30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
باب:3
حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
نام و نسب:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا مبارک نام ’’عیسیٰ‘‘ اور آپ کا نسب حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام سے جاملتا ہے۔ (1)
کنیت ولقب:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی کنیت’’ابن مریم‘‘ ہے اور تین القاب یہ ہیں ۔
(1) مسیح۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام چونکہ مَس کرکے یعنی چھو کر بیماروں کو شفا دیتے تھے،ا س لیے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو’’مسیح‘‘ کہا جاتاہے۔
(2) کلمۃُ اللہ ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’کُن‘‘سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی،اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو’’ کلمۃُ اللہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (2)
ترجمہ : بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا:
’’ہوجا‘‘تو وہ فوراً ہوگیا۔
(3)روحُ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا،اس بنا پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو’’ رُوحُ اللہ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘- (3)
ترجمہ : بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔
حلیہ مبارک:
نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے حضرت عیسیٰ، موسیٰ اور ابراہیم عَلَیْہِمُ السَّلَام کو دیکھا تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سرخ رنگ، گھونگھریالے بالوں اور چوڑے سینے والے تھے۔ (4)
بعثت ومعجزات:
جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام عمر میں بڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوبنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا:
اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (5)
ترجمہ : کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے 5 معجزات کا ذکر ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1) مٹی سے بنے پرندے کو پھونک مار کر حقیقی پرندہ بنا دینا:جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے بنی اسرائیل کو اپنی رسالت و معجزات کے بارے میں بتایا توانہوں نےدرخواست کی : آپ عَلَیْہِ السَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگی ۔(6)
(2،3)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطاکرنا اور کوڑھیوں کو شفایاب کرنا:آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنا دستِ مبارک پھیر کر پیدائشی نابینا افراد کوآنکھوں کا نور عطا کر دیتے اور اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل گیا ہو اورطبیب اس کے علاج سے عاجز ہوں۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانہ میں چونکہ طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اورماہرینِ طب علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اسے تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا، ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہو جاتا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔(7)
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا کہ میں مُردے زندہ کرتا ہوں ، میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہوں ، میں غیبی خبریں دیتا ہوں ،حقیقت میں یہ تمام کام ربّ العالمین کے ہیں لیکن آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی طرف منسوب کئے ،اس سے معلوم ہوا کہ شِفا دینے، مشکلات دور کرنے وغیرہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے استعمال کرناجائز ہے جبکہ یہ عقیدہ ذہن میں ہو کہ اصل قدرت و اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کی عطا سے ہی کوئی دوسرا کچھ کرسکتا ہے لہٰذا کوئی مسلمان انبیاء و اولیاء کو مشکل کشا اور دافعُ البلاء کہے تو اس کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے ۔
(4)مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،(1)عازر ۔اسے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے تین دن کے سفر کی دوری پر تھا ۔جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام تین دن میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کا انتقال ہو چکا ہے ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کی بہن سے فرمایا: ہمیں اس کی قبر پر لے چلو ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا، پھر ایک عرصے تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی ۔(2)ایک بڑھیا کا لڑکا۔اس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے سے جارہا تھا ، آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہن کر گھرآگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔(3) ایک لڑکی۔ یہ شام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا سے اسے زندہ کر دیا۔ (4) سام بن نوح ۔ان کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام انہیں زندہ کریں۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ ‘‘یعنی’’حضرت عیسیٰ روحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کی بات سن‘‘یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نےآپ عَلَیْہِ السَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے، چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(8)
(5)غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے بیماروں کو تندرست اور مُردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا : یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: جو تم کھاتے اورجو جمع کر کے رکھتے ہو میں تمہیں اس کی خبر دے دوں گا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے کہ وہ کل کیا کھاچکا اور آج کیاکھائے گا اور اگلے وقت کے لیے کیاتیار کررکھا ہے۔کبھی یوں بھی ہوتا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام انہیں بتادیتے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کررکھی ہے۔ بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو ،اس کے بعد مزید یہ کیا کہ ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(9)
یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام گھروں میں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی جانتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے محبوبانِ خدا غیب کی خبریں جانتے ہیں ان کیلئے علومِ غَیْبِیَہ ماننا توحید کے منافی نہیں بلکہ یہ تو عطائے الٰہی کا اقرار ہے۔
انجیل كا نزول:
اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنی کتاب انجیل عطا فرمائی،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶) (10)
ترجمہ : اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اُس تورات کی تصدیق کرتے ہوئے جو اس سے پہلے موجود تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ (انجیل) اس سے پہلے موجود تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی۔
اس آیتِ مبارکہ میں انجیل کی شان بیان فرمائی گئی کہ اس میں ہدایت و نور اور ہدایت ونصیحت تھی ۔ پہلی جگہ ہدایت سے مراد گمراہی و جہالت سے بچانے کے لیے رہنمائی کرنا اور دوسری جگہ ہدایت سے سیدُ الانبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کی بشارت مراد ہے جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کا سبب ہے۔ (11)
بیمارِعصیاں کا علاج:
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام جسمانی مریضوں کو شفا دینے کے ساتھ ساتھ روحانی مریضوں کا بھی علاج فرماتے تھے ، چنانچہ حضرت سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ اور یحییٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں کسی بستی میں جاتے تو عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اس بستی کے برے لوگوں کے بارے میں پوچھتے اور یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام اچھے لوگوں کے بارے میں۔ایک باریحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے پوچھا: آپ برے لوگوں کا پوچھ کر ان کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا: میں (جسمانی ) طبیب(کے ساتھ ساتھ روحانی طبیب بھی) ہوں اور(میں گناہ کے ان ) مریضوں( کو توبہ و نیک اعمال کی تلقین کر کے ان ) کاعلاج کرتا ہوں۔ (12)
نمازو زکوٰۃ:
نماز و زکوٰۃ سے متعلق آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے شیر خوارگی کی عمرہی میں لوگوں سے فرما دیاتھا کہ
وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) (13)
ترجمہ : اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔
حکمِ الٰہی کے مطابق آپ عَلَیْہِ السَّلَام پابندی سے نماز ادا کیا کرتے تھےاور اس کا تذکرہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی فرمایا ہے، چنانچہ حضرتِ ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نصف النہا ر(حقیقی) کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کی: یا رسول اللہ ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس گھڑی میں نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں۔ارشاد فرمایا:اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر نظرِ رحمت فرماتاہے اور یہ وہی نماز ہے جسے حضرتِ آدم،نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ عَلَیْہِمُ السَّلَام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے ۔ (14)
اور رہی مال کی زکوٰۃ تو یہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پرفرض نہ تھی کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام پر زکوٰۃ فرض نہیں اور مذکورہ بالا آیت میں زکوٰۃ دینے کی تاکید حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے آپ کی امت کو ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے تاکید فرمائی کہ اپنی امت کو مال کی زکوۃ دینے کا حکم دوں۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےحواری:
وہ حضرات جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائے اوراپنے اسلام کا اعلان کر کے اپنے تن من دھن سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی مدد و حمایت کے لیے ہر وقت اور ہر دم کمربستہ رہے،انہیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حواری کہا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ تھے؟ اور انہیں’’حواری‘‘ کا لقب کیوں اور کس معنی کے لحاظ سے دیا گیا؟ اس بارے میں حضرت علامہ شیخ سلیمان جمل فرماتے ہیں: ’’حواری‘‘ کا لفظ ’’حور‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ’’ سفیدی‘‘۔ چونکہ ان لوگوں کے کپڑے نہایت سفید اور صاف تھے اور ان کے دل اور نیتیں بھی صفائی ستھرائی میں بہت بلند مقام رکھتی تھیں اس بناء پر انہیں ’’حواری‘‘ کہا جانے لگا۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ چونکہ یہ لوگ رزقِ حلال کے حصول کے لیے لوگوں کے کپڑے دھویا کرتے تھے،اس لیے یہ ’’حواری‘‘ کہلائے۔
بعض علماء کا یہ قول بھی ہے کہ بارہ آدمی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائے ، ان لوگوں کے ایمانِ کامل اور حسن ِنیت کی بناء پر انہیں یہ مقام مل گیا کہ جب بھی بھوک لگتی تو یہ لوگ کہتے: یَا روحَ اللہ ! ہمیں بھوک لگی ہے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام زمین پر ہاتھ ماردیتے تواس سے دو روٹیاں نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جایا کرتی تھیں ۔جب یہ لوگ پیاس سے فریاد کرتے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام زمین پر ہاتھ مار دیا کرتے اور نہایت شیریں اور ٹھنڈا پانی ان لوگوں کو مل جایا کرتا۔ یہ لوگ اسی طرح کھاتے پیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا : اے روحُ اللہ ! ہم مومنوں میں سب سے افضل کون ہے؟ ارشادفرمایا: جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے روزی حاصل کرکے کھائے۔ یہ سن کر ان بارہ حضرات نے رزقِ حلال کے لئے دھوبی کا پیشہ اختیار کرلیا ،چونکہ یہ لوگ کپڑے دھو کر سفید کرتے تھے اس لیے ’’حواری‘‘کے لقب سے پکارے جانے لگے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی والدہ نے ایک رنگریز کے ہاں کام پررکھوا دیا تھا۔ ایک دن رنگریز مختلف کپڑوں کو نشان لگا کر رنگنے کے لیے آپ کے سپرد کر کے کہیں باہر چلا گیا۔ آپ نے ان سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کے برتن میں ڈال دیا۔واپسی پر رنگریز نے صورت حال دیکھی تو گھبرا کر کہا : آپ نے سب کپڑوں کو ایک ہی رنگ کردیا، حالانکہ میں نے نشان لگا کر مختلف رنگوں میں رنگنے کے لئے کہہ دیا تھا ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اے کپڑو! تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہی رنگوں کے ہوجاؤ، جن رنگوں کا یہ چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک ہی برتن میں سے لال، سبز، پیلا، جن جن کپڑوں کو رنگریز جس جس رنگ کا چاہتا تھا وہ کپڑا اسی رنگ کا ہو کر نکلنے لگا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ معجزہ دیکھ کر تمام حاضرین جو سفید پوش تھے اوران کی تعداد بارہ تھی، سب ایمان لائے اور یہی لوگ ’’حواری‘‘کہلانے لگے۔
حضرت امام قفال نے فرمایا : ممکن ہے کہ ان حواریوں میں کچھ لوگ بادشاہ ہوں ، کچھ مچھیرے، کچھ دھوبی اور کچھ رنگریز ہوں۔ چونکہ یہ سب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے مخلص جاں نثار تھے اور ان لوگوں کے دل اور نیتیں صاف تھیں اس بناء پر ان پاکباز اور نیک نفسوں کو ’’حواری‘‘(یعنی مخلص دوست) کا معزز لقب عطا کیا گیا۔ (15)
اطاعتِ الٰہی کی انوکھے انداز میں ترغیب:
ایک بار آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے حواریوں سے فرمایا:میں تم سے ایک سچی بات کہہ رہا ہوں کہ تم نہ تو دنیا چاہتے ہو اور نہ آخرت۔انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول!ہمارے لیے اس بات کی وضاحت فرما دیجئے کیونکہ ہم تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ دنیا یا آخرت دونوں میں سے کسی ایک کو تو ہم چاہتے ہیں ۔ارشاد فرمایا:اگر تم دنیا چاہتے تو ضرور دنیا کے رب (یعنی اللہ تعالیٰ)کی اطاعت کرتے جس کے دستِ قدرت میں دنیا کے خزانے ہیں اور وہ تمہیں (اس کے خزانے)عطا فرماتا اور اگر تم آخرت چاہتے توضرور آخر ت کے رب(یعنی اللہ تعالیٰ) کی اطاعت کرتے اور وہ تمہیں آخرت عطا فرما دیتا لیکن(تمہاری نافرمانیوں سے یہی ظاہر ہے کہ )تم نہ دنیا چاہتے ہو نہ آخرت۔(16)
عاجزی و انکساری:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام تکبر سے دور اور عاجزی و انکساری کے پیکر تھے ، جس کی گواہی خود رب کریم نے قرآن مجید میں بھی دی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (17)
ترجمہ : نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ا س کی ترغیب دیا کرتے تھے، چنانچہ ایک بارآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے حواریوں سے فرمایا : کیا بات ہے کہ میں تمہیں افضل عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھتا؟ انہوں نے عرض کی : اے روحُ اللہ ! عَلَیْہِ السَّلَام ، افضل عبادت کیا ہے؟ ارشادفرمایا : اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی اختیار کرنا۔(18)
حواریوں کی تربیت:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے حواریوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرماتے اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں نصیحت کرتے رہتے تھے ، چنانچہ ایک بارآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور جس کا دل سخت ہو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتاہے اور اسے اس کا علم تک نہیں ہوتا اور تم لوگوں کے گناہوں کو ایسے مت دیکھو جیسے تم آقا ہواور اپنے گناہ یو ں دیکھو گویا کہ تم غلام ہو۔لوگ دو طرح کے ہیں (1)عافیت والے۔ (2)مصیبت میں مبتلا۔پس مصیبت زدوں پر ان کی مصیبت کے وقت رحم کرو اور عافیت والوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرو۔(19)
پہاڑی کا وعظ:
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی مبارک سیرت میں ایک وعظ بہت مشہور ہے جسے ’’پہاڑی کا وعظ ‘‘کہا جاتا ہے، متیٰ کی انجیل میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ، یہاں مکمل وعظ نہیں بلکہ اس کے اقتباسات نقل کئے گئے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کےلئے باپ يا مخلوق كے لئے خدا کے بیٹے کا لفظ ہے وہ نکال دیا ہے۔ خلاصہ ِ وعظ کچھ یوں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حکمِ الٰہی سے مریضوں کو شفا عطا فرماتے تھے،آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ معجزہ اس قدر مشہور ہوا کہ قرب و جوار کے علاوہ دور دور سے بھی مریض آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہوکر صحت و شفا کی دولت پانے لگے۔ایک بار لوگوں کی کثیر تعداد دیکھ کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام قریبی پہاڑ پر چڑھے اورانہیں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:مبارک ہیں وہ لوگ جو دل کے مسکین ہیں کیونکہ آسمانی بادشاہت انہی کے لیے ہے۔مبارک ہیں وہ لوگ جو غم زدہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تسلی ملے گی۔مبارک ہیں وہ لوگ جو حلم والے ہیں کیونکہ وعدہِ الہی کے مطابق وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو دیانتدار، بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں آسودہ اور خوشحال کر دے گا۔مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر بھی رحم کیا جائے گا۔مبارک ہیں وہ لوگ جو( گناہ کی گندگی سے)پاک ہیں کیونکہ یہ دیدار الٰہی سے مشرف ہوں گے ۔مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کہلائیں گے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں سچ بولنے کے سبب ستایا گیا۔لوگ میری پیروی کرنے کی وجہ سے تمہارا مذاق اُڑائیں اور ظلم و زیادتی کریں گے اور تم پر غلط اور جھوٹی باتوں کے الزام لگائیں گے،(اگر اس اذیت پر تم نے صبر کیا )تو تم مبارک باد کے قابل ہو گے اور اس وقت تم خوشی کرنا اور شادماں ہونا کیونکہ جنت میں تمہیں اس کا بڑا بدلہ عطا ہو گا(اور اپنی تسلی کے لیے سن لو:) تم سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ساتھ بھی لوگ ایسا ہی سلوک کیا کرتے تھے۔تم زمین کے لئے نمک کی مانند ہو، اگر نمک اپنا مزہ کھودے تو دوبارہ اسے نمکین نہیں بنا سکتےاور اس نمک سے کوئی فائدہ نہ ہو گا، لوگ اسے باہر پھینک کر پیروں تلے روندیں گے۔تم ساری دنیا کے لئے روشنی ہو، جو شہر پہاڑ کی چوٹی پر بنایا جائے وہ چھپ نہیں سکتا۔لوگ روشنی کو برتن کے نیچے نہیں رکھتےبلکہ اس چراغ کو شمع دان میں رکھتے ہیں،تب کہیں روشنی تمام گھر کے لوگوں کو پہنچتی ہے۔اسی طرح تم لوگوں کو روشنی دینے والے بنوتاکہ تمہاری نیک سیرت دیکھ کر وہ تمہارے باپ کی تعریف کریں( کہ اس کا باپ کتنا اچھا ہے جس نے اس کی ایسی شاندار تربیت کی)۔ میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ زمین و آسمان کے فنا ہونے(یعنی قیامت آنے ) تک اللہ تعالیٰ کا دین باقی رہے گا، لہذا ہرانسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کرے۔اگر کوئی احکاماتِ الٰہی میں سے کسی ایک حکم کی تعمیل میں اس کی نافرمانی کرے اور دوسرےلوگوں کو بھی اس نافرمانی کی تعلیم دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت و بادشاہت میں انتہائی حقیر ہو گااور اگر اس نے شریعت کا فرمانبردار ہو کر زندگی گزاری اور دوسروں کو شریعت کا پابند ہونے کی تلقین کی تو وہ رب تعالیٰ کی بادشاہت میں بہت اہم ہو گا۔بہت عرصہ پہلے لوگوں سے ایک بات کہی گئی تھی جسے تم نے بھی سناہے کہ کسی کا قتل نہیں کرنا چاہئے، جو شخص کسی کا قتل کرے تو اس سے بدلہ لیا جائے گا اور میں تم سے مزید یہ کہتا ہوں کہ تم کسی پر غصّہ نہ کرو، اگر تم دوسروں پر غصہ کرو گے تو تمہارا فیصلہ ہو گا اور اگر تم کسی کو برا کہو گے تو تم سے عدالت میں چارا جوئی ہو گی۔اگر تم کسی کو ’’نادان ‘‘یا ’’اُجڈ‘‘ کہہ کر پکارو گے تو دوزخ کی آ گ کے مستحق ہو گے۔لہٰذا جب تم اپنی نذر قربان گاہ میں پیش کرنے آؤ اور یہ بھی یاد آ جائے کہ تم سے تمہارا بھائی ناراض ہے توتم اپنی نذر قربان گاہ کے نزدیک ہی چھوڑ دو اور پہلے جا کر اسے راضی کرو، پھر آ کر اپنی نذر پیش کرو۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم دوسروں کی کوڑی کوڑی ادا نہ کردو تب تک تمہیں قید سے رہائی نہ ملے گی۔تم یہ بات سن چکے ہو کہ’’ زنا نہ کرنا‘‘میں تم سے مزید کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی غیر عورت کو بری نظر سے دیکھے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے تو گویا اس نے اپنے ذہن میں عورت سے زنا کیا۔اگر تیری دائیں آنکھ تجھے گناہ کے کاموں میں ملوث کر دے تو تو اسے نکا ل کر پھینک دے اوراگر دایاں ہاتھ تجھے گناہ کا مرتکب کرے تو اسے کاٹ کر پھینک دے کیونکہ تیرا پورا بدن جہنم میں چلاجائے ،اس سے بہتر یہ ہے کہ بدن کاوہ حصہ الگ کر دیا جائے جس کے سبب گناہ ہوا۔تم اپنے آباؤ اجداد سے کہی ہوئی بات دو بارہ سن چکے ہوکہ اس قسم کو مت توڑو جو تم نے کھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی کھائی ہوئی قسم کو پورا کرو۔تم سن چکے ہو کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ہے۔میں تم سے مزید یہ کہتا ہوں کہ برے شخص کی طرفداری میں کھڑے نہ ہونا۔اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو اس کے سامنے بایاں گال بھی پیش کردو۔اگر کوئی تم سے کسی چیز کا طلبگار ہو اور وہ چیز تمہارے پاس ہے تو اسے دیدو۔اگر کوئی تم سے قرض لینے آئے تو تم اسے انکار نہ کرو۔تم نے یہ کہی ہوئی بات سنی ہے کہ ’’اپنے پڑوسی سے محبت اور دشمن سے نفرت کرو‘‘لیکن میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرو اور نقصان پہنچانے والے کے لئے دعا کرو کیونکہ تمہارا رب نیکوں اور بروں ،دونوں کے لیےسورج نکالتا اوراسے روشن کرتا اور دونوں کے لیے بارش بھیجتا ہے ۔
ہوشیار رہو ! تم اچھے کام لوگوں کے سامنے اس خیال سے نہ کرو کہ لوگ اسے دیکھیں کیونکہ آسمان کے مالک رب تعالیٰ کی طرف سےایسےاچھے کام کا کوئی اجر نہ ملے گا۔جب تم غریب کو خیرات دو تو اس کی تشہیر نہ کرو اورمنافقوں کی طرح نہ بنو۔ ریاکار جب کبھی خیرات دیتے ہیں تو اس کا اعلان کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں اور یہ تعریف ہی ان کا صلہ ہے جو وہ حاصل کرتے ہیں۔جب بھی تم غریبوں کوکچھ دو تو خفیہ طور پر دو تا کہ اس کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو۔اس طرح تمہارا خیرات دینا پوشیدہ رہے گا البتہ تمہارا رب دیکھ رہا ہے، اس سے کچھ پوشیدہ نہیں اور وہی تمہیں اس کا اچھا صلہ دے گا۔جب تم عبادت کرو تو ریا کاروں کی طرح نہ کرو۔ریا کار لوگ عبادت گا ہوں میں اور گلیوں کے کونوں پر ٹھہر کر زور سے دعا کرنا پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ لوگ ان کی عبادت کو دیکھیں۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ گویا وہ اسی وقت اپنا صلہ پا گئے۔اگر تم عبادت کرنا چاہو تو تم اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لو اور اپنے اس رب تعالیٰ کی عبادت کرو جسے تم نہیں دیکھ رہے لیکن وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے اور وہی تمہیں اس عبادت کا صلہ دے گا۔ تم ریاکاروں کی طرح نہ بنو کیونکہ تمہارے مانگنے سے پہلے تمہارے رب کو معلوم ہے کہ تمہیں کیا چاہئے۔جب تم دعا کرو تو ایسے کرو:اے آسمانوں کے مالک!اے ہمارے رب!تیرا نام ہی مقدس ہے اور تو ہی بادشاہ ہے،جس طرح آسمان والے تیری رضا کے طلبگار ہیں اسی طرح زمین والے بھی ہیں۔اے ہماری روز انہ کی روزی اسی دن عطا فرمانے والے!تو بھی ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے جس طرح ہم غلطی کرنے والے کو معاف کرتے ہیں،ہمیں آزمائش میں نہ ڈال اور مصیبت سے ہماری حفاظت فرما۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:اگر تم دوسروں کی غلطیاں معاف کرو گے تو جنت کا مالک تمہارا رب بھی تمہاری غلطیاں معاف فرما دے گا اور اگر تم لوگوں کی غلطیاں معاف نہ کرو گے تو آسمانوں کا مالک تمہیں بھی معاف نہ کرے گا۔ جب تم روزہ رکھو تو تم اپنے چہروں کو مرجھائے ہوئے اور اداس نہ بناؤ۔ریا کار ی کرنے والے ایسا ہی کرتے ہیں،تو تم ان ریا کاروں کی طرح نہ بنو۔ وہ روزہ کی حالت میں لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنے چہروں کی ہیئت بگاڑ لیتے ہیں ،میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان ریا کاروں کو اپنے کئے کا پورا بدلہ مل چکا ہے۔لہذا جب تم روزہ رکھو تو منہ کو اچھی طرح دھولو اور سر میں تیل لگاؤ،اس طرح لوگوں کو یہ بات معلوم نہ ہو گی کہ تم روزے سے ہو۔لیکن تمہاری نظروں سے پوشیدہ تمہارا رب ضرور تمہیں دیکھتا ہےاور وہ تنہائی میں رونما ہونے والے تمام حالات جانتا ہے اور تمہارا رب تمہیں(اچھے اعمال کا) اچھا بدلہ دے گا۔تم اپنے لئے اس زمین پر خزانہ جمع نہ کروکیونکہ اس میں کیڑا لگ جائے گا اور زنگ آلود ہو کر ضائع ہو جائے گا۔چور تمہارے گھروں میں داخل ہوکر اسے چرا سکتے ہیں بلکہ تم اپنے خزانوں کو جنت کے لئے تیار کرو کہ جہاں ان کو نہ تو کوئی کیڑا تباہ کرسکے گا اور نہ کوئی زنگ پکڑے گا اور نہ کوئی چور نقب زنی کے ذریعے اس کو چراپائے گا،کیونکہ جہاں تیرا خزانہ ہو گا وہیں پر تیرا دل بھی لگا رہے گا۔آنکھ بدن کے لئے روشنی ہے، اگر تیری آنکھیں اچھی ہوں تو تیرا سارا بدن روشن ہو گااوراگران میں خرابی ہو تو تیرا سارا بدن تاریکی سے بھر جائے گا۔ دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کرو ورنہ تمہارے بارے بھی غلط رائے قائم کی جائے گی،تم دوسروں کے ساتھ جیسا کرو گے تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا۔تو اپنی آنکھ میں پائے جانے والے شہتیر کو نہیں دیکھتا، تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ میں پائے جا نے والے تنکے کو دیکھتا ہے۔تُو اپنے بھائی سے کیسے کہہ سکتا ہے کہ تُو مجھے اپنی آنکھ کا تنکا نکالنے دے ؟تجھے تو پہلے اپنی آنکھ دیکھنی چاہئے کہ اب تک تیری آنکھ میں شہتیر موجود ہے۔تُو تو ایک ریا کار ہے۔ پہلے تُو اپنی آنکھ کا شہتیر نکال، پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں پایا جا نے والا تنکا نکالنے کے لئے تجھے صاف نظر آئے گا۔مانگو،تب اللہ تعالیٰ تمہیں دے گا۔تلاش کرو،تب کہیں تم پاؤ گے۔دروازہ کھٹکھٹاؤ، تب کہیں وہ تمہارے لئے کھلے گا۔ہمیشہ مانگنے والے ہی کو ملتا ہے، لگاتار ڈھونڈنے والا پا ہی لیتا ہے اور مسلسل کھٹکھٹا نے وا لے کے لئے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔دوسروں کے ساتھ تم ایسااچھا برتاؤ کرو جس کی تم ان سے اپنے لئے کرنے کی امید کرتے ہو۔جہنم کو جانے والا راستہ آسان اورجنت میں لے جانے والا راستہ بہت دشوار اور کٹھن ہے۔جھوٹے نبیوں کے بارے میں ہوشیار رہو۔وہ بھیڑوں کی طرح تمہارے پاس آئیں گے،لیکن حقیقت میں وہ بھیڑئیے کی طرح خطرناک ہوں گے۔تم ان کے کام دیکھ کر اُنہیں پہچان لو گے۔جس طرح تم کانٹے دار جھاڑیوں سے انگور اور کا نٹے دار درخت سے انجیر نہیں پا سکتے،اسی طرح اچھی چیزیں بُرے لوگوں سے نہیں پاسکتے ۔میری یہ باتیں سن کر ان پر عمل کرنے والا ہر شخص اُس عقلمند کی طرح ہو گا کہ جس نےاپنا گھر پہاڑ کی چوٹی پر پتھرسے بنا یا ، پھر سخت اور شدید بارش ہوئی اور پانی اوپر چڑھنے لگا۔تیز ہوائیں اس گھر سے ٹکرانے لگیں لیکن وہ گرا نہیں کیونکہ وہ گھر پہاڑ کی چوٹی پر پتھر سے بنایا گیا تھا۔اور جو شخص میری یہ باتیں سن کر ان پر عمل نہ کرے تووہ بیوقوف اور کم عقل آدمی ایسا ہے جس نے ریت پر اپنا گھر بنایا، شدید بارش ہو ئی اور پانی اوپر چڑھنے لگا اور تیز ہوائیں اس گھر سے ٹکرائیں اور وہ گھر زوردار آواز سے گر گیا۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام یہ تعلیمات ارشاد فرمانے کے بعد پہاڑ سے نیچے تشریف لے آئے اور لوگ ان تعلیمات پر غور و فکر کرنے لگے۔
زہد و قناعت:
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام خود بھی دنیاسے بہت زیادہ بے رغبت تھے، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ لاتے، یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک ہی اُونی جبہ میں اپنی زندگی کے دس سال گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے باریک رسّی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا لیتے۔(20)
حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں نے دنیا کو منہ کے بل گرایااور اس کی پشت پر سوار ہوا، میرا نہ کوئی بیٹا ہے جس کے مرنے کا مجھے غم ہو اورنہ گھر ہےجس کی بربادی کا خوف ہو۔ لوگوں نے عرض کی : کیا ہم آپ کے لیے گھر نہ بنادیں؟ ارشادفرمایا:سرِ راہ گھر بنادو۔عرض کی گئی:وہاں تو یہ قائم نہ رہے گا، لوگوں نے پھر عرض کی : کیا ہم آپ کیلئے زوجہ کا انتظام نہ کردیں؟ فرمایا : میں ایسی بیوی کا کیا کروں گا جو مرجائے گی۔(21)
حضرت عبید بن عمیر رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام صبح کے کھانے سے رات اور رات کے کھانے سے صبح کے لیےکچھ نہ بچاتے اور ارشاد فرماتے:ہر دن کا رزق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے، درختوں پر لگے ہوئے پھل پتے وغیرہ کھالیتے اور جہاں رات ہوجاتی وہیں آرام فرما لیتے تھے۔(22)
ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی : کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام ایک دراز گوش ( یعنی گدھا) لے لیں اور اپنی حاجات پوری کرنے کے لئے اس پر سفر کیا کریں۔ ارشادفرمایا : میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ وہ کوئی ایسی چیز عطا فرمائے جو مجھے اس سے غافل کر دے۔(23)
یقین و توکل:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام یقین و توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے،حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی گئی : آپ پانی کے اوپر کیسے چل لیتے ہیں؟ فرمایا : ایمان اور یقین کی برکت سے، عرض کی : ہم بھی آپ کی طرح ایمان و یقین کے مالک ہیں، فرمایا: تو چلو ۔وہ بھی آپ کے ساتھ پانی پہ چلنے لگے،اس دوران ایک بڑی لہر آئی تو سب پانی میں غوطے کھانے لگے، حضرت عیسی عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا :کیا ہوا؟ عرض کی : ہم بڑی لہر سے ڈرگئے تھے۔فرمایا : اس لہر کے رب عَزَّ وَجَلَّ سے کیوں نہ ڈرے؟ پھر انہیں باہر نکالا اور زمین پر اپنے دونوں ہاتھ مار کر مٹھیاں بھر کے ان کے سامنے کھولیں تو ایک میں سونا اور دوسرے میں مٹی کا ڈھیلا یا کنکری تھی، فرمایا: تمہارے دلوں میں کس کی وقعت زیادہ ہے؟ عرض کی: اس سونے کی۔ فرمایا: میرے نزدیک دونوں برابر ہیں۔(24)
صبر و تحمل:
صبر و تحمل اور برداشت جیسی عظیم صفات آپ عَلَیْہِ السَّلَام میں بدرجۂ اَتم موجود تھیں ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام چند لوگوں کے قریب سے گزرے تو انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو برا بھلا کہا،اس کے جواب میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےان سے اچھے الفاظ سے کلام فرمایا۔اس کے بعد ایک اور جگہ پر چند لوگوں کے قریب سے گزرےتو انہوں نےآپ کے لیے سابقہ لوگوں سے زیادہ برے الفاظ کہے، لیکن آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےان کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے الفاظ سے کلام کیا۔ یہ دیکھ کر حواریوں میں سے ایک شخص نے عرض کی: جب لوگوں نے آپ کے لیے زیادہ برے الفاظ استعمال کیے تو آپ نے ان کے ساتھ زیادہ اچھے الفاظ میں کلام فرمایا،اس میں کیا حکمت ہے؟ارشاد فرمایا : جس کے پاس جو چیزہو وہ وہی دیتا ہے۔(25)
خوفِ خدا:
ایک بار آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرمایا:میں نے تخلیق کے بارے میں غور وفکر کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جسے پیدا نہیں کیا گیا وہ اس سے زیادہ رشک کے قابل ہے جسے پیدا کر دیا گیا۔(26)
نزع کی سختیوں اور قیامت کاڈر:
موت کے وقت نزع کا عالم انتہائی سخت اور ا س کی تکلیف ناقابل برداشت ہو گی ،اگرچہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام نزع کی اس سختی و تکلیف سے محفوظ ہیں جو عام لوگوں کو ہوتی ہے اس کے باوجود وہ عالم نزع کی سختیاں یاد کر کے گریہ و زاری فرمایا کرتے تھے،حضرت ابوعمر ضریر فرماتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے جب موت کا ذکر کیا جاتا تو(نزع کی سختیاں یاد کر کے خوف کے سبب) آپ کی جلد مبارک سے خون کے قطرے ٹپکنا شروع ہو جاتے تھے۔(27)
اسی طرح آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے حواریوں سے فرمایا کرتے: اللہ تعالی سے دعا کیا کرو کہ وہ مجھ پہ موت کی سختیاں آسان کردے۔(28)
اور قیامت کا ذکر سن کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا جو حال ہوتا اس کے بارے میں امام شعبی فرماتے ہیں:جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے قیامت کا ذکر کیا جاتا تو(شدتِ خوف سے) آپ کی چیخ نکل جاتی اور فرماتے: ابن مریم کے لیے یہی مناسب ہے کہ تذکرۂ قیامت کے وقت ا س کی چیخ نکل جائے۔(29)
اللہ اکبر !حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام وہ عظیم ہستی ہیں جو یقینی طور پر قیامت کے دن امن پانے والوں میں سے ہیں اور انہیں قیامت کی بڑی گھبراہٹ غمزدہ نہ کرے گی، خود بھی یقینی اور حتمی طور پر بخشے ہوئے ہیں اور اپنی شفاعت سے نجانے کتنوں کو عذابِ جہنم سے نجات دلا کر داخلِ جنت فرمائیں گے،اس عظیم مرتبے پر فائز ہونےکے باوجود موت کی سختیوں اور قیامت کی ہولناکیوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو ان لوگوں کو نزع کی شدت اور قیامت کو لے کر کس قدر فکرمند اور خوفزدہ ہونا چاہئے جن کے نہ ایمان پر خاتمے کی خبر ہے اور نہ قیامت کے دن نجات یافتہ ہونے کا یقینی علم ہے۔
اخلاص کی حقیقت:
ایک بارحواریوں نے عرض کی : اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کیا ہے؟فرمايا: بندہ نیک عمل کرے اور اسے پسند نہ ہو کہ لوگوں میں سے کوئی بھی اس پر اس کی تعریف کرے اور اللہ کے لیے مخلص وہ ہےجو لوگوں کے حق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق پورا کرنے کی ابتدا کرے،لوگوں کے حق پر اللہ تعالیٰ کے حق کو ترجیح دے اور جب اسے دو کام درپیش ہوں ، ایک دنیا کا اور دوسرا آخرت کا تو دنیا کے کام سے پہلے آخرت کا کام شروع کرے۔(30)
دعا سے متعلق ایک نصیحت:
حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں:حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اللہ تعالی کا ذکر،حمد اور پاکی کا بیان کثرت سے کیا کرواور اس کی فرمانبرداری کرتے رہو، جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی سے راضی ہو گا تو اس کی اتنی دعا ہی اسے کافی ہو گی کہ’’اے اللہ ! میری خطائیں معاف فرمادے، میرا معاش اچھا فرمااور مجھے ناپسندیدہ چیزوں سے عافیت عطا فرما۔(31)
دعائے مغفرت کی اہمیت:
حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں:ایک قوم کو معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ان کے پاس سے گزرنے والے ہیں تو چاروں طرف سے لوگ اکھٹے ہوگئے اورجب آپ عَلَیْہِ السَّلَام ان کےپاس سے گزرے تو تین بار یوں دعا کی:اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما۔ لوگوں نے عرض کی: اے روحُ اللہ !ہمیں تو امید تھی کہ ہم آج آپ سے کوئی وعظ سنیں گے، لیکن ہم نے آج جو سنا وہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نےحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ ان لوگوں سے کہہ دو: میں جس کی مغفرت کردوں اس کی دنیا و آخرت سنواردیتا ہوں۔(32)
حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعائیں:
بارگاہِ الٰہی میں بکثرت دعا کرناآپ عَلَیْہِ السَّلَام کی عاداتِ مبارکہ میں شامل تھا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام انتہائی جامع دعائیں فرمایا کرتے تھے ، یہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی مانگی ہوئی چند دعائیں ملاحظہ ہوں
(1) اے اللہ ! عَزَّ وَجَلَّ میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں اپنے نفس کو وہ چیز(از خود) نہیں دے سکتا جس کی مجھے تمنا ہے اور نہ ہی اس سے وہ چیز دور کرنے کی (از خود) استطاعت رکھتا ہوں جو مجھے ناپسند ہے، بھلائی میرے علاوہ کسی اور ہی کے دستِ قدرت میں ہے،میں نے خود کو اپنے اعمال کے بدلے گروی رکھتے ہوئے صبح کی ہے ،لہذا کوئی فقیرایسا نہیں جو مجھ سے بڑھ کر (تیرا ) محتاج ہو، پس تو میری مصیبت کو میرے دین کی مصیبت (نہ بنا)اور دنیا کو میرا سب سے بڑا مقصد نہ بنا اور مجھ پر اسے مسلط نہ فرما جو میرے اوپر رحم نہ کرے۔ (33)
(2)آپ عَلَیْہِ السَّلَام مریض، اپاہج، نابینا اورجنون وغیرہ کے مرض میں مبتلا افراد کی تیمارداری کرتے وقت یوں دعا فرماتے:اے اللہ ! تو ہی آسمان والوں کا بھی معبود ہے اور زمین والوں کا بھی،آسمان و زمین میں تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو ہی زمین و آسمان میں عظمتوں والا ہے، دونوں جگہ تیرے سوا کوئی عظمتوں کا مالک نہیں، آسمان و زمین میں تو ہی (حقیقی) بادشاہ ہے، دونوں جگہ تیرے سوا کوئی بادشاہ نہیں، آسمان و زمین میں تیری قدرت وسلطنت یکساں ہے، میں تیرے باعزت نام، روشن ذات اور ہمیشہ ہمیشہ کی بادشاہی کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں ( کہ تو اسے شفا عطا فرما دے)بیشک تو سب کچھ کرسکتا ہے۔(34)
(3)ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ دعا سنی ہے جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے سکھائی ہے؟ میں نے عرض کی:وہ کون سی دعا ہے؟ فرمایا:حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام اپنے حواریوں کو یہ دعا سکھاتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگرکسی پہ پہاڑ برابر بھی قرض ہوگا تو اس دعا کی برکت سے اللہ تعالی اس کی ادائیگی کا انتظام فرما دے گا، (وہ دعا یہ ہے )’’ اے پریشانیوں اور غموں کو دور اوربےقراروں کی دعائیں قبول کرنے والے، دنیا و آخرت میں رحمٰن و رحیم ذات! تو ہی مجھ پہ رحم فرمائے گا، پس مجھ پہ ایسا رحم فرما کہ تیرے علاوہ کسی کے رحم کی مجھے حاجت نہ رہے‘‘۔(35)
نصیحت بھری اور حکیمانہ گفتگو:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام بہت نصیحت آمیز اور حکمت بھری گفتگو فرمایا کرتے تھے ، یہاں ان میں سے آپ کے9 فرامین ملاحظہ ہوں۔
(1)احسان یہ نہیں کہ تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ کیا کیونکہ یہ تو اچھے سلوک کے بدلے میں اچھا سلوک کرنا ہے،ہاں احسان یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ براسلوک کیا۔(36)
(2)جس کا جھوٹ زیادہ ہو گا اس کا حسن وجمال چلا جائے گا،جو لوگوں کے سامنے گڑگڑائے گااس کی عزت و مقام ختم ہو جائے گا، جو زیادہ پریشان رہے گا اس کا جسم بیمار پڑ جائے گا اور جس کے اخلاق برے ہوں گے وہ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالے گا۔(37)
(3) عمدہ لباس دل کے تکبر کی علامت ہے۔(یعنی علامت ہوسکتی ہے۔)(38)
(4)جنت کی محبت اورجہنم کا خوف، مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین کرتاہے اور بندے کو دنیوی لذات، نفسانی خواہشات اورگناہوں سے دور کرتا ہے۔(39)
(5)اپنی نظرکی حفاظت کرو،کیونکہ یہ دل میں شہوت کابیج بوتی ہے اورفتنہ کے لئے یہی کافی ہے۔(40)
(6) ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو جنہیں دیکھنا تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے ، جن کا کلام تمہارے نیک اعمال میں اضافہ کرے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی جانب راغب کر دے۔(41)
(7)تم دنیا کو آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تمہیں اپنا غلام بنالے گی، اپنا خزانہ اس کے پاس جمع کروا دو جو اسے ضائع نہیں ہونے دے گاکیونکہ دنیوی خزانے والے کو اپنے مال پر آفت ومصیبت آنے کا ڈر رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس خزانہ جمع کروانے والا اس پر آفت آنے سے بے خوف ہو جاتا ہے۔(42)
(8) گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے اورعورتیں شیطان کی رسیاں ہیں(جن کے ذریعے وہ نفسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کا شکار کرتا ہے)اور شراب ہر شر و فساد کی چابی ہے۔(43)
(9)وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی آخرت کی جانب رواں دواں ہے(یعنی موت کی طرف بڑھتا جارہا ہے)لیکن اس کی توجہ اپنی دنیا کے راستے پر ہے۔وہ علم والوں میں سے کیسےہو سکتا ہے جو صرف معلومات کے لیے علم حاصل کرے نہ کہ اس پر عمل کرنے کے لیے۔(44)
اوصاف:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام بے شمار اچھے اوصاف ، کمالات اور خصائل کے مالک تھے جن میں سے کچھ کا بیان قرآن کریم میں بھی ہے، یہاں ان میں سے10 اوصاف ملاحظہ ہوں۔
(1تا4)آپ عَلَیْہِ السَّلَام دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے ہیں ، آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بڑی عمر کے علاوہ بہت چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (45)
ترجمہ : وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگااور اللہ کے مُقَرَّب بندوں میں سے ہوگا۔اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔
(5تا9)آپ عَلَیْہِ السَّلَام نماز کے پابنداورامت کو ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے، آپ کی ذات بڑی برکت والی تھی، آپ والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نیز تکبرسے دوراور شقاوت سے محفوظ تھے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
وَ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) (46)
ترجمہ : اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔ اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب تک آدمی زندہ ہے اور کوئی ایسا شرعی عذر نہیں پایا جا رہا جس سے عبادت ساقط ہو جائے تب تک شریعت کی طرف سے لازم کی گئی عبادات اور دئیے گئے احکامات کا وہ پابند ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو شیطان کے بہکاوے میں آکر لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت کے اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکے ہیں کہ اب ہم پر کوئی عبادت لازم نہیں رہی اور ہر حرام وناجائز چیز ہمارے لئے مباح ہو چکی ہے۔ جب مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی اور سب سے مقرب ہستیوں یعنی اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ السَّلَام سے عبادات ساقط نہیں ہوئیں بلکہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب بندے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے یعنی ہمارے آقا، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بھی عبادات ساقط نہیں ہوئیں تو آج کل کے جاہل اور بناوٹی صوفیا کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم سے عبادات ساقط ہو چکی ہیں۔ایسے بناوٹی صوفی شریعت کے نہیں بلکہ شیطان کے پیروکار ہیں اور شیطان کا شکار ہوکر لوگوں کے دین و ایمان پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے،اٰمین۔
(10)آپ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (47)
ترجمہ : نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
انعاماتِ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر بے شمار انعامات فرمائے،جن میں سے23انعام یہ ہیں:
(1،2)ولادت سے پہلے ہی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بشارت دی گئی اورنام و لقب بتا دیا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ (48)
ترجمہ : اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا۔
(3،4) آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ میں اپنی خاص روح پھونکی ،آپ اور آپ کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو تمام جہان والوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۹۱) (49)
ترجمہ : اور اس عورت کو (یاد کرو) جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی خاص روح پھونکی اور اسے اور اس کے بیٹے کو سارے جہان والوں کیلئے نشانی بنادیا۔
یہاں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں :(1)پھونک حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ماری اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ہم نے پھونکا‘‘اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا کام درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔(2)حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ انہیں کسی مرد نے نہ چھوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹ میں حمل پیدا فرما دیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمایااور ان کے دستِ اقدس سے پیدائشی اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دی اور مُردوں کوزندہ فرمایا۔
(5) اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوجھولے میں کلام کرنے کی طاقت دی ۔قرآنِ مجید میں ہے:
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰) (50)
ترجمہ : بچے نے فرمایا:بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
(6)بچپن میں ہی آپ عَلَیْہِ السَّلَام اور آپ کی والدہ کو ایک بلندسطح والی،اچھی رہائش کے قابل اور آنکھوں کے سامنے بہتے پانی والی خوبصورت سرزمین میں ٹھکانہ دیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠(۵۰) (51)
ترجمہ : اور ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو نشانی بنادیا اور انہیں ایک بلند،رہائش کے قابل اور آنکھوں کے سامنے بہتے پانی والی سرزمین میں ٹھکانہ دیا۔
ایک قول کے مطابق اس سر زمین سے مراد بَیتُ الْمَقْدَس ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے دمشق یا فلسطین کی سرزمین مراد ہے۔ اس بارے میں اور بھی کئی قول ہیں۔(52)
(7،8)نبوت عطا فرماکر آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر احسان فرمایا اور آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا حیرت انگیز نمونہ بنایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۵۹) (53)
ترجمہ : عیسیٰ تونہیں ہے مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایاہے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک عجیب نمونہ بنایا۔
(9تا12)آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو لکھنے کا فن ،عقلی و شرعی علوم،تورات اور انجیل سکھائی اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بنایا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ(۴۸) وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ (54)
ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔ اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا ۔
(13،14) آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور اپنی کتاب ’’ انجیل‘‘ عطا فرمائی۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶) (55)
ترجمہ : اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اُس تورات کی تصدیق کرتے ہوئے جو اس سے پہلے موجود تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ (انجیل) اس سے پہلے موجود تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی۔
(15،16)آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوآپ کی رسالت حق ہونے پر روشن نشانیاں عطا کیں اور روح القدس حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعےان کی مدد فرمائی۔ارشادفرمایا:
وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ- (56)
ترجمہ : اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی۔
(17تا19)آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو ہدایت یافتہ اور اپنے خاص بندوں میں سے بنایااورآپ عَلَیْہِ السَّلَام کواپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) (57)
ترجمہ : اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی) اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
(20) اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مخلص حواری عطا فرمائے جنہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ارشادات دل و جان سے تسلیم کیے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْۚ-قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ(۱۱۱) (58)
ترجمہ : اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا : ہم ایمان لائے اور (اے عیسیٰ!) آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
(21،22)کفار نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو شہید کرنے کا جوخفیہ منصوبہ بنایا،اسے ناکام کیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) (59)
ترجمہ : اور کافروں نے خفیہ منصوبہ بنایا اور اللہ نے خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے۔
(23)آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانے کو قیامت کی ایک نشانی بنایا۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۱) (60)
ترجمہ : اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔
1…تاریخ ابن عساکر،مریم بنت عمران، ۷۰/۷۵.
2… پ۳،اٰل عمران:۵۹.
3… پ۶،النساء:۱۷۱.
4… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب واذکر فی الکتاب مریم۔۔۔الخ، ۲/۴۵۷، حدیث:۳۴۳۸.
5…پ۳،اٰل عمران: ۴۹.
6… خازن،اٰل عمران،تحت الاٰية:۴۹، ۱/۲۵۱.
7…خازن،اٰل عمران،تحت الاٰية:۴۹، ۱/۲۵۱.
8…جمل،اٰل عمران،تحت الاٰية:۴۹، ۱/۴۱۹-۴۲۰، ملتقطاً.
9… جمل،اٰل عمران،تحت الاٰية:۴۹، ۱/۴۲۰، ملتقطاً.
10…پ۶،المائدة:۴۶.
11… خازن،المائدة،تحت الاٰية:۴۶، ۱/۵۰۰.
12… حسن التنبہ،باب التشبہ بالنبیین، ۵/۶۴.
13…پ۱۶،مریم:۳۱.
14…الترغیب والترھیب، کتاب النوافل، الترغیب فی الصلاة قبل الظھر و بعدھا، ۱/۲۷۱، حدیث:۸۵۵.
15…جمل، اٰل عمران، تحت الاٰیة:۵۲، ۱/۴۲۳، ۴۲۴ ، ملتقطاً.
16… الزھد لاحمد ، من مواعظ عیسی علیه السلام، ص۹۴-۹۵، رقم:۳۱۰.
17…پ۶،النساء:۱۷۲.
18… الزھد لاحمد ، من مواعظ عیسی علیه السلام، ص۹۵، رقم:۳۱۲.
19… الزھد لاحمد بن حنبل، من مواعظ عیسی علیه السلام، ص۹۵، رقم:۳۱۱.
20… عیون الحکایات، الحکایة الثامنة والتسعون من نصائح عیسی علیه السلام، ص۱۱۹.
21… الزھد لاحمد ،بقیة زھد عیسی علیه السلام، ص۱۲۵، رقم:۴۷۳.
22… مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل، ما ذکر مما فضل اللہ بہ عیسی علیه السلام، ۱۶/۵۵۱، حدیث:۳۲۵۳۸.
23… مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الزھد، کلام عیسی علیه السلام، ۱۹/۲۶، حدیث:۳۵۳۷۶.
24… موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب الیقین، ۱/۳۹، رقم:۴۰.
25… المجالسة وجواھر العلم،الجزء الحادی عشر، ۲/۱۰۹-۱۱۰، رقم:۱۴۹۴.
26… المجالسة وجواھر العلم،الجزء الرابع، ۱/۲۲۴، رقم:۴۸۶.
27…تاریخ ابن عساکر،عیسی بن مریم، ۴۷/۴۶۹.
28… تاریخ ابن عساکر،عیسی بن مریم، ۴۷/۴۶۹.
29… مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزھد، کلام عیسی علیه السلام، ۱۹/۲۸، رقم:۳۵۳۸۵.
30… مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزھد، کلام عیسی علیه السلام، ۱۹/۲۶، رقم: ۳۵۳۷۵.
31… الزھد لاحمد ،من مواعظ عیسی علیه السلام، ص۹۳-۹۴، رقم:۳۰۲.
32… حسن التنبہ،باب التشبہ بالنبیین، ۵/۲۳۵.
33… مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الدعاء، دعاء عیسی بن مریم، ۱۵/۱۹۹، حدیث:۲۹۹۹۹.
34… المجالسة وجواھر العلم،الجزء التاسع ، ۲/۱۷، رقم:۱۲۰۳.
35… مستدرک حاکم،کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، دعاء قضاء الدین، ۲/۱۹۷-۱۹۸، حدیث:۱۹۴۱.
36… الزھد لاحمد ،من مواعظ عیسی علیه السلام، ص۹۵، رقم:۳۱۷.
37…المجالسة وجواھر العلم،الجزء الثانی والعشرون، ۳/۱۱۰، رقم:۳۰۱۶.
38…حلیة الاولیاء،عبد اللہ بن شوذب، ۶/۱۴۰، رقم:۸۰۹۶.
39… الزواجر عن اقتراف الکبائر، ۱/۳۳.
40… احیاء علوم الدین، ۳/۱۲۶.
41… احیاء علوم الدین، ۲/۱۹۹.
42… احیاء علوم الدین، ۳/۲۵۰.
43… الزھد لاحمد ،بقیة زھد عیسی علیه السلام، ص۱۲۵، رقم:۴۷۴.
44… احیاء علوم الدین، ۱/۸۹.
45…پ۳،اٰل عمران:۴۵، ۴۶.
46…پ۱۶،مریم:۳۱، ۳۲.
47…پ۶،النساء:۱۷۲.
48…پ۳،اٰل عمران:۴۵.
49… پ۱۷،الانبیاء:۹۱.
50… پ۱۶،مریم:۳۰.
51… پ۱۸،المؤمنون:۵۰.
52…خازن،المؤمنون،تحت الاٰیة:۵۰، ۳/۳۲۶، مدارک،المؤمنون،تحت الاٰیة:۵۰، ص۷۵۸، ملتقطاً.
53… پ۲۵،الزخرف:۵۹.
54…پ۳،اٰل عمران:۴۸، ۴۹.
55…پ۶،المائدة:۴۶.
56…پ۱،البقرة:۸۷.
57… پ۷، الانعام:۸۵، ۸۶.
58…پ۷، المائدة:۱۱۱.
59…پ۳،اٰل عمران:۵۴.
60…پ۲۵،الزخرف:۶۱.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع