غم دنیا

(45)غم دنیا

’’غم دنیا‘‘ کی تعریف:

کسی دنیوی چیز سے محرومی کے سبب رنج وغم اور افسوس کا اِس طرح اِظہارکرنا کہ اُس میں صبر اور قضائے اِلٰہی پر رضا اور ثواب کی اُمید باقی نہ رہے ’’غم دُنیا ‘‘کہلاتا ہےاور یہ مذموم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۲)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (لِكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (۲۳)) (پ۲۷، الحدید: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اس لئے کہ غم نہ کھاؤ اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ۔‘‘

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اِس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’یہ سمجھ لو کہ جو اللہ تعالٰی نے مقدر فرمایا ہے ضرور ہونا ہے نہ غم کرنے سے کوئی ضائع شدہ چیز واپس مل سکتی ہیں ، نہ فنا ہونے والی چیز اِترانے کے لائق ہے تو چاہئے کہ خوشی کی جگہ شکر اورغم کی جگہ صبر اختیا ر کرو ۔ غم سے مراد یہاں انسان کی وہ حالت ہے جس میں صبر اور رضا بقضائے الٰہی اور امید ثواب باقی نہ رہے ۔ اور خوشی سے وہ اِترانا مراد ہے جس میں مست ہو کر آدمی شکر سے غافل ہوجائے۔ اور وہ غم و رنج جس میں بندہ اللہ تعالٰی کی طرف متوجّہ ہو اور اس کی رضا پر راضی ہو ایسے ہی وہ خوشی جس پر حق تعالی کا شکر گزار ہو ممنوع نہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: اے فرزند آدم کسی چیز کے فقدان پر کیوں غم کرتا ہے؟ یہ اس کو تیرے پاس واپس نہ لائے گا اور کسی موجود چیز پر کیوں اتراتا ہے؟ موت اس کو تیرے ہاتھ میں نہ چھوڑ ے گی ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۲، ۳۱۳)

حدیث مبارکہ، دنیوی غموں سے فراغت پالو :

حضرت سیِّدُنا ابو دَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مرو ی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس قدرہوسکے دنیوی غموں سے فراغت پالو کیونکہ جسے سب سے زیادہ غم دنیاکا ہوگا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے پیشے کو شہرت دے گا اور اس کا فقر اس پر ظاہر فرمادے گا اور جسے آخرت کا غم سب سے زیادہ ہوگا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے کا م جمع فرمادے گا اور اس کے دل کو غنا سے بھرد ے گا اور جو بندہ اپنے دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طر ف متو جہ ہوتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مومنین کے دلوں کو اس کے لئے محبت اور رحمت کے جذبہ سے سرشار فرماکر اس کے پاس بھیجتا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے ہر بھلائی جلد عطا فرماتا ہے۔‘‘[1] ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’دوخصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں بھی ہوں گی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے صابرو شاکر لکھ دے گا اور جس میں نہیں ہوں گی نہ اسے شاکر لکھے گا اور نہ ہی صابر ۔وہ دو خصلتیں یہ ہیں : (۱) جو اپنے دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کر اس کی پیروی کرے اوردنیوی معاملہ میں اپنے سے نيچے والے کو دیکھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اسے اس شخص پر جو فضلیت دی ہے اس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے صابر وشاکر لکھ لیتا ہے۔ (۲)جو دین میں اپنے سے نيچے والے کو دیکھے اور دنیوی معاملے میں اوپر والے کو دیکھے پھر اپنی محرومی پر افسوس کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نہ اسے صابر لکھتا ہے اور نہ ہی شاکر۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۳، ۳۱۴)

غم دنیا کے بارے میں تنبیہ:

کسی بھی دنیوی معاملے پر چاہے وہ مالی نقصان کی صورت میں ہو، کسی تکلیف کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ہو غمگین ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن کسی بھی دنیوی معاملے پر غیر شرعی واویلا کرنا، ماتم کرنا، دیگر مسلمانوں کو کوسنا یا اس مصیبت کا ذمہ دار ٹھہرانا، یا اس پر بدشگونی، غیبت، تہمت، بدگمانی بھرا کلام کرنا، یا اس طرح اپنے غم کا اظہار کرنا جس سے صبر کا دامن چھوٹ جائے، ثواب کی اُمید ختم ہوجائے یا قضائے الٰہی پر عدم رضا کا اظہار ہو یہ تمام صورتیں غیر شرعی، ناجائز اور ممنوع ہیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۴)

غم دنیا کے تین اسباب و علاج :

(1)… غم دنیا کا پہلا سبب حب دنیاہے۔دنیا کی محبت دل میں رچ بس جانے کی وجہ سے معمولی سے دنیاوی نقصان پر بھی دل غمگین ہوجاتاہےجس کی وجہ سے افسوس کااظہار کیا جاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکالنے کی کوشش کرےاور اپنے ظاہر و باطن کو نیکیوں میں مشغول رکھے۔نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ دنیا فانی ہے اور فانی چیز نے کبھی نہ کبھی فنا ہونا ہی ہے لہذا ایسی چیز پر افسوس کرنے کا کیا فائدہ؟ اگر افسوس کرنا ہی ہے تو میں اس بات پر افسوس کروں کہ میں نے فلاں لمحہ رب عزوجل کی یاد سے کیوں غافل ہو کر گزارا؟

(2)… غم دنیا کا دوسرا سبب بے صبر ی کی عادت ہے۔جس انسان میں صبر اور برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے اسے اموردنیاکا غم جلد لاحق ہوجاتا ہے جو اس کے روشن مستقبل کو تاریک کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مصیبتوںکیاور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اندر صبر اور برداشت پیدا کرےتاکہ کوئی انہونی بات اور مصیبت اس کے اعصاب پر اثر انداز نہ ہوسکے۔نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ بے صبری کا مظاہرہ کرکے میں عظیم اجر وثواب سے محروم کر دیا جاؤں گا جبکہ صبر کروں گا تو اجرو ثواب کا خزانہ مجھے عطا کیا جائے گا۔لہٰذا سمجھداری اسی میں ہے کہ بے صبری کے بجائے تقدیر الٰہی پر راضی رہتے ہوئے صبر وشکر کا مظاہرہ کیا جائے۔

(3)… غم دنیا کا تیسرا سبب ناشکر ی کی عادت ہے۔ہزار ہا نعمتوں کے باوجود بندہ شکر نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر شکر کے بجائے غمزدہ وغمگین ہوکر ناشکری کربیٹھتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر صبرو شکر کی عادت ڈالےاور خوشی ہو یا غم اپنے زبان کو ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے شکر سے تر بتر رکھے۔نیز یہ بھی مدنی ذہن بنائے کہ اگر میں شکر کروں گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے مزید نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔اس مدنی ذہن سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دنیا وی غموں سے چھٹکارا بھی نصیب ہوجائے گا ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۷، ۳۱۸)


[1] ۔۔۔۔ مجمع الزوائد ، کتاب الزھد ،باب فیمن احب الدنیا۔۔۔ الخ،ج ۱۰، ص ۴۳۲،حدیث:۱۷۸۱۶۔

[2] ۔۔۔۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ ،ج۴، ص۲۲۹، حدیث: ۲۵۲۰۔

Share

Comments


Security Code