تاجر صحابۂ کرام(قسط : 08)

*   عبدالرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

 حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ہِشام رضی اللہ عنہ

تاجر صحابہ میں حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ہِشام  رضی اللہ عنہ  بھی ہیں ، آپ کی والدہ حضرت سیِّدَتُنا  زینب بنتِ حُمید   رضی اللہ عنہا  آپ کو بچپن میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت ميں لائیں اور عرض کی : یارسولَ اللہ! اس کو بیعت فرما لیجئے۔ فرمایا : یہ چھوٹا بچّہ ہے۔ پھر آپ کے سَر پر حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ہاتھ پھیرا اور آپ کے لئے (برکت کی) دُعا کی۔ آپ کے پوتے حضرت سیِّدُنا زُہرہ بن مَعبد   رضی اللہ عنہما  (جو بقول امام دارمی کے اپنے وقت کے ابدال تھے) فرماتے ہیں : میرے دادا حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ہِشام  رضی اللہ عنہ  مجھے بازار لے جاتے اور وہاں غلہ خریدتے تو حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر  اور حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہما  اُن سے ملتے اور کہتے : ہميں بھی (اپنی تجارت میں) شریک کرلیں کیونکہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کے لئے دعائے برکت کی ہے ، آپ انھیں بھی شریک کرلیتے اور بسا اوقات ایک پورا اونٹ نفع ميں مل جاتا اور اُسے گھر بھیج دیا کرتے۔ ([i])

علّامہ عَینی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلبِ مَعاش کے لئے بازار میں جانا چاہئے اور برکت جہاں سے بھی ملے اس کو حاصل کرنا چاہئے۔ نیز اس حدیث میں تجارت کو طلب کرنے کا ثبوت ہے اور شرکت (Partnership) کے سوال کا بھی ثبوت ہے۔ ([ii])

مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ  (حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ہِشام کے اپنے پوتے کو بازار لے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں : تاکہ انہیں خرید و فروخت آجائے۔ معلوم ہوا کہ اولاد کو جیسے عبادات سکھائی جائیں ویسے ہی انہیں معاملات کی تعلیم دی جائے ، تجربہ کرایا جائے کہ معاملات بھی عبادات کی طرح ضروری ہیں ان کے احکام سخت ہیں۔ (نفع میں ایک پورا اونٹ ملنے کی وضاحت میں فرماتے ہیں : ) اونٹ سے مراد اونٹ کا بوجھ یعنی گندم کی بوریاں ہیں یعنی بسا اوقات ایک اونٹ گندم کا بیوپار کرتے تو پورا اونٹ نفع میں بچ رہتا۔ ([iii])

غزوۂ خیبر کے موقع پر صحابہ کی تجارت

صحیح احادیث کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ابو داؤد شریف کے “ بَابٌ فِي التِّجَارَةِ فِي الْغَزْوِ “ میں ہے : ایک صحابیِ رسول کا بیان ہے کہ جب ہم نے خیبر فتح کر لیا  تو لوگ بطورِ غنیمت حاصل ہونے والےمال و متاع اور قیدیوں کی آپس میں خرید و فروخت کرنے لگے ، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب نماز سے فارغ ہوئے  تو ایک شخص نےآکر عرض کی : یارسولَ اللہ! آج مجھے اتنا نفع مِلا ہے کہ اس وادی میں پھیلے ہوئے  لوگوں میں سے کسی کو  بھی  آج اتنا نفع نہیں حاصل ہوا ہوگا۔ آپ نے پوچھا : تمہیں کتنا نفع ملا ہے؟ اس نے کہا : میں برابر بیچتا اور خریدتا رہا یہاں تک کہ مجھے تین سو اُوقیہ (یعنی 12 ہزار درہم) کا نفع ہوا۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : میں تمہیں کسی شخص کا اس سے بہتر نفع بتاتا ہوں ، اس نے عرض کی : یارسولَ اللہ! وہ کیا ہے؟ فرمایا : نماز کے بعد دو رکعت ادا کرنا۔ ([iv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   تاجر اسلامی بھائی



([i])بخاری ، 2 / 145 ، حدیث : 2501

([ii])عمدۃ القاری ، 9 / 291

([iii])مراٰۃ المناجیح ، 4 / 307 ، 308

([iv])ابو داؤد ، 3 / 121 ، حدیث : 2785


Share

Articles

Comments


Security Code