Book Name:Ikhtiyarat-e-Mustafa (12Shab)

اِجازت عطا فرمادی ۔ یونہی روزے کے کَفّارے کا بھی ایک واقعہ ہے ،وہ بھی سنئے، مگر اُس سے  پہلے یہ مسئلہ ذہن میں رکھئے کہ روزہ توڑنے کے بارے میں عام حکم یہ ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں کسی عاقِل(عقلمند)بالِغ،مُقیم (یعنی غیرِمُسافِر)نے اَدائے روزۂ رَمَضان کی نِیَّت سے روزہ رکھااور بِغیر کِسی صحیح  مجبوری کے جان بُوجھ کر جِماع کِیا یا کَروایا،یاکوئی بھی چیز لَذَّت کیلئے کھائی یا پی تَو روزہ ٹوٹ گیااور اِس کی قَضا ء اور کَفّارہ دونوں لازِم ہیں۔([1])(قضا تو یہ  ہےکہ وہ روزہ علاوہ رمضان کسی اَور دن دوبارہ رکھے اور) کَفّارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک رَقَبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے تو پے درپے(یعنی مسلسل) ساٹھ (60)روزے رکھے، یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ(60) مساکین کو پیٹ بھر،دونوں وقت کھانا کھلائے۔([2]) روزہ توڑنے والے ہر مسلمان کیلئے یہی حکمِ شَرعی ہے مگر شارِعِ اسلام ،شاہِ خیرُ الاَنام صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے عظیمُ الشّان اِخْتِیارات سے اپنے ایک صحابی کے لئے انتہائی خوبصورت انداز میں یہ کَفّارہ معاف فرمادِیا چُنانچہ،

سزا کو انعام میں بدل دِیا

حضرت سَیِّدُنا ابو ہُرَیْرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ اَقْدَس میں حاضر ہوکر عَرْض کی:یارسولَالله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں ہلاک ہوگیا۔فرمایا:کس چیز نے تمہیں ہلاکت میں ڈال دِیا؟عر ض کی:میں رَمَضان میں اپنی عورت سے صُحبت کر بیٹھا۔فرمایا:کیا غلام آزاد کرسکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔فرمایا : کیا لگاتار دو(2)مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو ؟عَرْض کی: نہیں۔ فرمایا : کیا ساٹھ(60)مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔اتنے میں خدمتِ اَقْدَس میں کھجور لائے


 

 



[1]    فیضانِ سنت بحوالہ رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۳۸۸

[2]   بہارِ شریعت،حصہ پنجم،۱/۹۹۴ملتقطاً