بُخْل

(15)بُخْل

بخل کی تعریف:

’’بُخْل کے لغوی معنی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸)

مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:

(وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ۠(۱۸۰) (پ۴، آل عمران: ۱۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’بخل کے معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مُفَسِّرِین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸،۱۲۹)

حدیث مبارکہ، بخل ہلاکت کا سبب ہے:

حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۹،۱۳۰)

بخل کے بارے میں تنبیہ:

بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)

بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :

(1)… بخل کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔

(2)…بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے۔

(3)…بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔

(4)…بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔

(5)…بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۱،۱۳۲)


[1] ۔۔۔حرص، ص۴۲ملتقطاً۔

[2] ۔۔۔ابو داود،کتاب الزکاۃ،باب فی الشح،ج۲، ص۱۸۵، حدیث: ۱۶۹۸۔

[3] ۔۔۔ احیاء العلوم،ج۳،ص۷۸۴ تا۷۸۷ملتقطا۔

Share