ساس کی خدمت

اسلامی بہنوں کے لئے

ساس کی خدمت

Kindness to mother in law

بنتِ سید ضیاء الحق عطاریہ مدنیہ

ماہنامہ جمادی الاخری 1441ھ

بہو!!! ایک کپ چائے تو بنا دو۔

زینب کی شادی کو 6 ہی مہینے ہوئے تھے ، سسرال میں صرف ساس تھی ، چاروں نندیں شادی شدہ تھیں لیکن ایک تو لااُبالی طبیعت ، اوپر سے معاشرے کا اثرتھا کہ اسے وہ بھی بوجھ لگتی تھیں ، ابھی بھی بڑے مزے سے موبائل پر کسی سہیلی سے چیٹنگ میں مصرو ف تھی کہ ساس کی فرمائش نے سارا مزہ کِرکِرا کر دیا تھا۔ غصّے سے اٹھی اور موبائل ہاتھ میں پکڑے  ہی  کچن میں چلی آئی۔ چائے کے لئے پانی چولہے پر رکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کب اِن سے جان چھوٹے گی ، ملازمہ سمجھ رکھا ہےمجھے۔

ساس  کو چائے دے کر باہر آئی تو یاسر کی کال آگئی ، آج رات کوئی مہمان آ رہے ہیں ، اسپیشل ڈشز بنانے کا کہہ کر یاسر نے تو فون بند کر دیا تھا لیکن  زینب پر جھنجلاہٹ طاری ہو چکی تھی ، اندر سےعطیّہ بیگم نے کپ اٹھانے کا کہا تو غصے سے بڑبڑانے  لگی : سارا دن انہی کے کام کرتے رہو ، یہ لا دو ، یہ اٹھا لو ، یہ پکا دو۔

آواز زیادہ اونچی تو نہیں تھی لیکن اتنی ضرور تھی کہ عطیّہ بیگم کے کانوں تک پہنچ ہی گئی جسے سن کر وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھیں کہ اللہ پاک بندے کوکبھی کسی کا محتاج نہ بنائے ، کمر درد نے تو مجھے بستر سے ہی لگا دیا ہے ، کہاں میں پانچ پانچ بچوں کو اکیلے پالنے والی؟ اور کہاں اب چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی بہو کی محتاج ؟ کتنی کوششوں سے میں نے اکلوتے بیٹے کے لئے  رشتہ تلاش کیا تھا ، بہت سے رشتے ٹھکرا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو تو مل گئی تھی لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے میں فرق ہے ، شاید میری ترجیحات ہی غلط تھیں۔

السلام علیکم امی جان! یاسر کی آواز پر عطیّہ بیگم کی سوچوں کی تان ٹوٹ گئی تھی۔ وعلیکم السلام بیٹا! آ گئے آفس سے ، کپڑے چینج کر کے بہو کا ہاتھ بٹا دو ، اکیلی جان کیاکیاکرے گی!

بہتر امّی جان!اتنا کہہ کر یاسر اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور فریش ہو کر کچن میں گیا : بھئی کتنی دیر ہے؟ بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے ، مہمان بھی پہنچنے والے ہوں گے۔

کھانا تیار ہو چکا ہے ، بس امی جان کی فرمائشوں سے فرصت مل جائے ،  زینب نے جواب دیا۔

فرمائشوں سے کیا مطلب ہے بیگم صاحبہ؟ ایک سُوپ ہی تو اضافی بنواتی ہیں وہ بس!

انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں جناب! آپ تو شام کو  آتے  ہیں ، سارا دن تو گھر پر میں ہوتی ہوں ، کپڑے دھو دو ، دوائی لادو ، دوائی کھانی ہے تو دودھ گرم کر دو ، تھک گئی ہوں میں یہ سب کرتے کرتے ، اپنے لئے بھی ٹائم نہیں مل پاتا مجھے!

بس کر جائیں بیگم صاحبہ! یاسر نے بیچ میں ہی  زینب کو ٹوک دیا ورنہ  وہ تو ابھی مزید بولنا چاہ رہی تھی ، اگر امّی جان کے کچھ کام ہمیں کرنا پڑ جائیں تو اس میں شکایت کیسی! آخر  وہ ہماری ماں ہیں ، ہمارا حق ہے ان کی خدمت کریں اور ان کو کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیں۔

جناب!وہ میری نہیں صرف آپ کی ماں ہیں ، ان کی خدمت میرا نہیں آپ کا حق ہے ، ویسے بھی بہو پر ساس سسر کی خدمت کرنا فرض نہیں ہے ،  زینب نے آگے سے جواب دیا۔

اتنے میں ڈور بیل کی آواز سنائی دی ، یاسر نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : آپ کا ساس نامہ ختم ہو گیا ہو تو میں مہمانوں کو بٹھا آؤں ، یقیناً وہی ہوں گے۔

کھانے کے بعد یاسر عشا کی نماز پڑھنے چلا گیا ، سنّتیں ادا کرنے کے بعد وہیں گم صُم بیٹھا تھا کہ کسی نے کندھا ہلایا ، اوپر دیکھا تو امام صاحب کھڑے تھے ، یاسر فوراً کھڑا ہو گیا اور امام صاحب سے مصافحہ کیاتو وہ کہنے لگے : خیریت یاسر بیٹا! بڑی گہری سوچ میں گم تھے۔

امام صاحب کو اس مسجد میں دس سال سے زیادہ عرصہ بِیت چکا تھا ، اپنے ہر نمازی کو نہ صرف نام سے جانتے تھے بلکہ ہر ایک کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے ، اسی لئے نمازی بھی اپنے معاملات میں ان سے صلاح مشورہ لیا کرتے تھے۔ امام صاحب کے خیر خیریت پوچھنے پر یاسرنے انہیں اپنی پریشانی بتائی اور مشورہ مانگا کہ میں اس مسئلے کو کس طرح حل کروں؟

امام صاحب کہنے لگے : یاسر بیٹا! کہہ تو وہ ٹھیک رہی ہیں لیکن ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی بات آئے  تو ہمیں فرض واجب یا د آ جاتے ہیں اور حقوق لینے ہوں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ، پھر امام صاحب نے اسے حکمت بھرا مشورہ  دیا جسے سن کر یاسرمطمئن ہو کر گھر آ گیا۔

یاسر اگلے روز آفس میں تھا کہ  زینب کی کال آئی : سنئے! آج جلدی گھر آئیے گا ، سیل لگی ہے ، میں نے سوٹ لینے  جانا ہے۔ بیگم صاحبہ کی فرمائش پر یاسر کو امام صاحب کا مشورہ یاد آگیا اس نے نرمی سے جواب دیا : ابھی پچھلے ماہ ہی تو نیا سوٹ دلوایا تھا ، وہ کہاں گیا؟

کیا ہو گیا ہے آپ کو! آپ کب سےپچھلے سوٹوں کا حساب رکھنے لگے؟

سنئے محترمہ! ہر سیل سے سوٹ خریدنا کوئی لازمی تھوڑی ہے ، اچھا میں فون رکھتا ہوں ، کلائنٹ میرااِنتظار کر رہا ہے۔

کال تو  کٹ چکی تھی لیکن  زینب  وہیں بیٹھی فون کو گُھورے جارہی تھی۔

شام کے وقت یاسر گھر آیا تو ایسے نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں! خیر ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہوا تو  زینب پھر سےسوٹ کی بات لے کر بیٹھ گئی ، سنئے!دو مہینے بعد میری بھانجی کی شادی بھی ہے ، تب بھی تو سوٹ لینے پڑیں گے اس لئے کہہ رہی ہوں کہ ابھی سیل سے لے لیتی ہوں۔

یاسر نے نرمی سے جواب دیا : کوئی ضرورت نہیں ہے شادی پر جانے کی! گھر پہ رہو خود کو ٹائم دو اور۔ ۔ ۔

یہ آپ نے کیا صبح سے ’’لازمی نہیں ، ضروری نہیں‘‘ کی رَٹ  لگا رکھی ہے؟ زینب نے غصے سے یاسر کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی ، ٹھیک ہے ہر بات  لازمی نہیں ہوتی لیکن اخلاقیات  اور معاشرتی تقاضے بھی کوئی چیز ہوتے ہیں ، بھانجی  کی شادی پر اس کی سگی خالہ ہی غائب ہو تو کیا کہیں گے لوگ کہ بھانجی کے لئے بھی خالہ کے پاس وقت نہیں تھا؟

دیکھیں بیگم صاحبہ! یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا : آپ کی  “ ساس کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے “ والی بات سن کر میں نے غور کیا تو احساس ہوا آپ سچ کہہ رہی تھیں ، واقعی میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا تھا ، لیکن!اتنا کہہ کریاسر سانس لینے کے لئے رکا تو  زینب انہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

یاسر نے دوبارہ کہنا شروع کیا : لیکن! آئندہ ہمیں اپنے باقی معاملات میں بھی یہی معیار اپنانا ہوگاکہ ایک دوسرے سے صرف فرض کاموں کا مطالبہ کریں گے ، میں آپ سے والدہ کی خدمت کا نہیں بولوں گا تو آپ بھی چھ ماہ سے پہلے مجھ سے نئے سوٹ کا مطالبہ نہیں کریں گی کیونکہ شوہر پر ہر چھ مہینے میں بیوی کو ایک نیا سوٹ دلانا واجب ہے ، ایک سال سے پہلے بہن ، بھائیوں سے ملنے کی ضد نہیں کریں گی کیونکہ یہی بیوی کا حق ہے ، ہم دونوں اخلاقی معاملات کو چھوڑ دیتے ہیں ، آپ بھی وہ کام کریں جو آپ پر فرض ہیں اور میں بھی وہ کام کروں جو مجھ پر فرض ہیں ، ٹھیک ہے ، اب تو خوش ہیں ناں؟

یاسر کی باتیں سن کر  زینب دل ہی دل میں اپنے سلوک (behavior) پر شرمندہ تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہر چیزکو فرض و واجب کی نظر سے نہیں دیکھتے ، اخلاقیات  اور معاشرتی زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں ، خصوصاًگھریلو زندگی میں خوشی بھرنے کے لئے تو قدم قدم پر اس اصول کو اپنانے کی حاجت ہے۔

 زینب کے چہرے پر چھائی شرمندگی بتا رہی تھی کہ اسے اپنے نامناسب سلوک کا احساس ہو چکا ہےاور یاسر اسے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کل آفس سے واپسی پر اسے نیا سوٹ دِلا دوں گا۔


Share

ساس کی خدمت

سائیڈ پہ ہٹ جاؤ! میں نےاب تمہاری پٹائی کر دینی ہے، اُمِّ بلال روٹیاں پکانے میں مصروف تھی اور چھوٹی بیٹی اَرْویٰ اس کا دوپٹہ پکڑے کھڑی تھی اور ضد کررہی تھی:امی! میں بھی روٹی پکاؤں گی۔ابھی اس کی ضدختم نہ ہوئی تھی کہ اندر سے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز آئی، اَرْویٰ ! جاؤ! چھوٹے بھائی کو چُپ کرواؤ، میں آتی ہوں، لیکن اَرْویٰ ٹَس سے مَس نہیں ہوئی۔ سارا دن گھر کے  کام ہی ختم نہیں ہوتے، بچے تو دوگھڑی سکون کا سانس بھی نہیں لینے دیتے!آج اِن کے ابو آتے ہیں تو کہتی ہوں کہ ہمیں کچھ دن کے لئے میرے بھائی کے گھر چھوڑ آئیں، اُمِّ بلال نےپریشان ہوکر سوچا۔

کل آپ ہمیں ارویٰ کے ماموں کے گھر چھوڑ آئیے گا، رات کے کھانے کے بعد سلیم صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے اُمِّ بلال نے کہا۔کتنے دن کا ارادہ ہے؟ سلیم صاحب نے پوچھا۔ یہی کوئی ہفتہ، دس دن۔ٹھیک ہے،سلیم صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر جواب دیا۔

اُمِّ عاتکہ بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کی صفائی ستھرائی میں مشغول تھی کہ ڈور بیل کی آوازسنائی دی،  کون ہے؟

بھابی! میں ہوں اُمِّ بلال ۔

اپنی چھوٹی نند کی آواز پہچان کر اُمِّ عاتکہ نے دروازہ کھول دیا۔

ارے  آپ لوگ! آنے سے پہلے خبر تو دی ہوتی، امِّ عاتکہ نے اُمِّ بلال کےسلام کا جواب دینے کے بعد اس سے گلے ملتے ہوئے کہا۔

بس ہم نے سوچا آپ کو سرپرائز دیتے ہیں، بھائی اور آپ سے ملے ہوئے بھی تو کافی دن ہو گئے تھے، آپ لوگوں کو تو ہماری یاد آتی نہیں تو ہم ہی ملنے آ گئے، اُمِّ بلال نے جواباً  کہا۔

بہت ا چھا کیا تم نے، میں تو بچوں کے اسکول  کی وجہ سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتی، چلو آپ آرام سے بیٹھو میں چائےبنا کر لاتی ہوں۔

اُمِّ بلال کو بھائی کے گھر آئے ہفتہ گزر چکا تھا، نہ کھانا پکانے کی جھنجٹ نہ گھر کے کاموں کی ٹینشن، سارا دن بھابی خاطر تواضع میں مگن رہتیں تو  شام کے وقت  بھائی صاحب آکر بہن اور بھانجا بھانجی کے خوب ناز اٹھاتے، دن کے دس بجے ناشتے سے فارغ ہو کر اُمِّ بلال بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی کہ اَرْویٰ کی آواز آئی: امی ،امی!بڑی خالہ کا فون آیا ہے۔

اِدھر لاؤ بیٹی،السلام علیکم!باجی کیسی ہیں آپ؟

میں ٹھیک ہوں، آپ سُناؤ! کہاں مصروف ہو، اتنے دنوں

سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ باجی نے آگے سے کہا۔

ارے مت پوچھئے باجی، ہم تو بڑے مزے میں ہیں ، خوب عیش ہورہے ہیں ، ایک ہفتہ ہو گیا یاسر بھائی کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں، اُمِّ بلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

ایک ہفتہ !! باجی نے زور دیتے ہوئے کہا، کچھ تو خیال کرو بہن! کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتے۔

نہیں باجی، بھابھی اور بھائی تو بہت خوش ہیں بالکل بھی تنگ نہیں ہو رہے،میرا اور بچوں کا خوب خیال رکھ رہے ہیں۔

باجی سمجھانے لگیں :میری بہن!   مُرَوَّت اور لحاظ بھی کوئی چیز  ہوتی ہے، اب وہ آپ کو خود تو نہیں کہیں گے کہ چلے جاؤ، آخر مہمان  کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں!

ارے باجی آپ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچ لیتی ہیں! مہمان نوازی کے آداب تو سُنے تھے یہ ’’مہمان کے آداب ‘‘آپ پتا نہیں کہاں سے نکال لائیں!

دیکھو بہن!خود ہمارے گھر کوئی دو سے تین دن رہنے آجائے تو ہم کتنے پریشان ہو جاتے ہیں، گھریلو ٹائم ٹیبل کے ساتھ ساتھ ماہانہ بجٹ بھی خطرے میں دکھائی دیتا ہے تو دوسروں کے بارے میں کیا خیال ہے آخر وہ بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیں، یہ مسائل انہیں بھی تو درپیش ہو سکتے ہیں،اور مہمان کے آداب میری اپنی سوچ نہیں ہیں ہمارا اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہےسنو!ہما رے پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:مہمانی ایک دِن رات ہےاور دعوت تین دِن ہے، اس کے بعد صدقہ ہے، مہمان کو حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے،حتّٰی کہ اسے تنگ کر دے۔( مشکاۃ المصابیح،ج 2،ص101،  حدیث:4244)بڑی بہن ہونے کے ناطے میرا سمجھانا ضروری تھا، آگے تمہاری مرضی، اچھا فون رکھتی ہوں۔

باجی کے الوداعی سلام کا جواب دیتے ہوئے اُمِّ بلال سوچ رہی تھی کہ اَرْویٰ کے ابو کو فون کر کے بولتی ہوں، آج دفتر سے چھٹی کے بعد ہمیں لینے آ جائیں۔

_______________________

٭…بنت عرفان عطاریہ

 


Share