حسینی قافلے کے شرکا

میدانِ کربلا میں بے مثال قربانیاں پیش کرکے امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کے رُفَقَا نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم کیا، حسینی قافلے کے شُرَکاء میں بنوہاشم کے سولہ، سترہ یا انیس افراد تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج4،ص416تا426-الاستیعاب           ،ج1،ص445ملخصاً) سوانح کربلا، صفحہ 128 پر ہے: امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ اہلِ بیت ودیگر کل82نُفُوس  تھے جبکہ ایک قول کے مطابق یہ کاروانِ عشق 91 افراد پر مشتمل تھا جس میں 19اہلِ بیت اور 72دیگر جاں نثار تھے۔(تاریخ  کربلا ،ص269)حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: کربلا میں حسینی قافلہ بہتّر(72) آدمیوں پرمشتمل تھا۔(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص387)

حسینی قافلے کے شُرَکا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے پناہ محبت کرتے اور اپنا تَن مَن دَھن آپ پر لٹانے کا بے مثال جذبہ رکھتے تھے اور بڑے بہادر وشجاع تھے۔ امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دورانِ سفر عرض کی: بابا جان! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔ (تاریخ الطبری،ج 9،ص216 ماخوذاً) اسی طرح ایک جانثار نے عرض کی: اگر دنیا ہمارے لئے باقی رہے اور ہم اِس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں اور پھر آپ کی مددو نصرت کے سبب ہمیں دنیا چھوڑنی پڑے تو ہم آپ ہی کا ساتھ دیں گے۔(تاریخ الطبری،ج9،ص213)  حسینی قافلے کے بعض شُرَکا توبہت مشہورہیں مثلاًعلی اکبر،علی اصغر، عباس، حُر، قاسم، عَون، محمد رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنمگر بعض زیادہ شہرت نہیں رکھتے، جیسےحضرت سیدنا عثمان بن علی المرتضیٰ، ابوبکر بن امام حسن، عُمَر بن امام حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم۔ حضرتِ عثمان بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آگے آگے رہ کر خود کو اُن کی ڈھال بنائے رکھا، یزید اَصْبَحِی نے آپ کو تیر مار کر زخمی کیا پھر آپ کا مبارک سَر تَن سے جدا کیا اور اپنے لیڈر سے ذلیل دنیا کا انعام لینے پہنچ گیا۔(الاخبار الطوال،ص379 ماخوذاً) شِمْر بن ذی الجَوْشَن نے کربلا میں حسینی لشکر کے بعض جاں نثاروں کو اَمان دینے کی بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اَمان کو ٹھکرا دیا کہ تجھ پر اور تیری اَمان پر اللّٰہ تعالٰی کی لعنت ہو کہ تو ہمیں اَمان دیتا ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیٹے (امام حسین) کے لئے کوئی اَمان نہیں۔(تاریخ الطبری، ج9،ص224) حضرت ابوبکر بن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کربلا میں شہید ہوئے جو عبداللہ بن عقبہ غَنَوِی کے تیر کا نشانہ بنے۔ (الاخبار الطوال، ص379) قیدی بنائے جانے والے بچوں میں ایک چار سال کے شہزادے حضرتعُمَر بن حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے۔ (الاخبار الطوال، ص380) حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عُمَر نامی دو شہزادے تھے ایک نے کربلا میں شہادت پائی اور دوسرے قید ہوئے۔(سوانح کربلا، ص126تا127) خاندانِ علی میں عام طور پر ابوبکر، عُمَر، عثمان اور عائشہ نام رکھے جاتے تھے۔ جن پانچ بیٹوں سے مولا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی اولاد چلی اُن میں سے ایک کا نام عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا،جن کا 85 برس کی عمر میں مقامِ یَنْبُع میں وصال ہوا جبکہ ایک بیٹے حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھےجنہوں نے کربلا میں شہادت پائی۔(الکامل فی التاریخ،ج 3،ص262تا263)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا مضمون سے اہلِ بیتِ اَ طْہار کی صحابۂ کرام سے مَحبَّت کا دَرْس بھی ملتا ہے۔ یہ خلفائے راشدین سے محبت ہی تھی کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر  رکھے، اسی طرح حضرت سیّدنا امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دوبیٹوں کے نام عُمَر اور عثمان تھے، امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک شہزادی عائشہ نام کی تھیں، امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تین  بچوں کے اسمائے گرامی عُمَر، ابوبکر اور عائشہ تھے اور یوں ہی امام علی رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عائشہ تھا۔(طبقات الکبریٰ،ج5،ص163، سیراعلام النبلاء،ج8،ص251، تہذیب الکمال،ج7،ص403 وغیرہا)


Share

حسینی قافلے کے شرکا

بعض اوقات انسان اس فانی دنیا  کی  نعمتوں اور مقام و منصب کےحصول کی لالچ میں  اپنی آخرت  برباد کربیٹھتا ہے حالانکہ دنیا بھی اسکے ہاتھ نہیں آتی۔ یوں وہ  دنیا میں بھی  ذلیل و خوار اور آخرت میں درد ناک عذاب کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:’’حُبُّ الدُّنْيا رَأسُ كُلّ خَطِيئَةٍ‘‘یعنی دنیا کی محبت ہربرائی کی جڑ ہے۔(جامع صغیر للسیوطی، ص223،حدیث:3662)

 دنیاوی لالچ میں آکر  دوجہاں کی تباہی و بربادی مول لینے کی ایک عبرتناک مثال  یزیدی لشکر کی ہے جس نے مال و دولت اور حکومت و اقتدار کی   خاطر نواسَۂ  رسول حضرتِ سیّدناامام حسین اور ان کے رُفَقارضی اللہ تعالٰی عنھمکو شہید کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے جو لوگ ان نفوس قدسیہ کے مقابلےمیں آئے وہ زندگی میں چین نہ پاسکے ،یہاں بھی انہوں نے ذلت و رسوائی کی سزا پائی جبکہ میدانِ محشر کا معاملہ اس کے علاوہ ہے۔تقریباً چھ ہزار تو مختار ثقفی([1])کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔چند کا عبرتناک انجام یہاں ذکر کیا گیا ہے:حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کاقاتل سنان بن انس نخعی ایک بار لوگوں کے درمیان  کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میں نے امامِ حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ)کو قتل کیاہے۔یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلا گیا۔ اچانک  اس  کی زبان بند ہوگئی، عقل جاتی رہی، اس کی یہ حالت ہوگئی کہ جہاں کھاتا تھا وہیں پیشاب و پاخانہ کرتا تھا۔ (طبقات ابن سعد ج،6،ص454ملخصاً)ابن سعد، شمر، قیس ابن اشعث کندی،  خولی ابن یزید، عبداللہ بن قیس، یزید بن مالک اور باقی تمام اَشقیا (بدبخت) جو حضرت امامرضی اللہ تعالٰی عنہ کے قتل میں شریک اور ساعی (یعنی کوشش کرنے والے) تھے طرح طرح کی عقوبتوں (تکلیفوں) سے قتل کئے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرائی گئیں۔(سوانح کربلا،ص183) حضرت سیّدنا عِمارہ بن عُمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جس وقت ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لاکر رکھے گئے تومیں بھی ان کے قریب گیا اچانک ایک شور سا بلند ہوا وہ آ گیا، وہ آ گیا،میں نے دیکھا تو ایک بڑاسانپ ان سروں کے درمیان سے ہوتا ہوا ابن زیاد کے سر کے پاس پہنچا اور اس کے نتھنے میں گھس گیا۔  تھوڑی دیر بعد نکل کر غائب ہو گیا۔ اچانک پھر شور مچا وہ آگیا، وہ آ گیا پھر وہی سانپ نمودار ہوااور دو  یا تین بار اسی طرح کیا۔ (یعنی ابن زیاد کے نتھنوں میں گھسا۔) (ترمذی، ج5،ص431، حدیث: 3805) حضرت سیّدنا ابورَجاء عُطارِدِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اہلِ بیتِ اطہار کو بُرا  نہ کہو! کیونکہ وہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گھرانا ہے۔میرا ایک پڑوسی تھا جب حضرت سیّدنا امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا تو اس نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں کہا:دیکھوفُلاں بن فُلاں کا کیا حال ہوا۔اللہ    عَزَّ وَجَلَّ نے آسمان سے دو ستارے  اُس کی دونوں آنکھوں میں مارے جس سے وہ اندھا ہو گیا۔(الشریعۃ للآجری،ج 5،ص2182، رقم:1676) خولی بن یزیدجس نے حضرت سیّدنا امام حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ کے سر اقدس کو تن سے جدا کیا تھا   ذلّت کی موت مارا گیا۔ یہ گھر میں چھپ گیا تھا  اس کی بیوی  نے ہی اسے پکڑوا دیا۔مختار کے حکم سے اسے شاہراہ عام پر قتل کیا گیاپھر  اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔ (الکامل فی التاریخ، ج4،ص46، ملخصاً)

 اسی طرح  باقی دشمنانِ اہلِ بیت  بھی ذلّت و رسوائی کی موت مارے گئےاور جس منصب اور مال و دولت کی خاطر انہوں نے  نواسَۂ رسول کے قتل جیسے بدترین  جرم  کا ارتکاب کیا وہ بھی ان کے ہاتھ نہ رہا ۔اس واقعہ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہر انسان کو چاہئے کہ اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور کسی بھی بڑی سے بڑی  چیز کی لالچ میں آکر اللہ  عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی نہ کرے ۔



[1] ...مختار ثقفی جس نے قاتلینِ حسین کو چُن چُن کر مارا اور مُحبینِ حسین کے دل جیتے مگر اس پر شقاوتِ ازلی غالب ہوئی  اور وہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے مُرتد ہوگیا۔(ماخوذ از الصواعق المحرقہ،ص198)


Share

حسینی قافلے کے شرکا

میدانِ کربلا: 10 محرم الحرام 61 ھ  میں تاریخِ اسلام  کا  ایک اِنتہائی  دَرْدْناک  واقعہ پیش آیا  کہ جب  خاندان ِ اہل ِ بیت اور ان کےجانثار رُفَقا  کو  یزیدی لشکر نے بھوک پیاس کی حالت میں شہید کر دیا ۔جہاں  یہ تاریخی  واقعہ  رُونما ہوا اس جگہ  کا نام ”کربلا“ ہے۔ کربلا نَجَف  سے 80 کلو میٹر اور بغداد سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر  نہرِ فرات کے قریب واقع ہےجبکہ کوفہ سےتقریباً 75 کلومیٹر دور ہے۔پہلے یہ  صحرا تھا لیکن  اب   یہ ملکِ عراق  کاشہر ہے۔ کربلا کی لغوی و تاریخی حیثیت: کربلا دو الفاظ ”کرْب و بَلا“سےمرکب ہے۔(فیروز اللغات، ص 1060)  کچھ اہلِ لغت نے کہاکہ یہ ”کَرْبَل (چھانی ہوئی گیہوں)“یا”کَرْبَلَۃٌ (دلدلی زمین)“سے ماخوذ ہے اس لئے کہ وہاں  کی زمین  کنکروں سے خالی  اور نرم  ہے۔ ایک قول کے مطابق ”کَرْبَل“ ایک جڑی بوٹی کا نام ہے جو وہاں اُگتی  تھی اس لئے اس   جگہ کا نام کربلا  پڑگیا۔ (معجم البلدان،ج4،ص125 ماخوذاً) احادیث مبارکہ میں اس جگہ کا ذکر ” نینویٰ“ اور ”طُف“کے ناموں سے بھی آیاہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،ج21،ص146، حدیث: 38522، معجم کبیر، ج3،ص106،حدیث:3813)اسلام میں کربلا کی اہمیت: اسلامی تاریخ میں اس مقام کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے متعلق بعطائے الٰہی غیب کی خبریں ارشاد فرمائیں چنانچہ امُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ  حضرت جبریل علیہ السَّلامنبیِّ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور  خبر دی  کہ آپ کی امت آپ کے بعد آپ کے اس شہزادے(حضرت سیدنا امام حسین) کوکربلا نامی مقام پر شہید کر دے گی، پھر شہادت گاہ کی مٹی  حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں پیش کی،نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  اسے سونگھا اور فرمایا: ”رِیْحُ کَرْبٍ وَ بَلَاءٍ“ یعنی (اس میں سے)بے چینی اور بلا کی بُو آتی ہے۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم،ص330ملخصاً، تاریخ ابن عساکر،ج 14،ص193) پھر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے وہ  مٹی امُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا امِّ سلمہرضی اللہ تعالٰی عنہا کودی اور فرمایا: جب یہ مٹی خون ہو جائے توجان لینا  کہ حسین شہید ہوگیا۔(معجم کبیر، ج3،ص108، حدیث: 2817- 2819مفہوماً) مولا علی کا میدان کربلا سے گزر: منقول ہے کہ جب  امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کا کربلا سے گزر ہوا  تو آپرضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بٹھائی جائیں گی،  یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہا ئے جائیں  گے۔ (الصواعق المحرقہ، ص193 ملخصاً) جب امام  عالی مقام کو دشمنوں نے گھیر  لیا تو آپرضی اللہ تعالٰی عنہ نےپوچھا : اس جگہ کا کیا نام ہے ؟  جواب ملا : کربلا ، تو آپ نے فرمایا:  بے  شک نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سچ فرمایا  تھا کہ یہ  کرب و بلا  کی زمین ہے۔(معجم کبیر،ج3،ص108، حدیث: 2812 ملخصاً)شہدائے کربلا کے مزارات: واقعۂ کربلا کے بعد قبیلۂ غاضریہ کے لوگوں نے شہدائے کربلارضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین کی تدفین کی۔( الکامل فی التاریخ،ج3،ص433)


Share

حسینی قافلے کے شرکا

جلیلُ القدر صحابیِ رسول،  کاتبِ وحی اور اسلام کے پہلے سلطان حضرت سیّدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رجبُ المُرَجَّب 60 ہجری میں وِصال ہوا، ان کے بعد یزید تختِ سلطنت پر بیٹھ گیا۔ یزیدپلید گانے باجے کے آلات بجانے، شراب نوشی کرنے، راگ اَلاپنے، کتّے پالنے، مینڈھوں، ریچھوں اور بندروں کے لڑانے میں مشہور تھا، وہ ہرصبح نشے میں ہوتا۔(البدایہ والنہایہ،ج 5،ص749) صدرالافاضل مولانا سیّد نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی لکھتے ہیں کہ  یزید بَدخُلق،تُنْدخُو، فاسق،فاجر،شرابی، بدکار، ظالم، بے ادب اور گستاخ تھا، اس کی شرارتیں اور بیہودگیاں ایسی ہیں جن سے بدمعاشوں کو بھی شرم آجائے۔ مَحْرَمات (جن سے نکاح حرام ہوتاہے)کے ساتھ نکاح اور سود وغیرہ مَنْہِیّات(یعنی حرام چیزوں) کو اس بے دِین نے عَلانیہ رَواج دیا، مدینۂ طیبہ ومکّۂ مکرّمہ کی بےحرمتی کرائی۔(سوانح کربلا، ص112 ملخصا)امامِ عالی مقام نے بیعت سے انکار کردیا:مدینۂ طیبہ کا عامِل جب یزید کی بیعت لینے کیلئے امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کے فِسق وظلم کی بناپراس کو نااہل قرار دیا اور بیعت سے انکار فرمایا۔ (سوانح کربلا، ص114) کوفہ کی طرف سفر کے دوران امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے مقامِ قادسیہ پر ایک خطبہ دیاجس میں یزید اور یزیدیوں کے مَظالم کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ  وسلَّم نے فرمایا:جس نے کسی ظالم حکمران کو دیکھا جو اللہ کے حرام کردہ کو حلال کررہا ہے اور اس کے عہد کو توڑ رہا ہے، سنّتِ رسولُ اللہ کی مخالفت کررہا ہے، اللہ کے بندوں میں گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتاہے تو دیکھنے والا اگراس حاکم کو اپنے قول وفعل سے بدلنے کی کوشش نہ کرے تو اللہ پرحق ہے کہ اس شخص کو اس کے ٹھکانے میں داخل کردے۔(الكامل فی التاریخ،ج 3،ص408)

یزید کی بیعت نہ کرنے کے دُوررَس اَثرات

امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ تعالٰی نے نہ صِرف خوفِ خدا، تقویٰ و پرہیز گاری، جرأت وبہادری اورحِلم وبُرْدباری جیسے عظیم اَوصاف سے نوازا تھا بلکہ فِراست، تَدَبُّر اور دُور اندیشی جیسی اعلیٰ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی تھیں۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یزید کی بیعت نہ کرنا آپ کی فِراست اوردور اندیشی پر دلالت کرتا ہے، جس کے یہ  اَثرات ظاہر ہوئے: حق وباطل میں فرق: امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یزید کی بیعت نہ کرکے تاقیامت حق و باطل میں فرق کردیا ۔نااہل کو مَنْصَب دینے کی مُمانَعَت:آپ کے بیعت نہ کرنے  سے دنیا پر واضح ہوگیا کہ نااہل کو کبھی کوئی منصب نہ دیا جائے اور اگربالفرض وہ زبردستی کسی عُہدے کو حاصل کرلے تو اہلِ عزیمت کو چاہئے کہ ہرگزاُس کی اِطاعت نہ کریں۔فسق وفجورکا دروازہ بندکردیا:اگر آپ یزید کی بیعت کرلیتے تو اس کی ہربدکاری کے جواز کے لئے آپ کی بیعت سند (یعنی دلیل) ہوجاتی اورشریعتِ اِسلامیہ وملّتِ حنیفہ کا نقشہ مٹ جاتا۔نظامِ اِسلام کا تَحَفُّظ:اگرآپ یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدرومنزلت کرتا، خوب مال ودولت نچھاور کرتالیکن اِسلام کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور ایسا فساد برپا ہوتا جسے بعد میں دور کرنا دُشوار ترین ہوتا۔اَحکامِ شرعیَّہ میں برابری: آپ کا یزید کی بیعت نہ کرنا اس کے فِسق وفجور کو واضح کرتا اور اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ اَحکامِ شرعیہ ایک عام آدمی وحاکم سب کیلئے برابر ہیں، جس طرح عام شخص کا فِسق و فجور سے بچنا ضَروری ہے اسی طرح  حاکم کابھی۔اِسلامی ریاست کا تَحَفُّظ: امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی فراست سے جان لیا تھا کہ یزید بیعت کے بعد اِسلامی ریاست کا کیا حال کرے گا اسی لئے آپ نے بیعت نہ کی، آپ کی شہادت کے بعدیزیدی فوجوں نے مدینۂ منورہ پر لشکرکشی کی، سینکڑوں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو شہید کیا، مسجدِ نبوی شریف کے ستون سے گھوڑے باندھے، تین دن تک مسجد میں لوگ نماز سے مشرَّف نہ ہوسکے، مدینہ میں خوب لوٹ مار کی گئی (وفاءالوفا،ج 1،ص134 ماخوذا) مکّۂ مکرّمہ پر چڑھائی کی گئی، پتھر برسائے گئے حتی کہ مسجدُ الحرام کا صحن پتھروں سے بھر گیا، کعبۃُ اللہ کے غلاف اور چھت کو ان بےدینوں نے جلا دیا اور کعبۃُ اللہ کی بےحرمتی کی۔(تاریخ الخلفاء، ص167، سوانح کربلا، ص178ملخصاً) قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق:قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنا حاکم کی ذمّہ داریوں میں سے اہم ترین ذمّہ داری ہوتی ہے لیکن یزیداور اس کے حواری (ساتھی) قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کے مخالف تھے، امام ِحسینرضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی بیعت نہ کرکے پوری دنیا کو قیامِ امن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کا پیغام دیا۔قربانی کا درس: امامِ حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ  نے اپنی اور اپنے احباب کی جانوں کا نذرانہ راہِ خدا میں پیش کرکے امّتِ مسلمہ کو حق پر قائم رہنے اور ظلم کے سامنے سر نہ جھکانے کا نہ صرف درس(Lesson) دیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ  دینِ اسلام کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے  پیچھے نہ ہٹا جائے ۔ راہ ِخدا میں اپنا گھر بار بیوی بچے مال و دولت سب کچھ لُٹانے  کے سبب امامِ حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ  اور آپ کے اصحاب کا نام اب تک عزّت وعَظَمت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور آئندہ بھی لیا جاتا رہے گا جبکہ یزید اور یزیدیوں کی اب تک مذمت وملامت ہوتی آئی ہے اور تاقیامت اس کا نام تحقیر سے لیا جاتا رہے گا۔ اِنْ  شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ 

قتلِ حسین اَصل میں مرگِ یزید ہے

اِسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد

 


Share