اِعْتِمَادِ خَلْق

(27)اِعْتِمَادِ خَلْق(مخلوق پر بھروسہ کرنا)

اعتماد خلق کی تعریف:

’’مُسَبِّبُ الْاَسْبَابْ یعنی اسباب کو پیدا کرنے والے‘‘ ربّ عَزَّ وَجَلَّ کو چھوڑ کر فقط ’’اسباب‘‘ پر بھروسہ کرلینا یا خالق عَزَّ وَجَلَّ کو چھو ڑ کر فقط مخلوق پر بھروسہ کرلینا اعتماد خلق کہلاتا ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۹)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ-فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹))(پ۴، آل عمران: ۱۵۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’توکل کے معنی ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کردینا مقصُود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ پر ہونا چاہیے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۹)

حدیث مبارکہ، جس پر توکل اسی کی کفایت:

حضرت سیِّدُنا عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے تو ربّ عَزَّ وَجَلَّ اس کے ہرکام میں کفایت فرماتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا اور جو دنیا پر توکل کرتا ہے اور اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اس دنیا کا ہی کردیتا ہے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۹،۲۰۰)

اعتماد خلق کے بارے میں تنبیہ:

خالق عَزَّ وَجَلَّ کو بالکل بھلا کر فقط مخلوق یا اسباب پر اعتماد کرلینا نہایت ہی مذموم اور ہلاکت وبربادی میں ڈالنے والا عمل ہے۔ ہرمسلمان کو اس سے بچنا ضروری ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۰)

اعتمادِ خلق کاسبب و علاج:

اعتمادِ خلق کااصل سبب عدمِ توکل ہے۔مخلو ق پر حددرجہ بھروسہ کرنا ،لوگوں سے لمبی لمبی امیدیں وابستہ کرلینا اور صرف انہیں اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھنا توکل نہ ہونے کی علامتیں ہیں۔اس کا علاج یہ ہےبندہ اپنے خالق ومالک عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ رکھے، اس کی رحمت کاملہ پر نظر رکھے، یہ مدنی ذہن بنائے کہ میں جس مخلوق پر بھروسہ کررہا ہوں یہ بھی اسی ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی ہی بنائی ہوئی ہے اور خالق کو چھوڑ کر فقط مخلوق پر بھروسہ کرلینا بے عقلی اور حماقت ہے۔ بزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے توکل کے حوالے سے واقعات کا مطالعہ کرے اور یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ مخلوق فقط کامیابی تک پہنچنے کا سبب اور ذریعہ ہوسکتی ہے جبکہ کامیابی عطا کرنا فقط ربّ عَزَّ وَجَلَّ ہی کا کام ہے، لہٰذا اسی پر بھروسہ رکھا جائے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۰۱)


[1] ۔۔۔۔ شعب الایمان، باب فی الرجاء من اللہ تعالٰی، ج۲، ص۲۸، حدیث: ۱۰۷۶۔

Share

Comments


Security Code