Book Name:Mufti Farooq or Naikeyoun ke Hirs

  کوئی اور ہوتا تو شاید میری خوب خبر لیتا مگر مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قربان! آپ نے مجھے اس بارے میں ذرا بھی نہیں ڈانٹا بلکہ نہایت نرمی کے ساتھ مجھے میری غلطی کی طرف مُتَوَجِّہ کیا ۔     (مفتیٔ دعوتِ اسلامی،  ص۳۹)  

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

نرمی کی اہمیت اور فوائد: 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور کیجئے! مفتیٔ دعوتِ اسلامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کیسےنرم مزاج شخص تھے،  نرمی ہی سے کام لیتےاور نقصان ہوجانے پر بھی نرمی کا دامن نہ چھوڑتے اور نرمی سے ہی اصلاح بھی فرماتے تھے۔    اے کاش! ہم بھی نرمی اپنانے والے بن جائیں ۔    افسوس! آج ہمارے معاشرے کی ایک تعداد ہے،  جو نرمی سے تعلق توڑتی نظر آ رہی ہے۔    ایک تعداد ہے جس میں نرمی کی جگہ بے جا سختی نے لے لی ہے۔    نرمی کے ختم ہونے کی وجہ سے لوگوں سے خیرخواہی  اورخدا ترسی کا جذبہ دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔    نرمی کے ختم ہونے کی وجہ سے  بات بات پہ جھگڑنا عام ہوتا جا رہا ہے،  نرمی کے ختم ہونے کی وجہ سے لوگ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی لڑنےجھگڑنےپر کمربستہ ہوجاتے ہیں،  نرمی کے ختم ہونے کی وجہ سے آپس کی محبتیں اور صبر و تحمل جیسی عمدہ عادات ختم ہوتی جا رہی ہیں،        نرمی کے ختم ہونے کی وجہ سے ہی عفو و درگزر سے منہ موڑا جارہاہے۔    حالانکہ نرمی ایک ایسی خصلت ہے ،        جو شریعت کو بے حد مطلوب  (Required)  ہے،  نرمی ایک ایسی خوبی ہے،  جو تمام بھلائیوں کی اصل ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو انسان کو رحم پر اُبھارتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو انسان کو ظلم سے روکتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو انسان کو تکبّر سے بچاتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو بندے کو صلح اور معافی کی جانب لاتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو بندے کو ہر دلعزیز بناتی ہے،  نرمی ایسی صفت ہے جو انسان میں سختی  کو ختم کرتی ہے۔    آئیے نرمی کی فضیلت پر 3 فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنتے ہیں:

  -1بیشک اللہ پاك رفیق ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جوسختی پر عطانہیں فرماتا  بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔      (مسلم ،        کتاب البر والصلۃ،        باب فضل الرفق،  ص۱۰۷۲،        حدیث:  ۲۵۹۳)