Book Name:Bimari Kay Faiedy

نظر رکھنے کے بجائے بیماریوں کو بُرا بھلا کہنے اور شکوے شکایات کرنے لگتے  ہیں،مثلاً”یہ بخار(Fever) بھی بڑی منحوس بیماری ہے،یہ دردِ سر بھی کتنا بُرا مرض ہے کہ اس نے تو مجھے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا،اس نزلے زکام نے تو مجھے آدھا کردیا ہے کہ اس کے سبب تو میری ساری روٹین ہی ڈسٹرب ہوگئی  ہے“ وغیرہ۔

بیماریوں کو بُرا کہنا ہرگز عقلمندی نہیں خصوصاً بخار اور دردِ سر کو،اس لئے کہ بخار اور دردِ سر وہ مبارک  بیماریاں ہیں جنہیں نبیوں کی بارگاہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوا ہے۔حدیثِ پاک میں بھی بخار کو بُرا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے،چنانچہ

بخار کو بُرا نہ کہو

سر کا رِ مدینہ ،قرا رِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سائب رَضِیَ اللہُ عَنْہاکے پا س تشر یف لے گئے ۔فر ما یا :تمہیں کیا ہو گیا ہے جو کانپ رہی ہو ؟عر ض کی :بخا ر آگیا ہے ،اللہ  پاک اس میں بَرَ کت نہ کرے ۔ ‘‘اِس پرآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بخار کو بُر ا نہ کہو کہ یہ تو آدمی کی خطاؤ ں کو اس طر ح دور کر تا ہے جیسے بھٹّی لوہے کے میل کودور کردیتی ہے ۔‘‘( مسلم، کتاب البر والصلة، باب ثواب المؤمن …الخ  ص۱۰۶۸، حدیث: ۲۵۷۵)

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : بیماریاں ایک یا دو عُضْوْ کو ہوتی ہیں مگربخار سر سے پاؤں تک ہر رَگ میں اثر کرتا ہے،لہٰذا یہ سارے جسم کی خطاؤں اور گناہوں کومُعاف کرائے گا۔(مرآۃ المناجیح،۲/۴۱۳)

جب شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےیہ ارشاد فرمایا:بخار گناہوں کا کفارہ