30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جہالت سامنے نہیں آتی جو معاملےکو باعثِ نزاع (جھگڑا) بنادے۔ اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ بالفرض اگر کسی معاملے میں معمولی جہالت ہو، تواس کی وجہ سے عقد فاسد و ناجائز نہیں ہوتا۔
البحر الرائق میں ہے: ” الجهالة لا تضر إذا جرى العرف فيها كما لا تضر إذا كانت يسيرة“ یعنی ایسی جہالت نقصان دہ نہیں ہوتی جس پر عرف جاری ہو چکا ہو، جیسا کہ معمولی درجے کی جہالت عقد کے لیے مضِر نہیں ہوتی ۔
(البحر الرائق، جلد5، صفحہ 295، دار الکتاب الاسلامی)
ایسا نہیں کہ ہر درجے کی جہالت عقد کو فاسد کر دے ،بلکہ وہی جہالت عقد کو فاسد کرنے والی ہوتی ہے ،جو نزاع اور جھگڑے کی طرف لے جانے والی ہو۔ چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ” والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع “ یعنی جہالت بذاتِ خود مانع نہیں ہے، بلکہ اس لیے ممانعت کا باعث بنتی ہے کہ وہ نزاع (جھگڑے) تک پہنچا دیتی ہے۔ (رد المحتار، جلد6، صفحہ 53، دار الفکر، بیروت )
ہدایہ کی عبارت کا درست مفہوم:
اور جہاں تک صاحبِ ہدایہ کی گفتگو کا تعلق ہے، توان کی گفتگو کا مقصد فقط یہ بتانا ہے کہ جانور موزونی اشیاء میں سے نہیں ،بلکہ عددی اشیاء میں سے ہے۔اور یہ گفتگو ربا (سود ) کے ایک خاص مسئلے کے تناظر میں ہے۔ اس تناظر کو سامنے رکھیں گے، تو اس عبارت کا مفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔
چنانچہ سوال یہ تھا کہ اگر کسی نے بکری کا گوشت زندہ بکری کے بدلے بیچا، تو یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ اور اس میں سود متحقق ہوگا یا نہیں؟
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع