اِحترامِ مسلم

(38)اِحترامِ مسلم

اِحترامِ مسلم کی تعریف:

مسلمان کی عزت و حرمت کا پاس رکھنا اور اسے ہر طرح کے نقصان سے بچانے کی کوشش کرنا اِحترامِ مسلم کہلاتا ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۹۱)

آیت مبارکہ:

(1)ارشادِ باری تَعَالٰی ہے:(وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ)(پ۵،النساء:۳۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے۔‘‘

(2)فرمانِ باری تَعَالٰی ہے:( وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ ) (پ۱۳،الرعد:۲۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور وہ کہ جو ڑ تے ہیں اُسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا۔‘‘

صَدرُالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں: “یعنی اللہ کی تمام کتابوں اور اس کے کل رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کو مان کر بعض سے منکِر ہو کر ان میں تفریق (جدائی)نہیں کرتے یا یہ معنی ہیں کہ حقوقِ قرابت کی رعایت رکھتے ہیں اور رشتہ قطع نہیں کرتے ۔ اسی میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی قرابتیں اور ایمانی قرابتیں بھی داخل ہیں، سادات کرام کا احترام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت (پیار و محبت) و احسان اور ان کی مدد اور ان کی طرف سے مدافعت (دفاع) اور ان کے ساتھ شفقت اور سلام و دُعا اورمسلمان مریضوں کی عیادت اور اپنے دوستوں، خادموں، ہمسایوں، سفر کے ساتھیوں کے حقوق کی رعایت بھی اس میں داخل ہے اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھنے کی بہت تاکیدیں آئی ہیں، بکثرت احادیثِ صحیحہ اس باب میں وارد ہیں۔‘‘[1] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۹۲،۲۹۳)

(حدیث مبارکہ)اِحترامِ مسلم کی ترغیب:

ایک مرتبہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانسے ارشاد فرمایا:’’جانتے ہو مسلمان کون ہے؟‘‘ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ’’مؤمن کون ہے؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’مؤمن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مؤمن اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں۔‘‘[2](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۹۳)

اِحترامِ مسلم کا حکم:

اِحترامِ مسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں ہر مسلمان کے تمام حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور بلا اجازتِ شرعی کسی بھی مسلمان کی دِل شِکنی نہ کی جائے۔ ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی بھی کسی مسلمان کا دل نہ دُکھایا، نہ کسی پر طنز کیا، نہ کسی کا مذاق اڑایا، نہ کسی کو دُھتکارا، نہ کبھی کسی کی بے عزتی کی بلکہ ہر ایک کو سینے سے لگایا۔[3](نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۹۳)

احترامِ مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے چار (4)طریقے:

(1)احترامِ مسلم کی فضیلت پر غور کیجئے: مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور ان کا احترام کرنا بہت فضیلت کی بات ہے، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ اسلامی رشتہ ہے جس کی وجہ سے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا اکرام کرے اور اس کی عزت کی حفاظت کرے اور ہمیشہ اس کی بے حرمتی سے بچتا رہے اور اگر کوئی دوسرا شخص مسلمان کی بےعزتی کرے یا اُسے تکلیف پہنچائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے اور اس کی عزت پامال نہ ہونے دے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس سے جہنم کا عذاب دور فرما دے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:( وَ كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷))(پ۲۱، الروم: ۴۷)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اورہمارے ذمۂ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔‘‘[4]

(2)مسلمان کی بے عزتی کرنے کی وعیدوں پر غور کیجئے: مسلمان کی بے عزتی کرنا بہت بُرا فعل ہے اور اُس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ بےعزتی کرنے کی مختلف صورتیں ہیں: مسلمان کا مذاق اُڑانا، گالی دینا، چغلی لگانا، بہتان تراشی کرنا، جہاں اس کی عزت کی جاتی ہو وہاں اسے ذلیل کرنا، غیبت کرنا یا اس کی غیبت ہورہی ہو تو قدرت کے باوجود نہ روکنا بھی بے عزتی میں شامل ہے۔ اگر کسی مسلمان کو ذلیل و رُسوا کیا جارہا ہو تو دوسرے مسلمان پر لازم ہے کہ اس کا دفاع کرے اگر قدرت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کرے گا تو خود بھی گناہ گار ہوگا۔ (۱) حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’سود 70گناہوں کامجموعہ ہے اور ان میں سب سے کم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے اور سود سے بڑھ کرگناہ مسلمان کی بے عزتی کرنا ہے۔‘‘[5] (۲) فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے، اﷲ تَعَالٰی دنیا اور آخِرت میں اس کی مدد کرے گا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اتَعَالٰی دنیا اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔‘‘[6]

(3)حقوق العباد ادا کرنےکا ذہن بنائیے: حقوق العباد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور ان کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اِحترامِ مسلم صحیح طورپر بجالانے کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور ان حقوق میں والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، پڑوسی، دوست احباب کے حقوق بھی شامل ہیں اگر بندہ ان تمام حقوق کو کامل طورپر ادا کرنے کا ذہن بنائے تو اس کے سبب اس کے دل میں اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا کیونکہ یہ ہی وہ تمام حقوق ہیں جن کو پورا کرنے سے اِحترامِ مسلم ادا ہوتا ہے۔

(4)حُسن اخلاق اپنائیے: حُسن اخلاق ایسی صفت ہے کہ جو اِحترامِ مسلم کی اصل ہے کیونکہ حسن اخلاق اچھائیوں کی جامع ہے، حسن اخلاق سے متصف انسان ایثار، دل جوئی، سخاوت، بُردباری، تحمل مزاجی، ہمدردی، اخوت و رواداری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے اور یہ ہی وہ صفات ہیں جن سے انسان میں اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۹۶تا۲۹۸)


[1] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۱۳، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱۔

[2] ۔۔۔۔مسند امام احمد،مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص،۲ / ۶۵۴،حدیث:۶۹۴۲۔

[3] ۔۔۔۔احترام مسلم، ص۲۶۔

[4] ۔۔۔۔الترغیب والترھیب ،کتاب الادب وغیرہ،باب الترھیب من الغیبۃ ۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۰۸، حدیث: ۴۳۷۱۔

[5] ۔۔۔۔موسوعہ ابن ابی الدنیا،کتاب الصمت۔۔۔الخ،باب الغیبۃ و ذمھا، ۷ / ۱۲۴، حدیث:۱۷۳۔

[6] ۔۔۔۔مصنف عبد الرزاق، باب الاغتیاب والشتم، ۱۰ / ۱۸۸، حدیث: ۴۷۷۵۔

Share