خواجہ  معین الدین چشتی اجمیری کی دینی خدمات / حضرت سیدنا امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالی علیہ

تذکرۂ صالحین

خواجہ  معین الدین چشتی اجمیری کی دینی خدمات

آصف جہانزیب عطاری مدنی

ماہنامہ رجب المرجب 1438

سَرزمینِ ہِندمیں جہاں عرصۂ دراز سے کفر وشرک کا دَوْر دَوْرَہ  تھا ، اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا  قائم  تھی اورلوگ اَخلاق و کِردار کی  پستی کا شِکار تھے۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ  ہدایت سے روشناس کروانے ، ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائدواَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین  میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے۔ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی وِلادت537ھ بمطابق 1142ء کو  سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی۔ (اقتباس الانوار ، ص345 ، ملخصاً)آپ کا اسمِ گرامی حسن ہے  اور آپ نَجِیبُ  الطَّرَفَیْن سیِّد ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کےمشہوراَلقابات میں مُعینُ الدّین ، غریب نواز ، سلطانُ الہِنْد اور عطائے رسول  شامل ہیں۔ (معین الہند حضرت خواجہ  معین الدین  اجمیری ، ص18 ملخصاً) حُصُولِ عِلْم کے لئے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے شام ، بغداداور کِرمان  وغیرہ کاسفر بھی اِختیارفرمایا نیز کثیر بزرگانِ دین سے اِکْتِسابِ فیض کیاجن میں آپ کے پیرومُرشِدحضرت خواجہ عثمان ہارْوَنی اورپیرانِ پیرحُضُور غوثِ پاک حضرت شیخ  سیِّدعبدالقادِرجیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ما کے اَسماء قابلِ ذِکْر ہیں۔ زیارتِ حَرَمَیْن کےدوران بارگاہِ رِسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے آپ کو ہند کی وِلایت عطا ہوئی اوروہاں دین کی خدمت  بجا لانے کا حکم ملا۔ (سیر الاقطاب ، ص142 ، ملخصاً) چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سرزمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام  کی تَرْوِیج واِشَاعَت کا  آغاز فرمایا۔ خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے   اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں  اسلام کا بول بالا فرمایا ۔ لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل  کر اسلام کےنورمیں داخل ہو گئے ، یہاں تک کہ  جادوگر سادھو رام ، سادو اَجے پال اورحاکم سبزوار جیسے  ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت(مریدوں) میں شامل ہو گئے۔ (معین الہند حضرت  خواجہ معین الدین  اجمیری ، ص56ملخصاً) ہِندمیں خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی آمد ایک زبردست  اسلامی ، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی۔ خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا۔ (تاریخ مشائخ چشت ، ص136) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اِصلاح  و تبلیغ  کے  ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی  ایسی جماعت تیار کی جس  نےبَرِّ عظیم(پاک وہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا  عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ  قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَا قِی   نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام  دئیے۔ (تاریخ مشائخ  چشت ، ص139 تا 142ملخصاً)خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں  آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا ، حضرت بابا فرید  گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے پاکپتن کو ، شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ہَانْسی کو  اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح وتبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی۔ (تاریخ مشائخ  چشت ، ص 147 تا 156 ملخصاً) خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے تحریر و تصنیف  کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور   مخلوقِ خدا کی اِصلاح  کا فریضہ سر اَنجام دیا۔ آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح ، کَشْفُ الاَسْرَار ، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن  کا تذکرہ ملتا ہے۔ (معین الہند حضرت  خواجہ معین الدین  اجمیری ، ص103ملخصاً) خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نےتقریباً45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی  خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔ آپ کا وِصال 6رجب627ھ کو اَجمیرشریف(راجِستھان ، ہند) میں ہوااور یہیں مزارشریف بنا۔ آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس  میں حضرت خواجہ غریب نواز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی  سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔


Share

خواجہ  معین الدین چشتی اجمیری کی دینی خدمات / حضرت سیدنا امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالی علیہ

ماہ ِرَجَبُ المُرَجَّبکو کئی  بزرگانِ دین  سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی  میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی  چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی  خوشبو سے پریشان حالوں کی  داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔

نام ونسب:آپ  کانام”جعفر“ اورکُنیّت”ابوعبداللہہے ۔آپ کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم  بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیںرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“

ہیں۔سچ گوئی کی  وجہ سےآپ کو”صادِق کے لقب سے جانا جاتا ہے۔(سیر اعلام النبلا،ج 6، ص438)

تعلیم و تربیت :آپ  نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی  مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی  حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔(تذکرۃ الحفاظ،ج1 ، ص126)دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی   زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتابعی ہیں ۔(سیر اعلام النبلا،ج 6، ص438)

دینی خدمات: کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے  اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صحبت  میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے  عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے  والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔(تذکرۃ الحفاظ ،ج1، ص125، سیر اعلام النبلا ،ج6 ،ص439)

قابلِ رشک اوصاف ومعمولات: خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے  مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی  ذکرِ مصطفےٰ  ہوتا تو  (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی  بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں  مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔(الشفا  مع نسیم الریاض،ج4، ص488ملخصاً) آپ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ  اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی  معاف کردینے والی کریمانہ شان  دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی، آپ  کے عفوودَرگُزر کی ایک جھلک  مُلاحَظَہ کیجیے:(حکایت)ایک مرتبہ  غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گرگیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے  اسے نہ تو جھاڑا، نہ ہی  سزا دی بلکہ  اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔ (بحرالدموع،ص 202 ملخصاً)

وصال و مَدْفَن:آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو68سال کی عمر میں ہوا اور تدفین  جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔(الثقات لابن حبان،ج3،  ص251،وفیات الاعیان،ج1، ص168)


Share