Book Name:Bimari Kay Faiedy

جب تمہیں کہہ چکا ہوں کہ خیر و عافیت سے ہوں تو کافی ہے،جو بات کہنا نہیں چاہتا وہ مت پوچھو ۔

(منہاج القاصدین،کتاب الصبر والشکر،ص۳۲۳)

شکایت کیسی؟

خلیفۂ اعلیٰ حضرتمفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکا بیان ہے: ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت(رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) بیمارتھے،میں عیادت کو گیا،حسبِ محاورہ پوچھا:حضور! اب شکایت کا کیا حال ہے؟ فرمایا: شکایت کس سے ہو ؟اللہ(پاک)سے نہ تو شکایت پہلے تھی نہ اب ہے ، بندہ کو خدا سے کیسی شکایت! (صَدْرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:)میں نے زندگی بھر کے لئے اس محاورے سے توبہ کر لی ۔(فتاویٰ امجدیہ ، ۲/۳۸۸)

زَباں پر شِکوۂ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے

نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے

پیاری پیاری ا سلامی بہنو! عموماً بعض اسلامی بہنیں جب مسلسل بیماری میں مبتلا رہنے لگیں یا ایک کے بعد ایک بیماری آپڑے تو ان کے ذہنوں میں عجیب  وغریب منفی خیالات اور وسوسے گردش کرنے لگتے ہیں،مثلاً”میں نے تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا“۔”کسی کا حق نہیں کھایا یا دبایا“۔”کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی“۔”کسی کا دل نہیں توڑا“۔”کسی کا کچھ نہیں بگاڑا مگر پھربھی نہ جانےمیں کیوں بیماریوں میں  جکڑی رہتی ہوں“وغیرہ۔!ایسوں کیلئے عرض ہے کہ”دوسروں کا بُرا چاہنا یا کچھ بگاڑنا“ہی بیماریوں کے آنے کا باعث نہیں ہوتا،بسا اوقات یہی بیماریاں انسان کو نیک لوگوں کے مرتبے تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں،چنانچہ

بیماری میں مبتلاکئے جانے کی حکمت

حضرت سیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہسےروایت ہے: دو عبادت گزار پچاس(50) سال تک اللہ