غُسل کن چیزوں سے فَرْض ہوتا ہے

غُسل کن چیزوں سے فَرْض ہوتا ہے

(۱) مَنی کا اپنی جگہ سے شَہوت کے ساتھ جدا ہوکر عُضْوْ سے نکلنا سببِ فرضیتِ غُسل ہے۔ [1]

مسئلہ ۱: اگر شَہوت کے ساتھ اپنی جگہ سے جدا نہ ہوئی بلکہ بوجھ اٹھانے یا بلندی سے گرنے کے سبب نکلی تو غُسل واجب نہیں ہاں وُضو جاتا رہے گا۔ [2]

مسئلہ ۲: اگر اپنے ظَرف سے شَہوت کے ساتھ جدا ہوئی مگر اس شخص نے اپنے آلہ کو زور سے پکڑلیا کہ باہر نہ ہو سکی، پھر جب شَہوت جاتی رہی چھوڑدیا اب مَنی باہر ہوئی تواگرچہ باہر نکلنا شَہوت سے نہ ہوا مگر چونکہ اپنی جگہ سے شَہوت کے ساتھ جدا ہوئی لہٰذا غُسل واجب ہوا اسی پر عمل ہے۔ [3]

مسئلہ ۳: اگر مَنی کچھ نکلی اور قبل پیشاب کرنے یا سونے یا چالیس قدم چلنے کے نہا لیا اور نماز پڑھ لی اب بقیہ مَنی خارِج ہوئی تو غُسل کرے کہ یہ اسی مَنی کا حصہ ہے جو اپنے مَحل سے شَہوت کے ساتھ جدا ہوئی تھی اور پہلے جو نماز پڑھی تھی ہو گئی اس کے اعادہ کی حاجت نہیں اور اگر چالیس قدم چلنے یا پیشاب کرنے یا سونے کے بعد غُسل کیا پھر مَنی بلا شَہوت نکلی تو غُسل ضروری نہیں اور یہ پہلی کابقیّہ نہیں کہی جائے گی۔ [4]

مسئلہ ۴: اگر مَنی پتلی پڑ گئی کہ پیشاب کے وقت یا ویسے ہی کچھ قطرے بلاشَہوت نکل آئیں تو غُسل واجب نہیں البتہ وُضو ٹوٹ جائے گا۔

(۲) اِحْتِلام یعنی سوتے سے اٹھا اور بدن یا کپڑے پر تری پائی اور اس تری کے مَنی یا مَذی ہونے کا یقین یا احتمال ہو تو غُسل واجب ہے اگرچہ خواب یاد نہ ہو اور اگریقین ہے کہ یہ نہ مَنی ہے نہ مذی بلکہ پسینہ یا پیشاب یا وَدی یا کچھ اورہے تو اگرچہ اِحْتِلام یاد ہو اور لذّتِ اِنزال خیال میں ہو غُسل واجب نہیں اور اگر مَنی نہ ہونے پر یقین کرتا ہے اور مذی کا شک ہے تو اگر خواب میں اِحْتِلام ہونا یاد نہیں تو غُسل نہیں ورنہ ہے۔ [5]

مسئلہ ۵: اگر اِحْتِلام یاد ہے مگر اس کا کوئی اثر کپڑے وغیرہ پر نہیں غُسل واجب نہیں۔ [6]

مسئلہ ۶: اگر سونے سے پہلے شَہوت تھی آلہ قائم تھا اب جاگا اور اس کا اثر پایا اور مذی ہونا غالب گمان ہے اور اِحْتِلام یاد نہیں تو غُسل واجب نہیں، جب تک اس کے مَنی ہونے کا ظن غالب نہ ہو اور اگرسونے سے پہلے شَہوت ہی نہ تھی یا تھی مگر سونے سے قبل دب چکی تھی اور جو خارِج ہوا تھا صاف کر چکا تھا تو مَنی کے ظنِ غالب کی ضرورت نہیں بلکہ محض احتمالِ مَنی سے غُسل واجب ہو جائے گا۔ یہ مسئلہ کثیرُ الوُقوع ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔اس کا خیال ضرور چاہیے۔ [7]

مسئلہ ۷: بیماری وغیرہ سے غش آیا یا نشہ میں بیہوش ہوا، ہوش آنے کے بعد کپڑے یا بدن پر مذی ملی تو وُضو واجب ہو گا، غُسل نہیں اور سونے کے بعد ایسا دیکھے تو غُسل واجب مگر اسی شرط پر کہ سونے سے پہلے شَہوت نہ تھی۔ [8]

مسئلہ ۸: کسی کو خواب ہوا اور مَنی باہرنہ نکلی تھی کہ آنکھ کُھل گئی اور آلہ کو پکڑ لیا کہ مَنی باہر نہ ہو، پھر جب تُندی جاتی رہی چھوڑ دیا اب نکلی تو غُسل واجب ہوگیا۔ [9]

مسئلہ ۹: نماز میں شَہوت تھی اور مَنی اُترتی ہوئی معلو م ہوئی مگر ابھی باہر نہ نکلی تھی کہ نماز پوری کرلی، اب خارِج ہوئی توغُسل واجب ہو گا مگر نماز ہوگئی۔ [10]

مسئلہ ۱۰: کھڑے یا بیٹھے یا چلتے ہوئے سو گیا، آنکھ کھلی تو مذی پائی غُسل واجب ہے۔ [11]

مسئلہ ۱۱: رات کو اِحْتِلام ہوا جاگا تو کوئی اثر نہ پایا، وُضوکر کے نماز پڑھ لی اب اس کے بعد مَنی نکلی، غُسل اب واجب ہوا اور وہ نماز ہوگئی۔ [12]

مسئلہ ۱۲ : عورت کو خواب ہوا تو جب تک مَنی فرجِ داخل سے نہ نکلے غُسل واجب نہیں۔ [13]

مسئلہ ۱۳: مردو عورت ایک چارپائی پر سوئے، بعد بیداری بستر پر مَنی پائی گئی اور ان میں ہر ایک اِحْتِلام کا مُنکر ہے، اِحْتِیاط یہ ہے کہ بہرحال دونوں غُسل کریں اور یہی صحیح ہے۔ [14]

مسئلہ ۱۴: لڑکے کا بُلوغ اِحْتِلام کے ساتھ ہواا س پر غُسل واجب ہے۔ [15]

(۳) حَشفہ یعنی سرِ ذَکر کا عورت کے آگے یا پیچھے یا مرد کے پیچھے داخل ہونادونوں پر غُسل واجب کر تا ہے، شَہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت، اِنزال ہو یا نہ ہو بشرطیکہ دونوں مکلّف ہوں اور اگر ایک بالغ ہے تو اس بالغ پر فرض ہے اور نابالغ پر اگرچہ غُسل فرض نہیں مگر غُسل کا حکم دیا جائے گا، مثلاً مرد بالغ ہے اور لڑکی نابالغ تو مرد پر فرض ہے اور لڑکی نابالغہ کو بھی نہانے کا حکم ہے اور لڑکا نابالغ ہے اور عورت بالغہ ہے تو عورت پر فرض ہے اور لڑکے کو بھی حکم دیا جائے گا۔ [16]

مسئلہ ۱۵: اگر حَشْفہ کاٹ ڈالا ہو تو باقی عضو تناسل میں کا اگر حَشْفہ کی قدر داخل ہو گیا جب بھی وہی حکم ہے جو حَشْفہ داخل ہونے کا ہے۔[17]

مسئلہ ۱۶: اگر چوپایہ یا مردہ یاایسی چھوٹی لڑکی سے جس کی مثل سے صحبت نہ کی جا سکتی ہو، وطی کی تو جب تک اِنزال نہ ہو غُسل واجب نہیں۔[18]

مسئلہ ۱۷: عورت کی ران میں جِماع کیا اور اِنزال کے بعد مَنی فرج میں گئی یا کو آری سے جِماع کیا اور اِنزال بھی ہو گیا مگر بَکارت زائل نہ ہوئی تو عورت پر غُسل واجب نہیں۔ ہاں اگر عورت کے حمل رہ جائے تو اب غُسل واجب ہونے کا حکم دیا جائے گا اور وقتِ مُجامعت سے جب تک غُسل نہیں کیا ہے تمام نمازوں کا اعادہ کرے۔[19]

مسئلہ ۱۸: عورت نے اپنی فرج میں انگلی یا جانور یا مردے کا ذَکر یا کوئی چیزربڑ یا مٹی وغیرہ کی مثلِ ذَکر کے بنا کر داخل کی تو جب تک اِنزال نہ ہو غُسل واجب نہیں۔ اگر جن آدمی کی شکل بن کر آیا اور عورت سے جِماع کیا تو حَشْفہ کے غائب ہونے ہی سے غُسل واجب ہو گیا۔ آدمی کی شکل پر نہ ہو تو جب تک عورت کو اِنزال نہ ہو غُسل واجب نہیں۔ یوہیں اگر مرد نے پری سے جِماع کیا اور وہ اس وقت انسانی شکل میں نہیں، بغیر اِنزال وجوبِ غُسل نہ ہوگا اور شکلِ انسانی میں ہے توصرف غَیبتِ حَشْفہ [20]سے واجب ہو جائے گا۔[21]

مسئلہ ۱۹: غُسلِ جِماع کے بعد عورت کے بدن سے مرد کی بقیہ مَنی نکلی تو اس سے غُسل واجب نہ ہو گا البتہ وُضو جاتا رہے گا۔ [22]

فائدہ: ان تینوں وجوہ سے جس پر نہانا فرض ہو اس کو جنب اور ان اسباب کو جنابت کہتے ہیں۔

(۴) حَیض سے فارغ ہونا۔ [23]

(۵) نِفاس کا ختم ہونا۔ [24]

مسئلہ ۲۰: بچہ پیدا ہوا اور خون بالکل نہ آیا تو صحیح یہ ہے کہ غُسل واجب ہے۔ [25]حَیض و نِفاس کی کافی تفصیل ان شاء اﷲ الجلیل حَیض کے بیان میں آئے گی۔

مسئلہ ۲۱: کافر مرد یا عورت جنب ہے یا حَیض و نِفاس والی کافرہ عورت اب مسلمان ہوئی اگرچہ اسلام سے پہلے حَیض و نِفاس سے فراغت ہو چکی، صحیح یہ ہے کہ ان پر غُسل واجب ہے۔ ہاں اگر اسلام لانے سے پہلے غُسل کر چکے ہوں یا کسی طرح تمام بدن پر پانی بہ گیا ہو تو صرف ناک میں نَرْم بانسے تک پانی چڑھانا کافی ہو گا کہ یہی وہ چیز ہے جو کفار سے ادا نہیں ہوتی۔ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ پینے سے کُلّی کا فرض ادا ہو جاتا ہے اور اگر یہ بھی باقی رہ گیاہو تو اسے بھی بجالائیں غرض جتنے اعضا کا دھلنا غُسل میں فرض ہے جماع وغیرہ اسباب کے بعد اگر وہ سب بحالتِ کفر ہی دُھل چکے تھے تو بعد اسلام اعادہ غُسل ضرور نہیں، ورنہ جتنا حصہ باقی ہو اتنے کا دھولینا فرض ہے اور مستحب تو یہ ہے کہ بعد اسلام پورا غُسل کرے۔

مسئلہ ۲۲: مسلمان میت کو نہلانا مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے، اگر ایک نے نہلا دیا سب کے سر سے اُتر گیا اور اگر کسی نے نہیں نہلایا سب گنہگار ہوں گے۔ [26]

مسئلہ ۲۳: پانی میں مسلمان کا مُردہ ملا اس کا بھی نہلانا فرض ہے، پھر اگر نکالنے والے نے غُسل کے ارادہ سے نکالتے وقت اس کو غوطہ دے دیا غُسل ہو گیا ورنہ اب نہلائیں۔ [27]

مسئلہ ۲۴: جمعہ، عید، بقرعید، عرفہ کے دن اور احرام باندھتے وقت نہانا سنّت ہے اور وقوفِ عرفات و وقوفِ مزدلفہ و حاضریئ حرم و حاضریئ سرکا رِ اعظم و طواف ودُخولِ منیٰ اور جَمروں پر کنکریاں مارنے کے لیے تینوں دن اور شبِ برات اور شبِ قدر اور عَرفہ کی رات اور مجلسِ میلاد شریف اور دِیگر مجالسِ خیر کی حاضری کے لیے اور مردہ نہلانے کے بعد اور مجنون کو جنون جانے کےبعد اور غشی سے افاقہ کے بعد اور نشہ جاتے رہنے کے بعد اور گناہ سے توبہ کرنے اور نیا کپڑا پہننے کے لیے اور سفر سے آنے والے کے لیے، استحاضہ کا خون بند ہونے کے بعد، نماز کسوف و خسوف و اِسْتِسقاء اور خوف و تاریکی اور سَخْت آندھی کے لیے اور بدن پر نَجاست لگی اور یہ معلوم نہ ہوا کہ کس جگہ ہے ان سب کے لیے غُسل مستحب ہے۔[28]

مسئلہ ۲۵: حج کرنے والے پر دسویں ذی الحجہ کو پانچ غُسل ہیں :

(۱) وقوفِ مزدلفہ۔

(۲) دخول منیٰ۔

(۳) جمرہ پر کنکریاں مارنا۔

(۴) دخولِ مکّہ۔

(۵)طواف، جب کہ یہ تین پچھلی باتیں بھی دسویں ہی کو کرے اور جمعہ کا دن ہے تو غُسلِ جمعہ بھی۔ یوہیں اگر عرفہ یا عید جمعہ کے دن پڑے تو یہاں والوں پر دو غُسل ہوں گے۔ [29]

مسئلہ ۲۶: جس پر چند غُسل ہوں سب کی نیت سے ایک غُسل کرلیا سب ادا ہوگئے سب کا ثواب ملے گا۔

مسئلہ ۲۷: عورت جنب ہوئی اور ابھی غُسل نہیں کیا تھا کہ حَیض شروع ہو گیا تو چاہے اب نہالے یا بعد حَیض ختم ہونے کے۔

مسئلہ ۲۸: جنب نے جمعہ یا عید کے دن غُسل جنابت کیا اور جمعہ اور عید وغیرہ کی نیت بھی کرلی سب ادا ہو گئے، اگر اُسی غُسل سے جمعہ اور عید کی نماز ادا کرلے۔

مسئلہ ۲۹: عورت کو نہانے یا وُضو کے لیے پانی مَول لینا پڑے تو اس کی قیمت شوہر کے ذمہ ہے بشرطیکہ غُسل و وُضو واجب ہوں یا بدن سے میل دور کرنے کے لیے نہائے۔[30]

مسئلہ ۳۰: جس پر غُسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے[31] اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کریگا

گنہگار ہو گا اور کھانا کھانا یا عورت سے جِماع کرنا چاہتا ہے تو وُضو کرلے یا ہاتھ مونھ دھولے، کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے اور بے نہائے یا بے وُضو کیے جِماع کر لیا تو بھی کچھ گناہ نہیں مگرجس کو اِحْتِلام ہوا بے نہائے اس کو عورت کے پاس جانا نہ چاہیے۔

مسئلہ ۳۱: رمضان میں اگر رات کو جنب ہوا توبہتریہی ہے کہ قبلِ طلوعِ فجر نہالے کہ روزے کا ہر حصہ جنابت سے خالی ہو اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ غَرغَرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا، یہ دو کام طلوعِ فجر سے پہلے کر لے کہ پھر روزے میں نہ ہو سکیں گے اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دِنوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں اور زِیادہ۔

مسئلہ ۳۲: جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا، طواف کرنا، قرآن مجید چھونا اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چَولی چُھوئے یا بے چُھوئے دیکھ کر یا زبانی پڑھنا یا کسی آیت کا لکھنا یا آیت کا تعویذ لکھنا یا ایسا تعویذ چھونا یا ایسی انگوٹھی چھونا یا پہننا جیسے مُقَطَّعات کی انگوٹھی حرام ہے۔[32]

مسئلہ ۳۳: اگر قرانِ عظیم جُزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حَرَج نہیں،یوہیں رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآنِ مجید کا تو جائز ہے، کُرتے کی آستین، دُوپٹے کی آنچل سے یہاں تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے مونڈھے پر ہے دوسرے کونے سے چھُونا حرام ہے کہ یہ سب اس کے تابع ہیں جیسے چَولی قرآن مجید کے تابع تھی۔[33]

مسئلہ ۴ ۳: اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے آخر سورۃتک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں۔ یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیت کو کچھ دخل نہیں۔[34]

مسئلہ ۳۵: بے وُضو کو قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے۔ بے چھوئے زبانی یادیکھ کر پڑھے تو کوئی حَرَج نہیں۔[35] مسئلہ ۳۶: رُوپیہ پر آیت لکھی ہو تو ان سب کو (یعنی بے وُضو اور جنب اور حَیض و نِفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے ہاں اگر تھیلی میں ہوتو تھیلی اٹھانا جائز ہے۔یوہیں جس برتن یا گلاس پر سورہ یا آیت لکھی ہو اس کا چھونا بھی ان کو حرام ہے اور اس کا استعمال سب کو مکروہ مگر جبکہ خاص بہ نیتِ شفا ہو۔

مسئلہ ۳۷: قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو اس کے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے۔

مسئلہ ۳۸: قرآنِ مجید دیکھنے میں ان سب پر کچھ حَرَج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور خیال میں پڑھتے جائیں۔

مسئلہ ۳۹: ان سب کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے اور اگر ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو تو حَرَج نہیں مگر مَوضَعِ آیت پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔

مسئلہ ۴۰: ان سب کو تورٰت، زبور، انجیل کو پڑھنا چھونا مکروہ ہے۔ [36]

مسئلہ ۴۱: درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں انھیں حَرَج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وُضو یا کُلی کر کے پڑھیں۔[37]

مسئلہ۴۲: ان سب کو اذان کا جواب دینا جائز ہے۔ [38]

مسئلہ ۴۳: مصحف شریف اگر ایسا ہو جائے کہ پڑھنے کے کام میں نہ آئے تو اسے کَفنا کر لحد کھود کر ایسی جگہ دفن کر دیں جہاں پاؤں پڑنے کا احتمال نہ ہو۔ [39]

مسئلہ ۴۴: کافر کو مصحف چُھونے نہ دیا جائے بلکہ مطلقاً حروف اس سے بچائیں۔ [40]

مسئلہ ۴۵: قرآن سب کتابوں کے اوپر رکھیں، پھر تفسیر، پھر حدیث، پھر باقی دینیات، علیٰ حسبِ مراتب۔ [41]

مسئلہ ۴۶: کتاب پر کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے حتیٰ کہ قلم دوات حتیٰ کہ وہ صندوق جس میں کتاب ہو اس پر کوئی چیز نہ رکھی جائے۔ [42]

مسئلہ ۴۷: مسائل یادینیات کے اوراق میں پُڑیاباندھنا، جس دسترخوان پر اشعار وغیرہ کچھ تحریر ہو اس کو کام میں لانا، یا بچھونے پر کچھ لکھا ہو اس کا استعمال منع ہے۔ [43] (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۲۱تا ۳۲۸)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء اربعۃ، ج۱، ص۳۲۵.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۰.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۴،وغیرہ.

[4] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۴۔۱۵.

[6] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۵.

[7] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع... إلخ، ج۱، ص۳۳۱،۳۳۳.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۵.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۵۱۷.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۵.

[11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[13] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع... إلخ، ج۱، ص۳۳۳.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۶.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۵. و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، ومطلب في تحریر الصاع... إلخ، ج ۱، ص ۳۲۸.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۵.

[18] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[19] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[20] ۔۔۔۔۔۔ یعنی سرِ ذَکَر چھپ جائے۔

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع... إلخ، ج۱، ص ۳۲۸،۳۳۵.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۴.

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۳۳۴.

[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۶.

[26] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في رطوبۃ الفرج، ج۱، ص۳۳۷.

[27] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۵۸.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویر الأبصار'' و''الدرالمختار''، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۳۳۹ ۔ ۳۴۲.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في یوم عرفۃ أفضل من یوم الجمعۃ، ج۱، ص۳۴۲.

[30] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یوم عرفۃ... إلخ، ج۱، ص۳۴۳.

[31] ۔۔۔۔۔۔ ''سنن أبي داود''، کتاب الطھارۃ، باب الجنب یؤخر الغسل، الحدیث: ۲۲۷، ج۱، ص۱۰۹.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء... إلخ، ج۱، ص۳۴۳، ۳۴۸.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء... إلخ، ج۱، ص۳۴۸.

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۷۹۵، ۸۱۹،۸۲۰.

[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء... إلخ، ج۱، ص۳۴۸.

[36] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع، ج۱، ص۳۸،وغیرہ.

[37] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[38] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء... إلخ، ج۱، ص۳۵۴.

[40] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[41] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[42] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، المرجع السابق، و''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس، ج۵، ص۳۲۴.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء... إلخ، ج۱، ص۳۵۵،۳۵۶.

Share

Comments


Security Code