Book Name:2 Mubarak Hastiyan
آپ نہ صرف مُہْتَمِمْ تھے بلکہ شیخُ الحدیث اور صدرُالمُدَرِّسِین کے منصب پر بھی فائز رہے۔ (تذکرہ جمیل ص ۱۷۳ملخصاً)
اعلیٰ حضرت اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت کا باہمی تعلق
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدِ گرامی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تھے ، انہوں نے اپنے اس نورِ نظر کی ایسی تربیت کی تھی کہ مفتی حامد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بڑے ہوکر اپنے عظیم والد کے دست و بازو بنے۔ یہی وجہ تھی کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے انہیں کئی شاندارالقابات عطا فرمائے۔ ان کی تحریروں کو اپنی تصانیف میں شامل فرمایا۔ ایک جگہ سے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خط(Letter) بھیجا گیا جس میں وہاں کے لوگوں نے نہایت خلوص اور محبت سے اعلیٰ حضرت کو اپنے وطن آ نے کی دعوت دی تھی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کثیر مصروفیات اور دِینی کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہاں نہ جا سکے ، مگر اپنے بڑے صاحبزادے مفتی حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنانائب بنا کر اس جگہ کے لیے روانہ فرمایا۔ ساتھ میں اپنے خط(Letter) میں لکھا : اگر چہ میں اپنی دِینی مصروفیات کی بنا پر حاضری سے معذور ہوں مگر حامد رضا کو بھیج رہا ہوں۔ یہ میرے قائم مقام ہیں۔ ان کو حامد رضا نہیں احمد رضا ہی سمجھا جائے۔ (تذکرۂ جمیل ، ص۱۲۲)
پیارے اسلامی بھائیو!اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت