حُسْنِ  ظَنّ

(12)حُسْنِ ظَنّ

حسن ظن کی تعریف :

‏ کسی مسلمان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ’’حسن ظن ‘‘کہلاتا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۹۸)

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:(لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(۱۲))(پ۱۸، النور: ۱۲) ترجمۂ کنزلایمان: ’’کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پرنیک گُمان کیاہوتا اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے۔‘‘اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:

’’مسلمان کو یہی حکم ہے کہ مسلمان کے ساتھ نیک گُمان کرے اور بدگُمانی ممنوع ہے۔‘‘[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۹۸،۹۹)

(حدیث مبارکہ)مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی حرمت:

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی رحمت شفیع امت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو طواف کرتے ہوئے یہ فرماتے سنا: ’’(اے کعبہ!)تو کتنا پاکیزہ ہے، تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے، تو کتنا معظم ہے، تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، لیکن اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کی جان ہے! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک ایک مؤمن، اس کے مال، اس کے خون، اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی حرمت تیری حرمت سے بھی زیادہ ہے۔‘‘[2](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۹۹)

حسن ظن کا حکم:

مفسر قرآن صدرالافاضل مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں: ’’حُسن ظن کبھی تو وَاجب ہوتاہے جیسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا اور کبھی مستحب جیسے کسی نیک مؤمن کے ساتھ نیک گمان کرنا۔‘‘[3]علامہ عبدالغنی نابلسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:’’جب کسی مسلمان کا حال پوشیدہ ہو (یعنی اس کے نیک وبد ہونے کا علم نہ ہو تو)تو اُس سے حُسن ظن رکھنا مستحب اور اُس کے بارے میں بدگمانی کرنا حرام ہے۔‘‘[4](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۹۹)

حسن ظن کا ذہن بنانے اور حسن ظن قائم کرنے کے نو (9)طریقے:

(1)حسن ظن کے فوائد پیش نظر رکھیے : ٭حسن ظن ایک جائزوحلال، باعث اجر وثواب وجنت میں لے جانے والا کام ہے۔٭حسن ظن سے احترامِ مسلم پیدا ہوتا ہے۔ ٭حسن ظن سے بدگمانی دور ہوجاتی ہے۔٭حسن ظن سے دلی کینہ دور ہوجاتا ہے۔حسن ظن سے بغض اور حسد دور ہوتا ہے۔٭حسن ظن سے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا ہوتی ہے۔٭حسن ظن سے ناجائز دشمنی ختم ہوجاتی ہے۔ ٭حسن ظن سے بدلہ لینے کی چاہت ختم ہوتی ہے۔٭حسن ظن سے عفوودرگزرکی سعادت نصیب ہوتی ہے۔٭حسن ظن سے سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔٭حسن ظن کرنے سے بندہ غیبت سے بچ جاتا ہے۔٭حسن ظن کرنے سے آپس میں محبت برھتی اور نفرت ختم ہوتی ہے۔٭حسن ظن کرنے میں مسلمانوں کی عزت کا تحفظ ہے۔٭حسن ظن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں۔ چنانچہ شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’حسن ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بدگُمانی میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘[5]

(2)بدگمانی کی ہلاکتوں ونقصانات پر غور کیجیے: ٭بدگمانی ایک ناجائزوحرام اورجہنم میں لے جانے والا کام ہے۔٭بدگمانی سے احترامِ مسلم ختم ہو جاتا ہے۔ ٭بدگمانی حسن ظن کی دشمن ہے۔٭بدگمانی برترین جھوٹ ہے۔٭بدگمانی سے دلی کینہ پیداہوجاتا ہے۔٭بدگمانی سے بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے۔٭بدگمانی سے دل میں مسلمانوں کی نفرت پیدا ہوتی ہے۔٭بدگمانی سے ناجائز دشمنی پیداہوجاتی ہے۔ ٭بدگمانی سے بدلہ لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔٭بدگمانی عفوودرگزرکی سعادت سے محروم کردیتی ہے۔ ٭جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا اس نے اپنے ربّ سے برا گمان رکھا۔ ٭بدگمانی سے سکونِ قلب رفع یعنی ختم ہوجاتا ہے۔ ٭بدگمانی کرنے سے بندہ غیبت میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔٭بدگمانی کرنے سے آپس میں نفرت بڑھتی اور محبت ختم ہوتی ہے۔ بدگمانی کرنے میں مسلمانوں کی عزت کی پامالی بھی ہے۔٭بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’حسن ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بدگُمانی میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘[6]

(3) مسلمان بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیے:اس سے حسن ظن کی دولت نصیب ہوگی کیونکہ جو بندہ اپنے مسلمان بھائیوں کی خامیوں پر نظر رکھتا ہے وہ عموماً بدگمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، ویسے بھی ایک حقیقی مسلمان کے لیے خوش نظر ہونا سعادت مندی کی بات ہے کہ وہ حتی المقدور مسلمان بھائیوں کی اچھائیوں پر ہی نظر رکھتا ہے۔

عیبوں کو ڈھونڈتی ہے عیب جو کی نظر

جو خوش نظر ہیں وہ ہنر و کمال دیکھتے ہیں

(4)دِل کو وسوسوں سے پاک کیجیے : وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور شیطان کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کرے بلکہ اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی طرح اس کے دل میں اس کے بھائی کے متعلق گندے خیالات اور وسوسے پیدا کرکے اسے بدگمانی میں مبتلا کردوں جس کے سبب یہ دیگر باطنی بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی دنیا وآخرت کو تباہ وبرباد کردے، جب بھی کسی مسلمان کی بدگمانی کا وسوسہ پیداہوتو ’’لَاحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘ پڑھیے۔

(5) اپنی اِصلاح کی کوشش جاری رکھیے: جو شخص اپنی اِصلاح کی کوشش جاری رکھتا ہے وہ دیگر مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی سے کام نہیں لیتا بلکہ اچھا گمان رکھتا ہے۔ عربی مقولہ ہے: اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہُیعنی جب کسی کے کام برے ہوجائیں تو اس کے گمان بھی برے ہوجاتے ہیں۔‘‘[7]

(6)اپنے آپ کو تجسس سے بچائیے: تجسس یعنی مسلمانوں کی ٹوہ میں لگے رہنا بھی بدگمانی کی طرف لے جانے والی ایک سیڑھی ہے، جب بندہ ہر وقت اس چکر میں رہے کہ کون کیا کررہا ہے تو پھر شیطان بھی اس کے دل میں طرح طرح کے برے خیالات پیدا کرتا رہتا ہے اوروہ بدگمانی کا شکار ہوکر حسن ظن سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

(7)بدگمانوں کی صحبت سے دُور رہیے: جب بندہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جو دیگر مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی سے بھرپور کچھ نہ کچھ اظہار خیال کرتے ہی رہتے ہیں تو ان کا اثر اس پر بھی ہوجاتا ہے اور پھریہ بھی بدگمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی سے گفتگو کرتے ہوئے تیسرے شخص کے بارے میں کلام ہی نہ کیا جائے یا کیا بھی جائے تو اچھا کلام کیا جائے، اسی طرح بے فائدہ کلام یا کام کو ترک کردیا جائے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’اِنسان کے اسلام کی خوبیوں میں سے ہے کہ جو نفع نہ دے اسے چھوڑ دے۔‘‘[8]

(8)بدگمانی سے بچتے ہوئے حسن ظن کے مواقع تلاش کیجئے:چند مواقع یہ ہیں:آپ کی دعوت میں نہ پہنچنے والے اسلامی بھائی نے ملاقات ہونے پر اپنا کوئی عذر پیش کیا تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کے عذر کو قبول کرلیجئے۔آپ نے اپنی اولاد کو کوئی کام بولا وہ نہ کرسکی تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔کسی کو فون کیا اور وہ نہ اٹھائے تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے وہ کہیں مصروف ہو۔اسی طرح آپ کے میسیج کا جواب نہ آئے تو یوں حسن ظن کیجئے کہ ہوسکتا ہے ابھی تک انہوں نے میسیج ہی نہ پڑھا ہو، یا پڑھنے کے بعد ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔آپ نگران ہیں، ماتحت نہ آیا یا لیٹ ہوگیا تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ بس لیٹ ہوگئی ہوگی، یا ہوسکتا ہے اس کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آگیا ہو، یاہوسکتا ہے اس کی طبیعت ناساز ہو۔آپ نے کسی کو بلایا اس نے توجہ نہ دی تو حسن ظن کرلیجئے کہ ہوسکتا ہے اس تک آپ کی آواز پہنچی ہی نہ ہو۔آپ نے کسی کو کھانے کی دعوت دی، اس نے قبول نہ کی تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے اس نے پہلے ہی کھانا کھا لیا ہو، یا ہوسکتا ہے اس کا نفلی روزہ ہو۔دو افراد سرگوشی کررہے ہوں تو حسن ظن سے کام لیجئےکہ ہوسکتا ہے کوئی ضروری گفتگو کر رہے ہوں۔کسی نے قرض لیا اور رابطے میں نہیں آرہا تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہو سکتا ہے کہیں مصروف ہوگا۔الغرض والدین و اولاد، بھائی و بہن، زوج و زَوجہ، ساس و بہو، سسر و داماد، نند و بھاوَج بلکہ تمام اہلِ خانہ و خاندان نیز اُستاد و شاگرد، سیٹھ و نوکر، تاجر و گاہک، اَفسرو مزدور، حاکم و محکوم یہ تمام لوگ اپنے اپنے مختلف معاملات میں حسن ظن قائم کرنے کی ترکیب بناسکتے ہیں، واضح رہے کہ بدگمانی کے مواقع تو بہت ہوتے ہیں کیونکہ ان میں شیطان کی معاونت ہوتی ہے لیکن عموماً حسن ظن کے مواقع بہت کم نظر آتے ہیں، حالانکہ بندہ تھوڑا سا غور کرے تو وہ تمام مواقع جہاں شیطان ہم سے بدگمانی کرواتا ہے حسن ظن سے کام لیاجاسکتا ہے، بس کوشش کرنا شرط ہے۔

(9)حسن ظن کی دعا کیجیے:حسن ظن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، حسن ظن کے سبب رحمت الٰہی بندے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے، لہٰذا بارگاہِ الٰہی میں حسن ظن کی دعا یوں کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میری سوچ کو پاکیزہ فرماکر مجھے حسن ظن کی دولت عطا فرما، بدگمانی کو مجھ سے دُور فرمادے۔‘‘ آمین(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۰۱تا۱۰۵)


[1] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۱۸، النور، تحت الآیۃ: ۱۲۔

[2] ۔۔۔۔ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ، ۲ / ۳۱۹، حدیث: ۳۹۳۲۔

[3] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۶، الحجرات ، تحت الآیۃ ۱۲ ۔

[4] ۔۔۔۔الحدیقۃ الندیۃ ، ۲ / ۱۶ملخصا۔

[5] ۔۔۔۔بدگمانی، ص۴۲۔

[6] ۔۔۔۔بدگمانی، ص۴۲۔

[7] ۔۔۔۔بدگمانی، ص۳۳۔

[8] ۔۔۔۔ترمذی، کتاب الزھد، باب:۱۱، ۴ / ۱۴۲، حدیث: ۲۳۲۴۔

Share