غِبْطَہ

(35)غِبْطَہ (رشک)

غبطہ کی تعریف:

کسی شخص میں کوئی خوبی یا اس کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ مجھے بھی یہ خوبی یا نعمت مل جائے اور اس شخص سے اس خوبی یا نعمت کے زوال کی خواہش نہ ہو تو یہ غبطہ یعنی رشک ہے۔[1](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۵)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ فِیْ ذٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَؕ(۲۶)) (پ۳۰، المطففین:۲۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اسی پر چاہیے کہ للچائیں للچانے والے۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۵)

(حدیث مبارکہ)دو شخصوںپررشک:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد (یعنی رشک) کرنا جائز نہیں، ایک وہ شخص جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مال عطا فرمایا اور اُسے صحیح راستے میں خرچ کرنے کی قدرت عطا فرمائی اور ایک وہ مرد جسے اللہ تَعَالٰی نے علم عطا کیا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی تعلیم دے۔‘‘[2](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۵،۲۷۶)

غبطہ (رشک) کا حکم:

رشک بعض صورتوں میں واجب، بعض میں مستحب اور بعض میں مباح ہے۔٭ اگر کوئی نعمت دینی ہو اور واجب ہو مثلاً ایمان، نماز اور زکوٰۃ تو ایسی نعمت پر رشک کرنا بھی واجب ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے لیے بھی ایسی ہی نعمت پسند کرے اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ گناہ پر راضی ہوگا اور یہ حرام ہے۔٭ اگر نعمت ایسی ہو جو فضائل سے تعلق رکھتی ہو مثلاً اچھے کاموں میں مال خرچ کرنا اور صدقہ و خیرات وغیرہ کرنا تو ایسی نعمت پر رشک کرنا مستحب ہے۔ اگر نعمت ایسی ہو جس سے فائدہ اُٹھانا جائز ہو تو اس پر رشک کرنا مباح ہے۔ ان تمام صورتوں میں اس کا اِرادہ اس شخص کے مساوی ہونا اور نعمت میں اس کے ساتھ شریک ہونا ہے، نعمت کا اس کے پاس ہونا ناپسند نہیں۔گویا یہاں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ جس کے پاس نعمت ہے وہ نعمت کے سبب راحت میں ہے اور دوسری یہ کہ جو اِس نعمت سے محروم ہے وہ اِس کی وجہ سے نقصان میں ہے۔ رشک کرنے والا پہلی بات کو ناپسند نہیں کرتا بلکہ اپنا محروم ہونا اور پیچھے رہ جانا ناپسند کرتا اور نعمت والے کی برابری چاہتا ہے اور اِس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان مباح اشیاء میں اپنے نقصان اور پیچھے رہنے کو ناپسند جانے۔ البتہ اس طرح فضائل میں کمی ضرور آتی ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں زُہد، توکل اور رضا کے خلاف اور اعلیٰ مقامات کے حصول میں رکاوٹ ہیں تاہم گناہ کا باعث نہیں۔[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۶)

رشک کرنے کا جذبہ حاصل کرنے کے تین (3)طریقے:

(1)رشک کرنے کے ثواب پر غور کیجئے: دینی امور میں رشک کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے رشک کے اجر پر غور کرنا چاہیے کیونکہ بندہ جس نیک عمل پر سچے دل سے رشک کرتا ہے اسے اس پر ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ مثلاً: کسی کو حج پر جاتے ہوئے دیکھ کر رشک کرنا کہ مجھے بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اتنا مال عطا فرمادے کہ میں بھی اس مسلمان بھائی کی طرح حج کرسکوں یا کسی غریب مسلمان کا کسی کو خیرات کرتا دیکھ کر رشک کرنا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے بھی مال عطا فرمادے تاکہ میں بھی اس مسلمان کی طرح راہ خُدا میں خرچ کر سکوں، اسی طرح ہر نیک کام پر رشک کرکے بندہ اپنے آپ کو اس کے ثواب کا مستحق بنا سکتا ہے۔حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ایک شخص وہ ہے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ اس میں اپنے ربّ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تَعَالٰی کے حق کو جانتا ہے، یہ شخص سب سے افضل مرتبہ میں ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے علم دیا، مال نہیں دیا، یہ شخص سچی نیت کے ساتھ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کی طرح عمل کرتا پس یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا ثواب برابر ہے۔‘‘[4]

(2)اس بات پر غور کیجئے کہ رشک حسد سے بچاتا ہے: یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جب کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی اس کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے اگر انسان دوسروں کو ملنے والی نعمتوں پر رشک نہیں کرے گا تو ممکن ہے کہ وہ حسد میں مبتلا ہو جائے اور حسد بہت بڑا گناہ ہے۔ رشک، حسد سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’رشک ایمان سے ہے اورحسد نفاق سے، مؤمن رشک کرتا ہے حسد نہیں کرتا اور منافق حسد کرتا ہے رشک نہیں کرتا۔‘‘[5]

(3)رشک کرنے کے سبب نیک اَعمال میں رغبت: انسان کسی چیز پر اسی حال میں رشک کرتا ہے جبکہ اس کے دل میں اس چیز کی اہمیت اور طلب ہوتی ہے اور انسان کے دل میں جس چیز کی اہمیت و طلب نہیں ہوتی وہ اس پر رشک بھی نہیں کرتا تو بندہ اپنے دل میں کسی کی اچھائی پر اسی صورت میں رشک کرے گا جبکہ اس کے دل میں اس اچھائی کی طلب ہوگی اور جب نیکی کی طلب ہوگی تو یقیناً پھر وہ اس نیک کام کو کرنے کی بھی خوب کوشش کرے گا اور اس طرح وہ مختلف نیک اَعمال کی طرف راغب ہوگا لہٰذا دوسروں کے نیک اَعمال پر رشک کرنا چاہیے تاکہ خود بھی وہ نیکیاں کرنے کا جذبہ بندے میں پیدا ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کرنے کی کوشش کرتا رہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۹، ۲۸۰)


[1] ۔۔۔۔بہار شریعت،حصہ شانزدہم،۳ / ۵۴۲ ملخصا۔

[2] ۔۔۔۔بخاری،کتاب العلم،باب الاغتباط فی العلم و الحکمۃ، ۱ / ۴۳،حدیث:۷۳۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۵۸۶ملتقطا ۔

[4] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر،۴ / ۱۴۶،حدیث:۲۳۳۲۔

[5] ۔۔۔۔حلیۃ الاولیاء،الفضیل بن عیاض،۸ / ۹۸،رقم:۱۱۴۸۷۔

Share

Comments


Security Code