حرمین طیبین کا ادب کیجئے / قرض کی ادائیگی

اسلام کی روشن تعلیمات

حرمین طیبین کا ادب کیجئے

ابومحمد عطاری مدنی

ماہنامہ  ذوالقعدہ 1439

خانۂ کعبہ کی زیارت و طواف ، روضۂ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت ، حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پُرکیف نظاروں کی  زیارت سے اپنی روح و جان  کو سیراب کرنا  ہر مسلمان کی  خواہش  ہوتی ہے ، لہٰذا جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت میسر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ  ہر قسم کی خُرافات و فضولیات  سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ وَر ہو۔ ذیل میں حرمین طیبین کی حاضری کے بارے میں22 اہم مدنی پھول  پیش کئے جارہے ہیں ، جن پرعمل کرنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ زیارتِ حرمین کاخوب   کیف و سرور  حاصل  ہوگا۔

حرمِ مکہ([1]) کےآداب (1)جب حرمِ مکہ کے پاس پہنچیں تو شرمِ عصیاں سے نگاہیں اورسر جھکائے خشوع و خضوع سے حرم میں داخل ہوں۔ (2)اگر ممکن ہو تو حرم میں داخل ہونے سے پہلے غسل بھی  کرلیں۔ (3)حرمِ پاک میں لَبَّیْک و دُعا کی کثرت رکھیں۔ (4)مکۃُ المکرَّمہ میں ہر دَم رَحمتوں کی بارِشیں برستی ہیں۔ وہاں کی  ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کا ایک گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے۔ افسوس! کہ وہاں بدنِگاہی ، داڑھی مُنڈانا ، غیبت ، چغلی ، جھوٹ ، وعدہ خِلافی ، مسلمان کی دِل آزاری ، غصّہ  و تَلْخ  کلامی وغیرہا جیسے جَرائم کرتے وَقت اکثر لوگوں کویہ اِحساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جہنَّم کا سامان کر رہے ہیں۔

مسجدالحرام کے آداب (5)جب خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو ٹھہر کر صدقِ دل سے اپنے اور تمام عزیزوں ، دوستوں ، مسلمانوں کے لئے مغفرت و عافیت اور بِلا حساب داخلۂ جنّت کی دُعا کرے  کہ یہ عظیم اِجابت و قبول کا وقت ہے۔ شیخِ طریقت ، امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : چاہیں تو یہ دعا مانگ لیجئے کہ “ یااللہ میں جب بھی کوئی جائز دعا مانگا کروں اور اس میں بہتری ہو تو وہ قبول ہوا کرے “ ۔ علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے فقہائے کرام  رحمہم اللہ السَّلام کے حوالے  سے لکھا ہے : کعبۃُ اللہ  پر پہلی  نظر پڑتے  وقت جنت  میں بے حساب داخلے کی دُعا  مانگی جائے اور درود شریف پڑھاجائے۔ (ردالمحتار ، 3 / 575 ، رفیق الحرمین ، ص91)(6)وہاں چونکہ  لوگوں کا جمِّ غفیر ہوتا ہے اس لئے اِسْتِلام  کرنے یا مقامِ ابراہیم  پر یا حطیمِ پاک  میں نوافل ادا کرنے کے لئے لوگوں کو دھکے دینے سے گُریز کریں اگر بآسانی یہ سعادتیں میسر ہو جائیں تو صحیح ،  ورنہ ان  کے حصول کے لئے کسی مسلمان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں۔ (7)جب تک مکّۂ مکرمہ میں رہیں خوب نفلی طواف کیجئے اورنفلی روزے رکھ کرفی روزہ لاکھ روزوں کا ثواب  لُوٹیے۔

مسجدِ نبوی شریف کی احتیاطیں(8)مدینۂ منوَّرہ پہنچ  کر اپنی حاجتوں اور  کھانے پینے کی ضرورتوں سے فارغ ہوکر تازہ وضو یا غسل کرکے دُھلا ہوا یا نیا لباس زیبِ تن کیجئے ، سرمہ اور خوشبو لگائیےاور روتے ہوئے مسجد میں داخل ہوکرسنہری جالیوں کے رُوبَرُو مواجَھَہ شریف میں(یعنی چہرۂ مبارَک کے سامنے) حاضِر ہوکر  دونوں ہاتھ نماز کی طرح باندھ کر چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز) دُور کھڑے ہوجائیے اور بارگاہِ رسالت   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   میں خوب صلوٰۃ و سلام پیش کیجئے ، پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق و عمر فاروقِ اعظم  رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُمَا کی خدمت سراپا اقدس میں سلام پیش کیجئے۔ (9)سنہری جالی مُبارَک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچئے کہ یہ خِلافِ اَدَب ہے۔ (10)اِدھر اُدھر ہرگز نہ دیکھئے۔ (11)دُعا بھی مُواجَھَہ شریف ہی کی طرف رُخ کئے مانگئے۔ بعض لوگ وہاں دُعا مانگنے کے لئے کعبے کی طرف مُنہ کرنے کو کہتے ہیں ، اُن کی باتوں میں آکر ہرگز ہرگز سنہری جالیوں کی طرف آقا   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو یعنی کعبے کے کعبے کو پیٹھ مت کیجئے۔ (12)یہاں آواز اونچی ہرگزنہ کیجئے۔ (13)صلوٰۃ وسلام کے صیغے اور دعائیں  زَبانی یاد کر لینا مناسِب ہے ، کتاب سے دیکھ کر وہاں پڑھنا عجیب سا لگتا ہے۔ (14)مدینۂ منورہ میں روزہ نصیب ہو خُصوصاً گرمی میں تو کیا کہناکہ اس پر وعدۂ شفاعت ہے۔ (15)مدینے میں ہر  نیکی ایک کی پچاس ہزار لکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا نماز و تلاوت اور ذکر و درود میں ہی اپنا وقت گزارئیے۔ (16)قراٰنِ مجید کا کم سے کم ایک ختم مکّۂ مکرمہ اور ایک مدینۂ طیبہ میں کرلیجیئے۔

زیاراتِ حرمین طیبین کی احتیاطیں (17) فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : اپنی مسجدوں کو (ناسمجھ) بچوں اور پاگلوں سے محفوظ رکھو۔ (ابن ماجہ ، 1 / 415 ، حدیث : 750ملخصاً) مساجد میں شور کرنا گناہ ہے اور ایسے بچوں کو لانا بھی گناہ ہے جن کے بارے میں  یہ غالب گمان ہو کہ پیشاب وغیرہ کردیں گے یا شور مچائیں گے ، لہٰذا زائرین سے  عرض ہے کہ حدیث میں بیان کردہ شرعی حکم پر عمل کرتے ہوئے  چھوٹے بچوں کو ہر گز مسجدَیْنِ کریْمَیْن (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں نہ لائیں۔ (18) مسجدِ حرام و مسجدِ نبوی میں  موبائل کے بےجا استعمال ، بے مقصد سیلفیاں لینے یا فضول گوئی میں مگن ہونے کے بجائے وہاں  خود کو ہر دنیاوی تعلق سے  علیحدہ کر کے بَیْتُ اللہ شریف اور گنبدِ خضرا کی زیارت ، خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت اور ذکرو دُعا  وغیرہ میں مشغول رہیں  کہ پھر نہ جانے یہ سعادتیں میسر ہوں نہ ہوں۔ (19)وہاں کئی مقاماتِ مقدّسہ ہیں کہ جن کی زیارت سے روحِ ایمان کو جِلا ملتی ہے ، لیکن کچھ محروم لوگ  یہ زیارتیں کرنے کے بجائے شاپنگ سینٹرز یا   تفریحی مقامات کی زینت بن جاتے ہیں ، کم اَز کم وہاں  حتّی الْامکان ان فضولیات سے بچنے کی کوشش کریں۔ (20)مکے مدینے  کی زیارتیں کرتے وقت کسی سے بحث مباحثہ یا دھکم پیل سے گُریز کریں   اور جس قدر سہولت کے ساتھ میسر ہو اسی پر اکتفا کریں۔ (21)مکے  مدینے  کی گلیوں میں جہاں کوڑے دان رکھے ہیں  انہیں استعمال کیجئے۔ اس کے علاوہ  عام راستوں اور گلیوں میں تھوکنے یا  کچرا وغیرہ پھینکنے سے بچیں  کہ ان گلیوں کو ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے نسبت ہے۔ (22) جنّت البقیع  و جنّت المَعْلیٰ کے کئی مزارات شہید کر  دئیے گئے ہیں اور اندر داخل ہونے کی صورت میں کسی  عاشقِ رسول کے مزار پر پاؤں پڑ سکتا ہے جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمان کی قبرپر بھی پاؤں رکھنا ناجائز ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ، 5 / 349ملخصاً) لہٰذا ان دونوں متبرک  مقامات پر باہر ہی سے سلام عرض کیجئے۔

نوٹ یادرکھئے!وہاں قدم قدم پر علمائے کرام کی راہنمائی کی حاجت ہوتی ہے لہٰذا مفتیانِ کرام و علمائے اہلِ سنّت  کی صحبت کو لازم رکھیں یا ان سے رابطے میں رہیں تاکہ مسائلِ شرعیہ سیکھنے اوروہاں کے ادب و تعظیم  کے تقاضے بھی پورے کرنے میں مدد حاصل ہو(فون کے ذریعے بھی مفتیانِ کرام یا  دارالافتا ءاہلِ سنّت سے  ہاتھوں ہاتھ مسائل پوچھے جا سکتے ہیں)۔



([1]) عام بول چال میں لوگ “ مسجدِ حرام “ کو حرم  شریف کہتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام  شریف حرم محترم ہی  میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ سمیت اس کے اردگرد مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص89)


Share

حرمین طیبین کا ادب کیجئے / قرض کی ادائیگی

”مال“انسان کی بنیادی ضَروریات میں سے ایک ہے۔  جب تک بقدرِ ضَرورت مال میسر رہے،زندگی مسکراتی ہوئی گزرتی ہے، لیکن جب جیب خالی ہونے لگے اورطلوع ہونے والا سورج ایک نیا خرچہ لئے نمودار ہو تو زندگی کی گاڑی کا پہیہ رکنے لگتا ہے۔ ایسے میں کبھی تکمیلِ ضَروریات کے لئے قَرْض جیسے”شجرِ خاردار“ تلے  بھی پناہ لینی پڑتی ہے۔ اسلام نے جس طرح غریبوں، کمزوروں اور محتاجوں کی مدد کیلئے صدقات و خیرات اور زکوٰۃ و عطیات کا بہترین نظام (System) دیا ہے اسی طرح ضَرورت مندوں کو قرض دینے کی بھی خوب حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ بلکہ صدقہ کا ثواب دس گُنا اور قرض کے ثواب کو اٹھارہ گُنا  رکھا، کیونکہ صدقہ تو غیرحاجت مند بھی لیتا ہے مگر قرض ضَرورت مند ہی لیتا ہے۔(ابن ماجہ،ج3،ص154،حدیث: 2431ملتقطاً و ماخوذاً)قرض دینے کے فضائل (1)ہر قرض صَدَقہ ہے۔(شعب الایمان،ج3،ص284، حدیث: 3563) (2)جو مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرض ديتا ہے تو وہ ایسے ہوتا ہے جیسے ایک مرتبہ صَدَقہ کیاہو۔(ابن ماجہ،ج3،ص153، حديث:2430) قرض دینا کارِ دشوار ہے آج قرض دبا لینے والوں کی بہتات اور باوجود قُدرت کے واپس نہ کرنے اورجُھوٹے بہانے تَراش کر قرض خواہ کو تنگ کرنے اوربار بار چکر لگوانے کے باعث  یہ  نیک عمل ”کارِ دشوار“ بن چکا ہے۔ سوچئے کہ ایک شخص احسان کرے اور ضَرورت میں کام آئے اور بدلہ یہ پائے کہ اپنی ہی چیز کو پانے کے لئے سرگرداں رہے، یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے؟ اولین ترجیح قرض سے بچنا اولین ترجیح  ہونی چاہئے۔ آمدنی کے مطابق دانشمندی سے بقدرِ ضَرورت خرچ کرنا ہی بہترین حکمتِ عملی ہے جبکہ بے جا رسم و رواج اور فضول خواہشات کی تکمیل کے لئے اخراجات بڑھا لینا اور قرضوں کے بوجھ میں دبتے چلے جانابے وقوفی ہے۔قرض لینا اگرچہ جائز ہے مگر اس سے بچنے میں عافیت ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قرض سے اللہ  تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ کسی نے وجہ دریافت کی تو فرمایا: آدمی جب قرض دار ہوتو بات کرتے ہوئے جُھوٹ بولتا ہے،وعدہ کرتا ہے تو توڑدیتا ہے۔ (بخاری،ج 2،ص108، حدیث:2397 ملخصاً)قرض لینے سے پہلے کچھ باتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے: معاہدہ اور گواہوں کی موجودگی قراٰنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئےقرض کی مکمل تفصیلات تحریری صورت میں لانے کے ساتھ اس پر گواہ ضَرور  بنانے چاہئیں تاکہ کل ضَرورت پڑنے پر وہ گواہی دے سکیں۔ واپسی کی پکی نیّت قرض لے کر اسے ہڑپ کرنےکی بجائے واپسی کی پکی نیّت ہو۔ بندے سے نیّت پوشیدہ ہے مگر اللہ  تعالیٰ دلوں کے حال سے خوب واقف ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نےادا کرنے کی نیّت سے قرض لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا فرما دیتا ہے اور جس نے نقصان پہنچانے کی نیت سے قرض لیا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ (بخاری،ج2،ص105، حدیث:2387) ادائیگی کیسے ہوگی؟ یہ بہت ضَروری ہے کہ قرض لینے سے پہلے واپسی کا طریقۂ کار بنا لیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ذرائع آمدن کچھ نہ ہوں مگر قرض دینے والے کو جُھوٹے آسرے دیئے ہوئے ہوں۔ ایسی صورت میں نتیجہ تعلقات کی خرابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ واپسی کی تاریخ مُقَرَّر ہو قرض لیتے وقت ادائیگی کی تاریخ متعین کر نا  مفید ہے۔ تاریخ ایسی مقرر کی جائے جو مزید تاریخ کی محتاج نہ ہو۔ تاریخ پر تاریخ لینا ناخوشگوار حالات سے دوچار کر سکتا ہے اور ایسا کرنا بہترین ادائیگی سے بھی بہت دور ہے۔بہتر یہ ہے کہ وقت پر خود جا کر قرض ادا کیا جائے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض اچھی طرح ادا کرے۔(بخاری،ج2،ص107، حدیث:2393)اچھے طریقے سے ادائیگی جب قرض لیا جائے تو اچھے طریقے سے ادا کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ قرض خواہ کو خوب تنگ کرنے کے بعد قرض واپس کیا جائے۔قرض میں بِلا وجہ  تاخیر کر کے، بدنامی کا طوق گلے میں ڈالنے اور دوست احباب کی ”ملامت “ کے بعد قرض واپس کیا بھی تو کیا کمال کیا! فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:(قرض دار) غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔(بخاری،ج 2،ص109، حدیث: 2400، عمدۃالقاری،ج 8،ص646،تحت الحدیث: 2287)

اللہ تعالیٰ ہمیں قرض کے بوجھ سے محفوظ رکھے اور جن پر قرض ہے انہیں جلد لوٹانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ فیضان صحابہ واہل بیت ،المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی


Share