Book Name:Apni Islah Ka Nuskha

میں بھی آسانیاں ہو جاتی ہیں اور ٭مُحاسَبَۂ نفس کی وجہ سےآخرت بھی اچھی  ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ  ہمارا دین مُحاسَبَۂ نفس کی بڑی تلقین کرتا ہے، آئیے! اب ہم مُحاسَبَۂ نفس کی تعریف  سنتی ہیں، تاکہ ہم زیادہ اچھے انداز میں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں،چنانچہ

مُحاسَبَہ کیا ہے ؟

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمدغزالیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنی مشہور کتاب”اِحیاء العلوم“میں فرماتے ہیں:اعمال کی کثرت،مقدار میں زیادتی اور اعمال میں نُقصان کو پہچاننے کے لیے جوغورکیا جاتا ہے اسے مُحاسَبَہ کہتے ہیں، اگر کوئی اپنے دن بھر کے اعمال کو سامنے رکھے تاکہ اسے کمی بیشی کا علم ہوجائے یہی مُحاسَبَہ ہے۔(احیاء العلوم،۵/۳۱۹)

فکر ِمدینہ کسے کہتے ہیں ؟

                             اَلْحَمْدُ لِلّٰہ شيخِ طريقت،امیراہلسنَّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس پُرفتن دور میں ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا ذہن دیاہے ،دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اپنے اَعْمال  كا مُحاسَبہ کرنے کو ”فکرِ مدینہ“ کہا جاتا ہے۔ فکر ِمدینہ سے مُراد یہ ہے کہ ہر ایک اُخْرَوی اِعتبار سے اپنے معمولاتِ زندگی پر غور و فِکْر کرے،پھر جو کام اُس کی آخرت کے لئے نُقْصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں، اُن کی اِصْلاح کی کوشش کرےاورجوکام اُخْرَوی اِعتبار سے نَفْعْ بَخْش نظر آئیں اُن میں بہتری کے لئے اِقْدامات  کرے۔ اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ کرنے سے خُوب خُوب برکتیں حاصل ہوتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بُزرگانِ دین نہایت اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ (اپنے اَعْمال کا مُحاسَبہ) کرتے تھے اور اس سے کسی صُورت بھی  غفلت اِخْتیار نہ کرتے تھے ،آئیے! اسی بارے میں بزرگانِ دین کے کچھ واقعات سنتی ہیں: