حُبِّ جَاہ

(6)… حُبِّ جَاہ

حُبِّ جاہ کی تعریف:

شیخ طریقت، امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں کہ حُبِّ جاہ کی تعریف ہے،’’ شہرت و عزّت کی خواہش کرنا۔ ‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۶۲)

حُبِّ جاہ کی مَذَمَّت کرتے ہوئے حُجَّۃُ الاسلام امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’شُہرت کا مقصد لوگوں کے دلوں میں مقام بنانا ہے اور یہ خواہِش ہرفَساد کی جڑہے۔ہمیں چاہئے کہ’’ حُبِّ جاہ ‘‘یعنی شُہرت کی خواہش پر قابو پانے کے لئے اَحادیث مُبارَکہ میں وارِد اِس کے نقصانات پر غور وفکر کریں۔‘‘[2]

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:

(لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَفْرَحُوْنَ  بِمَاۤ  اَتَوْا  وَّ  یُحِبُّوْنَ  اَنْ  یُّحْمَدُوْا  بِمَا  لَمْ  یَفْعَلُوْا  فَلَا  تَحْسَبَنَّهُمْ  بِمَفَازَةٍ  مِّنَ  الْعَذَابِۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  اَلِیْمٌ(۱۸۸))(پ۳، آل عمران: ۱۸۸) ترجمۂ کنز الایمان: ’’ہرگز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہو ایسوں کو ہرگز عذاب سے دور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور باوجود نادان ہونے کے یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے مسئلہ: اس آیت میں وعید ہے خود پسندی کرنے والے کے لئے اور اس کے لئے جو لوگوں سے اپنی جھوٹی تعریف چاہے جو لوگ بغیر علم اپنے آپ کو عالم کہلواتے ہیں یااسی طرح اورکوئی غلط وصف اپنے لئے پسند کرتے ہیں انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۶۳)

حدیث مبارکہ، برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے:

حضرت سیِّدُنااَ نَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبی رحمت،شفیعِ امّت صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:’’کسی انسان کے برا ہونے کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اس کے دین یا دنیا کے معاملے میں اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کریں (یعنی اس کی تعریف کریں ) البتہ جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ محفو ظ فرمائے۔[3]

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا مولا علی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں : ’’خرچ کرو لیکن شہرت نہ چاہو، اپنی شخصیت کو اس طر ح بلند نہ کرو کہ تمہاراذکر کیا جائے اور لوگ تمہیں جانیں بلکہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھو اور خاموشی اختیار کرو کہ اس طرح تم محفو ظ رہوگے، نیک لوگ تم سے خوش ہوں گے اور بد کاروں کو غصہ آئے گا۔‘‘[4](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۶۳،۶۴)

حُبِّ جاہ کا حکم:

حُبِّ جاہ (لوگوں میں ناموری اور شہرت چاہنا ) ایک قبیح (بہت برا ) اور نہایت ہی مذموم (قابل مذمت ) امرہے، بلکہ گمنامی یعنی اپنے آپ کو لوگوں میں مشہور ومعروف نہ کروانا قابل تعریف ہے۔ البتہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اگر کسی شخص کو اپنے دین کو پھیلانے کےلیے مشہور کردے اور اس میں اس کا کوئی دخل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ حب جاہ ایک ایسا امر ہے جو بسا اوقات دین کو بھی تباہ وبرباد کردیتا ہے ۔ اس لیے اس سے اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا بشر حافی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اپنی شہرت چاہتا ہو اور اس کا دین تباہ وبرباد اور وہ خود ذلیل وخوار نہ ہوا ہو۔‘‘[5](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۶۴)


……….[1]نیکی کی دعوت، ص۸۷۔

……….[2] احیاء العلوم، کتاب ذم الجاہ والریاء، بیان فضیلۃ الخمول، ج۳، ص۳۴۲۔

……….[3] شعب الایمان للبیھقی، باب فی اخلاص العمل للہ۔۔۔الخ، ج۵، ص۳۶۶، حدیث۶۹۷۷۔

……….[4] لباب الاحیاء،ص۲۷۳۔

……….[5] احیاء العلوم، کتاب ذم الجاہ والریاء، بیان ذم الشھرۃ۔۔۔الخ، ج۳، ص۳۳۹۔

Share

Comments


Security Code