آدمی اور جانوروں کے جھوٹے کا بیان

آدمی اور جانوروں کے جھوٹے کا بیان

مسئلہ ۱: آدمی چاہے جنب ہو یا حَیض و نِفاس والی عورت اس کا جھوٹا پاک ہے۔ کافر کا جھوٹا بھی پاک ہے [1]، مگر اس سے بچنا چاہیے جیسے تھوک، رینٹھ، کھنکار کہ پاک ہیں مگر ان سے آدمی گِھن کرتا ہے اس سے بہت بدتر کافر کے جھوٹے کو سمجھنا چاہیے۔

مسئلہ ۲: کسی کے مونھ سے اتنا خون نکلاکہ تھوک میں سرخی آگئی اور اس نے فوراً پانی پیا تو یہ جھوٹا ناپاک ہے اور سرخی جاتی رہنے کے بعد اس پر لازم ہے کہ کُلی کرکے مونھ پاک کرے اور اگر کُلی نہ کی اور چند بار تھوک کا گزر موضع نَجاست پر ہوا خواہ نگلنے میں یا تھوکنے میں یہاں تک کہ نَجاست کا اثر نہ رہا تو طہارت ہو گئی اسکے بعد اگر پانی پیے گا تو پاک رہیگا اگرچہ ایسی صورت میں تھوک نگلنا سَخْت ناپاک بات اور گناہ ہے۔ [2]

مسئلہ ۳: مَعَاذَاﷲ شراب پی کر فوراً پانی پیا تو نجس ہو گیا اور اگر اتنی دیر ٹھہرا کہ شراب کے اجزا تھوک میں مل کر حَلْق سے اتر گئے تو ناپاک نہیں مگر شرابی اور اس کے جھوٹے سے بچنا ہی چاہیے۔ [3]

مسئلہ ۴: شراب خوار کی مونچھیں بڑی ہوں کہ شراب مونچھوں میں لگی تو جب تک ان کو پاک نہ کرے جو پانی پیے گا وہ پانی اور برتن دونوں ناپاک ہو جائیں گے۔ [4]

مسئلہ ۵: مرد کو غیر عورت کا اور عورت کو غیر مرد کا جھوٹا اگر معلوم ہو کہ فلانی یا فلاں کا جھوٹا ہے بطور لذّت کھانا پینا مکروہ ہے مگرا س کھانے، پانی میں کوئی کراہت نہیں آئی[5] اور اگر معلوم نہ ہو کہ کس کا ہے یا لذّت کے طور پرکھایا پیا نہ گیا تو کوئی حَرَج نہیں بلکہ بعض صورتوں میں بہتر ہے جیسے با شرع عالم یا دیندار پیر کا جھوٹا کہ اسے تبرّک جان کر لوگ کھاتے پیتے ہیں۔

مسئلہ ۶: جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے چوپائے ہوں یا پرند ان کا جھوٹا پاک ہے اگرچہ نر ہوں جیسے گائے، بیل، بھینس، بکری، کبوتر، تیتر وغیرہ۔[6]

مسئلہ ۷: جو مرغی چُھوٹی پھرتی اور غلیظ پر مونھ ڈالتی ہو اس کا جھوٹا مکروہ ہے اور بند رہتی ہو تو پاک ہے۔ [7]

مسئلہ ۸: یوہیں بعض گائیں جن کی عادت غلیظ کھانے کی ہوتی ہے ان کا جھوٹا مکروہ ہے اور اگر ابھی نَجاست کھائی اور اس کے بعد کوئی ایسی بات نہ پائی گئی جس سے اس کے مونھ کی طہارت ہو جائے(مثلاً آبِ جاری میں پانی پینا یا غیر جاری میں تین جگہ سے پینا) اور اس حالت میں پانی میں مونھ ڈال دیا تو ناپاک ہو گیا۔ اسی طرح اگر بیل، بھینسے، بکرے نروں نے حسبِ عادت مادہ کا پیشاب سُونگھا اور اس سے ان کا مونھ ناپاک ہوا اور نگاہ سے غائب نہ ہوئے نہ اتنی دیر گزری جس میں طہارت ہو جاتی تو ان کا جھوٹا ناپاک ہے اور اگر چار پانیوں میں مونھ ڈالیں تو پہلے تین ناپاک چوتھا پاک۔ [8]

مسئلہ ۹: گھوڑے کا جھوٹا پاک ہے۔ [9]

مسئلہ ۱۰: سُوئر، کتا، شیر، چیتا، بھیڑیا، ہاتھی، گیدڑ اور دوسرے درندوں کا جھوٹا ناپاک ہے۔ [10]

مسئلہ ۱۱: کُتّے نے برتن میں مونھ ڈالا تو اگر وہ چینی یا دھات کا ہے یا مٹی کا روغنی یا استعمالی چکنا تو تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گا ورنہ ہر بار سُکھا کر۔ ہاں چینی میں بال ہو یا اور برتن میں درار ہو تو تین بار سُکھا کر پاک ہو گا فقط دھونے سے پاک نہ ہوگا۔ [11]

مسئلہ ۱۲: مٹکے کو کُتّے نے اوپر سے چاٹا اس میں کا پانی ناپاک نہ ہوگا۔ [12]

مسئلہ ۱۳: اڑنے والے شکاری جانور جیسے شکرا، باز، بہری، چیل وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہے اور یہی حکم کوّے کا ہے اور اگر ان کو پال کر شکار کے لیے سِکھالیا ہو اور چونچ میں نَجاست نہ لگی ہو تو اس کا جھوٹا پاک ہے۔ [13]

مسئلہ ۱۴: گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلّی، چوہا، سانپ، چھپکلی کا جھوٹا مکروہ ہے۔ [14]

مسئلہ ۱۵: اگر کسی کا ہاتھ بلّی نے چاٹنا شروع کیا تو چاہیے کہ فوراً کھینچ لے یوہیں چھوڑ دینا کہ چاٹتی رہے مکروہ ہے اور چاہیے کہ ہاتھ دھو ڈالے بے دھوئے اگر نماز پڑھ لی تو ہو گئی مگر خلافِ اَولیٰ ہوئی۔ [15]

مسئلہ ۱۶: بلّی نے چوہا کھایا اور فوراً برتن میں مونھ ڈال دیا تو ناپاک ہو گیا اور اگر زبان سے مونھ چاٹ لیا کہ خون کا اثر جاتا رہا تو ناپاک نہیں۔ [16]

مسئلہ ۱۷: پانی کے رہنے والے جانور کا جھوٹا پاک ہے خواہ ان کی پیدائش پانی میں ہو یا نہیں۔ [17]

مسئلہ ۱۸: گدھے، خچر کا جھوٹا مشکوک ہے یعنی اس کے قابل وُضو ہونے میں شک ہے، و لہٰذا اس سے وُضو نہیں ہوسکتا کہ حدث متیقن طہارت مشکوک سے زائل نہ ہوگا۔ [18]

مسئلہ ۱۹: جو جھوٹا پانی پاک ہے اس سے وُضو اور غُسل جائز ہیں مگر جنب نے بغیر کُلی کیے پانی پیا تو اس جھوٹے پانی سے وُضو ناجائز ہے کہ وہ مستعمل ہوگیا۔

مسئلہ ۲۰: اچھا پانی ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وُضو و غُسل مکروہ اور اگر اچھا پانی موجود نہیں تو کوئی حَرَج نہیں اسی طرح مکروہ جھوٹے کا کھانا پینا بھی مالدار کو مکروہ ہے۔ غریب محتاج کو بلا کراہت جائز۔ [19]

مسئلہ ۲۱: اچھا پانی ہوتے ہوئے مشکوک سے وُضو و غُسل جائز نہیں اور اگر اچھا پانی نہ ہو تو اسی سے وُضو و غُسل کرلے اور تیمم بھی اور بہتر یہ ہے کہ وُضو پہلے کر لے اور اگر عکس کیا یعنی پہلے تیمم کیا پھر وُضو جب بھی حَرَج نہیں اور اس صورت میں وُضو اور غُسل میں نیت کرنی ضرور اور اگر وُضو کیا اور تیمم نہ کیا یا تیمم کیا اور وُضو نہ کیا تو نماز نہ ہوگی۔ [20]

مسئلہ ۲۲: مشکوک جھوٹے کا کھانا پینا نہیں چاہیے۔ [21]

مسئلہ ۲۳: مشکوک پانی اچھے پانی میں مل گیا تو اگر اچھا زِیادہ ہے تو اس سے وُضو ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ [22]

مسئلہ ۲۴: جس کا جھوٹا ناپاک ہے اس کا پسینہ اور لعاب بھی ناپاک ہے اور جس کا جھوٹا پاک اس کا پسینہ اور لعاب بھی پاک اور جس کا جھوٹا مکروہ اس کا لعاب اور پسینہ بھی مکروہ۔ [23]

مسئلہ ۲۵: گدھے، خچر کا پسینہ اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے چاہے کتنا ہی زِیادہ لگا ہو۔ [24](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۴۱تا ۳۴۴)


[1] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۳. و''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص۴۲۴، وغیرھما .

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۳. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۲۵۷، ۲۵۹. و ''مراقي الفلاح''، کتاب الطہارۃ، فصل في بیان احکام السؤر، ص۵.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني ج۱، ص۲۳. و ''الدرا لمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، مطلب في السؤر، ج۱، ص۴۲۵، وغیرہما.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني ج۱، ص۲۳.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني ج۱، ص۲۳. و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، مطلب في السؤر، ج۱، ص۴۲۴.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۳.

[7] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، مطلب في السؤر، ج۱، ص۴۲۵.

[8] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۳.

[10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۴.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب الطہارۃ، باب الانجاس، ج۴، ص۵۵۹.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[13] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴. و ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، مطلب في السؤر، ج۱، ص۴۲۶.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[17] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۳، و ''التبیین الحقائق''، ج۱، ص۱۰۵.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[20] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''البحر الرائق''، کتاب الطہارۃ، ج ۱، ص ۲۳۵.

[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، ج۱، ص۲۴.

[23] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۳.

[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

Share