Book Name:Ghurbat Ki Barkaten

تناول فرمائیں۔([1])

اےعاشقانِ صحابہ واہل بیت!مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ،اہل بیتِ مصطفیٰ،قادریوں کے پیشوا،اَمیرُالمؤمنین،مولائے کائنات، حضرت علی المرتضیٰ، شیرِخُداکَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی سادگی پر ہماری جان قربان ہو۔اتنی اتنی مشقتیں برداشت کرنےکےباوجودکبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ کبھی بھی گلہ  شِکْوہ  نہیں  کیا ، بلکہ ہر  حال میں ربِّ کریم کا شکر ادا کرتے رہے ،مگرافسوس!فی زمانہ بعض لوگوں کودیکھاگیاہے ان کی عادت ہوتی ہےکہ وہ بات بات پر شکوےاورشکایات کےانبار لگادیتےہیں،کبھی دوسروں کوخواہ مخواہ اپنے دُکھڑے سناتےہیں توکبھی پریشانیوں کا رونا روتےہیں،کبھی تنگدستی کی شکایات کرتے ہیں توکبھی  غربت  کی وجہ سے گِلہ  شِکْوہ کرتے نظرآتے ہیں۔الغرض  ایسے لوگ کسی حال میں خوش نہیں رہتے ۔

شکوہ کرنے والے کی اِصلاح

       منقول ہےکہ کسی شخص نےایک بزرگرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے اپنی تنگدستی کا شکوہ کیا اوراس سے ہونے والےرنج وغم کااظہار کیا،تو ان بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نےاس  شخص سے پوچھا: کیا تمہیں10ہزار درہم  کے بدلے اندھا ہونا قبول  ہے؟ اس نےعرض کی: نہیں ۔ پوچھا:کیا تمہیں 10ہزار درہم کے بدلےگونگاہوناقبول ہے؟ اس نےعرض کی: نہیں۔ پھر ان  بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے پوچھا:کیا تمہیں20ہزار درہم  کے بدلے دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹواناقبول ہے؟اس نےعرض کی:نہیں۔پوچھا:کیاتمہیں10ہزار درہم 


 

 



[1] تذکرۃ الخواص ،الباب الخامس،ص۱۱۲ ، فیضانِ سنّت، ص۳۶۹