30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہوئے علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :” ولو هلكت الزيادة بآفة سماوية لا يسقط شيء من الثمن بالإجماع، وإن كانت مبيعة عندنا؛ لأنها مبيعة تبعا۔۔۔۔ لأن العقد ما أضيف إليها وإنما يثبت حكم العقد فيها تبعا “ ملتقطا اور اگر وہ زیادت کسی آفتِ سماوی کی وجہ سے ہلاک ہو جائے، تو بالاجماع ثمن میں سے کچھ بھی ساقط نہیں ہو گا، اگرچہ ہمارے نزدیک وہ چیز بھی مبیع ہے، کیونکہ وہ بیچی گئی ضرور ہے، مگر تابع کے طور پر۔کیونکہ عقد (کا اصل محل) وہ چیز ہے جس کی طرف عقد کو نسبت دی جاتی ہے، اورزوائد میں عقد کا حکم تبعاً (یعنی تابع کی حیثیت سے) ثابت ہوتا ہے۔
(بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ 256، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مقصودی مبیع وہی ہوتی ہے جس کا عقد میں ذکر کیا گیا ہو جیسا کہ اگر زمین کی بیع یوں کی کہ اس میں موجود پھل دار درختوں کے پھلوں کا بھی بالقصد بیان کر کے عقد کیا،تو اب وہ پھل مقصودی مبیع بن جائیں گے، چنانچہ بدائع میں ہے: ” ولو اشترى أرضا فيها أشجار مثمرة فإن كان عليها ثمر وسماه حتى دخل في البيع فالثمر له حصة من الثمن ۔۔۔۔الكل معقود عليه مقصود لورود فعل العقد على الكل “اگر کسی نے ایسی زمین خریدی جس میں پھل دار درخت تھے۔پھر اگر ان پر پھل بھی لگا تھا او راس نے پھلوں کا بیع میں ذکر کے انہیں بیع میں شامل کر لیا، تو اس پھل کا بھی ثمن میں حصہ ہو گا۔کیونکہ تمام اشیاء معقود علیہ اور مقصود بن گئی ہیں،اس لئے فعلِ عقد ان سب پر وارد ہوا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ 257، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ایک نظیر یہ بھی ہے کہ کسی نے اپنا گھر بیچا،تو اس میں موجود عمارت بھی تبعاً شامل ہو جائے گی ۔اور اس کے بدلے میں ثمن کا کوئی حصہ قرار نہیں پائے گا۔ ہاں اگر عمارت کو بالقصد ذکر کرکے شامل کیا، تو پھر اس کے بدلے میں بھی ثمن کا حصہ مانا جائے گا۔یونہی اگر لونڈی بیچی، تو اس کے بدن پر موجود کپڑے تبعا بیع میں شامل ہوں گے ۔ ہاں اگر قصدا کپڑوں کا ذکر کرکے ان کو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع