Book Name:Musibaton Pr Sabr ka Zehen kese Bane

خیر خواہی نہ کی تو بے صبری،٭بس وغیرہ میں بِھیڑ کے سبب کسی نے پاؤں دبا دیا تو بے صبری،٭ کاروبار میں نقصان ہوگیا تو بے صبری، ٭پاؤں پھسل گیا یاچوٹ لگ گئی تو بے صبری،٭مدنی مشورہ  شروع ہونے میں کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی تو بے صبری،٭کسی ذمہ دار یا ماتحت سے دل دُکھ گیا تو بے صبری،٭کسی وجہ سے تنظیمی ذمہ داری واپس لے  لی گئی یا کسی دوسرے شعبے میں تبادلہ ہوگیا تو بے صبری، ٭مدنی قافلے میں سفرکے دوران آزمائش آگئی تو بے صبری٭ہمسائے کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی تو بے صبری۔الغرض زندگی کے کم و بیش ہر شعبے سے تَعَلُّق رکھنے والوں کوبے صبری کی بُری آفت نے اپنی  لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

یاد رکھئے!مصیبتیں،پریشانیاں اور بیماریاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں،لہٰذاان پر گھبرانا،چیخنا چلانا، شکوے شکایات کے اَنبار لگانا اوربِلاضرورت کسی پر اِظہار کرنا ہرگز عقلمندوں کا طریقہ نہیں،ایسے مواقع پر اللہ  پاک کی رضا پر راضی رہتے ہوئے،صبر کا دامن مضبوطی سے تھام کر اس کے بدلے میں ملنے والے فضائل اور ثواب پر نظر رکھنی چاہئےکہ یہی اللہ  والوں کا ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے،جیسا کہ

ایک بار امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:جب میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہوں اس وقت بھی  مجھ پر اللہ پاک کی ان چار نعمتوں کا نزول ہوتاہے: (1)اس مصیبت کے سبب فی الوقت میں گناہ میں مبتلا نہیں ہوتا۔(2)اس مصیبت کے وقت مجھ پر اس سے بڑی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔(3)اس مصیبت کے وقت میں اس پر راضی ہوتا ہوں۔(4)اس مصیبت کے وقت مجھے اس پر ثواب کی اُمید ہوتی ہے۔( فیض القدیر، حرف الھمزۃ،۲/۱۶۹،تحت الحدیث: ۱۵۰۶)