30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
باب:03
گزشتہ امتوں کے مجموعی احوال
بعثتِ انبیاء کے مقاصد
اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ کی مقدس ہستیوں کومخلوق کی طرف بھیجنے کی حکمتیں اور مقاصد قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے 5 درج ذیل ہیں ۔
(1) اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ- (1)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
(2) یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اور کفر و نافرمانی پر جہنم کی وعید سنا دیں ۔ ارشاد فرمایا:
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (2)
ترجمہ : اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
(3)بارگاہِ الٰہی میں لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے ۔ ارشاد فرمایا:
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-(3)
ترجمہ : (ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے) تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
(4)دینِ اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دیگر تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳) (4)
ترجمہ : وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔
(5) حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی امت کو قرآن اور شرعی احکام پہنچا دیں۔ارشاد فرمایا:
كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ هُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِؕ- (5)
ترجمہ : اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے حالانکہ وہ رحمٰن کے منکر ہورہے ہیں ۔
قرآن میں واقعات ِ انبیاء بیان کرنے کی حکمتیں:
ان واقعات کو بیان کرنے کی مختلف حکمتیں ہیں جن میں سے 4 درج ذیل ہیں۔
(1)لوگ ان واقعات کو سن کرسابقہ لوگوں کےحالات جانیں اورغور و فکر کے ذریعے ان کی کامیابی و ناکامی کے اسباب سے واقف ہوں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۱۷۶) (6)
ترجمہ : یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو تم یہ واقعات بیان کرو تاکہ وہ غوروفکر کریں۔
(2)عقل مند لوگ ان واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ- (7)
ترجمہ : بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے ۔
(3)انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی امتوں کے احوال کا بیان حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت و رسالت پر واضح دلیل بنے کہ کوئی کتاب پڑھے بغیر اور کسی عالم کی صحبت میں بیٹھے بغیر آپ کا ان واقعات کا صحیح صحیح بتادینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو یہ سب واقعات خدا نے بتائے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۵) قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۶) (8)
ترجمہ : اورکافروں نے کہا: (یہ قرآن) پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس (نبی) نے کسی سے لکھوا لی ہیں تو یہی ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔تم فرماؤ :اُسے تو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ بات جانتا ہے، بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(4)حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوہمت و طاقت اور حوصلہ و استقامت حاصل ہو تاکہ قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفیں برداشت کرنااور ان پر صبر کرنا آسان ہو جائے،ارشاد فرمایا:
وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ- (9)
ترجمہ : اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوت دیں۔
گزشتہ امتوں کے مجموعی احوال:
قرآن مجید میں انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی قوموں کے احوال انفرادی اور مجموعی دونوں طرح سے بیان کیے گئے ہیں،انفرادی احوال کی تفصیل تو آپ اصل کتاب میں پڑھیں گے جبکہ کچھ مجموعی احوال یہاں ملاحظہ ہوں، چنانچہ سورۂ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﲣ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﳍ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُؕ-جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ وَ قَالُوْۤا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَ اِنَّا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(۹) (10)
ترجمہ : کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے جنہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے تو وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ کی طرف لے گئے اورکہنے لگے : ہم اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے اور بیشک جس راہ کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے ہم دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں ۔
ارشاد فرمایا:
قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَدْعُوْكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرَكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-قَالُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاؕ-تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱۰)(11)
ترجمہ : ان کے رسولوں نے فرمایا: کیااس اللہ کے بارے میں شک ہے جوآسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور ایک مقررہ مدت تک تمہیں مہلت دے۔ انہوں نے کہا: تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو،تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں تو تم کوئی واضح دلیل لے کر آؤ۔
ارشاد فرمایا:
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۱) وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَاؕ-وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۠(۱۲) (12)
ترجمہ : ان کے رسولوں نے ان سے فرمایا: ہم تمہارے جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر کوئی دلیل تمہارے پاس لے آئیں اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اس نے تو ہمیں ہماری راہیں دکھائی ہیں اور تم جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے۔
ارشاد فرمایا:
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۳) وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَ خَافَ وَعِیْدِ(۱۴) (13)
ترجمہ : اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم ضرور تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ تو ان رسولوں کی طرف ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔اور ضرور ہم ان کے بعد تمہیں زمین میں اِقتدار دیں گے ۔ یہ اس کیلئے ہے جو میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے خوفزدہ رہے۔
ارشاد فرمایا:
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ(۱۵) مِّنْ وَّرَآىٕهٖ جَهَنَّمُ وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍۙ(۱۶) یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷) (14)
ترجمہ : اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور ہر سرکش ہٹ دھرم ناکام ہوگیا۔ جہنم اس کے پیچھے ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ بڑی مشکل سے اس کے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا اور ایسا لگے گا نہیں کہ اسے گلے سے اتار لے اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور وہ مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا۔
سورۂ فجر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍﭪ(۶) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) وَ ثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِﭪ(۹) وَ فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِﭪ(۱۰) الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِﭪ(۱۱) فَاَكْثَرُوْا فِیْهَا الْفَسَادَﭪ(۱۲) فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍۚۙ(۱۳) (15)
ترجمہ : کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا؟اِرَم(کے لوگ)،ستونوں (جیسے قد) والے ۔ کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا ۔ اور ثمود(کے ساتھ)جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں ۔ اور فرعون(کے ساتھ) جو میخوں والا تھا۔ جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی۔ پھر ان میں بہت فساد پھیلایا۔ تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا برسایا۔
سابقہ امتوں پر نزولِ عذاب کے اسباب:
گزشتہ امتیں مختلف اعمال و افعال کی وجہ سے عذابِ الٰہی کا شکار ہوئیں ، یہاں ان کے کچھ اعمال درج ذیل ہیں ۔
(1)غیرِ خدا کی عبادت کرنا:
ارشاد فرمایا:
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآىٕمٌ وَّ حَصِیْدٌ(۱۰۰) وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَؕ-وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ(۱۰۱) (16)
ترجمہ : یہ بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم تمہیں سناتے ہیں ان میں سے کوئی ابھی قائم ہے اور کوئی کاٹ دی گئی۔اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئے جب تیرے رب کا حکم آیا اور انہوں نے ان کے نقصان میں ہی اضافہ کیا۔
(2،3) باطل کے ذریعےخدا کے رسولوں سے جھگڑنا، قدرت و وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیوں اور عذابِ الٰہی کو مذاق بنا لینا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ مَاۤ اُنْذِرُوْا هُزُوًا(۵۶) (17)
ترجمہ : اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر ہی بھیجتے ہیں اور کافر باطل باتوں کے ذریعے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے حق بات کومٹادیں اور انہوں نے میری نشانیوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا اسے مذاق بنالیا۔
(4،5) خدا کی روشن نشانیوں کو جادو کہنا،ظلم و تکبر کے سبب ان کا انکار کرنا۔
ارشاد فرمایا:
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌۚ(۱۳) وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠(۱۴)(18)
ترجمہ : پھر جب ان کے پاس آنکھیں کھولتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیں تو وہ کہنے لگے: یہ توکھلا جادو ہے۔ اور انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان نشانیوں کاانکار کیا حالانکہ ان کے دل ان نشانیوں کا یقین کر چکے تھے تو دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا؟
(6،7)مصائب کے باوجود خدا کی طرف متوجہ نہ ہونااوررسولوں کی نصیحتیں بھلا دینا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(۴۲) فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۴۳) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)(19)
ترجمہ : اور بیشک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے تو انہیں سختی اور تکلیف میں گرفتارکردیا تاکہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں ۔تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے لیکن ان کے تودل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردئیے تھے۔پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں ۔
(8،9)مال و اولاد کی کثرت پر غرورکرنا،خود کو عذابِ الٰہی سے محفوظ سمجھنا۔
ارشاد فرمایا:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤۙ-اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۳۴) وَ قَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًاۙ-وَّ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ(۳۵) (20)
ترجمہ : اور ہم نے (جب کبھی) کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجاتو وہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ تم جس (ہدایت) کے ساتھ بھیجے گئے ہوہم اس کے منکر ہیں ۔اور انہوں نے کہا: ہم مال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔
(10)غلط کاموں میں باپ دادا کی اندھی پیروی کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤۙ-اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ(۲۳) قٰلَ اَوَ لَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۲۴) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠(۲۵) (21)
ترجمہ : اور ایسے ہی ہم نے تم سے پہلے جب کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا تووہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقش ِقدم کی ہی پیروی کرنے والے ہیں ۔ نبی نے فرمایا: کیا اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر دین لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ انہوں نے کہا:جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں ۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو دیکھو جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟
(11) علماء کالوگوں کو فساد اور گناہوں سے نہ روکنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْۚ-وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(۱۱۶) وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ(۱۱۷) (22)
ترجمہ : توتم سے پہلی گزری ہوئی قوموں میں سے کچھ ایسے فضیلت والے لوگ کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد کرنے سے منع کرتے البتہ ان میں تھوڑے سے ایسے تھے جنہیں ہم نے نجات دی اور ظالم لوگ اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا اور وہ مجرم تھے۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بلاوجہ ہلاک کردے حالانکہ ان کے رہنے والے اچھے لوگ ہوں ۔
(12) بد فعلی اور ہم جنس پرستی میں مبتلاء ہونا۔
ارشاد فرمایا:
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱) وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۸۳) وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴)(23)
ترجمہ : اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا :کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں کی۔بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم لوگ حد سے گزرے ہوئے ہو۔اور ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک بنتے پھرتے ہیں ۔تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے۔وہ باقی رہنے والوں میں سے تھی۔ اور ہم نے ان پر بارش برسائی تو دیکھو ،مجرموں کاکیسا انجام ہوا؟
(13 تا 17) ناپ تول میں کمی کرنا، زمین میں فساد پھیلانا،راہگیروں کو ڈرانا،اہلِ ایمان کو راہِ خدا سے روکنا، دین میں ٹیڑھا پن چاہنا۔
ارشاد فرمایا:
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵) وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۸۶) (24)
ترجمہ : اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا؟
نافرمان لوگوں کی ہلاکت ظلم نہیں:
یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ کفر و شرک اور نافرمانی وسرکشی میں مبتلا لوگوں کی ہلاکت اور ان کی بستیوں، شہروں کی تباہی و بربادی ان پر اللہ تعالی کی طرف سے ظلم اور نا انصافی ہر گز نہیں بلکہ انصاف ہی انصاف اور حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۚ-وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ(۵۹)(25)
ترجمہ : اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے مرکزی شہر میں رسول نہ بھیجے جو ان پر ہماری آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر (اسی وقت) جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں ۔
اور ارشاد فرمایا:
اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰) (26)
ترجمہ : کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی ؟ ان کے پاس بہت سے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔
گزشتہ امتوں کے واقعات ہمارے لیے باعثِ عبرت ہیں:
قرآنِ کریم میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی قوموں کے احوال کا بیان ہماری عبرت و نصیحت کے لئے ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے اعمال و افعال ، سیرت و کردار اور بد ترین انجام معلوم ہو اور ہم ان لوگوں جیسے کام کرنے سے بچیں ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ارشاد فرمایا:
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(۱۰۲) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ(۱۰۳) (27)
ترجمہ : اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔ بیشک اس میں اُس کیلئے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے۔ وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہے جس میں ساری مخلوق موجود ہوگی۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰىؕ-اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۱۰۹) حَتّٰۤى اِذَا اسْتَایْــٴَـسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَآءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآءُؕ-وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۱۰) لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-(28)
ترجمہ : اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب شہروں کے رہنے والے مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو کیا یہ لوگ زمین پرنہیں چلے تاکہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوااور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے تو اس وقت ان کے پاس ہماری مدد آگئی تو جسے ہم نے چاہا اسے بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا۔ بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے ۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۹۶) اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَؕ(۹۷) اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸) اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۹۹) اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْۚ-وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ(۱۰۰) تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۰۱) (29)
ترجمہ : اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑلیا۔کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سو رہے ہوں ۔یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔ کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔اور کیا وہ لوگ جو زمین والوں کے بعد اس کے وارث ہوئے اُنہیں اِس بات نے بھی ہدایت نہ دی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑلیں اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں تووہ کچھ نہیں سنتے۔ یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے تو وہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اللہ یونہی کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔
عبرت و نصیحت کے حصول کا وقت ابھی ہے:
خدا نے گزشتہ امتوں کے برے اعمال اور ان کا بد ترین انجام قرآن میں انتہائی واضح الفاظ میں بیان فرما دیا اور اس بیان کا ایک اہم مقصد بھی بتا دیا کہ ان واقعات سے اس امت کے کفار اور دیگر لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں، اس حوالے سے یاد رکھیں ! عبرت و نصیحت کے حصول کا وقت ابھی ہے،اسے بڑھاپے تک مؤخر کرنا ، آج کل کی امید پراس سے منہ پھیرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مہلت سے فائدہ نہ اٹھانا انتہائی نادانی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ- نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِـعِ الرُّسُلَؕ- اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍۙ(۴۴) وَّ سَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ تَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَ ضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ(۴۵) (30)
ترجمہ : اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤجب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم کہیں گے: اے ہمارے رب! تھوڑی دیر تک ہمیں مہلت دیدے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور رسولوں کی غلامی کرلیں ۔(کہا جائے گا ، اے کافرو! ) تو کیا تم پہلے قسم نہ کھاچکے تھے کہ تمہیں (تودنیا سے) ہٹنا ہی نہیں۔اور تم ان کے گھروں میں رہے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھااور تمہارے لئے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور ہم نے تمہارے لئے مثالیں بیان کیں ۔
لہٰذااب ہر کوئی غور کر لے کہ اس نے ابھی سے گزشتہ اقوام کے اعمال و انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کر کے خود کو سدھارنا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت میں زندگی بسر کرنی ہے یا اسے آئندہ پر مؤخر کر کے اپنی آخرت کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔
باب:04
سیرت الانبیاء کا منہج و اسلوب
(1)انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سیرت کے بیان میں قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ معتبر تفاسیر، شروحات، سیرت و تاریخ اور اخلاق و آداب کی کتابوں سےاستفادہ کیا گیا اور واقعات کے انتخاب میں قابلِ اعتمادواقعات کو ترجیح دی گئی ہے۔
(2)سیرت کے مختلف عنوانات کے مطابق ابواب بندی کی گئی اور ہر جگہ ابتدائی صفحے میں ابواب کی فہرست بھی ڈال دی گئی ہے ۔
(3)قرآنِ پاک میں تذکرہ ٔ انبیاء کے مقامات کی بطورِ خاص نشاندہی اور آخر میں جداگانہ باب کے تحت انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ذکر خیر پر مشتمل احادیث کا بیان ہے۔
(4)قرآنی آیات کا ترجمہ ’’کنز العرفان‘‘ذکر کیا گیا ہے۔
(5)اختصار کے ساتھ ساتھ جامعیت کو بھی خصوصی طور پر پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ قاری کے ذوق کی تسکین ہو اور مزید تشنگی کم سے کم رہے۔
(6)ہر باب کے آخر میں ’’درس و نصیحت‘‘ کے عنوان کے تحت اصلاحی نکات بھی بیان کیے گئے ہیں تاکہ بیانِ واقعہ کا اصل مقصد حاصل کرنے میں سہولت رہے۔
(7)طویل اسرائیلی روایات ذکر کرنے سے حتی الامکان اجتناب کیا ہے تاکہ واقعاتِ انبیاء کی اصل غرض یعنی تذکیر و نصیحت اپنی جگہ برقرار رہے اور یہ واقعات صرف افسانوی حیثیت اختیار نہ کریں۔
مفتی محمد قاسم عطاری
30 جولائی 2020
1… پ۵، النساء :۶۴.
2… پ۷، الانعام :۴۸.
3… پ۶، النساء :۱۶۵.
4… پ۱۰، التوبة :۳۳.
5…پ۱۳، الرعد :۳۰.
6… پ۹، الاعراف : ۱۷۶.
7… پ۱۳، یوسف : ۱۱۱.
8… پ۱۸، الفرقان :۵، ۶.
9… پ۱۲، ھود : ۱۲۰.
10…پ۱۳، ابراھیم :۹.
11… پ۱۳، ابراھیم :۱۰.
12…پ۱۳، ابراھیم :۱۱، ۱۲.
13… پ۱۳، ابراھیم :۱۳، ۱۴.
14…پ۱۳، ابراھیم :۱۵- ۱۷.
15… پ۳۰، الفجر :۶- ۱۳.
16… پ۱۲، ھود :۱۰۰، ۱۰۱.
17… پ۱۵، الکہف :۵۶.
18…پ۱۹، النمل :۱۳، ۱۴.
19… پ۷، الانعام :۴۲-۴۴.
20… پ۲۲، سبا :۳۴ ، ۳۵.
21…پ۲۵، الزخرف :۲۳-۲۵.
22… پ۱۲، ھود :۱۱۶، ۱۱۷.
23… پ۸، الاعراف :۸۰-۸۴.
24… پ۸، الاعراف :۸۵، ۸۶.
25… پ۲۰، القصص :۵۹.
26…پ۱۰، التوبة :۷۰.
27… پ۱۲، ھود :۱۰۲، ۱۰۳.
28…پ۱۳، یوسف :۱۰۹-۱۱۱.
29… پ۹، الاعراف :۹۶-۱۰۱.
30… پ۱۳، ابراھیم :۴۴، ۴۵.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع