Book Name:Apni Islah Ka Nuskha

لاکھوں میں آئے، غور کیجئے! اتنے سارے گناہوں کے ساتھ ہم اللہپاک کی بارگاہ میں کیسے پیش ہوں گی۔ اس لیے ابھی وقت ہے ابھی ہم توبہ کریں اور آئندہ گناہوں سے بچیں اور ٹھیک طریقے سے اپنامحاسبہ یعنی فکرِ مدینہ کرنے  والیاں بنیں۔

اس حکایت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ  جو کوئی فکرِ مدینہ یعنی اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتا ہے اللہپاک بندوں میں یہ اعلان کرواتا ہے کہ وہ جنت میں چلا گیا۔ لہٰذا ہمیں بھی محاسبۂ نفس یعنی فکرِ مدینہ کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔

مُحاسَبَۂ نفس کی اہمیت

یاد رکھیں جس طرح دُنیاوی کاروبار سے تَعَلُّق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی وقت کامیاب  تاجر بن سکتا ہے، جب وہ اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے کئی گُنا زیادہ نفع کمانے میں کامیاب ہوجائے اور اس کا اَصَل سرمایہ بھی مَحْفُوظ رہے ۔ اِس مَقْصَد کے حُصُول کے لئے وہ اپنے کاروبار (Business) كا روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ حساب کتاب کرتا ہے،پھر اُس پر مختلف پہلوؤں سے نہ صرف زبانی غور و فِکْر کرتا ہے بلکہ اُس کوتحریری طور پر محفوظ رکھنے  کی کوشش کرتا ہے،جہاں کسی قسم کی خامی نظر آئے، اُسے دُرُسْت کرتا ہے اور جوچیز نفع کے حُصُول میں رُکاوٹ نظر آتی ہے اس کو دُور کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کاروباری مُعامَلات کا مُحاسَبہ نہ کرے تو اُسے نفع حاصل ہونا تو درکِنار ،اُلٹا نُقْصان کا سامنابھی ہوسکتا ہےاور اگر اس نُقْصان کے بعد بھی وہ ”خواب ِ خرگوش“(یعنی غفلت کی گہری نیند) سے بیدار نہ ہوتو ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ اُس کا اَصَل سرمایہ بھی باقی نہیں رہتا اور وہ کوڑی کوڑی کا مُحتاج ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جو شخص ”کاروبارِ آخرت“میں نفع کمانے کا آرزُو مَنْد ہو ،اُسے بھی چاہئے  کہ اپنے کئے گئے اَعْمال پر غور کرے ، جو اَعْمال اُس کو نفع دِلوانے میں مُعاون  ثابت ہوں، اُن کو مزید بہتر کرے اور جو کام اِس نفع کے حُصُول میں