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:المجتہدفي العقل یاتی خطیٔ ویصیب:ص۱۳۳: (أنّ المجتھد في العقلیات والشرعیات الأصلیۃ والفرعیۃ قد یخطیٔ وقد یصیب

[43] ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۲۹: ص۳۳۵ ۔ ۳۳۶۔

[44] یعنی تائید و سندِ حق۔

[45] عن عمر بن عبد العزیز رضي اللّٰہ عنہ قال: (رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في المنام وأبو بکر وعمرجالسان عندہ: فسلمت علیہ وجلست: فبینما أنا جالس إذ أتي بعلي ومعاویۃ: فأدخلا بیتا وأجیف الباب وأنا أنظر: فما کان بأسرع من أن خرج علي وہو یقول: قضی لي ورب الکعبۃ: ثم ما کان بأسرع من أن خرج معاویۃ وہو یقول: غفر لي ورب الکعبۃ

’’البدایۃوالنہایۃ‘‘:ج۵: ص۶۳۳۔

وفي ’’تأریخ مدینۃدمشق‘‘:عن یزیدبنالأصمقال: لماوقع الصلح بین علي ومعاویۃخرج علي فمشی في قتلاہ فقال: ہؤلاءفي الجنۃ:ثم مشی في قتلی معاویۃفقال: ہؤلاءفي الجنۃ:ولیصیرالأمر إلي وإلی معاویۃ:فیحکم لي ویغفرلمعاویۃ؛ہکذاأخبرني حبیبي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

وعن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أوّل من یختصم في ہذہ الأمۃ بین یدي الرب علي ومعاویۃ: وأوّل من یدخل الجنۃ أبو بکر وعمر)): قال ابن عباس:کنت جالساً عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعندہ أبو بکر وعمر وعثمان ومعاویۃ إذ أقبل علي بن أبي طالب: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمعاویۃ: ((أتحب علیاً یا معاویۃ؟)) فقال معاویۃ: إي واللّٰہ! الذي لا إلہ إلاّ ہو إنّي لأحبہ في اللّٰہ حباً شدیداً: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّہا ستکون بینکم ہنیہۃ)): قال معاویۃ: ما یکون بعد ذلک یا رسول اللّٰہ؟ فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عفو اللّٰہ ورضوانہ: والدخول إلی الجنۃ)): قال معاویۃ: رضینا بقضاء اللّٰہ فعند ذلک نزلت ہذہ الآیۃ: { وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا۫-وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠(۲۵۳)’’تأریخ مدینۃ دمشق‘‘:ج۵۹: ص۱۳۹۔۱۴۰۔

[46]

[47] في’’نسیم الریاض‘‘:القسم الثاني فی مایجب علی الأنام من حقوقہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: ج۵: ص۹۳: ({ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ] فیدعی بذلک المذکور من المغفرۃ والرحمۃ والترضي لسائر المؤمنین والصحابۃ وأمّا ما قیل: من أنّہ لا یدعی للصحابۃ إلاّ برضي اللّٰہ تعالی عنھم: فھو أمرحسن للأدب

[48] في ’’النبراس‘‘:ص۳۰۸: (والخلافۃ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثون سنۃ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ((الخلافۃ ثلاثون سنۃ…)) وقد استشہد علي رضي اللّٰہ عنہ علی رأس ثلاثین سنۃ أي: نہایتہا من وفات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہذا تقریب: والتحقیق أنّہ کان بعد علي رضي اللّٰہ عنہ نحو ستۃ أشہر باقیۃ من ثلثین سنۃ وہي مدۃ خلافۃ الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما: وکان کمال ثلثین عند تسلیم الحسن الخلافۃ إلی معاویۃ: وعمر بن عبد العزیز وہو خامس الخلفاء الراشدین صاحب الحدیث والاجتہاد والتقوی والعدل والکرامات والمناقب الرفیعۃ): ملتقطاً۔

[49] عن محمد بن الحنفیۃ: قال: کنا عند علي رضي اللّٰہ عنہ: فسألہ رجل عن المہدي: فقال علي رضي اللّٰہ عنہ: ((ہیہات: ثم عقد بیدہ سبعاً: فقال: ذاک یخرج في آخر الزمان۔۔۔إلخ))۔

’’المستدرک‘‘للحاکم:کتاب الفتن والملاحم:الحدیث:۸۷۰۲: ج۵: ص ۷۶۶۔۷۶۷۔

في’’منح الروض الأزہر‘‘:ص۶۵:((الخلافۃ بعدي ثلاثون سنۃ ثم تصیر ملکاً عضوضاً)) ولا یشکل بأنّ أہل الحل والعقد من الأمۃ قد کانوا متفقین علی خلافۃ الخلفاء العباسیۃ وبعض المروانیۃ کعمر بن عبد العزیز: فإنّ المراد بالخلافۃ المذکورۃ في الحدیث الخلافۃ الکاملۃ التي لا یشوبہا شيء من المخالفۃ ومیل عن المتابعۃ یکون ثلاثون سنۃ: وبعدہا قد تکون وقد لا تکون: إذ قد ورد في حق المہدي أنّہ خلیفۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: والأظہر أنّ إطلاق الخلیفۃ علی الخلفاء العباسیۃ کان علی المعاني اللغویۃ المجازیۃ العرفیۃ دون الحقیقۃ الشرعیۃ): ملتقطاً۔

[50] في ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:ص۶۸۔۶۹: (وأول ملوک المسلمین معاویۃ رضي اللّٰہ عنہ

[51] ’’المستدرک‘‘:کتاب تواریخ المتقدمین من الأنبیاءوالمرسلین:الحدیث: ۴۳۰۰: ج ۳: ص۵۲۶۔

و’’دلائل النبوۃ‘‘للبیہقي:ج۶: ص۲۸۱: و’’مشکاۃالمصابیح‘‘:کتاب الفضائل:الحدیث: ۵۷۷۱: ج۳: ص۳۵۸۔

[52] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ ابني ہذا سید ولعل اللّٰہ أن یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین))۔

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الصلح:قولالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علي:الحدیث: ۲۷۰۴: ج۲: ص۲۱۴۔ و’’الجامع الصغیر‘‘:الحدیث: ۲۱۶۷: ج۱: ص۱۳۲۔في ’’فیض القدیر‘‘:ج۲: ص۵۱۹: تحت الحدیث: ((أن یصلح بہ) یعني: بسبب تکرمہ وعزلہ نفسہ عن الخلافۃ: وترکہا کذلک لمعاویۃ (بین فئتین عظیمتین من المسلمین) وکان ذلک: فلما بویع لہ بعد أبیہ وصار ہو الإمام الحق مدۃ ستۃ أشہر تکملۃ للثلاثین سنۃ التي أخبر المصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنّہا مدۃ الخلافۃ وبعدہا یکون ملکاً عضوضاً ثم سار إلی معاویۃ بکتائب کأمثال الجبال وبایعہ منہم أربعون ألفاً علی الموت: فلما تراء ی الجمعان علم أنّہ لا یغلب أحدہما حتی یقتل الفریق الآخر فنزل لہ عن الخلافۃ لا لقلۃ ولا لذلۃ بل رحمۃ للأمۃ۔۔۔ إلخوفي ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ: ص۶۸۔۶۹: (أول ملوک المسلمین معاویۃ رضي اللّٰہ عنہ وہو أفضلہم لکنّہ إنما صار إماماً حقاً لما فوض إلیہ الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما الخلا فۃ: فإنّ الحسن بایعہ أھل العراق بعد موت أبیہ ثم بعد ستۃ أشہر فوض الأمر إلی معاویۃ رضي اللّٰہ عنہ

[53] ’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الصلح:بابقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علي رضی اللّٰہ عنھما: إنّ ابني ھذا۔۔۔إلخ:الحدیث: ۲۷۰۴: ج۲: ص۲۱۴۔

[54] وفي ’’المعتمدالمستند‘‘:حاشیۃنمبر۳۱۹: ص۱۹۲: (في ’’الجامع الصحیح‘‘: إنّ ابني ھذاسیدلعلّ اللّٰہ أن یصل حبہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین: وبہ ظھر أنّ الطعن علی الأمیر معاویۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ طعن علی الإمام المجتبی بل علی جدہ الکریم صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم: بل علی ربہ عزّوجل

[55] عن عائشۃ قالت: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّہ لیھون علي الموت: إني أریتک زوجتي في الجنۃ))۔

’’المعجم الکبیر‘‘للطبراني:الحدیث: ۹۸: ج۲۳: ص۳۹۔وحد ثتنا عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذکر فاطمۃ رضي اللّٰہ عنھا: قالت: فتکلمت أنا: فقال: ((أما ترضین أن تکوني زوجتي في الدنیا والآخرۃ؟)) قالت: بلی واللّٰہ: قال: ((فأنت زوجتي في الدنیا والآخرۃ))۔’’المستدرک‘‘للحاکم:فضائل عائشۃعن لسان ابن عباس:الحدیث: ۶۷۸۹: ج۵: ص۱۲۔

عن عمار قال: ((إنّ عائشۃزوجۃالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الجنۃ))۔’’المصنف‘‘لابن أبي شیبۃ:کتاب الفضائل:باب ماذکرعائشۃرضي اللّٰہ عنہا: الحدیث: ۱۰: ج۷: ص ۵۲۹۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۲۹: ص۳۷۶۔

[56] ((یا معشر المسلمین من یعذرني من رجل قد بلغني عنہ أذاہ في أہلي۔۔۔ إلخ))

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب المغازي:باب حدیث الإفک:الحدیث: ۴۱۴۱: ج۳: ص۶۴۔

وفي روایۃ: حدثنا ہشام عن أبیہ قال:… قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((یا أم سلمۃ لا تؤذیني في عائشۃ فإنّہ واللّٰہ ما نزل علي الوحي وأنا في لحاف امرأۃ منکنّ غیرہا’’صحیح البخاري‘‘:کتاب فضائل أصحاب النبي:باب فضل عائشۃرضي اللّٰہ عنہا:الحدیث: ۳۷۷۵: ج۲: ص۵۵۲۔

وفي ’’المرقاۃ‘‘: تحت الحدیث: ۶۱۸۹: فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہا: (((لا تؤذیني في عائشۃ)) أي: في حقہا: وہو أبلغ مِن لا تؤذي عائشۃ لما یفید من أن ما آذاہا فہو یؤذیہ ج۱۰: ص۵۶۱۔

[57] … وہ دس صحابہ جنہیں اُن کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی جن کے نام صفحہ نمبر ۲۵۰پر گزرے۔

[58] عن عبد الرحمٰن بن عوف قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((…وطلحۃ في الجنۃ والزبیر في الجنۃ…))۔

’’سنن الترمذي‘‘:أبواب المناقب:الحدیث: ۳۷۶۸: ج۵: ص۴۱۶۔

[59] (شہد الزبیر الجمل مقاتلاً لعلي: فناداہ علي ودعاہ: فانفرد بہ وقال لہ: أتذکر إذ کنت أنا وأنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فنظر إليّ وضحک وضحکتُ فقلت: أنت لا یدع ابن أبي طالب زہوہ فقال: لیس بمزہ: ولتقاتلنّہ وأنت لہ ظالم: فذکر الزبیر ذلک: فانصرف عن القتال: فنزل بوادي السباع: وقام یصلي فأتاہ ابن جرموز فقتلہ: وجاء بسیفہ إلی علي فقال: إنّ ہذا سیف طالما فرّج الکرب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثم قال: بشّر قاتل ابن صفیۃ بالنار

’’أسدالغابۃفي معرفۃالصحابۃ‘‘:ج۲: ص۲۹۷۔

وفیہ: (قتل طلحۃ یوم الجمل: وکان شہد ذلک الیوم محارباً لعلي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہما: فزعم بعض أہل العلم أنّ علیاً دعاہ: فذکّرہ أشیاء من سوابقہ علی ما قال للزبیر: فرجع عن قتالہ: واعتزل في بعض الصفوف: فرمي بسہم في رجلہ: وقیل: إنّ السہم أصاب ثغرۃنحرہ فمات:رماہ مروان بن الحکم)۔’’أسدالغابۃفي معرفۃالصحابۃ‘‘:ج۳: ص۸۵۔

ان روایتوں سے پتہ چلا کہ حضرت زبیر اور حضرت طلحہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہما دونوں سے خطاء اجتہادی واقع ہوئی اور یہ حضرت علیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہ کے مدمقابل ہوئے لیکن یاد دلانے پر الگ ہوگئے اور جنگ نہیں لڑی۔

[60] دشمنی کے طور پر ۔

[61] في ’’الدرالمختار‘‘:کتاب الجھاد:باب البغاۃ:ج۶: ص۳۹۸۔۳۹۹ : (البغي شرعاً: ھم الخارجون عن الإمام الحقّ بغیر حقّ فلو بحقّ فلیسوا ببغاۃ

[62] شریعت کی اصطلاح میں اسے باغی گروہ کہا گیاہے ۔

[63] في ’’صحیح البخاري‘‘: عن عکرمۃ: قال لي ابن عباس ولابنہ علي: انطلقا إلی أبي سعید:فاسمعامن حدیثہ:فانطلقنافإذاہوفي حائط یصلحہ: فأخذ رداء ہ فاحتبی: ثم أنشأ یحدثنا حتی أتی ذکر بناء المسجد فقال: کنا نحمل لبنۃ لبنۃ: وعمار لبنتین لبنتین فرآہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فینفض التراب عنہ ویقول: ((ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ یدعوہم إلی الجنۃ ویدعونہ إلی النار)) قال: یقول عمار: أعوذ باللّٰہ من الفتن۔

’’صحیح البخاري‘‘:کتاب الصلاۃ:باب التعاون في بناءالمسجد:الحدیث: ۴۴۷: ج۱: ص۱۷۱۔

[64] … گالی

[65] … آپرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہا کی پاکدامنی پر بہتان۔.

[66] في ’’الفتاوی الہندیۃ‘‘:الباب التاسع في أحکام المرتدین: (ولوقذف عائشۃرضي اللّٰہ عنھابالزنی کفر باللّٰہ ولو قذف سائر نسوۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یکفر ویستحق اللعنۃ’’الفتاوی الہندیۃ‘‘:الباب التاسع في أحکام المرتدین:ج۲: ص۲۶۴

و’’البحرالرائق‘‘:کتاب السیر:باب أحکامالمرتدین:ج۵: ص۲۰۴۔

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:ص۷۲: (سب الصحابۃ والطعن فیھم إن کان مما یخالف الأدلۃ القطعیۃ فکفر کقذف عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وإلاّ فبدعۃ وفسق ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:ج۱۴: ص۲۴۶۔

[67] لم نعثر علیہ۔

[68] … وہ فرقہ جو اپنے سینوں میں حضرت علی اور حسن و حسینرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہم سے بغض و کینہ رکھتے ہیں ۔

[69] … اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مولاناشاہ امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’ یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اہلسنت فاسق وفاجر وجری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق واتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر ولعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبلرَضِیَ اللہتَعَالٰی عنہ اور ان کے اتباع وموافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیص نام اس پر لعن کرتے ہیں اور اس آیۂ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں :{ فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳)} کیا قریب ہے کہ اگر والی مُلک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۔

شک نہیں کہ یزید نے والی مُلک ہوکر زمین میں فساد پھیلایا ، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں ، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَبے اذان ونماز رہی ، مکہ ومدینہ وحجاز میں ہزاروں صحابہ وتابعین بے گناہ شہید کئے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑ ا اور جلادیا، مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے جگر پارے کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر مع ہمرائیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے گود کے پالے ہوئے تن نازنین پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان مبارک چور ہوگئے ، سر انور کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکا بوسہ گاہ تھاکاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے ، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا ، ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق وفجور نہ جانے، قرآن عظیم میں صراحۃ اس پر { لَعَنَهُمُ اللّٰهُ } (ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ت) فرمایا، لہذا امام احمد اور ان کے موافقین ان پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظمرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہ نے لعن وتکفیر سے احتیاطا سکوت فرمایا کہ اس سے فسق وفجور متواتر ہیں کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال نسبت ِکبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر، اور امثال وعیدات مشروط بعدم ِتوبہ ہیں لقولہ تعالی { فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ }( تو عنقریب دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوئے۔ت) اور توبہ تادم ِ غرغرہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے، مگر اس کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریات مذہب اہل سنت کے خلاف ہے اور ضلالت وبدمذہبی صاف ہے ،بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبت ِ سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَکا شمّہ ہو، { وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷)}(اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)، شک نہیں کہ اس کا قائل ناصبی مردود اور اہل سنت کا عدو وعنود ہے‘‘۔

’’الفتاوی الرضویۃ‘‘:کتابالسیر:ج۱۴: ص۵۹۱۔۵۹۳۔

احکام شریعت میں فرماتے ہیں : ’’یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہل سنت کے تین قول ہیں امام احمد وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو بالآخر بخشش ضرور ہے اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر لہذا یہاں بھی سکوت کریں گے۔ واللّہ تعالی اعلم۔’’احکام شریعت‘‘:ص۱۶۵۔

انظر للتفصیل: ’’المسامرۃ‘‘:ماجری بین علي ومعاویۃرضي اللّٰہ عنہما:ص۳۱۷۔۳۱۸: و’’النبراس‘‘:ص۳۳۰۔۳۳۲: و’’منح الروض الأزہر‘‘للقاریٔ:ص۷۱۔۷۳: ’’شرح العقائدالنسفیۃ‘‘:ص۱۶۳۔۱۶۴: و’’فضائل دعا‘‘: ص۱۹۴۔۱۹۶۔

[70] عن ہند بن أبي ہالۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال: قال رسولاللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّاللّٰہ أبیلي أن أتزوَّج أوأُزوِّج إلاّأہلالجنۃ))۔’’الجامع الصغیر‘‘:ص۱۰۴: الحدیث: ۱۶۶۰۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((سألت ربي أن لا أزوج إلاّ من أہل الجنۃ ولا أتزوج إلاّ من أہل الجنۃ’’الجامعالصغیر‘‘:ص۲۸۳: الحدیث: ۴۶۰۷۔

عن عائشۃ قالت: ((بشر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خدیجۃ بنت خویلد ببیت في الجنۃ))۔

’’صحیح مسلم‘‘:کتاب فضائل الصحابۃ:فضائل خدیجۃ أم المؤمنین: الحدیث: ۲۴۳۴: ص۱۳۲۳۔ عن أبي زرعۃ قال: سمعت أبا ہریرۃ قال: ((أتی جبریل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ! ہذہ خدیجۃ قد أتتک معہا إناء فیہ إدام أو طعام أو شراب: فإذا ہي أتتک فاقرأ علیہا السلام من ربہا عز وجل ومنّي وبشّرہا ببیت في الجنۃ من قصب لا صخب فیہ ولا نصب))۔’’صحیح مسلم‘‘:کتاب فضائل الصحابۃ:فضائل خدیجۃأم المؤمنین:الحدیث: ۲۴۳۲: ص۱۳۲۲۔

عن عائشۃ قالت: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّہ لیھون علي الموت: إني أریتک زوجتي في الجنۃ))۔

’’المعجم الکبیر‘‘للطبراني:الحدیث:۹۸: ج۲۳: ص۳۹۔ عن عمار قال: ((إنّ عائشۃزوجۃالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الجنۃ))۔’’المصنف‘‘لابن أبي شیبۃ:کتاب الفضائل:باب ماذکرعائشۃرضي اللّٰہ عنہا:الحدیث: ۱۰: ج۷: ص ۵۲۹۔.

وحدثتنا عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذکر فاطمۃ رضي اللّٰہ عنھا: قالت: فتکلمت أنا: فقال: أما ترضین أن تکوني زوجتي في الد نیا والآخرۃ؟ قالت: بلی واللّٰہ: قال: فأنت زوجتي في الد نیا والآخرۃ))۔

’’المستدرک‘‘للحاکم:فضائل عائشۃعن لسانابن عباس:الحدیث: ۶۷۸۹: ج۵: ص۱۲۔قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((فاطمۃ سیدۃ نساء أہل الجنۃ))۔’’صحیح البخاري‘‘:کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم:باب مناقب فاطمۃرضي اللّٰہ عنہا:ج۲: ص۵۵۰۔انظر للتفصیل: عقیدہ نمبر (۵)۔

[71] في ’’کشف الغمّۃ‘‘:ج۲: ص۵۵: (وزوجاتہ وبناتہ أفضل نساء العالمین

[72] { اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)} پ۲۲: الأحزاب: ۳۳۔ في ’’تفسیرالخازن‘‘:ج۳: ص۴۹۹: تحت ہذہ الآیۃ: ({اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ }أي: الإثم الذي نہی اللّٰہ النساء عنہ: وقال ابن عباس: یعني عمل الشیطان وما لیس للّٰہ فیہ رضا: وقیل: الرجس الشک وقیل: السو ء في ’’التفسیرالکبیر‘‘:ج۹: ص۱۶۸: تحت ہذہ الآیۃ: (واختلفت الأقوال في أہل البیت: والأولی أن یقال: ہم أولادہ وأزواجہ والحسن والحسین منہم وعلي منہم؛ لأنّہ کان من أہل بیتہ بسبب معاشرتہ ببنت النبي علیہ السلام وملازمتہ للنبي

Share