اموالِ زکوٰۃ

اموالِ زکاۃ

خلاصہ یہ کہ زکاۃ تین قسم کے مال پر ہے۔

(۱) ثمن یعنی سونا چاندی۔

(۲) مال تجارت۔

(۳) سائمہ یعنی چرائی پر چھوٹے جانور۔ [1] (عامہ کتب)

مسئلہ ۳۴: نیّت تجارت کبھی صراحۃً ہوتی ہے کبھی دلالۃً صراحۃً یہ کہ عقد کے وقت ہی نیّت تجارت کر لی خواہ وہ عقد خریداری ہو یا اجارہ، ثمن روپیہ اشرفی ہو یا اسباب میں سے کوئی شے دلالۃً کی صورت یہ ہے کہ مال تجارت کے بدلے کوئی چیزخریدی یا مکان جو تجارت کے لیے ہے اس کو کسی اسباب کے بدلے کرایہ پر دیا تو یہ اسباب اور وہ خریدی ہوئی چیز تجارت کے لیے ہیں اگرچہ صراحۃً تجارت کی نیّت نہ کی۔ یو ہیں اگر کسی سے کوئی چیز تجارت کے لیے قرض لی تو یہ بھی تجارت کے لیے ہے، مثلاً دو سو درم کامالک ہے اورمن بھر گیہوں قرض لیے تو اگر تجارت کے لیے نہیں لیے تو زکاۃ واجب نہیں کہ گیہوں کے دام انھیں دو سو سے مُجرا کیے جائیں گے تو نصاب باقی نہ رہی اور اگر تجارت کے لیے لیے تو زکاۃ واجب ہوگی کہ اُن گیہوں کی قیمت دو سو پر اضافہ کریں اور مجموعہ سے قرض مُجرا کریں تو دو سو سالم رہے لہٰذا زکاۃ واجب ہوئی۔ [2] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۵: جس عقد میں تبادلہ ہی نہ ہو جیسے ہبہ، وصیت، صدقہ یا تبادلہ ہو مگر مال سے تبادلہ نہ ہو جیسے مہر، بدل خلع [3] بدلِ عتق [4] ان دونوں قسم کے عقد کے ذریعہ سے اگر کسی چیز کا مالک ہوا تو اس میں نیّت تجارت صحیح نہیں یعنی اگرچہ تجارت کی نیّت کرے، زکاۃ واجب نہیں۔ یو ہیں اگر ایسی چیز میراث میں ملی تو اس میں بھی نیّت تجارت صحیح نہیں۔[5] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۶: مورث کے پاس تجارت کامال تھا، اس کے مرنے کے بعد وارثوں نے تجارت کی نیّت کی تو زکاۃ واجب ہے۔ یو ہیں چرائی کے جانور وراثت میں ملے، زکاۃ واجب ہے چرائی پر رکھنا چاہتے ہوں یا نہیں۔[6] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۳۷: نیّت تجارت کے لیے یہ شرط ہے کہ وقت عقد نیّت ہو، اگرچہ دلالۃً تو اگر عقد کے بعد نیّت کی زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ یو ہیں اگررکھنے کے لیے کوئی چیز لی اور یہ نیّت کی کہ نفع ملے گا تو بیچ ڈالوں گا توزکاۃ واجب نہیں۔ [7] (درمختار)

مسئلہ ۳۸: تجارت کے لیے غلام خریداتھا پھر خدمت لینے کی نیّت کر لی پھر تجارت کی نیّت کی تو تجارت کا نہ ہوگا جب تک ایسی چیز کے بدلے نہ بیچے جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ [8] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۳۹: موتی اورجواہر پر زکاۃ واجب نہیں، اگرچہ ہزاروں کے ہوں۔ ہاں اگر تجارت کی نیّت سے لیے تو واجب ہوگئی۔[9] (درمختار)

مسئلہ ۴۰: زمین سے جو پیداوار ہوئی اس میں نیّت تجارت سے زکاۃ واجب نہیں، زمین عشری ہو یاخراجی، اس کی

مِلک ہو یا عاریت یا کرایہ پر لی ہو، ہاں اگر زمین خراجی ہو اور عاریت یا کرایہ پر لی اور بیج وہ ڈالے جو تجارت کے لیے تھے تو پیداوار میں تجارت کی نیّت صحیح ہے۔ [10] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۱: مضارب[11] مالِ مضاربت سے جو کچھ خریدے، اگرچہ تجارت کی نیّت نہ ہو، اگرچہ اپنے خرچ کرنے کے لیے خریدے، اس پر زکاۃ واجب ہے یہاں تک کہ اگر مالِ مضاربت سے غلام خریدے۔ پھر ان کے پہننے کو کپڑا اور کھانے کے لیے غلّہ وغیرہ خریدا تو یہ سب کچھ تجارت ہی کے لیے ہیں اور سب کی زکاۃ واجب۔ [12] (درمختار، ردالمحتار)

(۱۰) سال گزرنا، سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے بارہ مہینے۔ شروع سال اور آخر سال میں نصاب کامل ہے، مگر درمیان میں نصاب کی کمی ہوگئی تو یہ کمی کچھ اثر نہیں رکھتی یعنی زکاۃ واجب ہے۔ [13] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۲: مال تجارت یا سونے چاندی کو درمیان سال میں اپنی جنس [14] یا غیر جنس سے بدل لیا تو اس کی وجہ سے سال گزرنے میں نقصان نہ آیا اور اگر چرائی کے جانور بدل لیے تو سال کٹ گیا یعنی اب سال اس دن سے شمار کریں گے جس دن بدلا ہے۔ [15] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۳: جو شخص مالک نصاب ہے اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اسی جنس کا حاصل کیا تو اُس نئے مال کا جدا سال نہیں، بلکہ پہلے مال کا ختم سال اُس کے لیے بھی سال تمام ہے، اگرچہ سال تمام سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل کیا ہو، خواہ وہ مال اُس کے پہلے مال سے حاصل ہوا یا میراث وہبہ یا اور کسی جائز ذریعہ سے ملا ہو اور اگر دوسری جنس کا ہے مثلاً پہلے اُس کے پاس اونٹ تھے اور اب بکریاں ملیں تو اس کے لیے جدید سال شمار ہوگا۔[16] (جوہرہ)

مسئلہ ۴۴: مالک نصاب کو درمیان سال میں کچھ مال حاصل ہوا اور اس کے پاس دو نصابیں ہیں اور دونوں کا جُدا جُدا سال ہے تو جو مال درمیان سال میں حاصل ہوا اُسے اس کے ساتھ ملائے، جس کی زکاۃ پہلے واجب ہو مثلاً اس کے پاس ایک ہزار روپے ہیں اور سائمہ کی قیمت جس کی زکاۃ دے چکا تھا کہ دونوں ملائے نہیں جائیں گے، اب درمیان سال میں ایک ہزار روپے اور حاصل کیے تو ان کا سالِ تمام اس وقت ہے جب ان دونوں میں پہلے کا ہو۔ [17] (درمختار)

مسئلہ ۴۵: اس کے پاس چرائی کے جانور تھے اور سال تمام پر ان کی زکاۃ دی پھر انھیں روپوں سے بیچ ڈالا اور اُس کے پاس پہلے سے بھی بقدر نصاب روپے ہیں جن پر نصف سال گزرا ہے تو یہ روپے اُن روپوں کے ساتھ نہیں ملائے جائیں گے، بلکہ اُن کے لیے اُس وقت سے نیا سال شروع ہوگا یہ اس وقت ہے کہ یہ ثمن کے روپے بقدر نصاب ہوں، ورنہ بالاجماع انھیں کے ساتھ ملائیں یعنی اُن کی زکاۃ انھیں روپوں کے ساتھ دی جائے۔[18] (جوہرہ)

مسئلہ ۴۶: سال تمام سے پیشتر اگر سائمہ کو روپے کے بدلے بیچا تو اب ان روپوں کو اُن رُوپوں کے ساتھ ملالیں گے جو پیشتر سے اُس کے پاس بقدر نصاب موجود ہیں یعنی ان کے سال تمام پر ان کی بھی زکاۃ دی جائے، ان کے لیے نیا سال شروع نہ ہوگا۔ یو ہیں اگر جانور کے بدلے بیچا تو اس جانور کو اس جانور کے ساتھ ملائے ،جو پیشتر سے اس کے پاس ہے اگر سائمہ کی زکاۃ دے دی پھر اسے سائمہ نہ رکھا پھر بیچ ڈالا تو ثمن کو اگلے مال کے ساتھ ملا دیں گے۔[19] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۷: اونٹ، گائے، بکری میں ایک کو دوسرے کے بدلے سال تمام سے پہلے بیچا تو اب سے اُن کے لیے نیا سال شروع ہوگا۔ یو ہیں اگر اور چیز کے بدلے بہ نیّت تجارت بیچا تو اب سے ایک سال گزرنے پر زکاۃ واجب ہوگی اور اگر اپنی جنس کے بدلے بیچا یعنی اونٹ کو اونٹ اور گائے کو گائے کے بدلے جب بھی یہی حکم ہے اور اگر بعد سال تمام بیچا تو زکاۃ واجب ہو چکی اور وہ اُس کے ذمہ ہے۔ [20] (جوہرہ)

مسئلہ ۴۸: درمیان سال میں سائمہ کو بیچاتھا اورسال تمام سے پہلے عیب کی وجہ سے خریدار نے واپس کر دیا تو اگر قاضی کے حکم سے واپسی ہوئی تو نیا سال شروع نہ ہوگا، ورنہ اب سے سال شروع کیا جائے اوراگر ہبہ کر دیا تھا پھر سال تمام سے پہلے واپس کر لیا تو نیا سال لیا جائے گا، قاضی کے فیصلہ سے واپسی ہو یا بطور خود۔ [21] (جوہرہ)

مسئلہ ۴۹: اُس کے پاس خراجی زمین تھی، خراج ادا کرنے کے بعد بیچ ڈالی تو ثمن کو اصل نصاب کے ساتھ ملادیں گے۔ [22] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۰: اس کے پاس روپے ہیں جن کی زکاۃ دے چکا ہے پھر اُن سے چرائی کے جانور خریدے اور اس کے یہاں اس جنس کے جانور پہلے سے موجود ہیں تو اُن کو ان کے ساتھ نہ ملائیں گے۔ [23] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۱: کسی نے اسے چار ہزار روپے بطور ہبہ دیے اور سال پورا ہونے سے پہلے ہزار روپے اورحاصل کیے پھر ہبہ کرنے والے نے اپنے دیے ہوئے روپے حکم قاضی سے واپس لے لیے تو ان جدید روپوں کی بھی اس پر زکاۃ واجب نہیں جب تک ان پر سال نہ گزرلے۔ [24] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۲: کسی کے پاس تجارت کی بکریاں ہیں، جن کی قیمت دو سو درم ہے اور سال تمام سے پہلے ایک بکری مرگئی، سال پورا ہونے سے پہلے اُس نے اس کی کھال نکال کرپکالی تو زکاۃ واجب ہے۔ [25] (عالمگیری) یعنی جب کہ وہ کھال نصاب کو پورا کرے۔

مسئلہ ۵۳: زکاۃ دیتے وقت یا زکاۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکاۃ شرط ہے۔ نیّت کے یہ معنی ہیں کہ اگر پوچھا جائے تو بلا تامل بتا سکے کہ زکاۃ ہے۔ [26] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۴: سال بھر تک خیرات کرتا رہا، اب نیّت کی کہ جو کچھ دیا ہے زکاۃ ہے تو ادا نہ ہوئی۔ [27] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۵: ایک شخص کو وکیل بنایا اُسے دیتے وقت تو نیّت زکاۃ نہ کی، مگر جب وکیل نے فقیر کو دیا اس وقت مؤکل نے نیّت کر لی ہوگئی۔ [28] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۶: دیتے وقت نیّت نہیں کی تھی، بعد کو کی تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے یعنی اسکی ملک میں ہے تو یہ نیّت کافی ہے ورنہ نہیں۔ [29] (درمختار)

مسئلہ ۵۷: زکاۃ دینے کے لیے وکیل بنایا اوروکیل کو بہ نیّت زکاۃ مال دیا مگر وکیل نے فقیر کو دیتے وقت نیّت نہیں کی ادا ہوگئی۔ یو ہیں زکاۃ کا مال ذمّی کو دیا کہ وہ فقیر کو دے دے اور ذمّی کو دیتے وقت نیّت کر لی تھی تو یہ نیّت کافی ہے۔[30] (درمختار)

مسئلہ ۵۸: وکیل کو دیتے وقت کہا نفل صدقہ یا کفارہ ہے مگر قبل اس کے کہ وکیل فقیروں کو دے، اُس نے زکاۃ کی نیّت کر لی تو زکاۃ ہی ہے، اگرچہ وکیل نے نفل یا کفارہ کی نیّت سے فقیر کو دیا ہو۔ [31] (درمختار)

مسئلہ ۵۹: ایک شخص چند زکاۃ دینے والوں کا وکیل ہے اور سب کی زکاۃ ملا دی تو اُسے تاوان دینا پڑے گا اور جو کچھ فقیروں کو دے چکا ہے وہ تبرع ہے یعنی نہ مالکوں سے اسکا معاوضہ پائے گا نہ فقیروں سے، البتہ اگر فقیروں کو دینے سے پہلے مالکوں نے ملانے کی اجازت دے دی تو تاوان اس کے ذمہ نہیں۔ یو ہیں اگر فقیروں نے بھی اسے زکاۃ لینے کا وکیل کیا اور اُس نے ملا دیا تو تاوان اس پر نہیں مگراس وقت یہ ضرور ہے کہ اگر ایک فقیر کا وکیل ہے اور چند جگہ سے اسے اتنی زکاۃ ملی کہ مجموعہ بقدر نصاب ہے تو اب جو جان کر زکاۃ دے اس کی زکاۃ ادا نہ ہوگی یا چند فقیروں کا وکیل ہے اور زکاۃ اتنی ملی کہ ہر ایک کا حصہ نصاب کی قدر ہے تو اب اس وکیل کو زکاۃ دینا جائز نہیں مثلاً تین فقیروں کا وکیل ہے اور چھ سو ۶۰۰ درم ملے کہ ہر ایک کا حصہ دو سو ۲۰۰ ہوا جو نصاب ہے اور چھ سو ۶۰۰ سے کم ملا تو کسی کو نصاب کی قدر نہ ملا اوراگر ہر ایک فقیر نے اسے علیحدہ علیحدہ وکیل بنایا تو مجموعہ نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ ہر ایک کو جو ملا ہے وہ دیکھا جائے گا اور اس صورت میں بغیر فقیروں کی اجازت کے ملانا جائز نہیں اور ملا دے گا جب بھی زکاۃ ادا ہو جائیگی اور فقیروں کو تاوان دے گا اور اگر فقیروں کا وکیل نہ ہو تو اسے دے سکتے ہیں اگرچہ کتنی ہی نصابیں اُس کے پاس جمع ہوگئیں۔[32](ردالمحتار)

مسئلہ ۶۰: چند اوقاف کے متولی کو ایک کی آمدنی دوسری میں ملانا جائز نہیں۔ یو ہیں دلال کو زر ثمن یا مبیع کا خلط [33]جائز نہیں۔ یو ہیں اگرچندفقیروں کے لیے سوال کیا تو جو ملا بے اُن کی اجازت کے خلط کرنا جائز نہیں۔ یو ہیں آٹا پیسنے والے کو یہ جائز نہیں کہ لوگوں کے گیہوں ملا دے، مگر جہاں ملا دینے پر عرف جاری ہو تو ملا دینا جائز ہے اور ان سب صورتوں میں تاوان دے گا۔ [34] (خانیہ)

مسئلہ ۶۱: اگر مؤکلوں [35] نے صراحتہً ملانے کی اجازت نہ دی مگر عرف ایسا جاری ہوگیا کہ وکیل ملا دیا کرتے ہیں تو یہ بھی اجازت سمجھی جائے گی، جب کہ مؤکل [36] اس عرف سے واقف ہو، مگر دلال کو خلط کی اجازت نہیں کہ اس میں عرف نہیں۔[37](ردالمحتار)

مسئلہ ۶۲: وکیل کو اختیار ہے کہ مالِ زکاۃ اپنے لڑکے یا بی بی کو دیدے جب کہ یہ فقیر ہوں اور اگر لڑکا نابالغ ہے تو اُسے دینے کے لیے خود اس وکیل کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے، مگر اپنی اولاد یا بی بی کو اس وقت دے سکتا ہے، جب مؤکل نے اُن کے سوا کسی خاص شخص کو دینے کے لیے نہ کہہ دیا ہوورنہ انھیں نہیں دے سکتا۔ [38] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۳: وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے، ہاں اگر زکاۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے۔ [39] (درمختار)

مسئلہ ۶۴: اگر زکاۃ دینے والے نے اسے حکم نہیں دیا، خود ہی اُس کی طرف سے زکاۃ دے دی تو نہ ہوئی اگرچہ اب اُس نے جائز کر دیا ہو۔ [40] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۵: زکاۃ دینے والے نے وکیل کو زکاۃ کا روپیہ دیا وکیل نے اُسے رکھ لیا اور اپنا روپیہ زکاۃ میں دے دیا تو جائز ہے، اگر یہ نیّت ہو کہ اس کے عوض مؤکل کا روپیہ لے لے گا اور اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں دیا تو زکاۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دے گا۔ [41] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۶: زکاۃ کے وکیل کو یہ اختیار ہے کہ بغیر اجازت مالک دوسرے کو وکیل بنا دے۔ [42] (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۷: کسی نے یہ کہا کہ اگر میں اس گھر میں جاؤں تو مجھ پر اﷲ (عزوجل) کے لیے ان سو روپوں کا خیرات کر دینا ہے پھرگیا اور جاتے وقت یہ نیّت کی کہ زکاۃ میں دے دوں گا تو زکاۃ میں نہیں دے سکتا۔ [43] (عالمگیری)

مسئلہ ۶۸: زکاۃ کا مال ہاتھ پر رکھا تھا، فقرا لوٹ لے گئے ادا ہوگئی اور اگر ہاتھ سے گر گیا اور فقیر نے اُٹھا لیا اگر یہ اسے پہچانتا ہے اور راضی ہوگیا اور مال ضائع نہیں ہوا تو ہوگئی۔ [44] (عالمگیری)

مسئلہ ۶۹: امین کے پاس سے امانت ضائع ہوگئی، اس نے مالک کو دفع خصومت کے لیے کچھ روپے دے دیے اور دیتے وقت زکاۃ کی نیّت کر لی اورمالک فقیر بھی ہے زکاۃ ادا نہ ہوئی۔ [45] (عالمگیری)

مسئلہ ۷۰: مال کو بہ نیّت زکاۃ علیحدہ کر دینے سے بری الذّمہ نہ ہوگا جب تک فقیروں کو نہ دیدے، یہاں تک کہ اگر وہ جاتا رہا تو زکاۃ ساقط نہ ہوئی اوراگر مر گیا تو اس میں وراثت جاری ہوگی۔ [46] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۷۱: سال پورا ہونے پر کل نصاب خیرات کر دی، اگرچہ زکاۃ کی نیّت نہ کی بلکہ نفل کی نیّت کی یا کچھ نیّت نہ کی زکاۃ ادا ہوگئی اور اگر کل فقیر کو دے دیا اور منّت یاکسی اور واجب کی نیّت کی تو دینا صحیح ہے، مگر زکاۃ اس کے ذمّہ ہے ساقط نہ ہوئی اور اگر مال کا کوئی حصہ خیرات کیا تو اس حصہ کی بھی زکاۃ ساقط نہ ہوگی، بلکہ اس کے ذمّہ ہے اور اگر کل مال ہلاک ہوگیا تو کل کی زکاۃ ساقط [47] ہوگئی اور کچھ ہلاک ہوا تو جتنا ہلاک ہوا اس کی ساقط اور جو باقی ہے اس کی واجب، اگرچہ وہ بقدر نصاب نہ ہو۔ ہلاک کے یہ معنی ہیں کہ بغیر اس کے فعل کے ضائع ہوگیا، مثلاً چوری ہوگئی یا کسی کو قرض و عاریت دی اُس نے انکار کر دیا اور گواہ نہیں یا وہ مر گیا اور کچھ ترکہ میں نہ چھوڑا اور اگر اپنے فعل سے ہلاک کیا مثلاً صرف کر ڈالا یا پھینک دیا یا غنی کو ہبہ کر دیا[48] تو زکاۃ بدستور واجب الادا ہے، ایک پیسہ بھی ساقط نہ ہوگا اگرچہ بالکل نادار ہو۔ [49] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۷۲: فقیر پر اُس کا قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی اور جُز معاف کیا تو اس جز کی ساقط ہوگئی اور اگر اس صورت میں یہ نیّت کی کہ پورا زکاۃ میں ہو جائے تو نہ ہوگی اور اگر مالدار پر قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط نہ ہوئی بلکہ اُس کے ذمّہ ہے۔ فقیر پر قرض تھا معاف کر دیا اور یہ نیّت کی کہ فلاں پر جو دَین ہے یہ اُس کی زکاۃ ہے ادا نہ ہوئی۔[50] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۷۳: کسی پر اُس کے روپے آتے ہیں، فقیر سے کہہ دیا اس سے وصول کرلے اور نیّت زکاۃ کی کی بعد قبضہ ادا ہوگئی۔ فقیر پر قرض ہے اس قرض کو اپنے مال کی زکاۃ میں دینا چاہتا ہے یعنی یہ چاہتا ہے کہ معاف کر دے اور وہ میرے مال کی زکاۃ ہو جائے یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اُسے زکاۃ کا مال دے اور اپنے آتے ہوئے میں لے لے، اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کرچھین سکتا ہے اور یوں بھی نہ ملے تو قاضی کے پاس مقدمہ پیش کرے کہ اُس کے پاس ہے اور میرا نہیں دیتا۔[51] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۷۴: زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین [52]یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کر نا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا، ''اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔''[53](ردالمحتار)

مسئلہ ۷۵: زکاۃ علانیہ اور ظاہر طور پر افضل ہے اور نفل صدقہ چُھپا کر دینا افضل۔ [54] (عالمگیری) زکاۃ میں اعلان اس وجہ سے ہے کہ چُھپا کر دینے میں لوگوں کو تہمت اور بدگمانی کا موقع ملے گا، نیز اعلان اوروں کے لیے باعثِ ترغیب ہے کہ اس کو دیکھ کر اور لوگ بھی دیں گے مگر یہ ضرور ہے کہ ریا نہ آنے پائے کہ ثواب جاتا رہے گا بلکہ گناہ و استحقاق عذاب ہے۔

مسئلہ ۷۶: زکاۃ دینے میں اس کی ضرورت نہیں کہ فقیر کو زکاۃ کہہ کر دے، بلکہ صرف نیّت زکاۃ کافی ہے یہاں تک کہ اگر ہبہ یا قرض کہہ کر دے اور نیّت زکاۃ کی ہو ادا ہوگئی۔ [55] (عالمگیری) یو ہیں نذر یا ہدیہ یا پان کھانے یا بچوں کے مٹھائی کھانے یا عیدی کے نام سے دی ادا ہوگئی۔ بعض محتاج ضرورت مند زکاۃ کا روپیہ نہیں لینا چاہتے، انھیں زکاۃ کہہ کر دیا جائے گا تو نہیں لیں گے لہٰذا زکاۃ کا لفظ نہ کہے۔

مسئلہ ۷۷: زکاۃ ادا نہیں کی تھی اوراب بیمار ہے تو وارثوں سے چُھپا کر دے اور اگر نہ دی تھی اور اب دینا چاہتا ہے، مگر مال نہیں جس سے ادا کرے اور یہ چاہتا ہے کہ قرض لے کر ادا کرے تو اگر غالب گمان قرض ادا ہو جانے کا ہے تو بہتر یہ ہے

کہ قرض لے کر ادا کرے ورنہ نہیں کہ حق العبد حق اﷲ سے سخت تر ہے۔ [56] (ردالمحتار)

مسئلہ ۷۸: مالکِ نصاب سال تمام سے پیشتر بھی ادا کر سکتا ہے، بشرطیکہ سال تمام پر بھی اس نصاب کا مالک رہے اور اگر ختم سال پر مالک نصاب نہ رہا یا اثنائے سال میں وہ مالِ نصاب بالکل ہلاک ہوگیا تو جو کچھ دیا نفل ہے اور جوشخص نصاب کا مالک نہ ہو، وہ زکاۃ نہیں دے سکتا یعنی آئندہ اگر نصاب کا مالک ہوگیا تو جو کچھ پہلے دیا ہے وہ اُس کی زکاۃ میں محسوب نہ ہوگا۔ [57] (عالمگیری)

مسئلہ ۷۹: مالک نصاب اگر پیشتر سے چند نصابوں کی زکاۃ دینا چاہے تو دے سکتا ہے یعنی شروع سال میں ایک نصاب کا مالک ہے اور دو یا تین نصابوں کی زکاۃ دے دی اورختم سال پر جتنی نصابوں کی زکاۃ دی ہے اتنی نصابوں کا مالک ہوگیا تو سب کی ادا ہوگئی اور سال تمام تک ایک ہی نصاب کا مالک رہا، سال کے بعد اور حاصل کیا تو وہ زکاۃ اس میں محسوب نہ ہوگی۔ [58] (عالمگیری)

مسئلہ ۸۰: مالک نصاب پیشتر سے چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتا ہے۔ [59] (عالمگیری) لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا زکاۃ میں دیتا رہے، ختم سال پر حساب کرے، اگر زکاۃ پوری ہوگئی فبہا اور کچھ کمی ہو تو اب فوراً دیدے، تاخیر جائزنہیں کہ نہ اُس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے کُل فوراً ادا کر دے اور زیادہ دے دیا ہے تو سال آئندہ میں مُجرا کر دے۔[60]

مسئلہ ۸۱: ایک ہزار کا مالک ہے اور دو ہزار کی زکاۃ دی اورنیّت یہ ہے کہ سال تمام تک اگر ایک ہزار اور ہوگئے تو یہ اس کی ہے، ورنہ سال آئندہ میں محسوب ہوگی یہ جائز ہے۔ [61] (عالمگیری)

مسئلہ ۸۲: یہ گمان کرکے کہ پانسوروپے ہیں، پانسو کی زکاۃ دی پھر معلوم ہوا کہ چار ہی سو تھے تو جو زیادہ دیا ہے، سال آئندہ میں محسوب کر سکتا ہے۔[62] (خانیہ)  

مسئلہ ۸۳: کسی کے پاس سونا چاندی دونوں ہیں اور سال تمام سے پہلے ایک کی زکاۃ دی تو وہ دونوں کی زکاۃ ہے یعنی درمیان سال میں ان میں سے ایک ہلاک ہوگیا، اگرچہ وہی جس کی نیّت سے زکاۃ دی ہے تو جو رہ گیا ہے اُس کی زکاۃ یہ ہوگئی اور اگر اس کے پاس گائے بکری اونٹ سب بقدر نصاب ہیں اورپیشتر سے ان میں ایک کی زکاۃ دی توجس کی زکاۃ دی، اُسی کی ہے دوسرے کی نہیں یعنی جس کی زکاۃ دی ہے اگر اثنائے سال میں اُس کی نصاب جاتی رہی تو وہ باقیوں کی زکاۃ نہیں قرار دی جائے گی۔ [63] (عالمگیری)

مسئلہ ۸۴: اثنائے سال میں جس فقیر کو زکاۃ دی تھی، ختم سال پر وہ مالدار ہوگیا یا مر گیا یا معاذاﷲ مُرتد ہوگیا تو زکاۃ پر اُس کا کچھ اثر نہیں وہ ادا ہوگئی، جس شخص پر زکاۃ واجب ہے اگر وہ مر گیا تو ساقط ہوگئی یعنی اس کے مال سے زکاۃ دینا ضرور نہیں، ہاں اگر وصیّت کر گیا تو تہائی مال تک وصیّت نافذ ہے اور اگر عاقل بالغ ورثہ اجازت دے دیں تو کُل مال سے زکاۃ ادا کی جائے۔ [64] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۸۵: اگر شک ہے کہ زکاۃ دی یا نہیں تو اب دے۔ [65] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۸۸۲تا ۸۹۲)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ۱۷۴. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۰، ص۱۶۱.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۴. و ''الدرالمختار''، و ''ردالمحتار''،کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۱.

[3] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ مال جس کے بدلے میں نکاح زائل کیا جائے۔

[4] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ مال جس کے بدلے میں غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے۔

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۴.

[6] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۳۱.

[8] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۲۸.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویرالأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۳۰.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۲.

[11] ۔۔۔۔۔۔ مضاربت، تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام اور منافع میں دونوں شریک۔ کام کرنے والے کو مضارب اور مالک نے جو کچھ دیا اسے راس المال (مالِ مضاربت) کہتے ہیں۔ تفصیلی معلومات کے لیے بہارِ شریعت حصہ ۱۴، میں ''مضاربت کا بیان'' دیکھ لیجئے۔

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۱.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۵.

[14] ۔۔۔۔۔۔ سونا، چاندی تو مطلقاً یہاں ایک ہی جنس ہیں۔ یوہیں ان کے زیور، برتن وغیرہ اسباب، بلکہ مال تجارت بھی انہیں کی جنس سے شمار ہوگا،اگرچہ کسی قسم کا ہو کہ اس کی زکاۃ بھی چاندی سونے سے قیمت لگا کر دی جاتی ہے۔ ۱۲ منہ

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۵.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ الخیل، ص۱۵۵.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاٰ ۃ، ج۳، ص۲۵۵.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۵.

[19] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[20] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الزکاٰ ۃ، باب زکاۃ، الابل، ص۱۵۰.

[21] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۵.

[23] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۵ ۔ ۱۷۶.

[25] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۷۶.

[26] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۷۰.

[27] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۷۱.

[28] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[29] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۲۲.

[30] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۲۲.

[31] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۳.

[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۳.

[33] ۔۔۔۔۔۔ یعنی دلال کو خریدی گئی چیز کی قیمت یا خریدی گئی چیز کا ملانا۔

[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الخانیۃ''، کتاب الزکاۃ، فصل في اداء الزکاۃ، ج۱، ص۱۲۵.

[35] ۔۔۔۔۔۔ وکیل کرنے والوں۔

[36] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ شخص جو وکیل مقرر کرے۔ وکیل کرنے والا۔

[37] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۳.

[38] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۲۴.

[39] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۲۴.

[40] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۲۲۳

[41] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۴.

[42] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۴.

[43] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۱.

[44] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث،الفصل الثاني، ج۱، ص۱۸۳.

[45] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۱.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۵.

[47] ۔۔۔۔۔۔ یعنی معاف۔

[48] ۔۔۔۔۔۔ یعنی غنی کو تحفے میں دے دیا۔

[49] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۱.

[50] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[51] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۲۶، وغیرہ.

[52] ۔۔۔۔۔۔ یعنی کفن دفن۔

[53] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۷. ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۵۶۸، ج۷، ص۱۳۵.

[54] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۱.

[55] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[56] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۸.

[57] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۶.

[58] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[59] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[60] ۔۔۔۔۔۔ یعنی آئندہ سال میں اس کو شمار کر لے۔

[61] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۶.

[62] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الخانیۃ''، کتاب الزکاۃ، فصل في اداء الزکاۃ، ج۱، ص۱۲۶.

[63] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۶.

[64] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[65] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۸.

Share

Comments


Security Code