Book Name:Shaban-ul-Muazzam Ki Ahem Ebadaat

افروز حِکایَت سنتے ہیں:  

نیکیوں کا پلڑا وزنی کیسے ہوا...؟

حضرت عبد اللہ بن عمر  رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ  سے روایت ہے، غیب جاننے والے نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے روزِ قیامت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: قیامت کا دِن ہو گا، حضرت آدم  عَلَیْہِ السَّلام  سبز لباس پہنے، عرشِ الٰہی کے سائے میں تشریف فرما ہوں گے اور دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کی اَوْلاد میں سے کس کس کو جنّت میں لے جایا جاتا ہے اور کس کس کو دوزخ میں پھینکا جاتا ہے۔ اتنے میں آپ  عَلَیْہِ السَّلام  کی نظر انبیا کے تاجدار، اَحْمَدِ مختار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ایک اُمَّتی پر پڑے گی، فرشتے اسے جہنّم کی طرف لئے جا رہے ہوں گے، یہ دیکھ کر حضرت آدم  عَلَیْہِ السَّلام  پُکار کر آواز دیں گے: یَا اَحْمَدُ! یَا اَحْمَدُ! اے اَحْمَد!اے اَحْمَد! اللہ! اللہ! اے عاشقانِ رسول! قربان جائیے! وہ قیامت کا منظر...! وہ ہولناک دِن جب ہر ایک کو بَس اپنی اپنی ہی پڑی ہو گی، سگی ماں بھی اَوْلاد سے دامن چھڑا رہی ہو گی، ہمارے آقا ومولیٰ، ہمیں بخشوانے والے آقا، رَحم فرمانے والے آقا، جنّت میں پہنچانے والے آقا، مالِکِ جنّت، صاحبِ کوثَر، نبئ رَحْمت، شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کڑے وقت میں بھی ہم گنہگاروں کو بخشوانے اور جنّت میں پہنچانے کے لئے میدانِ محشر ہی میں موجود ہوں گے۔ اعلیٰ حضرت کے بھائی جان، مولانا حسن رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  اس وقت کی کیفیت کو اَشْعَار کی صُورت میں یُوں بیان کرتے ہیں:

کسی کے پَلَّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزن عمل کوئی اُمِّید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا

کوئی قریبِ ترازو، کوئی لبِ کوثر               کوئی صِراط پر اُن کو پُکارتا ہو گا