Book Name:2 Mubarak Hastiyan

   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   اپنے بڑے صاحبزادے پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔ مفتی حامد رضا خان بھی اعلیٰ حضرت کی طرح دنیاوی معاملات سے کنارہ کش رہتے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی جائیداد اور مالی اُمور اپنے بڑے بیٹے مولانا محمد ابراہیم رضا خان   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کے سپرد کر دیئے تھے ، جو وقت عبادت و ریاضت اور اوراد  و  وظائف سے بچتا تھا وہ اہلِ سنت کے استحکام میں گزارا کرتے۔ اعلیٰ حضرت   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کی موجودگی میں دارُالعلوم منظرالاسلام کا سارا انتظام  آپ کے سپرد تھا۔ مفتی حامد رضا خان   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   طلبا کی تدریس اور قیام و طعام میں ذاتی دلچسپی لیتے۔ بالخصوص محنتی اور لائق طلبہ کے لیے آپ کی محبتیں دیکھنے  کےلائق ہوتیں۔

طلبا سے شفقت

                             اسی کی ایک مثال شیخ الحدیث ، محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمدقادِری   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ، آپ کامزارِمبارک پاکستان کے مشہورشہر “ فیصل آباد “ میں اپنی برکتیں لُٹارہاہے ، مفتی حامد رضا خان   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   نے ان کی ایسی تعلیم و تربیت فرمائی کہ خود کتابیں بھی پڑھائیں اور پنے ہی گھر سے ان کے لیے کھانے کا اہتمام فرمایا۔ مفتی حامد رضا خان   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   مولانا سردار احمد قادری   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   سے ایسی محبت اور شفقت فرماتے کہ لوگ مولانا سردار احمد قادری   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کو مفتی حامد رضاخان   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   کے خاندان کا ہی فرد سمجھنے لگتے تھے۔ (تذکرۂ جمیل ، ص۱۷۵)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمَّد