Book Name:Musibaton Pr Sabr ka Zehen kese Bane

کریم کی بارگاہ میں پہنچ گیا ہوگا،تین(3)مرتبہ اس نے یہی کلمات کہے، پھر اس طرح درخواست گزار ہوئی:اے میرے پاک پروردگار!جیسا تُو نے حکم دیا میں نے ویسا ہی کیا، اب تُو بھی اپنے اس وعدے کو پورا فرما دے جو تُو نے کیا ہے،بے شک تُو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(عیون الحکایات،ص ۳۰۳)

ٹُوٹے گو سر پہ کوہِ بَلا صَبْر کر                                                   اے مبلغ نہ تُو ڈگمگا صَبْر کر

لب پہ حرفِ شکایت نہ لا صَبْر کر                                              ہاں یہی سُنّتِ شاہِ ابرار ہے

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۴۷۳)

مختصروضاحت:بالفرض  اگر  تجھ پر بلاؤں کے پہاڑ بھی ٹُوٹ پڑیں تب بھی تجھے چاہئے کہ تُو صبر سے کام لے۔اے مبلغ!مصیبتوں سے مت گھبرااورصبر سے کام لے۔جب بھی کوئی مصیبت یا پریشانی آجائےتو حرفِ شکایت زبان پر لانے کے بجائے صبر سے کام لینا،اس لئے کہ مصیبتوں پر صبر کرنا تو مکی مدنی سلطان،سرورِ ذیشان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری پیاری سُنّت ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ!سُنا آپ نے!پہلے کے مسلمانوں کا مصیبتوں اور آزمائشوں پر صبرکے معاملے میں کس قدر زبردست مدنی ذہن بنا ہو اتھا،جو حالتِ جوانی میں اولاد کی فوتگی جیسے غمناک موقع  پر بھی بے صبری،نوحہ، چیخ وپکار اور کوئی بھی غیر شرعی کام کرنے کے بجائے رِضائے الٰہی پر راضی رہتے تھے۔انہیں اس بات کا پختہ یقین ہوتا تھا کہ اولاد اللہ  پاک کی اَمانت ہوتی ہے، اگر اس نے اپنی امانت واپس لے لی  ہےتو اس پر بے صبری کا مظاہرہ یا چیخ و پکارکرنے کے بجائے دل  وجان سے اس کے فیصلے کو تسلیم کرلینا چاہئے۔مگر افسوس!علمِ دِین سے دُوری کے باعث اب ہمارے معاشرے میں اس طرح کی مدنی سوچ رکھنے  والے بہت کم نظرآتے ہیں اورگویا کہ ہر دُوسرا شخص کسی نہ کسی اِعتبار سے بے صبری