Book Name:Ham Q Nahi Badltay

تک زندہ رہنےکی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے، حتّٰی کہ اسی آس امید پر جیتےجیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہےکہ موت اپنےدردناک شکنجےمیں کَس لیتی ہے،پھراب پچھتائےکیا ہَوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت،ناچاراپنے کئےاعمال کے انجام سےدوچارہونا پڑتا ہے۔(صراط الجنان، ۳/۳۱۱ملخصاً)

      پیا رے پیا رے اسلامی بھائیو!فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کردنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے،جس کی وجہ سےکہیں چوری  کا گناہ کیا جارہاہے تو کہیں ڈاکہ زنی کا ، کہیں گانے باجےکے پروگرامز(Functions) ہیں تو کہیں ڈانس پارٹی  کی تقریب ، کہیں تکبر و غرور ہے تو کہیں حسد و عناد ، کہیں بغض و کینہ ہے تو کہیں  ذاتی دشمنی ، کہیں کاروباری مال پر جھگڑا ہے تو کہیں تقسیمِ وراثت پر بحث و مباحثہ، کہیں خرید و فروخت کے معاملے میں دھوکا دہی ہے تو کہیں کھانے پینےکی اشیاء میں ملاوٹ کابازارگرم،کہیں نمازکی ادائیگی میں لاپرواہی ہےتوکہیں بندوں کے حقوق(Rights) کی پاسداری نہیں، نہ  علمِ دین سیکھنے کا ذہن ہے اور نہ حلال و حرام کی تمیز الغرض موت سےغفلت،لمبی اُمیدیں اور دنیاکی محبت  ہمیں بدلنےنہیں دیتی ،ہمیں اپنی اصلاح نہیں کرنے دیتی ، ہمارے دل میں   خوفِ خدا پیدا نہیں ہونےدیتی، کیونکہ  لمبی اُمیدیں گُناہوں کی جڑ اور انسان کی تباہی  و بربادی کاایک سبب ہیں،چُنانچہ

       نبیِ اكرم،نُورِمجسمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَكافرمان ہے: اَوَّلُ فَسَادِهَا اَلْبُخْلُ وَالاَمَلُ یعنی اس اُمَّت کا پہلا فساد بخل اور لمبی اُمید ہے۔(مشکاۃ المصابیح،باب الامل و الحرص،الفصل الثالث،۲/۲۶۰،حدیث: ۵۲۸۱)

                             حکیم الاُمّت،مُفتی احمدیارخان نعیمیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتےہیں:یعنی مُسلمان کاپہلاگُناہ،جودُوسرے گُناہوں کی جڑ ہے وہ یہ دو(2)چیزیں ہیں:(۱)بخل جڑہےخُون ریزی و فَسادکی(۲)لمبی اُمیدیں جڑ ہیں، غَفلت وگُناہوں کی۔انسان بڑھاپےمیں بھی یہ سوچتا ہےکہ ابھی عُمر بہت